یہ پاکستانی بہتر زندگی کی تلاش کیلئے غیر قانونی طور پر یورپ میں گھسنے کی کوشش کررہے تھے کہ کروشیا میں پکڑے گئے، وہاں ان کو پولیس نے انڈرویئر اتار کر ننگا کرکے مارا۔۔ یہ خود بتارہے ہیں کہ کس طرح ان کو گھنٹوں تک مارا پیٹا گیا۔ مسلمان ملکوں سے یورپ میں گھسنے کے واقعات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے، ترکی نے حال ہی میں بدمعاشی دکھاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اب کسی مسلمان کو نہیں روکے گا، پسماندہ ملکوں کے تمام مسلمان اس کی حدود سے ہوتے ہوئے بذریعہ یونان یورپ میں گھسیں۔ ترکی اسکی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ جواب میں یونان نے کہا ہے کہ ہم یہ کچرا یورپ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، یونان نے اب ترکی کے ساتھ سرحد پر سٹیل کی دیوار کھڑی کرنے کا اعلان کیا ہے۔۔ پاکستان سے بھی بے شمار مسلمان براستہ یونان یورپ میں غیر قانونی طور پر گھسنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور کئی بار خبر سننے کو ملتی ہے کہ یورپ جانے کی کوشش میں پاکستانی نوجوان کشتی ڈوبنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بے شمار لوگوں کی موت کے بعد بھی یہ سلسلہ رک نہیں رہ رہا۔۔ یعنی عملاً مسلمانوں کا نعرہ کچھ یوں ہے کہ یورپ جانے کیلئے موت بھی قبول ہے۔۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو پاکستان میں ہر وقت اسلام اسلام کے نعرے لگاتے رہتے ہیں، پاکستان میں کوئی بھی حکومتی اقدام جو ملک کی بہتری کیلئے اٹھایا گیا ہو اور وہ ان کی نظر میں کسی بھی طرح مذہب سے متصادم ہو تو یہ پاکستانی مسلمان ہنگامہ مچادیتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور حکومت مجبور ہوجاتی ہے کہ ایسے اقدامات سے باز رہے۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان نے عاطف میاں کو اپنی اقتصادی ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کی تو اس پر جو الباکستانی مسلمانوں کی طرف سے ردعمل آیا، وہ اس کی تازہ مثال ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کے اسی رویہ کی وجہ سے آج تک پاکستان میں کوئی حکومت آبادی کو کنٹرول کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرپائی ہے۔۔ ان الباکستانی مسلمانوں نے اپنی بھرپور کوششوں سے پاکستان کو چودہ صدیاں پرانے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھا ہوا ہے۔۔
دوسری طرف یورپ ہے، جنہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر اس کو ریاستی امور سے الگ کردیا ہے اور ریاست کو خالصتاً تکنیکی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب میں فکری آزادی کو ترویج ملی ہے، لوگوں کو کھل کر سوچنے سمجھنے اور دماغ استعمال کرنے کی فضاء ملی تو وہاں علوم کے چشمے پھوٹ پڑے، نت نئی ایجادات، دریافتیں، سائنسی تحقیقات اور خلا کے اسرار کھلنے لگے۔ جدید دنیا کی تشکیل انہی معاشروں نے کی ہے، اس میں قدامت پسند، مذہب پرست مسلمانوں کا حصہ صفر ہے ۔۔
یورپی ممالک نے کئی صدیوں کی مسلسل محنت اور کاوش سے اپنے معاشرے بہتر کئے، وہاں صنفی امتیاز کو بتدریج ختم کیا گیا، مذہب کی بنیاد پر تفریق کو ختم کیا گیا، آج وہاں کوالٹی آف لائف مسلمان ممالک کی بہ نسبت اتنی بہتر ہے کہ مسلمان ممالک سے بے شمار لوگ وہاں غیر قانونی طور پر گھسنے کے چکر میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یورپی ممالک میں لاکھوں مسلمان اپنے پسماندہ ممالک سے اٹھ کر جارہائش پذیر ہوئے ہیں، وہاں کی دی ہوئی آزادیوں، تحفظ اور سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان ملکوں کی شہریت لے لیتے ہیں، مگر سوچ وہی فرسودہ رہتی ہے۔ یہ بھوکے ننگے مسلمان جب روزی روٹی کی تلاش میں یورپ پہنچتے ہیں تو وہاں ہر قسم کا گھسا پٹا کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہ سڑکوں پر جھاڑو لگاتے ہیں، یہ ہوٹلوں میں ویٹرز کا کام کرتے ہیں، یہ ان گوروں کے جھوٹے برتن دھوتے ہیں جن کو یہاں پاکستان میں نفرت سے گالیاں دیتے ہیں۔ یہ ڈالرز اور پاؤنڈز کیلئے ان کے ٹوائلٹ تک صاف کرتے ہیں۔۔
پھر جب ان کی جیب میں کچھ ڈالرز آجاتے ہیں، زندگی کچھ بہتر ہوجاتی ہے، پیچھے پاکستان میں بھوک سے مرتے ان کے خاندان کو زندگی بھی کچھ بہتر ہوجاتی ہے تو پھر یہ وہاں کے معاشروں پر اپنی سوچ لاگو کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ ان کی مذہبی سوچ کے مطابق چلیں، جو شخصیت ان کیلئے مقدس ہے، اس کو وہ بھی مقدس مانیں۔۔ یورپ کے لوگوں نے تو دو صدیوں کے مسلسل ارتقاء سے برداشت سیکھی ہے، مگر مسلمان ان معاشروں سے اٹھ کر آئے ہوتے ہیں جہاں بات بات پر ایک دوسرے سے ہاتھا پائی ہوجانا، یا قتل کردینا بھی عام بات ہے۔ یہ ان کے معاشروں میں جاکر وہی بدتہذیبیاں شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کو آہستہ آہستہ احساس ہورہا ہے کہ مسلمان ان کے معاشروں میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس ویڈیو میں یہ جو بھوکے ننگے بے حال مسلمان بوسنیا کے مہاجر کیمپ میں پڑے ہیں اور یونائیٹڈ نیشن سے مدد کی اپیل کررہے ہیں، یہ جو یورپ جانے کیلئے اپنے انڈروئیر اتروا کر ننگے ہوکر مار بھی کھا آئے ہیں، انہی سے آپ پوچھ لیں تو یہ اپنے ملک کو اس نظام پر استوار کرنے کی مخالفت کریں گے جس پر یورپی ممالک استوار ہیں۔ اپنے ملک میں ان کو جبراً اسلام چاہئے، اپنے ملک میں یہ اقلیتوں کو دبا کر رکھنے کے حامی ہیں، اپنے ملک میں یہ عورتوں کو برقعوں میں لپیٹ کر معاشرے کی آدھی آبادی کو گھروں میں بٹھانے کے حامی ہیں، اپنے ملک میں یہ مذہب اور ریاستی امور کو الگ کرنے کے مخالف ہیں، مگر یورپ میں یہ سب ہونے کے باوجود یہ وہاں جانے کیلئے ننگا ہوکر مار کھانے کو بھی تیار ہیں۔
اس وقت دنیا میں کم و بیش پونے دو ارب مسلمان ہیں، پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں، کسی ایک بھی اسلامی ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں ہے، مسلمان ابھی تک اپنے ممالک میں جمہوریت تک نہیں قائم کرپائے ہیں، تو یہ تہذیب، شائستگی، برداشت، صنفی امتیاز سے چھٹکارا اور آزادی فکر کے مدارج کیسے طے کرسکتے ہیں، ان کو تو پتا ہی نہیں کہ یہ کن چڑیاؤں کے نام ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی غیر مہذب، بدتہذیب، بدتمیز اور عدم برداشت کے حامل لوگ ہیں اور یہ آج کے مہذب معاشروں میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ فرانس نے پہل کردی ہے، باقی یورپی ممالک کو بھی فرانس کی پیروی کرنی چاہئے، اپنے معاشروں سے مسلمانوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجیں، یہ اپنی الگ دنیا بنا کر رہیں، آئسولیٹ ہوکر رہیں،یہی ان کیلئے اور باقی دنیا کیلئے بہتر ہے۔۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو پاکستان میں ہر وقت اسلام اسلام کے نعرے لگاتے رہتے ہیں، پاکستان میں کوئی بھی حکومتی اقدام جو ملک کی بہتری کیلئے اٹھایا گیا ہو اور وہ ان کی نظر میں کسی بھی طرح مذہب سے متصادم ہو تو یہ پاکستانی مسلمان ہنگامہ مچادیتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور حکومت مجبور ہوجاتی ہے کہ ایسے اقدامات سے باز رہے۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان نے عاطف میاں کو اپنی اقتصادی ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کی تو اس پر جو الباکستانی مسلمانوں کی طرف سے ردعمل آیا، وہ اس کی تازہ مثال ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کے اسی رویہ کی وجہ سے آج تک پاکستان میں کوئی حکومت آبادی کو کنٹرول کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرپائی ہے۔۔ ان الباکستانی مسلمانوں نے اپنی بھرپور کوششوں سے پاکستان کو چودہ صدیاں پرانے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھا ہوا ہے۔۔
دوسری طرف یورپ ہے، جنہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر اس کو ریاستی امور سے الگ کردیا ہے اور ریاست کو خالصتاً تکنیکی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب میں فکری آزادی کو ترویج ملی ہے، لوگوں کو کھل کر سوچنے سمجھنے اور دماغ استعمال کرنے کی فضاء ملی تو وہاں علوم کے چشمے پھوٹ پڑے، نت نئی ایجادات، دریافتیں، سائنسی تحقیقات اور خلا کے اسرار کھلنے لگے۔ جدید دنیا کی تشکیل انہی معاشروں نے کی ہے، اس میں قدامت پسند، مذہب پرست مسلمانوں کا حصہ صفر ہے ۔۔
یورپی ممالک نے کئی صدیوں کی مسلسل محنت اور کاوش سے اپنے معاشرے بہتر کئے، وہاں صنفی امتیاز کو بتدریج ختم کیا گیا، مذہب کی بنیاد پر تفریق کو ختم کیا گیا، آج وہاں کوالٹی آف لائف مسلمان ممالک کی بہ نسبت اتنی بہتر ہے کہ مسلمان ممالک سے بے شمار لوگ وہاں غیر قانونی طور پر گھسنے کے چکر میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یورپی ممالک میں لاکھوں مسلمان اپنے پسماندہ ممالک سے اٹھ کر جارہائش پذیر ہوئے ہیں، وہاں کی دی ہوئی آزادیوں، تحفظ اور سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان ملکوں کی شہریت لے لیتے ہیں، مگر سوچ وہی فرسودہ رہتی ہے۔ یہ بھوکے ننگے مسلمان جب روزی روٹی کی تلاش میں یورپ پہنچتے ہیں تو وہاں ہر قسم کا گھسا پٹا کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہ سڑکوں پر جھاڑو لگاتے ہیں، یہ ہوٹلوں میں ویٹرز کا کام کرتے ہیں، یہ ان گوروں کے جھوٹے برتن دھوتے ہیں جن کو یہاں پاکستان میں نفرت سے گالیاں دیتے ہیں۔ یہ ڈالرز اور پاؤنڈز کیلئے ان کے ٹوائلٹ تک صاف کرتے ہیں۔۔
پھر جب ان کی جیب میں کچھ ڈالرز آجاتے ہیں، زندگی کچھ بہتر ہوجاتی ہے، پیچھے پاکستان میں بھوک سے مرتے ان کے خاندان کو زندگی بھی کچھ بہتر ہوجاتی ہے تو پھر یہ وہاں کے معاشروں پر اپنی سوچ لاگو کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ ان کی مذہبی سوچ کے مطابق چلیں، جو شخصیت ان کیلئے مقدس ہے، اس کو وہ بھی مقدس مانیں۔۔ یورپ کے لوگوں نے تو دو صدیوں کے مسلسل ارتقاء سے برداشت سیکھی ہے، مگر مسلمان ان معاشروں سے اٹھ کر آئے ہوتے ہیں جہاں بات بات پر ایک دوسرے سے ہاتھا پائی ہوجانا، یا قتل کردینا بھی عام بات ہے۔ یہ ان کے معاشروں میں جاکر وہی بدتہذیبیاں شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کو آہستہ آہستہ احساس ہورہا ہے کہ مسلمان ان کے معاشروں میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس ویڈیو میں یہ جو بھوکے ننگے بے حال مسلمان بوسنیا کے مہاجر کیمپ میں پڑے ہیں اور یونائیٹڈ نیشن سے مدد کی اپیل کررہے ہیں، یہ جو یورپ جانے کیلئے اپنے انڈروئیر اتروا کر ننگے ہوکر مار بھی کھا آئے ہیں، انہی سے آپ پوچھ لیں تو یہ اپنے ملک کو اس نظام پر استوار کرنے کی مخالفت کریں گے جس پر یورپی ممالک استوار ہیں۔ اپنے ملک میں ان کو جبراً اسلام چاہئے، اپنے ملک میں یہ اقلیتوں کو دبا کر رکھنے کے حامی ہیں، اپنے ملک میں یہ عورتوں کو برقعوں میں لپیٹ کر معاشرے کی آدھی آبادی کو گھروں میں بٹھانے کے حامی ہیں، اپنے ملک میں یہ مذہب اور ریاستی امور کو الگ کرنے کے مخالف ہیں، مگر یورپ میں یہ سب ہونے کے باوجود یہ وہاں جانے کیلئے ننگا ہوکر مار کھانے کو بھی تیار ہیں۔
اس وقت دنیا میں کم و بیش پونے دو ارب مسلمان ہیں، پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں، کسی ایک بھی اسلامی ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں ہے، مسلمان ابھی تک اپنے ممالک میں جمہوریت تک نہیں قائم کرپائے ہیں، تو یہ تہذیب، شائستگی، برداشت، صنفی امتیاز سے چھٹکارا اور آزادی فکر کے مدارج کیسے طے کرسکتے ہیں، ان کو تو پتا ہی نہیں کہ یہ کن چڑیاؤں کے نام ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی غیر مہذب، بدتہذیب، بدتمیز اور عدم برداشت کے حامل لوگ ہیں اور یہ آج کے مہذب معاشروں میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ فرانس نے پہل کردی ہے، باقی یورپی ممالک کو بھی فرانس کی پیروی کرنی چاہئے، اپنے معاشروں سے مسلمانوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجیں، یہ اپنی الگ دنیا بنا کر رہیں، آئسولیٹ ہوکر رہیں،یہی ان کیلئے اور باقی دنیا کیلئے بہتر ہے۔۔