بنیادی مسائل کے حل کیلئے گوادر میں ہزاروں خواتین کا احتجاج

2gwadar.jpg

گوادرمیں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے جمع ہوکر اپنے مطالبات کے حق میں ریلی نکالی، مظاہرین کا سب سے اہم مطالبہ گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری بند کرنے کا ہے۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین ومبصرین گوادر میں خواتین کی اس ریلی کو تاریخی قرار دے رہے ہیں کیونکہ گوادر سمیت پورے بلوچستان میں اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں خواتین نے جمع ہوکر اپنے مطالبات کے حق میں کبھی ریلی نہیں نکالی۔

https://twitter.com/x/status/1465725441629696003
رپورٹس کے مطابق یہ ریلی" گوادر کوحق دو تحریک" کے زیر انتظام منعقد کی گئی ہے، گوادر کے علاقے میرین ڈرائیو سے احتجاجی ریلی کا آغاز ہوا جس میں بڑی تعداد میں خواتین شریک تھیں، مظاہرین کی اکثریت نے نقاب، ماسک اور برقعے پہن رکھے تھے، ریلی میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ ان کے دودھ پیتے بچے بھی شریک تھے۔

https://twitter.com/x/status/1465293724087468032
تین کلومیٹر کے مارچ کے بعد ریلی جی ڈی اے پارک کے قریب پہنچی اور وہاں جاکر ایک جلسے میں تبدیل ہوگئی۔ اس تحریک کےتحت ہی گزشتہ پندرہ دنوں سے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت اللہ کی زیر قیادت دھرنا بھی دیا جارہا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1465348836319272969
https://twitter.com/x/status/1465286303499657218
مظاہرین نے گوادر کے حق اور اپنے مطالبات سے مزین پلے کارڈز اور پوسٹرز اٹھار کھے تھے جس پر مختلف نعرے اور مطالبات تحریر تھے، مظاہرین کا سب سے بڑا مطالبہ گوادر سے غیر قانونی ماہی گیری کا خاتمہ کروانا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1465292917711544329
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت اللہ نے کہا کہ گوادر کی ترقی کیلئے خواتین کی اتنی بڑی تعداد کا گھر سے نکل کر احتجاج کرنا غیر معمولی بات ہے، خواتین اپنے مسائل اور فاقوں سے تنگ آکر گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئی ہیں۔

https://twitter.com/x/status/1465291961477341184
خواتین مقررین نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کی ترقی کے بہت دعوے سنے ہیں مگر یہ کیسے دعوے ہیں کہ یہاں کے لوگ بنیادی ضروریات اور روزگار کیلئے پریشان ہیں ہمارے پاس نہ پینے کا صاف پانی ہے نا بجلی ، تعلیم اور صحت کی سہولت، ہمارا واحد ذریعہ آمدن سمندر ہے لیکن مقامی لوگوں کو ا ن کے اس حق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
 
Last edited by a moderator: