’حکیم سعید کے قتل سے متعلق شکوک و شبہات کبھی دفن نہیں ہو سکے‘

Spartacus

Chief Minister (5k+ posts)
حکیم سعید کے قتل سے متعلق شکوک و شبہات کبھی دفن نہیں ہو سکے‘
بےتحاشا گولیاں چل رہی تھیں۔ میں نے حکیم محمد سعید کو زمین پر گرتے دیکھا‘۔
عینی شاہد کے لہجے میں خوف اور دہشت 22 برس بعد بھی نمایاں تھے۔
کیا ایک مقتول کو دو دفعہ قتل کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال سمیت حکیم محمد سعید کے قتل کے بارے میں اس تحقیق کا ہر پہلو میرے لیے بہت حیران کُن تھا۔
سندھ کے سابق گورنر، طب اور ادویہ سازی کے ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ، ممتاز سماجی شخصیت، سیاستدان اور پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں اُن کے ایک نائب حکیم عبدالقادر اور ایک ملازم ولی محمد بھی قتل ہوئے جبکہ ایک ماتحت حکیم سیّد منظور علی اور ذاتی محافظ عبدالرزاق زخمی ہوئے تھے۔
پولیس، خفیہ اداروں اور استغاثہ کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں جن لوگوں کو ملزم نامزد کیا گیا اُن کا تعلق الطاف حسین کی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم سے تھا لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس الزام کو سیاسی سازش قرار دیا اور اس قتل سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی۔
سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برسوں جاری رہنے والی سنسنی خیز عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر قتل ان ہی نامزد ملزمان نے کیا تھا تو بری کیوں ہوئے اور اگر ان ملزمان نے قتل نہیں کیا تو وہ نامزد کیوں کیے گئے اور اگر نامزد ملزمان قاتل نہیں تھے تو پھر قتل کس نے کیا؟
یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میری ہی طرح اس واقعے کو اُس وقت رپورٹ کرنے والے بہت سے صحافی آج برسوں بعد بھی تلاش کر رہے ہیں۔
یہی تلاش 22 برس بعد ایک بار پھر مجھے تحقیق کے لیے اس قتل کے عینی شاہدین، قتل میں نامزد ملزمان، اُس وقت کے اعلیٰ ترین پولیس افسران، مبینہ قاتلوں کے وکلا، تشدد آمیز سیاست اور قتل و غارت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں تک لے گئی۔

قتل کیسے ہوا؟
بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’ہمدرد مطب‘ کے باہر ہونے والے حملے میں قتل کیا گیا۔
1950 میں قائم کیا جانے والا یہ مطب کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ سے منسلک آرام باغ روڈ والے سرے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب کونے سے دوسری عمارت میں واقع تھا۔
یہ ایم اے جناح روڈ کا وہ سنگم ہے جس کے ایک طرف آرام باغ روڈ ہے اور دوسری جانب مشن روڈ۔ مشن روڈ پر ڈاؤ میڈیکل کالج اور سول ہسپتال کراچی واقع ہیں۔
قتل کی اس واردات میں زندہ بچ جانے والے حکیم سعید کے نائب حکیم سیّد منظور علی 22 برس بعد بہت مشکل سے اب یہ واقعہ یاد کرنے پر رضامند ہوئے۔
حکیم سعید کے نائب حکیم سیّد منظور علی کی زبانی
حکیم سعید صاحب کا معمول تھا کہ وہ نماز فجر کے فوراً بعد مطب آ جاتے تھے۔ اُن کے عمر رسیدہ اور دیرینہ گھریلو ملازم گنگ خان اُن کے ڈرائیور بھی تھے اور وہ ہی اُن کو لے کر آتے تھے۔
ایک محافظ (صدیق) حکیم صاحب کے ساتھ آتا تھا اور دو محافظ ہمارے مطب کے دروازے پر پہلے ہی سے موجود ہوتے تھے۔ میں اور حکیم عبدالقادر دروازے پر ہی ہر روز حکیم صاحب کا استقبال کیا کرتے تھے۔ مطب کے محافظ اور عملے کا کوئی رکن، جیسے ولی محمد وغیرہ بھی اکثر ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔
اُن کے درجنوں مریض تو معائنے کے لیے صبح ہی آجاتے تھے۔ سب کو ٹوکن دے کر اوپر بٹھا دیا جاتا تھا۔ اُس روز بھی تیس چالیس سے زیادہ مریض مطب پر اُن کی آمد کے منتظر تھے۔
وہ فجر کے بعد مطب آئے تو روشنی بھی پوری طرح نہیں ہوئی تھی، ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ میں، حکیم عبدالقادر اور ولی محمد حسب معمول حکیم صاحب کے استقبال کے لیے باہر ہی کھڑے تھے۔ مطب کا ایک محافظ (غالباً عبدالرزاق نام تھا) بھی تھا۔
وہ جونہی گاڑی سے اترے تو معمول کے مطابق میں نے اُن سے ہاتھ ملایا اور انھوں نے اپنی جناح کیپ اور تسبیح میرے ہاتھ میں دے دی۔ تب تک تو اُن کے ڈرائیور گنگ خان گاڑی سے اترے بھی نہیں تھے۔ اُس وقت تک سڑک خالی تھی اور ہمارا دھیان حکیم صاحب پر تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
میرا اور حکیم صاحب کا منہ مطب کی جانب تھا، اُسی وقت کچھ گاڑیاں ایم اے جناح روڈ کی جانب سے آرام باغ روڈ میں داخل ہوئیں۔ یہ ایک دو گاڑیاں نہیں تھیں، تین چار گاڑیاں تھیں، ایک ہائی ایس تھی، دو تین گاڑیاں اور بھی تھیں۔
اُس وقت حکیم سعید صاحب حکیم عبدالقادر سے ہاتھ ملا ہی رہے تھے۔ اچانک آنے والی اُن گاڑیوں میں سوار حملہ آوروں نے آرام باغ روڈ پر مڑتے ہی حملہ کر دیا۔ انتہائی شدید فائرنگ ہوئی، بےتحاشا گولیاں چل رہی تھیں۔ میں نے حکیم محمد سعید صاحب کو زمین پر گرتے دیکھا۔ حکیم عبدالقادر اور ولی محمد بھی گولیاں لگتے ہی زمین پر گر پڑے۔ ایک گولی میرے بازو کو بھی چھیلتی ہوئی چلی گئی اور محافظ عبدالرزاق بھی زخمی ہوگیا۔
حملہ ہوتے ہی میں زمین پر لیٹ گیا تھا۔ مجھے تو احساس ہی نہیں ہوا کہ مجھے بھی گولی لگ چکی ہے۔ گاڑی میں بیٹھے رہ جانے کی وجہ سے گنگ خان بالکل محفوظ رہے۔ حملے کے فوراً بعد ہی حملہ آور گاڑیوں سمیت فرار ہوگئے۔ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔ میں تو کچھ دیکھ ہی نہیں سکا کہ دراصل ہوا کیا ہے اور پھر میں بے ہوش ہو گیا۔‘
آس پاس موجود دیگر عینی شاہدین کے مطابق بالکل صبح کا وقت تھا تو ٹریفک بہت کم تھی لیکن جیسے ہی یہ سب ہوا، آتی جاتی گاڑیاں بھی رکنے لگیں۔ ’بس پھر تو ایک شوروغُل مچ گیا، افراتفری پھیل گئی۔ مطب میں موجود مریض بڑی تعداد میں چلاتے ہوئے نیچے آ گئے، کوئی رک کر فون کرنے لگا، کوئی بھاگ کھڑا ہوا۔‘
عدالتی ریکارڈ کے مطابق اس حملے کے پندرہ منٹ کے اندر پولیس حکام موقع پر پہنچے اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔
خود میں اُس وقت کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا اور مجھے یاد ہے کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر خبر کی تفصیل جمع کرنے جب تقریباً چھ بجے صبح میں سول ہسپتال کے مردہ خانے پہنچا تو ڈاکٹر احمد نے مجھے بتایا کہ حکیم صاحب کو سر اور گردن میں گولیاں لگیں۔

پولیس کارروائی اور سیاست
جب حکیم محمد سعید کا قتل ہوا تو یہ بطور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ اس وقت سندھ میں لیاقت علی جتوئی وزیراعلیٰ تھے جو الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ سندھ میں مخلوط حکومت چلا رہے تھے۔ یہی ایم کیو ایم مرکز میں نواز شریف کی وفاقی حکومت میں شریک اقتدار تھی۔
قتل کے چند گھنٹوں کے اندر ہی کراچی پولیس کے بعض افسران نے دعویٰ کیا کہ ایک گاڑی برآمد ہوئی ہے جو مبینہ طور پر حکیم سعید کے قتل میں استعمال کی گئی تھی۔
بعض پولیس افسران نے جن میں اس وقت کے ایس ایس پی ضلع وسطی فاروق امین قریشی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ رانا مقبول بھی شامل تھے، یہ موقف اختیار کیا کہ گاڑی سے عامر اللّہ نامی ایک نوجوان کی امتحانی مارکس شیٹ ملی ہے۔
عامر اللّہ نامی یہ نوجوان مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا کارکن بتایا گیا اور ایس ایس پی فاروق امین قریشی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ رانا مقبول احمد نے اعلیٰ حکام، وزیر اعلیٰ اور حتیٰ کہ وزیراعظم نواز شریف کو مطلع کیا کہ عامر اللّہ مبینہ طور پر حکیم سعید کے اس قتل میں ملوث ہے جس میں اُسے مبینہ طور پر پارٹی کے بعض دیگر ارکان یعنی ایم کیو ایم کے مبینہ عسکری بازو کے سرکردہ افراد کی مدد اور حمایت بھی حاصل رہی۔
لیکن جلد ہی اس سارے معاملے پر خود اس وقت کی سندھ پولیس اور کراچی پولیس کی قیادت میں اختلافات کی خبریں بھی آئیں۔
اُس وقت سندھ پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل آف پولیس آفتاب نبی تھے جن کے بھائی اسلام نبی متحدہ قومی موومنٹ کے وفاقی وزیر بھی تھے جبکہ کراچی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی مشتاق شاہ تھے۔
مشتاق شاہ نہ تو تب اپنے ماتحت افسر فاروق امین قریشی کے اس موقف سے مطمئن تھے اور نہ اب ہیں۔ پولیس قیادت میں مبینہ قاتلوں کے بارے میں اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے مشتاق شاہ نے انکشاف کیا کہ قتل کے فوراً بعد انھیں سٹیٹ گیسٹ ہاؤس بلوایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وہاں وزیراعظم نواز شریف، وفاقی وزیر چوہدری نثار، چیف سیکریٹری سعید مہدی اور چار پانچ افسران تھے۔ اس میٹنگ میں مجھے یہ تاثر ملا کہ جیسے یہ کیس حل ہو گیا ہے اور مجھے خبر بھی نہیں۔
’مجھ سے سب نے پوچھا کہ کیس حل ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ میں نے کہا کوشش کر رہے ہیں ایسے مقدمات مشکل ہوتے ہیں، وقت لگے گا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کتنا وقت چاہیے تو میں نے کہا کہ ٹائم فریم بتا نہیں سکتا، جس پر مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو 24 گھنٹے دیتے ہیں۔ میں نے کہا، سر کوشش کرتے ہیں۔’
سابق ڈی آئی جی مشتاق شاہ کہتے ہیں ’چند گھنٹوں کے بعد ٹی وی پر خبر آگئی کہ ملزم پکڑے گئے۔ شاید انہوں نے سوچا ہوگا کہ کہیں 24 گھنٹوں میں کچھ اور نہ ہو جائے‘۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اُن پولیس افسران سے اتفاق کیا جن کا خیال تھا کہ حکیم سعید کے اس قتل میں ایم کیو ایم ملوث تھی۔ نواز شریف نے حکیم سعید کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم نامزد اور مطلوب ملزمان کو حکومت کے حوالے کرے۔
نواز شریف کی جانب سے قتل کے الزام پر جواباً ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے الزام لگایا کہ پاکستانی ادارے اور نواز شریف کی حکومت ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہیں اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں ملوث کر کے اس کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔

الطاف حسین اور اُن کی جماعت نے اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے سندھ میں قائم لیاقت جتوئی کی حکومت سے احتجاجاً علیحدگی اختیار کرلی اور اکثریت کھو دینے والی سندھ حکومت بالآخر تحلیل کردی گئی اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا
وزیراعلیٰ لیاقت جتوئی ہی کی طرح ڈی آئی جی کراچی مشتاق شاہ اور آئی جی سندھ آفتاب نبی کو بھی اُن کے عہدوں سے سبکدوش کر دیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید اس وقت سینیٹ کے ممبر اور سرکاری ٹی وی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے۔
بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیراعظم نواز شریف نے ایم کیو ایم سے حکیم سعید کے قتل میں نامزد ساتھیوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا لیکن سندھ حکومت سے ایم کیو ایم کا الگ ہونے کا فیصلہ یک طرفہ تھا۔
’نواز شریف صاحب نے تو ان سے صرف یہ کہا تھا کہ جن لوگوں کے نام پولیس کی تفتیش میں لیے جا رہے تھے جو ایم کیو ایم سے متعلقہ تھےآپ ان لوگوں کو قانون کے حوالے کر دیں۔ ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو گئی ان کا خیال تھا کہ اگر ہم حکومت سے الگ ہوں گے تو سندھ میں ان کی حکومت گر جائے گی۔ وہ خود حکومت سے الگ ہوئے تھے انھوں نے اپنے ساتھیوں کو قانون کے حوالے نہیں کیا تھا اور یہی اختلاف تھا ان کے ساتھ۔‘
مشتاق شاہ یاد کرتے ہیں ’بس پھر شام کو ہم سب کو حکم ملا کہ آپ کی چھٹّی ہو گئی۔ میری بھی آفتاب نبی صاحب کی بھی، لیاقت جتوئی کی دوسرے دن چھٹی ہو گئی۔ یہ انصاف کے ساتھ زیادتی ہے‘۔
یہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر حکیم سعید کے قتل کا الزام عائد کرنے والے پولیس افسران فاروق امین قریشی کو ڈی آئی جی کراچی اور اُن کے باس رانا مقبول کو آئی جی سندھ مقرر کر دیا گیا۔
پولیس نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے عامر اللّہ کو گرفتار کر لیا مگر پھر کراچی پولیس کے ایک انتہائی نامور پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ کی سربراہی میں قائم کی جانے والی جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے عامر اللّہ کو اس قتل میں ’کلیئر‘ قرار دے دیا۔
جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ عامر اللّہ کے (کم از کم) اس قتل میں ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل رہنے والے پولیس اہلکاروں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے ایک دوسرے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جے آئی ٹی نے عامر اللّہ کو اس کیس میں بے گناہ قرار دیا تھا۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ پھر گرفتاری کیوں کی گئی اور کیس میں نامزد کیوں کیا گیا تو سرکاری ادارے کے اُس افسر کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی کا مینڈیٹ صرف عامر اللّہ کے اس کیس میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرنا تھا۔ پھر متعلقہ حُکام نے جو کیا وہ اُن کی صوابدید تھی۔ جے آئی ٹی نے میرٹ پر اپنی فائنڈنگز متعلقہ حکام کے سپرد کر دی تھیں۔ نہ اس سے زیادہ جے آئی ٹی کی ذمہ داری تھی نہ دائرۂ اختیار۔‘
نئے آئی جی اور ڈی آئی جی کی قیادت میں پولیس نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے نامزد ملزمان کے خلاف چھاپوں اور گرفتاریوں پر مشتمل کریک ڈاؤن شروع کیا۔
اور مزید نو افراد کو بھی اس کیس میں نامزد کردیا جن میں فصیح جگنو، ابو عمران پاشا، ندیم موٹا، فیصل چاؤلہ، مقرّب، اعزاز الحسن، آصف، زبیر اور اُس وقت ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر کے انچارج شاکر احمد بھی شامل تھے۔
چھاپوں اور گرفتاریوں کے ایک طویل سلسلے کے دوران ان تمام نامزد ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ان ملزمان سے ہتھیار برآمد کرنے کا دعویٰ بھی اخبارات میں شائع ہوتا رہا۔
مگر نامزد اور گرفتار ہونے والے افراد کے بارے میں پولیس افسران کی رائے واضح طور ہر تقسیم دکھائی دی اور اختلافات بالکل واضح رہے۔
اس بارے میں رابطہ کرنے پر خود اس وقت کے آئی جی آفتاب نبی نے بھی تسلیم کیا کہ اس وقت پولیس میں تفتیش کے معاملات پر اختلافات تھے۔ ان کا کہنا تھا ’شروع میں اختلافات تھے مگر میں مختلف رائے رکھنے والے تفتیش کاروں کو الزام نہیں دوں گا۔ حقائق اور معلومات کا جو تجزیہ ہم نے کیا اس میں ہمیں لگا کہ عامر اللّہ ملوث نہیں ہے اور انھوں نے جو جائزہ لیا ہوگا انہیں لگا ہوگا کہ عامر اللّہ ملوث ہے۔
’ایسے مقدمات بہت تفتیش طلب ہوتے ہیں۔ اگر موقع ملتا تو ہم تہہ تک پہنچ جاتے۔ ہم لوگ اپنی پیشہ ورانہ عزت و توقیر کی خاطر اسے بڑی سنجیدگی سے حل کرتے مگر مجھے اور مشتاق شاہ کو تبدیل کر دیا گیا۔‘
حکیم سعید کے مقدمۂ قتل میں پہلے خصوصی فوجی عدالت میں کارروائی شروع ہوئی اور پھر سپریم کورٹ کے حکم پر جب یہ فوجی عدالتیں ختم ہوئیں تو مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت منتقل کر دیا گیا جس نے ملزموں کو مجرم قرار دے کر سزائے موت سنا دی۔
مگر کئی برس بعد سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان دونوں ہی نے اے ٹی سی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔
اپنے بھائی کے ایم کیو ایم کے وزیر ہونے سے متعلق سوال پر آفتاب نبی نے کہا کہ ’سب سے زیادہ ناراض تو مجھ سے ایم کیو ایم ہی رہتی تھی۔ پولیس سروس میں یہ سب ہوتا ہے۔ مگر اچانک ٹرانسفر سب سے بڑی غلطی تھی۔‘
’حکیم سعید کا قتل بہت بڑا ظلم تھا۔ اُن کو قتل کروانے والا انسان نہیں تھا۔ اصل میں تو وہ ایک پلاٹ کا مسئلہ تھا جہاں حکیم سعید نے یونیورسٹی بنائی تھی۔ حکیم سعید اُن کے خلاف لکھتے بھی تھے۔ وہ ان کی مخالفت میں سب سے بڑی آواز تھے۔‘
ملزمان کی نامزدگی یا گرفتاری سے متعلق سوال پر رانا مقبول کا کہنا تھا کہ تفتیش کے علاوہ ان کی سکروٹنی (جانچ پڑتال) ہر جگہ ہوئی تھی۔
’آرمی افسران نے بھی کی۔ پہلے تو کیس فوجی عدالت میں گیا تو سکروٹنی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی تشکیل ہی کالعدم قرار دے دی تو پھر ایک کمیٹی بنی تھی اور پھر یہ کیس اے ٹی سی میں بہت ہی قابل جج قمر الدین وہرہ کے سامنے گیا۔ انھوں نے اس مقدمے کی سماعت کی اور ملزمان کو موت کی سزائیں سنائی گئیں۔‘

رانا مقبول کے مطابق حکیم سعید کے قتل کی وجہ اصل میں ایک پلاٹ کا مسئلہ تھا جہاں حکیم سعید نے یونیورسٹی بنائی تھی
حکیم سعید کیس میں ایم کیو ایم کے کارکنان کے ملوّث ہونے کی رائے رکھتے ہوئے کیس ’حل’ کرنے کے ’صلے‘ میں ترقی پا کر آئی جی سندھ لگنے والے پولیس افسر رانا مقبول اس سلسلے میں اپنی علیحدہ رائے رکھتے ہیں۔
یہی نہیں کئی برس انھی کے کچھ اور لوگ پکڑے گئے جن میں سے سعید بھرم اور منہاج قاضی دونوں نے انھی باتوں کی تصدیق کی۔ رانا مقبول نے دعویٰ کیا۔
دراصل رانا مقبول عزیز آباد کراچی میں قائم ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر ’90‘ کے سابق سکیورٹی انچارج اور ایم کیو ایم چھوڑ کر مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں چلے جانے والے کارکن منہاج قاضی کا حوالہ دے رہے تھے جو اس واقعے کے کئی برس بعد گرفتار ہوئے تھے۔
گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر سندھ رینجرز کی حراست میں منہاج قاضی نے دوران تفتیش بتایا (اور اُن کا یہ بیان پاکستانی ٹی وی چینلز پر نشر بھی کیا گیا) کہ جب یہ واقعہ ہوا وہ کراچی میں نہیں تھے مگر ان کی اطلاعات کے مطابق رکن سندھ اسمبلی ذوالفقار حیدر اور آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کے اُس وقت کے چیئرمین محمود صدیقی کا بھی اس میں ہاتھ تھا اور ندیم موٹا اور عامر اللّہ کا بھی نام بھی آیا تھا۔
ادھر چار ستمبر 2011 کو انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون نے لاہور سے خبر دی کہ ایم کیو ایم کے سابق سیکریٹری جنرل اور برطانیہ میں قتل کر دیے جانے والے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کرنے والے سکاٹ لینڈ یارڈ کے حکام کو ان کے گھر کی تلاشی کے دوران ایسی دستاویزات ملی تھیں جن کا تعلق مبینہ طور پر حکیم سعید کے قتل سے ہو سکتا ہے۔
اخبار کے مطابق ان دستاویزات میں مبیّنہ طور پر ایم کیو ایم کے ایک سیکٹر انچارج جاوید ترک کا وہ خط بھی شامل ہے جو اس سلسلے میں ڈاکٹر عمران فاروق کو تحریر کیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرلینے والے ایک رہنما نے کہا کہ ’اگر اس معاملے میں کوئی لینا دینا تھا بھی تو مقامی طور پر ہی ہوگیا ہو گا۔ پارٹی سے اختلاف کے باوجود میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اوپر والوں کی منظوری شامل نہیں تھی کیونکہ اس کی بعد پارٹی میں بڑی اٹھا پٹخ ہوئی تھی۔
’یہ ضرور تھا کہ اُس وقت جو بھی اہم تھا اور ہمارے ساتھ نہیں تھا وہ دشمن تصوّر ہوتا تھا۔ حکیم سعید بھی اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے گورنر بنائے گئے تھے جب اسٹیبلشمنٹ ہماری خلاف تھی۔‘
جب سابق آئی جی سندھ رانا مقبول سے سوال کیا گیا کہ جن لوگوں پر پولیس نے قتل کا الزام لگایا انھیں تو سندھ ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا تو رانا مقبول نے کہا کہ ’12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی اور نئی حکومت میں ایم کیو ایم کو سہولت ملی۔ استغاثہ نے ملی بھگت کے ذریعے عدالت میں کیس کی ویسی پیروی نہیں کی جیسی کہ ہونی چاہیے تھی۔
لندن میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار آفتاب صدیقی کا کہنا ہے کہ ’خود ایم کیو ایم کو بھی نواز حکومت میں حکیم سعید کے قتل کے بعد کریک ڈاؤن کا سامنا تھا اور ریاست کی جانب سے مخالفانہ اور معاندانہ رویّے اور اس پکڑا دھکڑی سے نجات کی سہولت خود ایم کیو ایم کو بھی چاہیے تھی جو مشرف حکومت کا حصّہ بن کر ہی مل سکتی تھی۔‘
رانا مقبول کے مطابق ’استغاثہ نے تو خود ہی گھٹنے ٹیک دیے۔ سر تسلیم خم کر دیا۔ اس کو ایسے نہیں کیا گیا جیسے کرنا چاہیے تھا۔ باقی دنیا میں تو استغاثہ کسی کی بات نہیں مانتا لیکن یہاں استغاثہ حکومت وقت کے ماتحت ہوتا ہے اور حکومت سیاسی جماعت کی ہوتی ہے اس لیے استغاثہ سیاسی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
’پولیس نے تو کیس بنا کر دے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت ضروری کمی رہ گئی ہو۔ ٹرائل کورٹ نے کوئی نہ کوئی تو سماعت کی ہو گی۔ ثبوت و شواہد پیش کیے گئے ہوں گے تب ہی تو ایک اہل جج کی عدالت سے سزا ممکن ہوئی ہو گی۔‘
اس سوال پر کہ کیا ان کے خیال میں جن لوگوں کو ملزمان کے خلاف کارروائی کرنی تھی انھوں نے ہی ملزمان کا ساتھ دیا تو رانا مقبول نے کہا ’ایک حد تک۔ ریاست نے حکومت بدل جانے کے بعد کیس کی ویسی پیروی نہیں کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھی اور یوں ایک طرح کی حمایت اور استغاثہ کی ملی بھگت سے ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ اگر انسداد دہشت گردی کی عدالت جیسی پیروی کی جاتی تو ملزمان سزا سے نہیں بچ سکتے تھے کیونکہ وہی حکیم سعید کے اصل قاتل تھے۔‘
جیو ٹی وی اور جنگ گروپ سے وابستہ صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق ایم کیو ایم اور عامر اللّہ کو اصل ملزم سمجھنے والے رانا مقبول اکیلے نہیں تھے۔
’اُس وقت لیفٹنٹ جنرل ضیاالدین بٹ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اُن کا اس وقت بھی یہی موقف تھا کہ عامر اللّہ سو فیصد حکیم سعید کے قتل میں ملوث ہے۔ خود انھوں نے اُس وقت بھی کہا اور کئی برس بعد بھی جب میری پھر جنرل ضیاالدین بٹ سے بات ہوئی تو بھی انھوں نے پھر یہی بات دہرائی کہ عامر اللّہ ہی حکیم سعید کے قتل میں ملوّث تھا۔
مظہر عباس نے کہا کہ’جب میں نے بھی اُن سے کہا کہ پھر سزا کیوں نہیں ہوئی بری کیسے ہوئے ملزمان، تو جنرل بٹ نے کہا نے کہا کہ اب یہ تو پھر پولیس کا کام تھا۔‘
ادھر پولیس نے جن لوگوں کو حکیم سعید کے مقدمۂ قتل میں گرفتار کیا اُن میں سے ایک ملزم فصیح جگنو دوران حراست ہلاک ہو گیا۔ اس ہلاکت پر بھی زبردست سیاسی ہلچل مچی اور ایم کیو ایم نے ایک بار پھر موقف اختیار کیا کہ اُس کے بے گناہ کارکنوں کو گرفتار کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ جھوٹے اعترافی بیانات لے کر ایم کیو ایم کو حکیم سعید جیسی شخصیت کے قتل میں جعلی طور پر ملوّث کرکے بد نام کیا جائے اور اُس کی سیاسی مقبولیت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
حکیم سعید کیس گرفتار ہونے والوں میں سب سے اہم نام شاکر احمد عرف شاکر لنگڑا کا تھا۔ حکام کا طویل عرصے تک الزام رہا کہ وہ حکیم سعید کے قتل کی اس واردات کے مرکزی منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔
شاکر احمد کو بھی پہلے اے ٹی سی سے حکیم سعید کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی پھر سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ دونوں ہی عدالتوں سے انھیں باعزت بری کیا گیا۔
شاکر احمد اُس وقت ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر کے انچارج ہونے کے ساتھ چنگی اور محصولات سے متعلق محکمے (آکٹرائے ڈپارٹمنٹ) میں بطور انسپکٹر تعینات تھے۔
22 برس بعد جب شاکر احمد تک پہنچا تو وہ اب بھی کراچی کے ایک شہری ادارے کے افسر ہیں۔ انھوں نے آج بھی حکیم سعید کے قتل سے لاتعلقی ظاہر کی اور اپنی بے گناہی کا دعویٰ کیا۔
’میں تو خود عمرے پر گیا ہوا تھا اور اس واردات سے دو تین پہلے ہی واپس آیا تھا۔ میں نے تو یہ اخبار کے خصوصی ضمیمے میں پڑھا کہ واجب الاحترام حکیم صاحب کو کسی نے شہید کر دیا۔ حکمت اور طب میں بہت بڑا نام تھا اُن کا۔
’اس کیس میں کافی عرصے بعد ہمارا نام ڈال کر ہمیں پکڑ لیا گیا۔ مجھے تو پاکستان چوک پر واقع میرے گھر سے 1999 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ تو اللّہ کا شکر تھا کہ بے قصور تھے تو ہائی کورٹ نے بھی بری کیا تھا اور سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ پاس کیا تھا بھائی۔‘
اس سوال پر کہ ان کا نام کیوں ملزمان کی فہرست میں ڈالا گیا شاکر احمد نے کہا ’اب یہ تو وہ ہی لوگ بتا سکتے جنھوں نے یہ کیس بنانے کی کوشش کی تھی۔ رانا مقبول ہوئے، نواز شریف ہوئے وہی بتا سکتے ہیں۔ میں تو بے قصور آدمی تھا اور اللّہ کا شکر ہے کہ عدالت نے مجھے اور باقی سب کو بری کردیا۔
ان کے مطابق ’مجھے نہیں پتا کہ گرفتار کرنے والے کون لوگ تھے وردی تو پولیس کی پہنی ہوئی تھی، سادہ لباس اہلکار بھی تھے۔ ایک دم میرے گھر میں بیس پچیس لوگ داخل ہوئے۔ آنکھوں پر پٹّی باندھ کر لے گئے تھے۔ دو تین ہفتوں سے زیادہ میں گرفتار رہا۔
’ہر کسی کو معلوم ہے کہ گرفتار ہونے والوں سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ ہماری بھی خوب خدمت داری کی گئی۔ تفتیش کار کہتے تھے یہ تم نے کیا ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ اس کیس میں وعدہ معاف گواہ ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ بھائی کون سا کیس؟ تو مجسٹریٹ نے بس ایک گھنٹی ماری اور بولا بھائی اس کی ذرا صحیح طریقے سے خدمت کرو جو تم نے نہیں کی ہے اور اُس کے بعد اس کو میرے پاس لانا۔‘
شاکر احمد کے مطابق اس مقدمے میں 39 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ ’اُن میں سے فیصل چاؤلہ تو حکیم صاحب کے قتل سے دو ماہ پہلے سے جیل میں تھے کسی اور کیس میں۔ ایک اور کارکن تھے نذر مقرّب وہ بھی دو ماہ پہلے سے جیل میں تھے جبکہ ایک اور ملزم اعزاز الحسن کو شادی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

حکیم سیّد منظور علی کے مطابق ان سے جن افراد کو شناخت کرنے کی بات ہوئی اُن میں زبیر اور عامراللّہ شامل تھے
شاکر احمد کا کہنا تھا ’مجھ پر انھوں نے دفعہ 109 یعنی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ میرے گھر سے کچھ نہیں ملا تھا۔ سُنا تو ہم نے بھی تھا کہ اسلحہ ملا ہے مگر صرف سُنا ہی ہے ہم نے۔
’آپ کو تو پتا ہے کہ پاکستان میں کس طرح کیس چلتا ہے اور عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں۔ انسداد دہشت گردی تو کالا قانون ہوتا ہے اور اے ٹی سی جیسی عدالتوں میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان عدالتوں میں بس وہ بولتے ہیں جو سرکاری لوگ ہوتے ہیں۔ ہم تو عدالتوں میں سنتے تھے اور خاموش رہتے تھے۔ وکلا بولتے تھے۔
’میں تو بس دعا کرتا تھا کہ اللّہ میں بے قصور ہوں تو مدد فرما۔ ہمارے وکلا نے سردار اسحاق صاحب نے تو ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بھائی یہ اے ٹی سی کورٹ ہے۔ یہ تو تمہیں سزا دینے ہی بیٹھے ہیں مگر اللّہ بڑا رحیم و غفور ہے، انشااللہ ہائی کورٹ سے تم بری ہو جاؤ گے۔
شاکر احمد نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے تو عامر اللّہ اور کئی دیگر ملزمان کو پہلی بار عدالت میں دیکھا تھا
’مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں‘
تو پھر عامر اللّہ کی عدالت میں شناخت کیسے ہوئی اور فوجی عدالت سے موت کی سزا کیسے ہوئی۔ یہ کہانی سنائی حکیم سعید پر حملے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہد اور اُن کے نائب حکیم سیّد منظور علی نے۔
ان کا کہنا تھا ’واقعے کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں۔ بس ایک میری ہی گردن پتلی تھی۔ دوسرا زخمی گارڈ تو واقعے کے بعد سے آج تک لاپتہ ہے۔ بس میں تھا مدّعی بھی، گواہ بھی۔ مجھے تو پہلے پولیس نے گاڑیاں دکھائیں۔ یہ گاڑی ہے، وہ گاڑی ہے جو واقعے میں استعمال ہوئیں۔
’آپ کو تو پتا ہے اس مقدمے کے سلسلے میں 50 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان ہو گیا تھا اور یہ تب بہت بڑی رقم تھی۔ پھر جب میں ہسپتال سے آیا تو پھر سی آئی اے (پولیس کا خفیہ ادارہ) بلاتی تھی وہ بلاتے رہے، دباؤ ڈالتے رہے۔
’پھر کچھ دن بعد وہ اپنے موقف پر آ گئے کہ ہم نے نو افراد کو گرفتار کیا ہے انھیں آپ شناخت کریں۔ میں نے کہا کہ مجھے کیا پتا کون سی گاڑی تھی میرا منہ تو مطب کی جانب تھا اور ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ ہم تو اندر جارہے تھے اور ایسے حملے کے دوران کون دیکھ سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں جب ایک چیز میں نے دیکھی ہی نہیں ہے۔
’جو تفتیشی افسران تھے، اُن سے میں کہا کہ یہ کام تو آپ لوگوں کا ہے۔ وہ پیار سے بات کرتے تھے مجھے سانچے میں اتارنے کے لیے۔ وہ جو تفتیشی افسر تھا آغا طاہر اُس کا نام تو میں بھول ہی نہیں سکتا وہ تو مجھے بہت ذہنی اذیت دیتا تھا۔ ایک دن کرسی سیدھی کر کے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب بہت ہوگیا اب کام کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں تو خود بہت مصیبت میں ہوں۔ میرا تو اس واقعے میں بچ جانا میرا جرم بن گیا اب آپ مجھے دیوار کے ساتھ لگائیں اور گولی مار دیں مگر جھوٹی گواہی تو نہیں دوں گا مگر آغا طاہر نے کہا حکیم صاحب بہت ہو گئی، مجھ پر اوپر سے دباؤ ہے۔ اب تو آپ کو کرنا ہی کرنا ہے اور اگر آپ نے نہیں کیا تو میں پریس کانفرنس کرکے کہہ دوں گا کہ آپ بھی منصوبہ ساز ہیں۔ میں نے کہا سر دیکھ لیں۔ میں ایسا تو نہیں کر سکتا ناں!
’پھر ایک دو دن کی بعد ملٹری انٹیلیجینس کی طرف سے مجھے اطلاع آ گئی کہ سر وہاں پہنچنا ہے آپ کو۔ لکی اسٹار (تاج محل ہوٹل کے سامنے صدر کراچی کا علاقہ) بلوایا گیا جہاں بیرک بنے ہوئے ہیں۔ ایم آئی سینٹر جانا پڑا تو پتہ چلا کہ بریگیڈیئر صاحب ملیں گے۔ سی آئی اے کے تفتیشی افسر بھی میرے ساتھ تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے خود اٹھ کر میرے لیے دروازہ کھولا تھا۔ مجھ سے کہا شاہ صاحب آئیں، پہلے تو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی تو نہیں کوئی دھونس دھمکی تو نہیں دی؟ میں نے اُن سے کہا کہ ہمیں گالی دو یا مار دو برابر ہے تو بریگیڈیئر صاحب نے میرے سامنے تفتیشی افسر سے کہا آپ کو تمیز نہیں ہے کیسے بات کرتے ہیں سیّدوں سے۔ آج کے بعد کوئی بات نہیں کریں آپ حکیم صاحب سے۔


’بریگیڈئیر صاحب نے انھیں وہاں سے جانے کو کہا اور پھر مجھ سے کہا کہ دیکھیں حکیم صاحب آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ناگہانی طور پر اس واقعے میں آ گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ سر میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ روز محشر میں اتنا بڑا الزام اپنے اوپر نہیں لے سکتا کہ کسی بے قصور کو میری وجہ سے پھانسی ہو جائے تو بریگیڈیئر صاحب نے کہا کہ نہیں ، نہیں سر ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ روزِ محشر بھی ہم ذمہ داری لیں گے۔ آپ بری الذمہ ہیں۔‘
حکیم سیّد منظور علی کے مطابق جن افراد کو شناخت کرنے کی بات ہوئی اُن میں زبیر اور عامراللّہ شامل تھے۔
’پھر دو تین بعد ملیر کینٹ میں فوجی عدالت میں لے کر گئے۔ میں نے دو رکعت نماز تہجّد پڑھی کہ اللّہ آپ جانتے ہیں آپ جانتے ہیں یہ لوگ ذمہ دار ہیں۔ عدالت میں نو آدمی کھڑے تھے۔ وہاں پر بیان قلمبند ہوا۔ جیسے مدّعی بنتے وقت جعلی دستخط کر لیے تھے میرے ویسے ہی بیان میں خود ہی انہوں نے الٹے سیدھے، مجھ سے جو کہلوایا وہاں کچھ اور لکھا ہوا تھا۔‘
منظور علی کا کہنا ہے کہ ’بس مجھے ایک گلہ ہے کہ جب میں اس ساری مصیبت سے گزر رہا تھا تو حکیم سعید فیملی اور ہمدرد فاؤنڈیشن نے میری مدد نہیں۔ میں خود سے گیا کئی بار ان کے گھر مگر مجھے کہا گیا کہ بس آپ صبر کریں۔ اس وقت کوئی میرے پیچھے نہیں تھا میں سینڈوچ بنا ہوا تھا۔ کوئی بھی مجھے بھی مار سکتا تھا۔ ہم اخبار میں پڑھتے تھے کہ حکیم منظور کو سکیورٹی فراہم کردی گئی اور ہم ایسے ہی گھر میں بیٹھے رہتے تھے بغیر سکیورٹی کے۔
’دو تین مہینے تو میں بہت ڈرا، پھر میرے ذہن میں آیا کہ جب سینکڑوں گولیوں کی بارش میں میں بچ گیا تو اللّہ کی مرضی کے بغیر کوئی کیسے مار سکتا ہے۔ مجھے کہیں سے کوئی دھمکی نہیں آئی بس آغا طاہر نے ضرور دھمکایا تھا۔ 50 لاکھ کا جب اعلان ہوا تھا اصل کھیل تو وہیں خراب ہو گیا تھا۔‘ حکیم منظور نے گلہ کیا۔
حکیم منظور کا گلہ اپنی جگہ مگر جہاں تک ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ یا حکیم سعید کی صاحبزادی سعدیہ راشد کا تعلق ہے اُن کی جانب سے اس معاملے پر کبھی عوامی سطح پر لب کشائی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ اس سلسلے میں ایک بار اُس وقت کی ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اور سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستّار نے سعدیہ راشد سے ملاقات بھی کی مگر اس ملاقات کے بارے میں بھی محض تعزیت سے زیادہ کوئی بات اخبارات میں رپورٹ نہیں ہوئی۔
حکیم سعید کے مقدمۂ قتل میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی تو پھر یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا۔
سندھ ہائی کورٹ کے ایک سابق جسٹس محمود عالم رضوی ایم کیو ایم کے کارکن شاکر اللّہ کے وکیل کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ رابطہ کرنے پر محمود عالم رضوی نے بتایا کہ ’ہمارے لیے تو بہت آسان تھا یہ سب۔ تمام ثبوت و شواہد ’کری اینڈ‘ تھے اور کوئی بھی اچھا وکیل ان پر کام کرکے اپنا کیس ثابت کرسکتا تھا سو ہم نے کر دیا۔
’قتل کا وقت صبح چھ بجکر دو منٹ درج ہے۔ اُس وقت اکتوبر میں اندھیرا ہوتا ہے۔ اندھیرے میں کون دیکھ سکتا ہے کہ گولیاں چلانے والے قاتل کی شکل کیسی ہے۔ نامزد ملزمان میں سے دو تو جیل میں تھے قتل کے وقت۔‘
بہرحال سندھ ہائی کورٹ میں زبردست جرح کے بعد بالآخر 31 مئی 2001 کو عدالتِ عالیہ نے یہ سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
سرکار کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا اور آخر کار جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے 26 اپریل 2014 کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کی بریت کی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ملزمان کو باعزت بری کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
اعلیٰ عدالتوں سے ملزمان کی برّیت اگر درست ہے تو یہ قتل آج بھی ایک غیر حل شدہ واردات ہے۔ اس بارے میں بری ہونے والے ملزم شاکر احمد کے وکیل اور سابق جسٹس سندھ ہائی کورٹ محمود عالم صدیقی نے اس سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے تو پولیس کے اس موقف پر مبنی کیس تھا کہ عامر اللّہ یا شاکر احمد وغیرہ نے یہ قتل کیا یا نہیں اور اس میں ثابت ہوا کہ معاملات ویسے نہیں تھے جیسے پولیس کے موقف میں پیش کیے گئے۔
حکیم سعید تو مدینہ الحکمت میں دفن کر دیے گئے مگر اُن کے قتل سے متعلق شکوک و شبہات کبھی دفن نہیں ہو سکے۔
آفتاب صدیقی نے حکیم سعید کے قتل کی اس عدالتی کارروائی پر زبردست نکتہ چینی کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ایک مقتول کو دو بار قتل کیا جا سکتا ہے۔
’حکیم سعید وہ مقتول ہیں جن کا قتل ایک نہیں دو دفعہ ہوا۔ پہلی مرتبہ گولی مار کر اور دوسری بار استغاثہ کے غیر سنجیدہ طرزِ عمل اور پھر مقدمے کی عدالتی کارروائی کے ذریعے۔`


 
Last edited by a moderator: