طالبان کو ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان پر قبضے کے قابل بنایا، امریکی سینیٹر

chris12.jpg




امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے بڑا انکشاف کر دیا، کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا ہے۔

تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا ہے۔

امریکی سینیٹر نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

1959 میں پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہونے والے میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر نے کراچی میں پیدا ہونے والے میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر نے گزشتہ روز ہونے والی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی سماعت کے دوران یہ انکشاف کیا، یہ افغانستان سے امریکی انخلا پر سینیٹ کی پہلی سماعت تھی، انہوں نے سماعت کے دوران دلیل دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں انتشار پھیلنےاور خانہ جنگی کی روک تھام کرے۔

افغانستان سے امریکی انخلا پر سینیٹ کی پہلی سماعت کے دوران کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے بائیڈن انتظامیہ کو افراتفری کا اور طالبان کے افغانستان پر قبضے کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ دیگر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس نے 20 سال کی جنگ کے دوران افغان طالبان کی مبینہ حمایت پر پاکستان کو نشانہ بنایا۔

الزامات کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر وان ہولن نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے سوال کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے افغان عمل کے تحت تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر انٹونی بلنکن نے اس بات کے سچ ہونے کی گواہی دی۔

سینیٹر وان ہولن نے مزید سوالات کئے جن میں عبدالغنی برادر کے رہا ہونے والوں میں شامل ہونے، دوحہ مذاکرات میں سابق افغان حکومت کو شامل نہ کرنے اور ان پر 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے جیسے سوالات شامل تھے جن کے درست ہونے کی انٹونی بلنکن نے تصدیق کی۔

سینیٹر وان ہولن نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو یاد دلایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر بھی مئی تک افواج نہ نکالنے پر تنقید کی تھی جیسا کہ امریکا طالبان معاہدے کے تحت امریکی افواج کے مئی تک افغانستان سے نکل جانے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان اور بھارت دونوں کو افغان تنازع میں شامل کیا ہے کیونکہ علاقائی پلیئرز کو شامل کیے بغیر اس تنازع کو حل نہیں کیا جاسکتا۔

سینیٹر وان ہولن نے پاکستان کے اس تنازع کے پرامن حل کے لئے دلچسپی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک میں سے کم از کم پاکستان، افغانستان میں انتشار اور خانہ جنگی کو روکنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

تاہم انٹونی بلنکن نے بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک سے آگاہ ہے جو افغانستان کی صورت حال کو حل کرنے کی کوشش میں اہم ہیں۔

دوسری جانب کمیٹی کے سینئر ریپبلکن سینیٹر جیمز ریش نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے تاہم خبردار کیا کہ 'یہ کانگریس کی وسیع مشاورت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

جو الله کو منظور تھا وہ ہو گیا . تم لوگوں نے جن پر ٢٠ سال ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے الحمدللہ آج وہ حکمران ہیں . یاد رکھو وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا
تمہاری رہتی سہتی اکڑ اب چینے نکال دیں گے . اینڈ آف دا سٹوری

اور ہاں جیسے انگریز مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو سلطان کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں اب تمہاری مائیں طالبان کا نام لے کر اپنے بچوں کو ڈرایا کریں گی
اسی کا نام زندگی ہے