جو خرابیاں پارلیمانی نظام میں ہیں وہ صدارتی نظام میں بھی ہیں - آپ اگر ایک آدمی کو ضرورت سے زیادہ طاقت دیں گے تو سسٹم میں مسائل پیدا ہونگے - صدر کے ساتھ صدارتی نظام میں سینٹرز بھی ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ سے آتے ہیں اگر اب قومی اسمبلی میں پیسہ چلتا ہے تو پھر سینیٹ کے الیکشن میں پیسہ چلے گا -قانون پھر سینٹ بنائے گی ترجیح بھی وہی طے کرے گی اب والے سسٹم کی طرح - اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صدر کو کابینہ بنانے کی آزادی ہو گی تو وہ اب بھی ہے جسے وزیر نہیں بنا سکتے مشیر بنا لیتے ہیں سینٹ کی سیٹ دلا دیتے ہیں الیکشن لڑا کر قومی اسمبلی سے ممبر بنوا لیتے ہیں - آپ دیکھ لیں اس حکومت میں کتنے وزیر مشیر منتخب نہیں ہیں یا نہیں تھے لیکن با آسانی بن گئے -خان صاحب کے بھد وزیر خزانہ تین سال سے غیر منتخب ہے - اسلئے کسی کو بھی وزیر بنانا اس نظام میں بھی رکاوٹ نہیں ہے - اگر آپ سمجھتے ہیں صدر بن کر صدر کو کوئی نہیں نکال سکے گا تو ھر جمہوریت میں اس کا بھی طریقہ لکھا ہوتا ہے - یوں دونوں نظاموں میں سب کچھ ہے ، نظام بدلنے سے ممکن ہے کچھ جگہ آسانی ہو حکومت کو مگر عوام کے لئے دونوں میں کارکردگی ہی اہم ہے - اگر آپ سمجھتے ہیں صدارتی نظام سے خان صاحب منتخب ہو سکتے ہیں تو یہ بھی آپ کی بھول ہے - خانیوال میں امیدوار نے خان صاحب کی تصویر تک نہیں لگائی کیونکے ان کی تصویر سے امیدوار کی مہم پر منفی اثر پڑتا ہے - یوں پرفارمنس دکھائیں تو کوئی بھی نظام برا نہیں ہے اگر پرفارمنس نہیں دکھائیں گے تو کوئی بھی نظام آپ کو اقتدار نہیں دلا سکتا -فوجی ڈکٹیٹروں کی بات الگ ہے خان صاحب فوجی ڈکٹیٹر بھی نہیں -
صدارتی نظام میں مقننہ اور انتظامیہ دو علیحدہ ادارے ہیں جن کے رائج آئین مطابق واضح علیحدہ آئینی دائرہ کار ہے ۔ مختلف ممالک میں مختلف دائرہ کار ہیں مگر ان میں سیپیریشن آپ پاور واضح ہے ۔ چیک اور بیلینس کا طریقہ کار ہے درمیان میں عدالت فیصلہ کرتی ہے، چونکہ عدالت کا آئین کے علاوہ پارلیامنٹ پر کچھ اختیار نہیں ۔عدالت کا انتظامیہ پر براہ راست اختیار ہے۔ اٹارنی جنرل بھی بنیادی طور پر عدالت کا ڈیزگنیٹیڈ نمائندہ ہے جو کہ عدالت اور انتظامیہ کی علیحدگی کا ہائی مارک ہے۔
پارلیامانی نظام میں مقنہ اور انتظامیہ ایک ہی ادارہ ہیں اور آپس میں مربوط ہیں، ؑعدالت کا اختیار بھی اسی لحاظ سے محدود ہے، اٹارنی جنرل بھی بیک وقت تینوں اداروں کا نمائندہ ہے ۔
دونوں قسم کاجمہوری نظام کے پیچھے جمہوریت کی مختلف سوچ اور مقصد ہے ۔
پارلیامانی نظام ڈائرکٹ جمہوریت اور میجارٹی کی حکمرانی ( میجارٹی کی ڈکٹیترشپ) کے نذدیک ہے ، جبکہ صدارتی نظام مکمل جمہوری نہیں، ریپبلکن نظام ہے ۔
ڈکٹیٹر شپ آف میجارٹی جمہوری نظام کی ایک بنیادی خرابی ہے کہ جمہوریت کا مقصد میجارٹی عوام کی نمائندگی سے زیادہ نظام کی سٹیبیلیٹی ہے ، مگر مینارٹی کے نکتہ نظر کو مکمل اگنور کر کےسٹیبیلیٹی حاصل نہیں ہو سکتی، صدارتی نطام کی خرابی یہ ہے کہ اگر عدالت کمزور ہو یا اشرافیہ کی نمائندہ ہو تو ، وقت کے ساتھ ساتھ اشرافیہ مکمل قبضہ کر لیتی ہے۔ دوسری صورت میں ٹیکنوکریٹ حکمرانی کا خطرہ ہے۔ نقصان دہ پاپولرزم بھی ایک بڑا خطرہ ہے ۔
سیاسی پارٹیاں ، لیڈر، قانون سازی کا نطام وغیرہ کی ہیؑت یعنی ہارڈ ویئر اسی طرح تشکیل پاتا ہے جیسا کہ نظام ہوتا ہے ۔
جس نظام کی حمایت کریں مگر دونوں قسم کی جمہوریت ای جیسی ہے شاید درست نہ ہو ۔
۔