سوشل میڈیا پر اس وقت 2 ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں جن میں #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام اور #ملک_کی_بقا_اسلامی_نظام شامل ہیں۔
گزشتہ روز #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام کے نام سے ٹرینڈچلا جس میں سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے جس میں حکومت بنانے کیلئے خریدوفروخت کرنا پڑتی ہے۔نہ عدالتیں کیسز کے فیصلے کرتی ہیں اور نہ انصاف کرتی ہیں، نہ حکومتیں ڈلیور کرتی ہیں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سلامی نظامِ حکومت کے قریب تر اگر کوئی نظام ہے تو وہ صدارتی نظام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں اگر ترقی ہے تو صرف صدارتی نظام کی وجہ سے کیونکہ صدر کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور وہ فیصلوں میں خودمختار ہوتا ہے۔
اس ضمن میں ایک سوشل میڈیا صارف نے ڈاکٹر اسرار کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس پارلیمانی نظام کی لعنت جو انگریزوں سے ہمیں وراثت کے طور پر ملی ہے۔ اسے چھوڑ کر صدارتی نظام نافذ کیا جائے جو نظام خلافت کے قریب تر ہے۔ انہوں نے ہم سے ہی صدارتی نظام لیا ہے۔
ڈاکٹر اسرار مزید کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی نظام خلافت سے مستعار لیا تھا جس میں مواخذہ بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مواخذے کی بات ہوئی تو نکسن بھاگ کھڑا ہوا۔ صدارتی نظام کیساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کی ضرورت ہے۔ پھر ہی لوگوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔
دوسری جانب #ملک_کی_بقا_اسلامی_نظام ٹرینڈ چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اسلامی نظام ہونا چاہئے۔
یہ ٹرینڈ چلانے والوں کی اکثریت مولانا فضل الرحمان سے تھی جبکہ دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی اس ٹرینڈ میں شریک ہوئے۔
جے یو آئی ف کے حامیوں نے اسلامی نظام کے حق میں دلائل نہیں دئیے، وہ ان کا اکتفا صرف مولانا فضل الرحمان کی شخصیت کی تعریف کرتے رہے، جلسے جلوسوں کی تصاویر شائع کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ ٹرینڈ #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام کے کاؤنٹر میں شروع کیا گیا ہے اور سارا فوکس اپنے ٹرینڈ کو اسکے مقابلے میں ٹاپ پر پہنچانے پر ہیں۔
مولانا فضل الرحمان صدارتی نظام کے سخت مخالف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ صدارتی نظام ملکی آئین اور فیڈریشن کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کی قسم کھاچکے ہیں اور آئین کو سبوتاژ کرنیکی اجازت نہیں دیں گے۔
مولانا فضل الرحمان پارلیمانی نظام کے حامی ہیں اور ماضی میں اسی پارلیمانی نظام کے تحت مختلف حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وہ آئین کو ختم کرکے نیا اسلامی آئین لانے کے بھی مخالف ہیں تو ایسے میں یہ ٹرینڈ سمجھ سے باہر ہے۔
یہ ٹرینڈ چلانے والے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاپارہے کہ اس اسلامی نظام کس طرح رائج ہوگا؟ اسلامی نظام کے تحت ملکی سربراہ کیسا ہوگا؟ اسکی کیا ذمہ داریاں ہوں گی؟اسلامی نظام کے تحت گورننس کا ماڈل کیسا ہوگا؟
ایسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات نہیں ہیں، اگر جے یو آئی ف اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن اس ٹرینڈ کے تحت دلائل دیں تو دلائل کاانبار لگاسکتے ہیں جیسے اسلام نے سودی نظام سے منع کیا ہے، وہ عدالتی نظام کو حضور ﷺ کے اس واقعے سے جوڑسکتے تھے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اسکا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔
ایک حکمران سے سوال یا اسکے احتساب پر حضرت عمرفاروق اور حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کا حوالہ دے سکتے تھے۔کاروبار، معیشت، صحت، تعلیم، دیگر ایشوز پر دلائل کا انبار لگاسکتے تھے، خلفائے راشدین کے مختلف واقعات اور اقدامات کا حوالہ دے سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ٹرینڈ کو ٹاپ پرپہنچانے پر ہی تمام فوکس رہا۔
ڈاکٹر عبدالباسط نے سوال اٹھایا کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ کائنات کا نظام چلانے کیلئے خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین ہی تمام مسائل کا حل ہیں۔ پر سوال یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں کوئی ایسا لیڈر ہو جو اسلامی نظام قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اور اس پر باقی مذہبی جماعتیں مطمئن ہو جائیں