ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے دائر درخواستیں ناقابل سماعت قرار

Resilient

Minister (2k+ posts)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے دائر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا ہے۔

پیر کو سپریم کورٹ نے صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا حکم جاری کرنے کی تمام درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین میں عدالت کو ایسا کوئی اختیار نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار وکیل احمد رضا قصوری نے مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹرار کو درخواستیں مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سے پوچھا کہ ان کی درخواستیں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں؟ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتیں موجود ہیں ان کی موجودگی میں عدالت کیوں آنا پڑا؟

احمد رضا قصوری نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف گاکم گلوچ ہوتی ہے، سیاستدان اگر ملک کے مفاد اور فلاح کا نہیں سوچتے تو کیا میں بھی خاموش ہو جاؤں؟

وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’آئین پاکستان کے بانی افراد میں سے میں واحد زندہ شخص اس وقت ملک میں موجود ہوں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 6 کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کے لیے معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں، کیا یہ معاملہ ابھی تک وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا صدارتی نظام کا نفاذ صرف فرد واحد کی خواہش ہے؟

احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ فرد واحد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’قصوری صاحب آئین بن رہا تھا اور آپ اس وقت رکن پارلیمنٹ تھے، آپ آئین کے بانی تھے تب پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟‘


ahmedrazakasuriafp-1394056033.jpg

وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’آئین پاکستان کے بانی افراد میں سے میں واحد زندہ شخص ہوں۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ ’میں نے تو آئین بناتے وقت بھی آئین کے دستاویز کی مخالفت کی تھی۔‘

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا کوئی بھی شخص عدالت آ کر وزیر اعظم کو ہدایات جاری کرا سکتا ہے کہ ریفرنڈم کرائے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدارتی نظام کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کس بنیاد پر ریفرنڈم کرانے کا حکم دے؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم اور صدارتی نظام کا تجربہ اس قوم کے لیے اچھا نہیں رہا۔ سنہ 1984 میں ریفرنڈم ہوا کہ اسلام چاہیے تو میں صدر ہوں۔

سینیئر وکیل احمد رضا قصوری اور دیگر نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے درخواستیں دائر کر کے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ دینے کی استدعا کی تھی۔


 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

سپریم کورٹ ٹھیک کہہ رہی ہے
قصوری صاحب بگھی کو گھوڑے کے آگے جوت کر اپنی الگ ہی گھوڑا گاڑی بنا رہے ہیں . جب آئین میں ریفرینڈم کا طریقہ کار صاف الفاظ میں وضع ہے تو انہیں اپنی ہوشیاریاں دکھانے کی کیا ضرورت ہے ؟؟

درخواست خارج کرنے کے ساتھ ساتھ موصوف پر عدالت کا وقت ضائع کرنے پر انہیں بھاری جرمانہ بھی ہونا چاہیے تھا
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Koi achi cheez ho beech mein supreme court tang arda deti hai. Yeh courts hi mulk ki tabai ka bias banay gi
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
سوال جواب صرف دوسروں سے کرتے ھیں
اپنا ایک پیٹی بھائی آیا تو سب سوال بھول گے۔
انکے بھی مزے لگے ہوئے ہے تھرڈ ڈویژن بی اے پاس جب فیصلہ لکھتے ہیں تو ان میں ایک بھی قانونی سُقم کے معیار پر نہیں اترتا۔
انکے لکھے فیصلے ایک جونیئر سیول جج فالو نہیں کرتا۔
ملک اور قوم کا ٹائم اور پیسے کا ضیا ہے۔
جس کو باپ کی خدمات کرنے پر ضمانت دی دنیا کی تاریخ میں ایسا فیصلہ نہیں آیا،
اب وہ بیٹھی ویڈیو ریلیز کر رھی ھے