کیسی کو تکلیف دینا کیسا ھے

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

کیسی کو تکلیف دینا کیسا ھے

وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠

(احزاب۵۸)
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے۔

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اَذِیَّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کوبہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔

رسول ﷲ ﷺ نے فر مایا
رحم اور ہمدردی تو اس شخص سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہے۔
( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت ا لناس)


آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔
( مسند احمد،ج2-،ص368)

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
کامل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔
صحیح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث نمبر: 10

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے کسی مسلمان کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائ اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائ اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائ
{معجم اوسط للطبرانی:3745،عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ}

کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا
’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے، نہ اُسے ذلیل ورُسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا

تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو بُرا جانے۔ ایک مسلمان ،دوسرے مسلمان پر پورا
پورا حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔(مسلم،ص1064،حدیث:6541)

تخریبی جذبات میں حسد، بغض و عناد اور آپس کی رنجشیں ہیں جو انسان کے دین اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔

ایمان اور "ایقان"(یقین ہونے) میں فرق ہوتا ہے۔ ہم ایمان تو لے آئے ہیں گویا تصدیق تو کرلی ہے اور تسلیم کرلیا ہے مگر اگر یقین ہوتا تو ایک گناہ بھی عمداََ ہم سے صادر نہ ہوپاتا۔ایک شخص کو پتا ہو کہ پانی گرم ہے اور پورا یقین ہے کہ سخت ترین گرم پانی ہے اور ہاتھ ڈالیں گے تو جل جائے گا، وہ شغل میں بھی نہیں ڈالے گا۔ کوشش ہی نہیں کرے گا۔ اور یقین ہو کہ آخرت ہے اور ہر حال میں ہے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور کامل یقین ہو تو گناہ کا صدور کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے ایمان کو "ایقان" کے درجے پر پہنچانا ہمارا کمال ہے اور ہمارا ہدف ہونا چاہیئے کہ محض تصدیق و تسلیم کافی نہیں ہے، اس میں زیادت یہاں تک کہ ایقان کے درجے تک پہنچانا ہمارا مقصد ہوناچاہیئے۔ اور اس کیفیت کی علامت یہ ہے کہ آپ گناہ کرنے جائیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگے کہ آپ آگ میں کودرہے ہیں اور ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ
اے اللہ! بے شک ہم برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے آپ کی پناہ لیتے ہیں



 

Hunter_

MPA (400+ posts)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

کیسی کو تکلیف دینا کیسا ھے

وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠

(احزاب۵۸)
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے۔

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اَذِیَّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کوبہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔

رسول ﷲ ﷺ نے فر مایا
رحم اور ہمدردی تو اس شخص سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہے۔
( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت ا لناس)


آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔
( مسند احمد،ج2-،ص368)

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
کامل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔
صحیح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث نمبر: 10

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے کسی مسلمان کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائ اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائ اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائ
{معجم اوسط للطبرانی:3745،عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ}

کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا
’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے، نہ اُسے ذلیل ورُسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا

تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو بُرا جانے۔ ایک مسلمان ،دوسرے مسلمان پر پورا
پورا حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔(مسلم،ص1064،حدیث:6541)

تخریبی جذبات میں حسد، بغض و عناد اور آپس کی رنجشیں ہیں جو انسان کے دین اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔

ایمان اور "ایقان"(یقین ہونے) میں فرق ہوتا ہے۔ ہم ایمان تو لے آئے ہیں گویا تصدیق تو کرلی ہے اور تسلیم کرلیا ہے مگر اگر یقین ہوتا تو ایک گناہ بھی عمداََ ہم سے صادر نہ ہوپاتا۔ایک شخص کو پتا ہو کہ پانی گرم ہے اور پورا یقین ہے کہ سخت ترین گرم پانی ہے اور ہاتھ ڈالیں گے تو جل جائے گا، وہ شغل میں بھی نہیں ڈالے گا۔ کوشش ہی نہیں کرے گا۔ اور یقین ہو کہ آخرت ہے اور ہر حال میں ہے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور کامل یقین ہو تو گناہ کا صدور کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے ایمان کو "ایقان" کے درجے پر پہنچانا ہمارا کمال ہے اور ہمارا ہدف ہونا چاہیئے کہ محض تصدیق و تسلیم کافی نہیں ہے، اس میں زیادت یہاں تک کہ ایقان کے درجے تک پہنچانا ہمارا مقصد ہوناچاہیئے۔ اور اس کیفیت کی علامت یہ ہے کہ آپ گناہ کرنے جائیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگے کہ آپ آگ میں کودرہے ہیں اور ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ
اے اللہ! بے شک ہم برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے آپ کی پناہ لیتے ہیں



Jazak ALLAH Khair for sharing all this
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

کیسی کو تکلیف دینا کیسا ھے

وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠

(احزاب۵۸)
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے۔

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اَذِیَّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کوبہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔

رسول ﷲ ﷺ نے فر مایا
رحم اور ہمدردی تو اس شخص سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہے۔
( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت ا لناس)


آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔
( مسند احمد،ج2-،ص368)

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
کامل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔
صحیح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث نمبر: 10

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے کسی مسلمان کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائ اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائ اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائ
{معجم اوسط للطبرانی:3745،عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ}

کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا
’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے، نہ اُسے ذلیل ورُسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا

تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو بُرا جانے۔ ایک مسلمان ،دوسرے مسلمان پر پورا
پورا حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔(مسلم،ص1064،حدیث:6541)

تخریبی جذبات میں حسد، بغض و عناد اور آپس کی رنجشیں ہیں جو انسان کے دین اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔

ایمان اور "ایقان"(یقین ہونے) میں فرق ہوتا ہے۔ ہم ایمان تو لے آئے ہیں گویا تصدیق تو کرلی ہے اور تسلیم کرلیا ہے مگر اگر یقین ہوتا تو ایک گناہ بھی عمداََ ہم سے صادر نہ ہوپاتا۔ایک شخص کو پتا ہو کہ پانی گرم ہے اور پورا یقین ہے کہ سخت ترین گرم پانی ہے اور ہاتھ ڈالیں گے تو جل جائے گا، وہ شغل میں بھی نہیں ڈالے گا۔ کوشش ہی نہیں کرے گا۔ اور یقین ہو کہ آخرت ہے اور ہر حال میں ہے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور کامل یقین ہو تو گناہ کا صدور کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے ایمان کو "ایقان" کے درجے پر پہنچانا ہمارا کمال ہے اور ہمارا ہدف ہونا چاہیئے کہ محض تصدیق و تسلیم کافی نہیں ہے، اس میں زیادت یہاں تک کہ ایقان کے درجے تک پہنچانا ہمارا مقصد ہوناچاہیئے۔ اور اس کیفیت کی علامت یہ ہے کہ آپ گناہ کرنے جائیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگے کہ آپ آگ میں کودرہے ہیں اور ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ
اے اللہ! بے شک ہم برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے آپ کی پناہ لیتے ہیں




ماشاءاللہ بارک اللہ فیہ
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
jab khudaa ne insaanu ko peda hi apne maqsad ko poora kerwaane ke liye hai to phir insaanu ko aik doosre ko takleef to deni hi pade gi warna khudaa ka maqsad insaan kabhi bhi poora ker hi nahin sakte. is liye keh khudaa ka diya huwa maqsad poora kerne ke liye insaanu ko aik hona pade ga aur jab tak woh aik nahin hun ke to phir woh maqsad bhi poora nahin ho ga. ye is liye keh khudaa ne insaanu ko issi duniya main rehne ke liye hi aik behtareen insaani maashra banaane ke liye hi program diya hai.

issi liye to quraan khudaa ki taraf se aik behtareen manshoor hai insaanu ko aik behtareen ummat banaane ke liye khudaa ki mumlikay main. lihaaza khud main quraan ko theek tarah se samajhne ki salahiyat peda karo warna khudaa ke diye ge is maqsad ko poora kaise karo ge? yahee wajah hai insaanu ko aisa kerne ke liye bahot badi badi qurbaaniyan deni hun gi. her tehreek achhi ho ya buri apne chalaane waalun se qurbaani ka taqaaza kerti hai magar kaamyaab sirf aur sirf wohee tehreek hoti hai jis ka nateeja insaaniyat ke liye achhaa ho. lihaaza takleef to insaanu ko her soorat uthani hi ho gi aur aik doosre ko deni bhi ho gi.

albatta agar log aik doosre ko khudaa ke diye ge maqsad ko poora kerne ke liye takleefen den ge to apne liye aasaaniyan peda ker len ge aur agar woh aisa nahin karen ge to phir insaan aik doosre ko apne apne maqaasid haasil kerne ke liye isemaal ker ke aik doosre ko takleefen den ge magar haasil kuchh bhi nahin ho ga. lihaaza aisi takleefun se koi bhi bach hi nahin sakta aur na hi koi kisi ko bachaa sakta hai. is liye khudaa ki kitaab ko theek tarah se samjho aur us ke diye ge tameere ummat ke program ko apnaao yani us ko amli jaama pehnaane ke liye koshish main lag jaao.

agar main logoon ko bataon ga ke khudaa ke diye huwe maqsad ke liye jiyen to un ko takleef to ho gi. meri baaten shaayad un ko achhi nahin lagen gi jo is duniya main apne apne maqaasid ke liye jeene ke program banaaye baithe hen.

khud mujhe bhi takleef uthaani hi pade gi keh pehle khud mujhe woh maqsad theek tarah se maloom kerna pade ga jis ki taraf main doosrun ko daawat de rahaa hun. phir ye bhi takleef uthaani pade gi keh un logoon ko bhi mujhe hi baat samjhaane ki koshish kerni pade gi.

agar ham log aisa nahin karen ge to phir woh maashra wajood main aa hi nahin sakta jo ham ko woh zindagi de sake jis ko haasil kerne ke liye khudaa ne ham ko peda kiya hai aur raasta bhi dikhaaya hai quraan main. lihaaza us zindagi ko haasil na kerne se ham khudaa ka diya huwa maqsad kabhi bhi poora hi nahin ker sakte.

yahee wajah hai islam sirf wohee hai jo deen hai jo deen nahin hai woh islam nahin hai. deene islam zindagi guzaarne ke us raaste ko kehte hen jo khudaa ne logoon ko bataaya hai kyunkeh woh khudaa ka diya huwa maqsad insaanu se poora kerwaane ka raasta bataata hai.

soorah kaafiroon main yahee kahaa gayaa hai keh tumaare liye tumaara chuna huwa zindagi guzaarne ka raasta aur mere liye mera chuna huwa zindagi guzaarne ka raasta. yani tum log apne apne maqaasid ke liye jeete ho aur main khudaa ka diya huwa maqsad ko poora kerne ke liye jeeta hun. khudaa ke liye jeene aur apne aap ke liye jeene main hi kufro islam ka asal farq saaf saaf zahir ho jaat hai. issi se faisla ho jaata hai kon asal main musalmaan hai aur kon asal main kaafir.

mullaan ne apni jahaalat ki wajah se poori soorat ka tarjama pooja paat ke tanaazur main ker diya hai jisse quran ke asal paighaam per hi parda daal diya gayaa hai. kehlwaaya to ye jaa rahaa hai keh main tumaari tarah zindagi nahin guzaar sakta aur tum meri tarah jab tak tum log zindagi ke asal maqsad ko nahin samajh paate. jo samajhna hi nahin chahte us maqsad ko woh kabhi us ko samjhen ge bhi nahin kyunkeh woh is ko samajhne ke liye koshish hi nahin karen ge to samjhen ge kia?

yahee haal khud ko musalmaan kehlwaane waalun ka hai keh aaj tak yani 1400 saal guzarne ke baad bhi woh quraan ki zabaan hi nahin seekh sake. kis qadar afsos ki baat hai. yaad rakhen jab tak log khud ko quraan ko theek tarah se samajhne ke qaabil nahin kerte woh kabhi bhi quraan ke porgram ko takmeel tak pohnchaa hi nahin skate.

log to itni baat bhi nahin samajh sake keh quraan ki drust tafseer to mumkin hai tarjama nahin. is liye keh quraan ke her lafz ke bahot se maani hote hen kuchh milte julte aur kuchh motazaad yani aaps maintakraane waale. milte julte maani to aik doosre ke saath chal sakte hen magar motazaad nahin. magar tarjmen main sab milte julte maani likhe nahin jaa sakte. yahee wjaah hai khud ko musalmaan kehlwaane waalun ko quran ki zabaan seekhna laazmi hai. maslan lafz lail ko len to is ka aik bunyaadi maana to tareeki hota hai magar is ka doosra maana raat bhi hota hai. aur issi liye tareeki jahaalat ko bhi kehte hen yani ilm ki roshni se mehroomi ko. quraan main mullaan ne lail ka tarjama her jaga raat hi kiya hai yani das baara ghuntoon ki tareeki aur woh bhi aadhi duniya per. kyunkeh saari duniya main na to bayak waqt din hota hai aur na hi raat.

quraan main yaum ya nahaar ka maana bhi her jaga das baara ghante ka din nahin hota balkeh woh roshan dor bhi hota hai jab insaan ilm ki roshni se kuchh ker ke dikhaate hen. lihaaza khud ko quraan ki zabaan sikhaao warna quran ke tarjamen kisi kaam ke nahin hen. ya phir aisi tafseerun ko riwaaj do jo quraan ke nazool ke maqsad ke mutaabiq is ki aik khaas had tak saheeh tarjumaani ker saken. is liye mullaan ki baatun main pad ker apna apna waqt zaaya kerne se bacho. agar khudaa ki kitaab ke liye aap ke paas waqt hi nahin hai to phir aap zillato ruswayee ki zindagi se kabhi bhi nijaat haasil hi nahin ker sakte woh zindagi paana to door ki baat hai jo quraan chahta hai keh insaan paayen mil jul ker. For better understanding of deen of islam from the quran see HERE, HERE, HERE and HERE.
 
Last edited: