چپلی کباب کھانے کے بعد

Muhammad Arif Ansari

Voter (50+ posts)
یہ اس شام کی بعد ہے جب کورونا وائرس کی پہلی لہر اپنی پوری جوبن پے تھی. لوگوں کا آپس ملنا تو دور کی بات ایک دوسرے کو دیکھنا بھی مضر صحت سمجھا جارہا تھا. ایسی ہی ایک شام کو دوستوں نے چپلی کباب بنانے کا پروگرام بنایا. اور یوں پوری تیاری کے ساتھ اس خاموش رات کو سب احلے محلہ کی نظروں سے دور ہوکے مجبور چپلی کباب پوری آب و تاب کے ساتھ کڑاہی میں چھلانگیں ماررہے تھے. تازہ تازہ تلے ہوۓ چپلی کباب اپنی خوشبو چھوڑتے ہوۓ اور چھینٹے اڑاتے ہوۓ جیسے ہی فرائی پین سے باہر آتے شام جیسے رنگین ہوجاتی سارے دوست ان چھینٹوں کی پرواہ کئے بغیر چشم ماہ روشن دل مشاد کے مصداق کے طور پر اپنی اپنی آئینی ذمداریاں پوری کرتے پلیٹ کو آگے کرتے اور ہر تازہ دم چپلی کباب کو خوش آمدید کہتے ہوۓ چپلی کبابوں پر جھپٹ پڑتے بلکہ ٹوٹ پڑتے. حفظ ماتقدم کے طور پے ہم نے اپنے آپ کو فرائی پن سے دور رکھا تاکہ فرائی پین سے نکلے ہوۓ ان چھینٹوں سے محفوظ رکھ سکیں جو فرائی پین سے اڑ اڑ کر ہم سبکو اپنے نشانے پر بھی رکھے ہوۓ تھیں۔ باوجود اس سب کے ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور اپنے آئینی حقوق کا حق خوب ادا کیا بلکہ بوقت ضرورت بھرپور دفعه بھی کیا.

چپلی کباب کو اتنی پذیرائی مل رہی تھی کے سارے ہی دوست اپنا دست شفقت ہٹانے کو بلکل تیار نہیں تھے بلکہ یہ دست شفقت بڑھتے بڑھتے اخلاق کی حدوں کو چھو رہا تھا. دوستوں کے اس حسن سلوک سے متاثر ہوۓ بغیر ہم سے بھی نا رہا گیا اور ہم نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھاتے ہوۓ اپنے بھرپور اخلاق اور حسن سلوک کی تاریخ رقم کی ہمارے اس حسن زر سے متاثر ہوکر باقی دوستوں نے بھی دل کھول کر شرف باریابی بخشی اور وقتاً فوقتاً اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا. یہ سلسلہ کافی دیر تک یوں ہی چلتا رہا اور اب اتنے سارے چپلی کباب کھانے کے بعد ہڈیوں پسلیوں اور انتڑیوں میں اتنی جان آچکی تھی کے تھوڑی سی چہل قدمی کرلی جائے. لہذا چپلی کبابوں کے اس دور سے اجازت چاہی اور ان سے پھر ملنے کا وعدہ کرکے رخصت لی.

لیکن اصل کہانی رات کے نہ جانے کس پہر شروع ہوئی اچانک ایسا لگا جیسے تاتاری فوجوں نے ہمارے پیٹ کے اندر چھاونیاں بنالی ہیں. اور وہ ہمارے حدود اربعہ کے کم از کم پچیس میل کے اندر آچکی ہیں. زیادہ دیر نہ گزری ہوگی کے ہمکو لگا کے ہمارے اندر لاتوں، مکوں، گھونسوں اور جوتوں کو بارش کردی گئی ہو. اور خانہ جنگی کی شدت میں مسلسل تیزی آتی جارہی تھی. شدید گولہ باری کا یہ سلسلہ تھا کے روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا بلکہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کے دشمن اپنی تازہ دم نفری کے ساتھ اپنے جدید اسلحہ سے لیس ہوکر حملے کر رہا ہو۔

اس سلسلے میں اب تک آٹھ میٹنگز ہوچکی ہیں کے اس شب خون کو فوراً روکا جائے اور دشمن اپنی فوج کو حملے سے پہلے والی پوزیشن پر لے جائے. اور یو، این، او کی امن مشن فوج کو فوراً تعینات کیا جائے. لیکن تاحال ساری میٹنگز ناکام ہوچکی ہیں. ہمارے پیٹ کے اندر کی مخلوق کو اس بیدردی سے مارا جارہا ہے کے اگر یہ تشدد یوں ہی جاری رہا تو ہمیں ڈر ہیکہ پیٹ میں بچے ہوۓ باقی ماندہ اچھے جراثیم یا تو قید کر لئے جائینگے یا پھر لڑنے کے قابل نہیں رہیںگے . ہم یو، این، او سے پرزور اپیل کرتے ہیں کے جنیوا کنوینشن کے معاہدے کے تحت ہمارے معصوم جراثیموں کو فلفور ان تاتاریوں سے آزاد کرایا جائے. اور مزید وقت ضائع کیے بغیر ایک امن معاہدہ تشکیل دیا جائے تاکہ آبپاشی کے بگڑتے ہوۓ اس نظام کے نقل و حمل کو دوبارہ بحال کیا جاسکے. لیکن تاحال تاتاری فوجیں آگ اور خوں کی ہولی کھیل رہی ہیں۔ اور کسی بھی قسم کے امن معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں. بظاہر ایسا لگتا ہیکہ وہ جنیوا کنوینشن کی کسی بھی شق کو خاطر میں لا نے کو تیار نہیں. اور تاشقند معاہدے کی طرح ہر معاہدے کو تار تار کرنے بلکہ اسکی دھجیاں بکھیر نے پر بضد ہیں.

اوہ ہمکو ایسا لگ رہا ہیکہ جیسے دشمن نے فضائی حملہ بھی کردیا ہے جسکا ایک میزائل گردے کے کہیں آس پاس اکے گرا ہے. میزائل کے اس حملے کا بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے گدو بیراج کا بند بھی ٹوٹ گیا ہے اور پانی کا بہاؤ روکنا اب تقریباً نا ممکن ہے. گھمسان کا رن پڑ چکا ہے. ہماری قوت مدافعت کم ہوتی جارہی ہے. اگر یہ حملے یوں ہی جاری رہے تو جسم کے اندر کا پورا نظام تہہ و بالا ہونے کا خدشہ ہے. جوابی کروائی کے لئے اچھے جراثیموں کی مزید بکتر بند فوج طلب کرلی گئی ہے کیونکہ ان شدید بیلیسٹک میزائلوں کے حملوں میں انہیں کھلا لڑنے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا. ابھی ہم اجازت چاہیںگے کیونکہ ابھی ابھی بری اور بحری فوجوں نے بھی حملہ کردیا ہے..

از قلم
محمد عارف انصاری
 
Last edited by a moderator:

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
یہ اس شام کی بعد ہے جب کورونا وائرس کی پہلی لہر اپنی پوری جوبن پے تھی. لوگوں کا آپس ملنا تو دور کی بات ایک دوسرے کو دیکھنا بھی مضر صحت سمجھا جارہا تھا. ایسی ہی ایک شام کو دوستوں نے چپلی کباب بنانے کا پروگرام بنایا. اور یوں پوری تیاری کے ساتھ اس خاموش رات کو سب احلے محلہ کی نظروں سے دور ہوکے مجبور چپلی کباب پوری آب و تاب کے ساتھ کڑاہی میں چھلانگیں ماررہے تھے. تازہ تازہ تلے ہوۓ چپلی کباب اپنی خوشبو چھوڑتے ہوۓ اور چھینٹے اڑاتے ہوۓ جیسے ہی فرائی پین سے باہر آتے شام جیسے رنگین ہوجاتی سارے دوست ان چھینٹوں کی پرواہ کئے بغیر چشم ماہ روشن دل مشاد کے مصداق کے طور پر اپنی اپنی آئینی ذمداریاں پوری کرتے پلیٹ کو آگے کرتے اور ہر تازہ دم چپلی کباب کو خوش آمدید کہتے ہوۓ چپلی کبابوں پر جھپٹ پڑتے بلکہ ٹوٹ پڑتے. حفظ ماتقدم کے طور پے ہم نے اپنے آپ کو فرائی پن سے دور رکھا تاکہ فرائی پین سے نکلے ہوۓ ان چھینٹوں سے محفوظ رکھ سکیں جو فرائی پین سے اڑ اڑ کر ہم سبکو اپنے نشانے پر بھی رکھے ہوۓ تھیں۔ باوجود اس سب کے ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور اپنے آئینی حقوق کا حق خوب ادا کیا بلکہ بوقت ضرورت بھرپور دفعه بھی کیا.

چپلی کباب کو اتنی پذیرائی مل رہی تھی کے سارے ہی دوست اپنا دست شفقت ہٹانے کو بلکل تیار نہیں تھے بلکہ یہ دست شفقت بڑھتے بڑھتے اخلاق کی حدوں کو چھو رہا تھا. دوستوں کے اس حسن سلوک سے متاثر ہوۓ بغیر ہم سے بھی نا رہا گیا اور ہم نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھاتے ہوۓ اپنے بھرپور اخلاق اور حسن سلوک کی تاریخ رقم کی ہمارے اس حسن زر سے متاثر ہوکر باقی دوستوں نے بھی دل کھول کر شرف باریابی بخشی اور وقتاً فوقتاً اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا. یہ سلسلہ کافی دیر تک یوں ہی چلتا رہا اور اب اتنے سارے چپلی کباب کھانے کے بعد ہڈیوں پسلیوں اور انتڑیوں میں اتنی جان آچکی تھی کے تھوڑی سی چہل قدمی کرلی جائے. لہذا چپلی کبابوں کے اس دور سے اجازت چاہی اور ان سے پھر ملنے کا وعدہ کرکے رخصت لی.

لیکن اصل کہانی رات کے نہ جانے کس پہر شروع ہوئی اچانک ایسا لگا جیسے تاتاری فوجوں نے ہمارے پیٹ کے اندر چھاونیاں بنالی ہیں. اور وہ ہمارے حدود اربعہ کے کم از کم پچیس میل کے اندر آچکی ہیں. زیادہ دیر نہ گزری ہوگی کے ہمکو لگا کے ہمارے اندر لاتوں، مکوں، گھونسوں اور جوتوں کو بارش کردی گئی ہو. اور خانہ جنگی کی شدت میں مسلسل تیزی آتی جارہی تھی. شدید گولہ باری کا یہ سلسلہ تھا کے روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا بلکہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کے دشمن اپنی تازہ دم نفری کے ساتھ اپنے جدید اسلحہ سے لیس ہوکر حملے کر رہا ہو۔

اس سلسلے میں اب تک آٹھ میٹنگز ہوچکی ہیں کے اس شب خون کو فوراً روکا جائے اور دشمن اپنی فوج کو حملے سے پہلے والی پوزیشن پر لے جائے. اور یو، این، او کی امن مشن فوج کو فوراً تعینات کیا جائے. لیکن تاحال ساری میٹنگز ناکام ہوچکی ہیں. ہمارے پیٹ کے اندر کی مخلوق کو اس بیدردی سے مارا جارہا ہے کے اگر یہ تشدد یوں ہی جاری رہا تو ہمیں ڈر ہیکہ پیٹ میں بچے ہوۓ باقی ماندہ اچھے جراثیم یا تو قید کر لئے جائینگے یا پھر لڑنے کے قابل نہیں رہیںگے . ہم یو، این، او سے پرزور اپیل کرتے ہیں کے جنیوا کنوینشن کے معاہدے کے تحت ہمارے معصوم جراثیموں کو فلفور ان تاتاریوں سے آزاد کرایا جائے. اور مزید وقت ضائع کیے بغیر ایک امن معاہدہ تشکیل دیا جائے تاکہ آبپاشی کے بگڑتے ہوۓ اس نظام کے نقل و حمل کو دوبارہ بحال کیا جاسکے. لیکن تاحال تاتاری فوجیں آگ اور خوں کی ہولی کھیل رہی ہیں۔ اور کسی بھی قسم کے امن معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں. بظاہر ایسا لگتا ہیکہ وہ جنیوا کنوینشن کی کسی بھی شق کو خاطر میں لا نے کو تیار نہیں. اور تاشقند معاہدے کی طرح ہر معاہدے کو تار تار کرنے بلکہ اسکی دھجیاں بکھیر نے پر بضد ہیں.

اوہ ہمکو ایسا لگ رہا ہیکہ جیسے دشمن نے فضائی حملہ بھی کردیا ہے جسکا ایک میزائل گردے کے کہیں آس پاس اکے گرا ہے. میزائل کے اس حملے کا بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے گدو بیراج کا بند بھی ٹوٹ گیا ہے اور پانی کا بہاؤ روکنا اب تقریباً نا ممکن ہے. گھمسان کا رن پڑ چکا ہے. ہماری قوت مدافعت کم ہوتی جارہی ہے. اگر یہ حملے یوں ہی جاری رہے تو جسم کے اندر کا پورا نظام تہہ و بالا ہونے کا خدشہ ہے. جوابی کروائی کے لئے اچھے جراثیموں کی مزید بکتر بند فوج طلب کرلی گئی ہے کیونکہ ان شدید بیلیسٹک میزائلوں کے حملوں میں انہیں کھلا لڑنے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا. ابھی ہم اجازت چاہیںگے کیونکہ ابھی ابھی بری اور بحری فوجوں نے بھی حملہ کردیا ہے..

از قلم
محمد عارف انصاری
ہاہاہا..لگتا ہے چپلی کبابوں نے تمھارے پیٹ پر ہی نہیں تمھارے دماغ پر بھی
گہرا اثر کیا ہے….کھوتا کباب کھانے سے پیٹ خراب ہونے پر تم نے تو ایک
اوٹ پٹانگ افسانہ لکھ مارا….اس سے تو بہتر تھا حاجت رفع کر لیتے تو
افاقہ ہو جاتا…..اب اس میں کیا ….. ?