فوجی جرنیل آئن سٹائن ہیں؟
آرمی کا سیلیکشن پراسیس دیکھ لیں، جس بچے میں زرا سی چوں چراں نظر آتی ہے اس کو فوج کے لیے ان فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ فوج انسانی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہی حکم ماننے کی ہے۔ ڈسپلن کی۔ ایک سسٹم میں رہ کر اپنے سینئر کی ہر بات پر فوری عمل کرنے کی۔ اوور تھنکنگ کرنے والا، سوال پر سوال کرنے والا، اعتراض نکالنے والا، یا نفسیاتی طور پر ہائپر بندہ فوج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فوج کو لیڈرشپ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انقلابیوں کی نہیں۔ ذہین ترین افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر فلاسفرز اور تخلیق کاروں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اس پراسیس سی منتخب ہونے والے اگلے بیس سے تیس سال فوج کے مختلف شعبوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ سخت ترین ٹریننگ سے گذرتے ہیں، لیڈرشپ کورسز کرتے ہیں، اور ہزاروں میں سے ڈیڑھ سو کے قریب میجر جرنیل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان میں سے چند ایک جرنیل کے۔ جرنیلوں کی یہ لاٹ مستقل بھی ہے اور عارضی بھی۔ ہر تین سال بعد ان میں سے ٹاپ سینئرز ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اور چاہے کچھ بھی کر گذریں، انکا فوج کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں رہ جاتا۔ نئے لوگ فوجی کی کمان سنبھال لیتے ہیں۔
غور کرنے والے اس نکتے تک پہنچ گئے ہونگے کہ فوج میں نہ فلاسفرز ہوتے ہیں، نہ سائنسدان، نہ تخلیق کار، نہ ہی نابغہ روزگار باقی سیاسی جینئس۔ ۔ ۔
اب آ جائیے پارلیمنٹ کی طرف۔
بیس کروڑ کے ملک سے بہترین اذہان منتخب کرنے کی آزادی ہے۔ کوئی لمٹ نہیں کہ کیسا ہی ذہین و فطین بندہ اسمبلی یا سینیٹ کا حصہ بن جائے۔ جینئس، فلاسفر، مفکر، مدبر، رہنما ۔ ۔ ۔ کیسا بھی بندہ ہو پارلیمنٹ کے لیے بہترین ہے۔ تین چار سو کے قریب یہ پارلیمنٹیرین چاہیں تو زندگی بھر کے لیے پارلیمنٹ میں رہ سکتے ہیں۔ اور رہتے آئے ہیں۔ انکو ریٹائرمنٹ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔
ایسے میں چالیس سال سے ہم یہ رونا سنتے آئے ہیں کہ فوج ہمیں کام نہیں کرنے دیتی۔ جرنیل ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ ہم ملک و قوم کی خدمت کیسے کریں ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ جبکہ سوال سادہ سا ہے۔ ۔ ۔
اور وہ سوال یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ کیا جرنیل آئن اسٹائن ہیں؟
کیا جرنیل اس قدر ذہین اور اسمارٹ ہیں کہ چار سو ٹاپ کے لیڈرز کو آسانی سے استعمال کر لیتے ہیں؟
کیا جرنیلوں کی چانکیہ سیاست و طاقت اس قدر پیچیدہ ہے کہ بیس کروڑ کی رہنمائی کے دعویداروں کی سمجھ ہی میں نہیں آتی؟
کیا جرنیلوں کا یہ ٹولہ، جس کے ٹاپ کے اذہان ہر سال ریٹائر ہوتے چلے جاتے ہیں، اس قدر ذہین ہیں کہ اس "برین ڈرین" کے باوجود اپنی طاقت برقرار رکھتے ہیں اور آپ جیسے نابغوں کو آگے بھگائے پھرتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب "نہیں" ہونا چاہیے، مگر افسوس کے ساتھ حالات یہ بتاتے ہیں کہ جواب نہیں نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں کی یہ مختصر مگر ذہین لاٹ، ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے چار سو سروں کے مقابلے میں واقعی آئن اسٹائن ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ ہماری قوم کا سیاسی رجحان فلاسفر، تخلیق کار، مدبر، جینئس کو رہنما منتخب کرنے کا نہیں ہے، بلکہ نوٹنکی، شعبدہ باز، زبان دراز، منہ پھٹ، موالی، غنڈے، بدمعاش، مذہبی بلیک میلرز، لسانی و علاقائی تعصب بیچنے والے، اوسط سے بھی نیچے کا آئی کیو رکھنے والوں کو منتخب کرنے کی طرف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی چہرے دیکھیں تو حماقت دھمادھم برستی نظر آتی ہے، انکی زبانوں سے نکلتے الفاظ کو منطق و فراست کی پیمانے پر پرکھیے، تو ایک محلے کی جھگڑالو عورت سے اوپر نہیں ملیں گے۔ اکا دکا استثنا کو چھوڑ کر یہ ساری لاٹ وراثت زدہ گٹھ جوڑ کی پیداوار ہے، جو اپنے اپنے علاقے میں موجود پولیس، پٹوار، مولوی، اور زمین کی طاقت سے پارلیمنٹ تک آتے ہیں، اور قوم کے رہنما بن جانے کا دعوی کرتے ہیں۔
خود ہی غور کر لیں کہ آپ کے یہ "جینئس" کیا ان جرنیلوں کو سیاست سے باہر رکھ سکتے ہیں؟ جو آپس میں بیٹھ کر اسمبلی میں ایک ڈھنگ کی بحث نہیں کر سکتے، وہ دنیا کی بہترین فوج کے سیزنڈ جرنیلوں کے مقابلے میں پارلیمان کے فیصلوں کو عزت دلوا سکتے ہیں؟
اسکا جواب میں آپ کے سر میں موجود نیورونز کے کنیکشنز پر چھوڑتا ہوں۔
copied from some WhatsApp post
آرمی کا سیلیکشن پراسیس دیکھ لیں، جس بچے میں زرا سی چوں چراں نظر آتی ہے اس کو فوج کے لیے ان فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ فوج انسانی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہی حکم ماننے کی ہے۔ ڈسپلن کی۔ ایک سسٹم میں رہ کر اپنے سینئر کی ہر بات پر فوری عمل کرنے کی۔ اوور تھنکنگ کرنے والا، سوال پر سوال کرنے والا، اعتراض نکالنے والا، یا نفسیاتی طور پر ہائپر بندہ فوج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فوج کو لیڈرشپ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انقلابیوں کی نہیں۔ ذہین ترین افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر فلاسفرز اور تخلیق کاروں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اس پراسیس سی منتخب ہونے والے اگلے بیس سے تیس سال فوج کے مختلف شعبوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ سخت ترین ٹریننگ سے گذرتے ہیں، لیڈرشپ کورسز کرتے ہیں، اور ہزاروں میں سے ڈیڑھ سو کے قریب میجر جرنیل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان میں سے چند ایک جرنیل کے۔ جرنیلوں کی یہ لاٹ مستقل بھی ہے اور عارضی بھی۔ ہر تین سال بعد ان میں سے ٹاپ سینئرز ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اور چاہے کچھ بھی کر گذریں، انکا فوج کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں رہ جاتا۔ نئے لوگ فوجی کی کمان سنبھال لیتے ہیں۔
غور کرنے والے اس نکتے تک پہنچ گئے ہونگے کہ فوج میں نہ فلاسفرز ہوتے ہیں، نہ سائنسدان، نہ تخلیق کار، نہ ہی نابغہ روزگار باقی سیاسی جینئس۔ ۔ ۔
اب آ جائیے پارلیمنٹ کی طرف۔
بیس کروڑ کے ملک سے بہترین اذہان منتخب کرنے کی آزادی ہے۔ کوئی لمٹ نہیں کہ کیسا ہی ذہین و فطین بندہ اسمبلی یا سینیٹ کا حصہ بن جائے۔ جینئس، فلاسفر، مفکر، مدبر، رہنما ۔ ۔ ۔ کیسا بھی بندہ ہو پارلیمنٹ کے لیے بہترین ہے۔ تین چار سو کے قریب یہ پارلیمنٹیرین چاہیں تو زندگی بھر کے لیے پارلیمنٹ میں رہ سکتے ہیں۔ اور رہتے آئے ہیں۔ انکو ریٹائرمنٹ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔
ایسے میں چالیس سال سے ہم یہ رونا سنتے آئے ہیں کہ فوج ہمیں کام نہیں کرنے دیتی۔ جرنیل ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ ہم ملک و قوم کی خدمت کیسے کریں ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ جبکہ سوال سادہ سا ہے۔ ۔ ۔
اور وہ سوال یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ کیا جرنیل آئن اسٹائن ہیں؟
کیا جرنیل اس قدر ذہین اور اسمارٹ ہیں کہ چار سو ٹاپ کے لیڈرز کو آسانی سے استعمال کر لیتے ہیں؟
کیا جرنیلوں کی چانکیہ سیاست و طاقت اس قدر پیچیدہ ہے کہ بیس کروڑ کی رہنمائی کے دعویداروں کی سمجھ ہی میں نہیں آتی؟
کیا جرنیلوں کا یہ ٹولہ، جس کے ٹاپ کے اذہان ہر سال ریٹائر ہوتے چلے جاتے ہیں، اس قدر ذہین ہیں کہ اس "برین ڈرین" کے باوجود اپنی طاقت برقرار رکھتے ہیں اور آپ جیسے نابغوں کو آگے بھگائے پھرتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب "نہیں" ہونا چاہیے، مگر افسوس کے ساتھ حالات یہ بتاتے ہیں کہ جواب نہیں نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں کی یہ مختصر مگر ذہین لاٹ، ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے چار سو سروں کے مقابلے میں واقعی آئن اسٹائن ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ ہماری قوم کا سیاسی رجحان فلاسفر، تخلیق کار، مدبر، جینئس کو رہنما منتخب کرنے کا نہیں ہے، بلکہ نوٹنکی، شعبدہ باز، زبان دراز، منہ پھٹ، موالی، غنڈے، بدمعاش، مذہبی بلیک میلرز، لسانی و علاقائی تعصب بیچنے والے، اوسط سے بھی نیچے کا آئی کیو رکھنے والوں کو منتخب کرنے کی طرف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی چہرے دیکھیں تو حماقت دھمادھم برستی نظر آتی ہے، انکی زبانوں سے نکلتے الفاظ کو منطق و فراست کی پیمانے پر پرکھیے، تو ایک محلے کی جھگڑالو عورت سے اوپر نہیں ملیں گے۔ اکا دکا استثنا کو چھوڑ کر یہ ساری لاٹ وراثت زدہ گٹھ جوڑ کی پیداوار ہے، جو اپنے اپنے علاقے میں موجود پولیس، پٹوار، مولوی، اور زمین کی طاقت سے پارلیمنٹ تک آتے ہیں، اور قوم کے رہنما بن جانے کا دعوی کرتے ہیں۔
خود ہی غور کر لیں کہ آپ کے یہ "جینئس" کیا ان جرنیلوں کو سیاست سے باہر رکھ سکتے ہیں؟ جو آپس میں بیٹھ کر اسمبلی میں ایک ڈھنگ کی بحث نہیں کر سکتے، وہ دنیا کی بہترین فوج کے سیزنڈ جرنیلوں کے مقابلے میں پارلیمان کے فیصلوں کو عزت دلوا سکتے ہیں؟
اسکا جواب میں آپ کے سر میں موجود نیورونز کے کنیکشنز پر چھوڑتا ہوں۔
copied from some WhatsApp post