میرے موکل پر قابل ضمانت دفعات لگتی ہیں، نورمقدم کیس میں خواجہ حارث کے دلائل

noor111.jpg



اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی، اس موقع پر ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔

وکیل خواجہ حارث نے دوران سماعت چالان رپورٹ پڑھی اور کہا کہ پولیس ظاہر جعفر کے بیان پر انحصار کر رہی ہے، ریمانڈ میں لینے کے بعد میرے موکل سے کوئی بیان نہیں لیا گیا، معلوم نہیں پولیس نے اپنی مسل پر کیا لکھا ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس کو پہلے بتا دیا جاتا تو نور کی جان بچ سکتی تھی،چالان کے مطابق 19 جولائی اور 20 جولائی کو ملزم کا والد سے رابطہ ہوا، تھراپی ورکس کو سات بج کر پانچ منٹ پر ذاکر جعفر نے کال کی، مان لیتے ہیں کہ ملزم نے کالز کی ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بات کیا ہوئی۔

اس موقع پر عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ تھراپی ورکس والے ملزمان نامزد ہیں یا گواہ ہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تھراپی ورکس والے بھی کیس میں ملزم نامزد ہیں۔

عدالت نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر 7:05 پر تھراپی ورکس کو کال کی گئی تو واقعہ ساڑھے چھ سے سات کے دوران ہو سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے پولیس کو کال کر کے کہا کہ ظاہر جعفر کی حالت ٹھیک نہیں اسے لے جائیں، پہلے تو یہ معلوم ہی نہیں کہ ظاہر جعفر نے والدین کو قتل کا بتایا تھا،اگر یہ معلوم بھی ہو اور تھراپی ورکس والے ثبوت مٹانے گئے ہوں پھر بھی یہ کیس نہیں بنتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پولیس تفتیش میں گرے ایریاز موجود ہیں ،ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی پر اس الزام میں بھی قابل ضمانت دفعات لگتی ہیں،پولیس نے ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کا صرف دو روزہ جسمانی ریمانڈ لیا، اگر انکے خلاف اتنا مواد موجود ہوتا تو اسکا زیادہ ریمانڈ لیا جاتا۔

عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے خواجہ حارث کا اگلی سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔