حکومت کی جانب سے ضابطہ فوجداری میں ترامیم کی جارہی ہیں جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں بار کے صدر محمد احسن بھون کا کہنا تھا کہ وفاقی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے ضابطہ فوجداری میں جو نام نہاد ترامیم پیش کی گئی ہیں اس کیلئے کسی بھی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر قانونی وعمومی مشاورت کے بغیر ایسی ترامیم موجودہ کرمنل جسٹس سسٹم کو مزید پیچیدگیوں میں ڈال دیں گی اور انصاف کی روح کو مجروح کرنے کا سبب بنیں گی۔
دوسری جانب وزارت قانون وانصاف نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی پریس ریلیز مسترد کردی ہے ۔
وزارت قانون نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ فوجداری قوانین میں ترامیم کا مسودہ تمام بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو ارسال کیا گیا تھا، جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ترمیم کے حوالے سے کوئی رائے نہیں دی گئی۔
وزارتِ قانون کے مطابق مجوزہ ترامیم عوام کو فوری انصاف کے لیے مددگار ہوں گی، ترامیم کی مخالفت کرنے والے قومی مفاد میں نہیں ہیں کیونکہ وکلا برادری نے وزیر قانون کی جانب سے قوانین میں اصلاحات کا خیر مقدم کیا ہے۔
واضح رہے کہ وزارت قانون و انصاف کی جانب سے ضابطہ فواجداری میں ترامیم کی تیاری کی جارہی ہے جن کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔
ضابطہ فوجداری میں جن تبدیلیوں کی تجاویز کی گئی ہیں ان میں ایس ایچ او کیلئے کم از کم گریجویشن تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا جائے گا۔
مقدمات کا ٹرائل 9 ماہ میں کیا جائے گا، التوا تین دن سے طویل نہیں ہوگا، جبکہ گواہان کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروانےکی سہولت دی جائے گی جبکہ مفرور ملزمان کے بینک اکاؤنٹس منجمد اور شناختی کارڈز بھی بلاک کئے جاسکیں گے۔