طالبان کی قید،اسلام قبول کرنے والےآسٹریلوی پروفیسرافغانستان جانےکےخواہاں

61e5758755642 (1).jpg


2016 میں کابل میں واقع امریکی یونیورسٹی کے باہر سے اغوا ہونے والے آسٹریلوی پروفیسر ٹموتھی ویکس لمبے عرصے تک طالبان کی قید میں رہے اور پھر وہیں اسلام قبول کر لیا، انہوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ایک بار پھر سے افغانستان جانا چاہتے ہیں اور وہاں تعلیم کے میدان میں بچوں اور خواتین کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں پروفیسر ٹموتھی ویکس (جبرئیل عمر) نے بتایا کہ ان کو 2016 میں کیون کینگ کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد کافی عرصے تک طالبان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو پھر ان کی طالبان سے دوستی ہو گئی اور ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔

یاد رہے کہ ٹموتھی ویکس کو طالبان نے 2016 میں کابل میں امریکی یونیورسٹی کے باہر دوسرے پرفیسر کیون کنگ کے ہمراہ اغوا کیا تھا اور انہیں نومبر 2019 میں افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن مذاکرات معاہدے کے تحت آزاد کیا گیا تھا۔ ٹموتھی ویکس نے طالبان کی قید کے دوران 2018 میں اسلام قبول کیا تھا اور اپنا نام تبدیل کرکے جبرئیل عمر رکھا تھا۔

61e574f6d7f16.jpg


ٹموتھی ویکس طالبان کی قید میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے دوسرے مغربی شخص تھے، ان سے قبل 2001 میں برطانوی صحافی ایوان رڈلے نے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم رکھا تھا۔ جبرئیل عمر کو نومبر 2019 میں امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور انس حقانی سمیت تین اہم طالبان رہنماؤں کی آزادی کے بدلے چھوڑا گیا تھا۔

جبرئیل عمر کا کہنا تھا کہ جب وہ طالبان کی قید سے آزاد ہوکر آسٹریلیا پہنچے اور وہاں لوگوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو ان پر تھوکا گیا، انہیں کتا کہا گیا، ان کے لیے نامناسب زبان استعمال کی گئی۔ ان کے مسلمان ہونے کے بعد آسٹریلیا میں ان کی مذہب کی بنیاد تضحیک کی گئی جو کہ وہاں کے قانون کے حساب سے جرم ہے مگر ان پر کیچڑ اچھالنے والوں کو کچھ نہیں کیا گیا۔

61e575d40d358.jpg


جبرئیل عمر نے خصوصی انٹرویو میں افغانستان جاکر وہاں بچوں اور خواتین کی تعلیم پر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہ تو افغانی ہیں اور نہ ہی طالبان کا حصہ ہیں مگر وہ وہاں حالیہ افغان طالبان حکومت کی اجازت اور تعاون سے وہاں جاکر بچوں اور خواتین کی تعلیم پر کام کام کرنا چاہتے ہیں۔