گزشتہ روز غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں وہ مریم نواز کے سرخ لباس پر تبصرہ کررہی تھیں اور سرخ رنگ کو مزاحمت، جرات، جارحیت، جنگ وجدل ، فتح شکست کی علامت قرار دے رہی تھیں جسے سوشل میڈیا صارفین نے مریم نواز کی چاپلوسی اور چمچہ گیری قرار دیا۔
غریدہ فاروقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سُرخ رنگ علامت ہے مزاحمت کی،جُرات کی، جارحیت کی،جنگ و جدل کی،میدان میں فتح و شکست کے تناسب کی؛تاریخی اعتبار سے سُرخ رنگ ہمیشہ اقتدارکےاوتار و اظہارواسطےاستعمال ہوا ہے؛اور سب سے بڑھ کر سُرخ علامت ہے تبدیلی کی۔
غریدہ فاروقی نے مزید لکھا کہ مریم نواز کاآج کے اہم دن سرخ رنگ کا استعمال محض اتفاقیہ ہے یا علامیہ۔۔؟
سوشل میڈیا صارفین نے غریدہ فاروقی کے اس ٹویٹ کا خوب مذاق اڑایا ور کہا کہ غریدہ فاروقی نے تو صالح ظافر کو بھی مات دیدی ہے۔ کچھ نے اسے مریم نواز کی چاپلوسی اور خوشامد قرا ردیا تو کچھ نے کہا کہ صحافت ایسے ہی تباہ نہیں ہوئی، اس قسم کے صحافی ملے ہیں۔
سینیر صحافی عامر متین نے تبصرہ کیا کہ رنگوں کی تشریح فضول ہے۔ لال رنگ عروسیت کا ہے کمیونسٹ انقلاب کا یا کربلا کا۔ مگر اگلی دفعہ مریم بی بی نے ذعفرانی رنگ پہنا تو کیا وہ ہندوتوا کہلائے گا۔ پیلا مہندی کا اور نیلا آسمانی رنگ خلائی مخلوق کا۔ چھوڑیں رنگ بازی کو -یہ کام حناپرویز بٹ کیلئے رہنے دیں۔
ثناء کا کہنا تھا کہ اسی لئے ہمارے صحافیوں کو انٹرنیشنل لیول پر کسی ڈیبیٹ یا انٹلیکچوئل فورم پر کوئی نہیں بلاتا ملاحظہ فرمائیں دانشور و سینئرصحافی غریدہ فاروقی کا تجزیہ فرماتی ہیں"چونکہ مریم صفدر نے سرخ پہنا ھے اسکا مطلب ھے انقلاب آ گیا۔۔ حکومت کی سرخ رنگ دیکھ کر ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی ھیں"۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ٹویٹ پڑھ کر لگا کہ حنا بٹ نے کی ہوگی مگر اکاؤنٹ کا نام دیکھا تو غریدہ فاروقی نے کی ہے۔ پھر خیال آیا ۔۔کوئی زیادہ فرق بھی نہیں حنا بٹ اور غریدہ میں ۔ دونوں نے مالکن کی جی حضوری کرنا ہوتی ہے۔
عباس نے طنز کیا کہ غریدہ باجی کا ٹویٹ دیکھ کر صالح ظافر پر غشی کے دورے..
شاہد ندیم نامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ غریدہ فاروقی اور حنا پرویز بٹ میں کیا فرق رہ گیا اب؟
سیرت فاطمہ نے لکھا کہ صحافت کا جنازہ ہے۔۔۔ذرہ دھوم سے نکلے۔۔۔
ڈاکٹر بابراعوان کے صاحبزادے عبداللہ بابر اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ کس قسم کی صحافت ہے؟
ایک سوشل میڈیا صارف نے وزیراعظم عمران خان کی تصویر شئیر کی جس میں وہ سرخ لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں۔
دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی غریدہ فاروقی پر طنز کے خوب تیر برسائے اور کہا کہ پہلے ایک صالح ظافر نہیں سنبھالا جاتا تھا اور اب چھوٹے چھوٹے صالح ظافر پیدا ہوگئے ہیں۔
غریدہ فاروقی اپنے ایک اور ٹویٹ کی وجہ سے طنز کا نشانہ بنیں جس میں انہوں نےنئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم کی تعریف کی لیکن مشکل اردو استعمال کی۔
غریدہ فاروقی نے لکھا کہ نئے ڈی جی آئی اسی آئی لیفٹنٹ جنرل ندیم احمدانجم؛ میدانِ حرب کے جری مردِ مجاھد؛ طبعاً کم گو مگر پیشہ ورانہ قابلیت میں صفِ اوّل؛ چہرے سے نرم خُو دِکھنے والے جرنیل سخت گیر اُصولوں کے حامی؛ نرم بریشم مگر رزمِ حق و باطل میں فولاد؛ روایتی غیرروایتی اندرونی بیرونی خطرے سے نمٹنے کی بَلا کی صلاحیت۔
اس ٹویٹ پر بھی غریدہ فاروقی خوب طنز کا نشانہ بنیں جس پر غریدہ فاروقی نے اگلے روز ایک ٹویٹ کیا جس میں وہ انہوں نے لوگوں کو سوشل میڈیا سے دور رہ کر اردو ادب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ۔
غریدہ لکھتی ہیں کہ یقین مانئیے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اردو زبان کی ایک معمولی سی خبریہ ٹویٹ لوگوں میں وسیع پیمانے کی جلن اور حسد کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ خوش رہا کیجئیے؛ اَفاقہ ہو گا؛ اور سوشل میڈیا سے دور رہ کر اَدَب کا مطالعہ کیا کریں؛ زبان کی دُرُستی و بہتری ہو گی اور اَخلاق کی اصلاح بھی