بلوچستان اسمبلی : مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے 4 اراکین منظر عام پر آ گئے

jam.jpg


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی اپنا اقتدار بچانے کی کوششیں جاری ہیں، اور وہ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے پراعتماد بھی ہیں، جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہوجائے فیصلہ نہیں ہوتا، انہوں نے پروگرام میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کیخلاف بھی اکثریت نے عدم اعتماد کی حمایت کی تھی لیکن فیصلہ ان کے حق میں آیا تھا۔


جام کمال نے مزید کہا کہ مخالفین نے اپنے پینتیس ارکان ایک گھر میں بند کرکے پہرے لگادیئے ہیں، شکایات تو ہمیں ہونی چاہئے، کیونکہ مخالفین میں سے کوئی وزیراعلیٰ بننا چاہتا ہے تو کوئی اچھی وزات چاہتا ہے، لالچ مخالفین میں ہے،ہم میں ںہیں، ہار جیت سیاست کا حصہ ہے، جیت ہماری ہی ہوگی لیکن اگر ناکامی بھی ہوئی تو بہترین اپوزیشن ابھر کر سامنے آئیں گے،ہمارے اراکین تو کھلے عام گھوم رہے ہیں، ہمیں تو خطرہ ہے انہوں نے لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ پریشان بھی ہیں۔


دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما ظہور بلیدی کہ چکے ہیں کہ چار اراکین نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے ہیں، اس کے بعد معلوم نہیں کہ اُنھیں زمین کھا گئی یا آسمان؟ اب بھی 34 کے قریب ارکان ان کے ساتھ ہیں،مبینہ طور پر لاپتہ اراکین بلوچستان اسمبلی اکبر آسکانی، بشریٰ رند، لیلیٰ زرین اور مہ جبیں شیران نے اپنے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی تردید کر دی ہے۔

جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق اکبر آسکانی نے کہا وہ کام کے سلسلے میں اسلام آباد گئے تھے، اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہیں،مہ جبیں شیران نے کہا تحریک عدم اعتماد کے دن وہ اور ان کے ساتھی کچھ مصروفیات کے باعث اسمبلی نہیں پہنچ سکے تھے جبکہ بشریٰ رند نے کہا کہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ تھیں اور رہیں گی،بلوچستان اسمبلی نے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کی کارروائی کا ایجنڈا جاری کر دیا ہے، رائے شماری 25 اکتوبر کو دن 11 بجے ہو گی۔