اللہ کے نیک بندے جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل

Amal

Chief Minister (5k+ posts)



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے
... وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ
اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ، فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔
( الإسراء:17 - آيت:27 )
اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
الاعراف، 7 : 31

مال و دولت کے بارے میں صحیح اسلامی تصور نہ ہونے اور اس سلسلے میں احساسِ ذمہ داری کے فقدان کے سبب مال کو خرچ کرنے میں آدمی حد سے تجاوز کر جاتا ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس خراب عادت میں مبتلا لوگوں کے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے

اسراف نہ کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
الأنعام:6 - آيت:141

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27

اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے
بنی اسرائيل، 17 : 29

علاوہ ازیں کھانے کے لیے سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، مردوں کیلئے ریشمی کپڑے، شادی بیاہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے
جو چاہو کھاؤ ، جو چاہو پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ، اسراف اور تکبر سے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب اللباس )

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بطور خاص میانہ روی کا حکم دیا ہے ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے
وہ لوگ (اللہ کے نیک بندے) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔
( الفرقان:25 - آيت:67 )

اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے
آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے ۔
( مسند احمد )


 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے
... وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ
اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ، فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔
( الإسراء:17 - آيت:27 )
اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
الاعراف، 7 : 31

مال و دولت کے بارے میں صحیح اسلامی تصور نہ ہونے اور اس سلسلے میں احساسِ ذمہ داری کے فقدان کے سبب مال کو خرچ کرنے میں آدمی حد سے تجاوز کر جاتا ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس خراب عادت میں مبتلا لوگوں کے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے

اسراف نہ کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
الأنعام:6 - آيت:141

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27

اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے
بنی اسرائيل، 17 : 29

علاوہ ازیں کھانے کے لیے سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، مردوں کیلئے ریشمی کپڑے، شادی بیاہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے
جو چاہو کھاؤ ، جو چاہو پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ، اسراف اور تکبر سے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب اللباس )

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بطور خاص میانہ روی کا حکم دیا ہے ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے
وہ لوگ (اللہ کے نیک بندے) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔
( الفرقان:25 - آيت:67 )

اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے
آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے ۔
( مسند احمد )




Amal thank you for sharing and reminding us "Ehkaam e Illahi" and "Ehkaam e Rasool Allah SAW".
Baark Allah Feeh.
 

Behrouz27

Minister (2k+ posts)



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے
... وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ
اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ، فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔
( الإسراء:17 - آيت:27 )
اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
الاعراف، 7 : 31

مال و دولت کے بارے میں صحیح اسلامی تصور نہ ہونے اور اس سلسلے میں احساسِ ذمہ داری کے فقدان کے سبب مال کو خرچ کرنے میں آدمی حد سے تجاوز کر جاتا ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس خراب عادت میں مبتلا لوگوں کے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے

اسراف نہ کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
الأنعام:6 - آيت:141

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27

اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے
بنی اسرائيل، 17 : 29

علاوہ ازیں کھانے کے لیے سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال، مردوں کیلئے ریشمی کپڑے، شادی بیاہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے
جو چاہو کھاؤ ، جو چاہو پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ، اسراف اور تکبر سے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب اللباس )

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بطور خاص میانہ روی کا حکم دیا ہے ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے
وہ لوگ (اللہ کے نیک بندے) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔
( الفرقان:25 - آيت:67 )

اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے
آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے ۔
( مسند احمد )



جزاک اللہ خیر