What is behind “Absolutely Not “?
‘Absolutely not’: PM Imran Khan on giving Pakistani bases to US for Afghanistan operations
قطعی نہیں - پاکستان امریکہ کو افغانستان میں آپریشن کے لئے اپنی سر زمین پر اڈے نہیں دے گا
تھرڈ کلاس پاکستانی میڈیا میں جاری بحث سیاق اور سباق سے بلکل ہٹ کر انتہائی سطحی لیول پر کی جا رہی ہے . اسکی وجہ ہم سب جانتے ہیں . پاکستان کے گھٹیا ترین صحافیوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ عمران خان کے " قطعی نہیں " کے پیچھے مکمل سچ اور واقعات گجنی زومبیز کو بتا سکیں . یہ گھٹیا لوگ ڈنگ ٹپاؤ کام کرتے ہیں . اگر یہ لوگ مکمل سچ بولیں گے تو عمران خان کی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو جائے گا جو انہیں قابل قبول نہیں ہے . " قطعی نہیں " کے پیچھے ٢٠ سالوں کی امریکہ - افغانستان اور پاکستانی کی کہانی ہے
١- عمران خان پہلے دن سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے
کئی لوگوں کو لاہور کے لبرل ایچی سن کالج، کیتھڈرل سکول، برطانیہ میں رائل گرامر سکول کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے عمران خان کے بائیں بازو کے سیاست دان ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔
عمران خان کا افغانستان جنگ پر کہنا تھا کہ ’اس جنگ سے ہم نے دو اہم سبق سیکھے۔ ایک تو یہ پاکستان اور افغانستان جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے اس حد تک جڑے ہیں کہ دونوں کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ناگزیر ہے۔اس لیے پاکستان میں تب تک امن نہیں آئے گا جب تک افغانستان میں امن نہ آ جائے۔ اور دوسرا یہ کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام بیرونی قوتوں یا طاقت کے ذریعے سے نہیں لایا جا سکتا اور اس کے لیے افغان حمایت یافتہ اور افغان سربراہی میں امن عمل کی ضرورت ہے۔
وہ اس بات پر زور کیوں دے رہے ہیں اس بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 27 لاکھ افغان پناہ گزین بستے ہیں اور ان کی واپسی کا تعلق سیاسی معاملات سے تو ہے لیکن افغانستان کے معاشی اور سکیورٹی معاملات سے بھی ہے۔انھوں نے لکھا کہ 'گذشتہ چار دہائیوں کی کشیدگی کے دوران پاکستان نے 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ذمہ داری بھی لیے رکھی۔ اس دوران ہمارے ملک میں اسلحے اور منشیات کا داخلہ بھی جاری رہا جس نے ہمارے معاشرے کے چند حصوں میں شدت پسند نظریات کو فروغ دیا۔
عمران خان ہمیشہ افغانستان میں طاقت کی بجائے سیاسی حل کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کا بھی وہ کریڈٹ لیتے ہیں. بطور سیاسی لیڈر عمران خان پہلے دن سے دنیا کو باور کروانے کی کوشش کر رہے تھے کا افغانستان کا حل جنگ سے نہیں بلکہ طالبان سے بات چیت کر کے ہی ممکن ہے . عمران خان کو پیپلز پارٹی والوں نے "طالبان خان" کا لقب دے دیا تھا . پاکستانی صحافتی طوائفوں نے انہیں یہ یاد کروانا ضروری نہیں سمجھا کہ طالبان کا وجود بینظیر بھٹو کے ہاتھوں ہوا تھا
٢٠ سالوں کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عمران خان کی بات کیسے سچی ہوئی . امریکیوں نے ٢٠ سال افغانستان میں سو چھتر بھی کھائے اور سو پیاز بھی ٢٠ سالوں بعد امریکیوں کی کھوتی واپس بوڑھ کے نیچے تھی . امریکہ نے 11 ستمبر سے اپنی افواج افغانستان سے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔
Afghan conflict: US and Taliban sign deal to end 18-year war
The deal was signed by US special envoy Zalmay Khalilzad and Taliban political chief Mullah Abdul Ghani Baradar with US Secretary of State Mike Pompeo as a witness.
The peace treaty was signed between the U.S. and the Taliban on February 29, 2020, which called for the withdrawal of American troops from Afghanistan within 14 months if the Taliban upheld the terms of the agreement.
٢- قطعی نہیں ....کے پیچھے عمران خان کی سوچ کارفرما ہے ہےیا فوج کی ؟
ایک اور صحافتی طوائف سلیم صافی کا کہنا ہے کہ ، یہ عمران خان کا نہیں بلکہ فوج کا بیان ہے . میں اس گھٹیا لعنتی شخص کو یہ یاد کروانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی جرنیلوں کی نسلیں آج کھربوں میں کھیل رہی ہیں . پاکستانی جرنیلوں نے اقتدار اور دولت کی لالچ میں امریکہ کے سامنے کوڈے رہے . خود بھی مروائی اور قوم کو بھی مروایا
پرویز مشرف نے اپنی کتاب 'ان دی لائن آف فائر' میں لکھا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کے 689 دہشت گرد پکڑے جن میں سے 369 کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ جس کے بدلے امریکہ نے پاکستان کو بھاری معاوضہ دیا۔ کولیٹرل ڈیمج میں پاکستان فوجی بھی شہید کئے گئے
امریکہ نے 11 جون 2008 کو پاکستان کے ایک سرحدی علاقے میں ایک فضائی حملہ کیا جس میں پاکستان نے اپنے 11 فوجی اہلکاروں کی شہادت کا دعویٰ کیا تھا ۔ پاکستانی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ نومبر 2011 میں اتحادی افواج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے سلالہ کی چوکی پر ایک فضائی حملہ کیا جس میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ اس واقعے نے پاکستان اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
٣- افغانستان جنگ میں امریکہ اور پاکستان کو کتنا نقصان ہوا
عمران خان کے " قطعی نہیں " کے پیچھے پاکستان کے جانی اور مالی نقصانات کا مکمل ڈیٹا بھی ذھن نشین کرنا چاہئے . ہم سب جانتے ہیں کہ افغانی پاکستان کے بھر پور مخالف ہیں . وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں بدامنی کے پیچھے پاکستان ہے . پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ افغانی نمک حرام قوم ہے . وہ پاکستانیوں کا کھاتے بھی ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں . ہمیں عوامی نفسیات کے عوامل کو سمجھنا ہو گا
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی، تورا بورا واقعے کے بعد عسکریت پسند قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے، قبائلی علاقوں کے عوام کو جنگ کے نتیجے میں شدید مشکلات اٹھانی پڑیں، ہمیں اس جنگ میں غیرمتعلق رہنا چاہیے تھا۔عمران خان نے مزید کہا کہ امریکا کا ساتھ دینے پر عسکریت پسند ہماری فورسز کیخلاف ہوگئے، اب پاکستان میں پہلی بار عسکریت پسند گروپوں کو غیرمسلح کیا جارہا ہے، پاکستان کی فوج حکومت کے پروگرام کے ساتھ ہے. عمران خان کا موقف تھا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پاکستان کو اس جنگ میں ملوث ہونا پڑا، دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ہزاروں جانیں قربان ہوئیں۔
امریکن کا نقصان
حقیقت میں امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں تین سے 6ٹریلین سے زیادہ نقصان ہوا اور آخر میں شکشت کا سامنا بھی
اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، جو امریکہ کے بقول اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر افراد جو نائن الیون حملوں سے وابستہ ہیں، انھیں پناہ دے رہے تھے۔امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔'کاسٹ آف دی وار' منصوبے کے شریک ڈائریکٹر نیٹا کرورفورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں 'جنگ کے سابق فوجیوں کی دیکھ بھال، جنگ سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے دوسرے سرکاری محکموں پر خرچ کی جانے والی رقم اور قرض پر سود کی لاگت کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے
کہ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
جب سے ( ٢٠٠١ ) طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں. افغان صدر اشرف نےکہا تھا کہ 2014 میں ان
کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور بعض اوقات ایک دن میں اوسطاً 30 سے 40 اموات ہوتی ہیں۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے مطابق جب سے اس نے 2009 میں باقاعدگی سے شہری ہلاکتوں کا شمار رکھنا شروع کیا تھا تب سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان کے نقصانات
پاکستانی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان میں کاروباری لوگوں نے آنا چھوڑ دیا تھا . پاکستان میں عالمی کرکٹ ختم ہو گئی تھی . دنیا بھر میں پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ سمجھ لیا گیا تھا اور ہالی ووڈ کی فلموں میں پاکستان کو بطور دہشت گرد ملک دکھایا جاتا تھا
عمران خان دنیا کو بتاتے رہے کہ امریکی مدد کے مقابلے میں پاکستان کو جانی اور مالی نقصان اتنا بڑا تھا کہ پاکستان آجتک اسکے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکا . قطعی نہیں کے پیچھے یہ سوچ بھی کار فرما ہے . افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر شدت پسندوں نے پاکستان کو بھی نشانہ بنایا اور پاکستان میں حملے کرنا شروع کیے۔امریکہ کا ساتھ دینے پر ماضی میں پاکستان کی حمایت سے افغانستان میں سرگرم رہنے والے عسکری گروہوں نے پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے خلاف حملوں کو جائز قرار دیا۔اس دوران پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے طول و عرض میں خود کش حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دہشت گردی کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سال 2009 تھا جب دہشت گردوں کے مختلف حملوں میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں 2008 میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) منظم ہوئی اور اس نے پاکستانی فوج کے علاوہ شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ تحریک طالبان نے خاص طور پر مالاکنڈ ڈویژن یعنی سوات کے علاقوں میں اپنا اثر و رُسوخ بڑھایا۔
پاکستان کی مالی معاونت اٹے میں نمک کے برابر
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر 2003 میں امریکہ نے پاکستان کے ذمے واجب الادا ایک ارب ڈالرز کا قرض معاف کرنے کا بھی اعلان کیا۔
سابق امریکی صدر جارج بش نے 2004 میں پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم اتحادی ملک بھی قرار دیا۔امریکہ کی کانگریس میں پیش کی گئی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو فوجی اور معاشی معاونت کے لیے 2001 سے 2013 تک 25 ارب ڈالرز سے زائد رقم دی۔ فوجی معاونت کے لیے پاکستان کو 18 ارب ڈالر سے زائد اور معاشی معاونت کے لیے آٹھ ارب ڈالرز سے زائد رقم فراہم کی گئی۔
٤- ڈرون حملوں کے مضمرات
جیسا کہ میں نے بیان کر رہا ہوں کہ " قطعی نہیں کے پیچھے ایک مکمل سائنس ہے . سیاستدان دعوے بہت کرتے ہیں مگر عمران خان نے اپنی حکومت میں کر کے بھی دکھایا کیونکے عمران خان کا ذھن پہلے دن سے کلئیر تھا
عمران خان ماضی طرح آج بھی اس پر قائم ہیں . عمران خان نے کسی بھی دوسرے لیول کے سرکاری امریکی اہلکار سے ملنا مناسب نہ سمجھا اور امریکہ کو واضح پیغام دیا کے معاملات صرف ہیڈ آف اسٹیٹ کے لیول پر طے ہوں گے
ماضی میں جب تحریک انصاف حکومت میں نہیں تھی تو عمران خان خطے میں امریکی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان میں بھرپور مہم چلائی اور قبائلی علاقے وزیرستان تک احتجاجی مارچ بھی کیا اور دستخط مہم چلائی۔ ان کا اصرار رہتا تھا کہ ڈرون حملے اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہیں اور قانون کسی مشتبہ شخص کو اس کے اہل خانہ سمیت مارنے کی اجازت نہیں دیتا چاہیے وہ دنیا کا نمبر ون دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے عمران خان پاکستانی شدت پسندوں کی 'گڈ بکس' میں رہے اور انہوں نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا۔
لیکن ماضی میں مسئلہ یہ رہا کہ نہ امریکہ اور نہ ہی طالبان بات چیت کے لیے تیار رہے۔ تاہم پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ اسامہ کو ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کی حدود میں شدت پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے پہلا ڈرون حملہ 18 جون 2004 کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں ہوا جس کے بعد پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخری ڈرون حملہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے نزدیک جون 2018 میں کیا گیا تھا۔
ڈیٹا مرتب کرنے والے ایک ادارے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ حملے 2010 میں ہوئے جب امریکہ نے پاکستان کے مختلف قبائلی اضلاع میں 115 سے زائد ڈرون حملے کیے۔واضح رہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے اور پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی امریکہ کی جانب سے ہونے والے ڈرون حملوں کے شدید مخالف تھے۔
عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف نومبر 2013 میں دھرنا دیتے ہوئے اتحادی فوجوں کو سامان کی ترسیل بھی روک دی تھی۔ خیال رہے کہ اُس وقت پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ جہاں سے اتحادی افواج کے لیے سپلائی براستہ پاکستان افغانستان جاتی تھی۔