جاوید چوہدری نے عمران کا 9 حلقوں سے الیکشن لڑنیکافیصلہ تباہ کن قراردیدیا

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
javed1h1h11.jpg


نکولس دوم روس کا آخری زار تھا‘ اس کے بعد روس میں رومانو (Romanov) سلطنت کا تین سو سالہ اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ وہ پارا صفت انسان تھا‘ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘ غلط فیصلوں میں اس سے بڑا ماہر کوئی نہیں تھا‘ اس کا ہر فیصلہ غلط نکلتا تھا اور وہ پچھلے فیصلے کا ریکارڈ توڑ دیتا تھا۔

سن 1894 میں زار بنا‘ زار بنتے ہی جاپان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور اس جنگ نے سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘ ملک کسادبازاری‘ مہنگائی‘ غربت‘ بیماری اور افراتفری کا شکار ہو گیا‘ عوام کے پاس کھانے اور سر چھپانے کی جگہ تک نہ بچی لہٰذا یہ طول وعرض سے سینٹ پیٹرز برگ میں جمع ہوگئے۔

ہزاروں لوگ ونٹر پیلس کے سامنے بیٹھے تھے اور ایک آواز میں دہائیاں دے رہے تھے‘ بادشاہ کو یہ آوازیں بری لگیں اور اس نے فوج کو انھیں اٹھانے کاحکم دے دیا‘ فوج نے کوشش کی‘ لوگ قابو نہ آئے تو گولی چلا دی گئی‘ دو ہزار لوگ مارے گئے‘ یہ 5 جنوری 1905اتوار کا دن تھا‘ یہ دن تاریخ میں آج بھی ’’بلڈی سنڈے‘‘ کہلاتا ہے‘ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو روس کی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں تھی‘ جنرلز نے اسے سمجھایا‘ ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے لیکن اس کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی صفات سے نواز رکھا ہے۔

وہ یہ جنگ جیت جائے گا‘ فوج نے مزید سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کی عنان اپنے ہاتھ میں لے لی‘ اس کی ماں ملکہ ماریا سمجھ دار اور جہاں دیدہ خاتون تھی‘ اس نے اسے سمجھایا ’’بیٹا فوج کی کمان اگر کسی جنرل کے ہاتھ میں ہو گی تو شکست کا ملبہ اس پر گرے گا لیکن اگر تم کمانڈرکی حیثیت سے ہار گئے تو یہ زار اور روس کی شکست ہو گی اور تمہاری سلطنت ختم ہو جائے گی‘‘ ملکہ ماریا کی دلیل حقیقی اورمشورہ شان دار تھا لیکن جب قدرت کسی کی مت مارتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں‘ نکولس دوم نے اپنی ماں کا مشورہ بھی مسترد کر دیا اور خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کے ساتھ محاذ پر چلا گیا۔

وہ دو سال دارالحکومت سے دور محاذ جنگ پر رہا‘ اس دوران زار کے تمام اختیارات ملکہ الیگزینڈرا اور ملکہ کا پیر راسپوٹین استعمال کرتا رہا اوریوں زار محاذ اور دارالحکومت دونوں ہار گیا‘ اسے جنگ میں شکست ہوئی اور مادر ملکہ کی پیشن گوئی کے عین مطابق یہ شکست زار اور سلطنت دونوں کی شکست سمجھی گئی ‘ پورا ملک اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوا‘ کسان‘ مزدور اور فیکٹری ورکرز محل کے سامنے جمع ہوئے اور سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر زار کا اقتدار ختم ہوگیا‘ نکولس دوم خاندان سمیت گرفتار ہوا‘ لینن نے اقتدار سنبھالا اور ایک سال بعد پورے شاہی خاندان کو گولی مار کر پہاڑوں میں دفن کر دیا اور یوں زار کا دور اور خاندان دونوں ختم ہوگئے۔

عمران خان زار نہیں ہیں اور پی ٹی آئی بھی روس نہیں ہے‘ یہ تیسری دنیا کے چھوٹے سے ملک کی 20 سال کی الڑ جوان مقبول سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اس جماعت کے سربراہ ہیں مگر یہ جماعت اور یہ لیڈر بدقسمتی سے روس اور آخری زار بنتے چلے جا رہے ہیں‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ اعتراف بھی کرتا چلوں عمران خان اس وقت واقعی مقبولیت کی ماؤنٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہیں اور اگر آج الیکشن ہو جائیں تو یہ ماضی سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے۔

یہ ساڑھے تین سال کی انتہائی خراب پرفارمنس کے باوجود اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ یہ ایک نیا میڈیم ہے اور عمران خان نے اسے دل وجان سے استعمال کیا‘ یہ شخص بیانیہ بنانے‘ اس میں سے نیا بیانیہ نکالنے اور پرانے بیانیے کو دفن کر کے ایک نئے بیانیے کی عمارت کھڑی کرنے کا ایکسپرٹ ہے‘ اس فیلڈ میں کوئی دوسرا شخص اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی خامی متبادل بیانیہ کی کمی ہے‘ بارہ جماعتیں مل کر بھی عمران خان کے بیانیے بنانے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

یہ ایک بڑی حقیقت ہے‘ یہ لوگ آج بھی توشہ خانہ میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ عمران خان ایمن الظواہری تک جا پہنچا ہے اور پورا سسٹم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ سوشل میڈیا کی تلوار عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور یہ اسے شان دار طریقے سے استعمال کررہا ہے‘ یہ بیانیہ بناتا ہے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر پاکستانی کے ذہن میں اتار دیتا ہے‘ دوسری وجہ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں‘ افسر فوجی ہوں یا سول ملک کے زیادہ تر ریٹائرڈ سرکاری افسر عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ سسٹم کی خامیوں سے واقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں۔

اس فرسودہ سسٹم کو بریک کرنے کے لیے سسٹم سے بڑا اور ضدی شخص چاہیے ‘ عمران خان میں انھیں یہ خوبی نظر آتی ہے اور یہ اسے کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں‘ تیسری وجہ اوورسیز پاکستانی ہیں‘ ملک سے باہر نوے فیصد پاکستانی عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے اور صاف ستھرے معاشروں میں بیٹھے ہیں‘ عمران خان نے بڑی مہارت سے ان معاشروں کی بات کر کر کے ان کے دل موہ لیے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں صرف عمران خان ہی پاکستان کو کینیڈا‘ امریکا‘ جرمنی اور جاپان بنا سکتا ہے چناں چہ یہ لوگ اسے رقم بھی دیتے ہیں اور اس کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیںاور چوتھی وجہ نوجوان لوگ ہیں۔

ملک کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ بدقسمتی سے مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں تجزیے کی صلاحیت ہے‘ سوشل میڈیا ان کا واحد سورس آف انفارمیشن ہے اور یہ لوگ سوشل میڈیا کی ہر بات کو (خواہ وہ سرے سے موجود ہی نہ ہو) سچ مان لیتے ہیں‘عمران خان نوجوانوں کی اس خامی سے واقف ہیں اور یہ اسے کھل کر استعمال کرتے ہیں اور ان چار چیزوں نے مل کر عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔

عمران خان لیڈر ہیں لیکن یہ بیک وقت قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی الیکشن کے امیدوار بن کر نکولس دوم جیسی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ سیاست کے آخری زار بننے کی پوری پوری تیاری کر رہے ہیں‘ یہ اگر جیت جاتے ہیں تو بھی پارٹی ختم ہو جائے گی اور یہ اگر ہار جاتے ہیں تو بھی ان کی پارٹی نہیں بچے گی‘ کیسے؟ یہ بات سیدھی اور سادی ہے مثلاً عمران خان کا خیال ہے میں اگر نو حلقوں سے جیت گیا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔

یہ خیال سو فیصد غلط ہے‘سوال یہ ہے یہ حکومت اگر ملک کی تاریخی مہنگائی‘ پنجاب کے ضمنی الیکشنز میں شکست اور پنجاب کی حکمرانی کھونے کے بعد بھی قائم ہے تو یہ ایسے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد کیوں گھر چلی جائے گی جن کے بارے میں یہ جانتے ہیں عمران خان کو یہ حلقے چھوڑنے پڑیں گے‘ ان میں ایک بار پھر ضمنی الیکشن ہوں گے اور ہم وہاں اگست نہیں تو ستمبر میں جیت جائیں گے لہٰذا یہ لوگ اگر اس وقت اکتوبر یا نومبر میں الیکشنز کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو بھی عمران خان سے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد یہ کسی صورت حکومت نہیں چھوڑیں گے‘ الیکشن پھر اکتوبر 2023 میں ہی ہوں گے‘ دوسرا اگر عمران خان 9 حلقوں میں جیت جاتے ہیں تو پارٹی کے باقی ایم این ایز اور لیڈرز کو محسوس ہو گا پی ٹی آئی میں صرف عمران خان ہی عمران خان ہیں۔

پارٹی میں ہم اور ہماری کوئی حیثیت نہیں اور یہ تاثر انھیں مزید احساس کمتری اور عمران خان کو مزید احساس برتری میں مبتلا کر دے گا اور یہ احساس ہمیشہ پارٹیوں کو کھا جاتا ہے لہٰذا پارٹی مزید کم زور ہو جائے گی اور اگر اس احساس کے بعد عمران خان واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا یہ تمام وزارتیں بھی خود چلائے گا؟ کیوں کہ جو لوگ الیکشن نہیں جیت سکتے وہ خود میں وزارت کی اہلیت کیسے پیدا کریں گے؟ اور اگر اس کے برعکس ہو گیا‘ عمران خان تمام نشستیں یا آدھی ہار جاتے ہیں تو کیا اسے عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکست فاش نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا پارٹی اس کے بعد پارٹی رہ سکے گی؟ اور کیا یہ نکولس دوم ثابت نہیں ہوں گے؟عمران خان بے شک مقبول ہیں لیکن انھوں نے نکولس دوم کی طرح پورے ملک سے جنگ شروع کر دی ہے‘ یہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی لڑ رہے ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی برسرپیکار ہیں‘ یہ سول بیوروکریسی سے بھی ’’ہیڈ آن‘‘ ہیں‘ بزنس کمیونٹی کو بھی خلاف کر چکے ہیں‘ میڈیا سے بھی ’’متھا‘‘ لگا بیٹھے ہیں‘ امریکا‘ چین اور عربوں سے بھی بگاڑ لی ہے اور ان کی پارٹی بھی بری طرح تقسیم ہے‘ اتنی لڑائیاں تو یونانی دیوتا ہرکولیس نہیں جیت سکا آپ تو پھر بھی انسان ہیں لہٰذا آپ خود سوچیے کیا آپ اتنی لڑائیاں جیت سکیں گے؟ آپ کس کس کا مقابلہ کریں گے اور آپ اگر جیت بھی گئے تو کیا یہ ملک اس کے بعد چلنے کے قابل رہے گا؟ بہرحال عمران خان یہ الیکشن جیت جائیں یا ہار جائیں یہ اس ملک کے آخری زار ثابت ہوں گے‘ یہ سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ کوشاید22 کروڑ لوگوں کی کوئی نیکی پسند آ گئی اور اس وقت ملک میں عمران خان کے مقابلے میں عمران خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ورنہ اس ملک میں اب تک 1971 واپس آچکا ہوتا‘1971 میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو دو خوف ناک مقرر اور خوف ناک پاپولر لیڈر آمنے سامنے آ گئے تھے اور ان کی مقبولیت کا تاوان پاکستان کو دینا پڑ گیا تھا‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا لہٰذا آج اگر پی ڈی ایم کی صفوں میں بھی عمران خان جیسا کوئی شخص ہوتا تو یہ ملک اب تک فارغ ہو چکا ہوتا‘اللہ کا خصوصی کرم ہے عمران خان صرف ایک ہی ہے لہٰذا ہمارے پاس اب بھی وقت ہے‘ ہم اکٹھے بیٹھ جائیں اور ملک کو بچائیں‘ یہ کشتی یوں ملاح کے بغیر زیادہ وقت نہیں نکال سکے گی ۔

 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

ابے چنگڑ! اپنے چورن میں چینی زیادہ کر یا نمک، یا مرچیں یا کھٹا زیادہ کر لے جو مرضی کر لے یہ چورن نہیں بکنے والا
جا کر اپنے ہونہار لڑکے کو دیکھ کہ ہیروئن کا جائنٹ لگا کر آجکل کونسے نالے میں پڑا ہے . عمران کی یا اسکے ساتھیوں کی فکر چھوڑ کر اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر، بس وہی کافی ہے تیرے وجود اور تیری گھٹیا سوچ کے لیے
 

MSM

Politcal Worker (100+ posts)
After what he explained as how the Social Media works, is he still taken seriously by somebody, anybody?
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
javed1h1h11.jpg


نکولس دوم روس کا آخری زار تھا‘ اس کے بعد روس میں رومانو (Romanov) سلطنت کا تین سو سالہ اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ وہ پارا صفت انسان تھا‘ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘ غلط فیصلوں میں اس سے بڑا ماہر کوئی نہیں تھا‘ اس کا ہر فیصلہ غلط نکلتا تھا اور وہ پچھلے فیصلے کا ریکارڈ توڑ دیتا تھا۔

سن 1894 میں زار بنا‘ زار بنتے ہی جاپان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور اس جنگ نے سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘ ملک کسادبازاری‘ مہنگائی‘ غربت‘ بیماری اور افراتفری کا شکار ہو گیا‘ عوام کے پاس کھانے اور سر چھپانے کی جگہ تک نہ بچی لہٰذا یہ طول وعرض سے سینٹ پیٹرز برگ میں جمع ہوگئے۔

ہزاروں لوگ ونٹر پیلس کے سامنے بیٹھے تھے اور ایک آواز میں دہائیاں دے رہے تھے‘ بادشاہ کو یہ آوازیں بری لگیں اور اس نے فوج کو انھیں اٹھانے کاحکم دے دیا‘ فوج نے کوشش کی‘ لوگ قابو نہ آئے تو گولی چلا دی گئی‘ دو ہزار لوگ مارے گئے‘ یہ 5 جنوری 1905اتوار کا دن تھا‘ یہ دن تاریخ میں آج بھی ’’بلڈی سنڈے‘‘ کہلاتا ہے‘ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو روس کی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں تھی‘ جنرلز نے اسے سمجھایا‘ ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے لیکن اس کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی صفات سے نواز رکھا ہے۔

وہ یہ جنگ جیت جائے گا‘ فوج نے مزید سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کی عنان اپنے ہاتھ میں لے لی‘ اس کی ماں ملکہ ماریا سمجھ دار اور جہاں دیدہ خاتون تھی‘ اس نے اسے سمجھایا ’’بیٹا فوج کی کمان اگر کسی جنرل کے ہاتھ میں ہو گی تو شکست کا ملبہ اس پر گرے گا لیکن اگر تم کمانڈرکی حیثیت سے ہار گئے تو یہ زار اور روس کی شکست ہو گی اور تمہاری سلطنت ختم ہو جائے گی‘‘ ملکہ ماریا کی دلیل حقیقی اورمشورہ شان دار تھا لیکن جب قدرت کسی کی مت مارتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں‘ نکولس دوم نے اپنی ماں کا مشورہ بھی مسترد کر دیا اور خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کے ساتھ محاذ پر چلا گیا۔

وہ دو سال دارالحکومت سے دور محاذ جنگ پر رہا‘ اس دوران زار کے تمام اختیارات ملکہ الیگزینڈرا اور ملکہ کا پیر راسپوٹین استعمال کرتا رہا اوریوں زار محاذ اور دارالحکومت دونوں ہار گیا‘ اسے جنگ میں شکست ہوئی اور مادر ملکہ کی پیشن گوئی کے عین مطابق یہ شکست زار اور سلطنت دونوں کی شکست سمجھی گئی ‘ پورا ملک اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوا‘ کسان‘ مزدور اور فیکٹری ورکرز محل کے سامنے جمع ہوئے اور سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر زار کا اقتدار ختم ہوگیا‘ نکولس دوم خاندان سمیت گرفتار ہوا‘ لینن نے اقتدار سنبھالا اور ایک سال بعد پورے شاہی خاندان کو گولی مار کر پہاڑوں میں دفن کر دیا اور یوں زار کا دور اور خاندان دونوں ختم ہوگئے۔

عمران خان زار نہیں ہیں اور پی ٹی آئی بھی روس نہیں ہے‘ یہ تیسری دنیا کے چھوٹے سے ملک کی 20 سال کی الڑ جوان مقبول سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اس جماعت کے سربراہ ہیں مگر یہ جماعت اور یہ لیڈر بدقسمتی سے روس اور آخری زار بنتے چلے جا رہے ہیں‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ اعتراف بھی کرتا چلوں عمران خان اس وقت واقعی مقبولیت کی ماؤنٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہیں اور اگر آج الیکشن ہو جائیں تو یہ ماضی سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے۔

یہ ساڑھے تین سال کی انتہائی خراب پرفارمنس کے باوجود اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ یہ ایک نیا میڈیم ہے اور عمران خان نے اسے دل وجان سے استعمال کیا‘ یہ شخص بیانیہ بنانے‘ اس میں سے نیا بیانیہ نکالنے اور پرانے بیانیے کو دفن کر کے ایک نئے بیانیے کی عمارت کھڑی کرنے کا ایکسپرٹ ہے‘ اس فیلڈ میں کوئی دوسرا شخص اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی خامی متبادل بیانیہ کی کمی ہے‘ بارہ جماعتیں مل کر بھی عمران خان کے بیانیے بنانے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

یہ ایک بڑی حقیقت ہے‘ یہ لوگ آج بھی توشہ خانہ میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ عمران خان ایمن الظواہری تک جا پہنچا ہے اور پورا سسٹم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ سوشل میڈیا کی تلوار عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور یہ اسے شان دار طریقے سے استعمال کررہا ہے‘ یہ بیانیہ بناتا ہے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر پاکستانی کے ذہن میں اتار دیتا ہے‘ دوسری وجہ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں‘ افسر فوجی ہوں یا سول ملک کے زیادہ تر ریٹائرڈ سرکاری افسر عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ سسٹم کی خامیوں سے واقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں۔

اس فرسودہ سسٹم کو بریک کرنے کے لیے سسٹم سے بڑا اور ضدی شخص چاہیے ‘ عمران خان میں انھیں یہ خوبی نظر آتی ہے اور یہ اسے کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں‘ تیسری وجہ اوورسیز پاکستانی ہیں‘ ملک سے باہر نوے فیصد پاکستانی عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے اور صاف ستھرے معاشروں میں بیٹھے ہیں‘ عمران خان نے بڑی مہارت سے ان معاشروں کی بات کر کر کے ان کے دل موہ لیے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں صرف عمران خان ہی پاکستان کو کینیڈا‘ امریکا‘ جرمنی اور جاپان بنا سکتا ہے چناں چہ یہ لوگ اسے رقم بھی دیتے ہیں اور اس کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیںاور چوتھی وجہ نوجوان لوگ ہیں۔

ملک کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ بدقسمتی سے مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں تجزیے کی صلاحیت ہے‘ سوشل میڈیا ان کا واحد سورس آف انفارمیشن ہے اور یہ لوگ سوشل میڈیا کی ہر بات کو (خواہ وہ سرے سے موجود ہی نہ ہو) سچ مان لیتے ہیں‘عمران خان نوجوانوں کی اس خامی سے واقف ہیں اور یہ اسے کھل کر استعمال کرتے ہیں اور ان چار چیزوں نے مل کر عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔

عمران خان لیڈر ہیں لیکن یہ بیک وقت قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی الیکشن کے امیدوار بن کر نکولس دوم جیسی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ سیاست کے آخری زار بننے کی پوری پوری تیاری کر رہے ہیں‘ یہ اگر جیت جاتے ہیں تو بھی پارٹی ختم ہو جائے گی اور یہ اگر ہار جاتے ہیں تو بھی ان کی پارٹی نہیں بچے گی‘ کیسے؟ یہ بات سیدھی اور سادی ہے مثلاً عمران خان کا خیال ہے میں اگر نو حلقوں سے جیت گیا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔

یہ خیال سو فیصد غلط ہے‘سوال یہ ہے یہ حکومت اگر ملک کی تاریخی مہنگائی‘ پنجاب کے ضمنی الیکشنز میں شکست اور پنجاب کی حکمرانی کھونے کے بعد بھی قائم ہے تو یہ ایسے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد کیوں گھر چلی جائے گی جن کے بارے میں یہ جانتے ہیں عمران خان کو یہ حلقے چھوڑنے پڑیں گے‘ ان میں ایک بار پھر ضمنی الیکشن ہوں گے اور ہم وہاں اگست نہیں تو ستمبر میں جیت جائیں گے لہٰذا یہ لوگ اگر اس وقت اکتوبر یا نومبر میں الیکشنز کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو بھی عمران خان سے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد یہ کسی صورت حکومت نہیں چھوڑیں گے‘ الیکشن پھر اکتوبر 2023 میں ہی ہوں گے‘ دوسرا اگر عمران خان 9 حلقوں میں جیت جاتے ہیں تو پارٹی کے باقی ایم این ایز اور لیڈرز کو محسوس ہو گا پی ٹی آئی میں صرف عمران خان ہی عمران خان ہیں۔

پارٹی میں ہم اور ہماری کوئی حیثیت نہیں اور یہ تاثر انھیں مزید احساس کمتری اور عمران خان کو مزید احساس برتری میں مبتلا کر دے گا اور یہ احساس ہمیشہ پارٹیوں کو کھا جاتا ہے لہٰذا پارٹی مزید کم زور ہو جائے گی اور اگر اس احساس کے بعد عمران خان واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا یہ تمام وزارتیں بھی خود چلائے گا؟ کیوں کہ جو لوگ الیکشن نہیں جیت سکتے وہ خود میں وزارت کی اہلیت کیسے پیدا کریں گے؟ اور اگر اس کے برعکس ہو گیا‘ عمران خان تمام نشستیں یا آدھی ہار جاتے ہیں تو کیا اسے عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکست فاش نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا پارٹی اس کے بعد پارٹی رہ سکے گی؟ اور کیا یہ نکولس دوم ثابت نہیں ہوں گے؟عمران خان بے شک مقبول ہیں لیکن انھوں نے نکولس دوم کی طرح پورے ملک سے جنگ شروع کر دی ہے‘ یہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی لڑ رہے ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی برسرپیکار ہیں‘ یہ سول بیوروکریسی سے بھی ’’ہیڈ آن‘‘ ہیں‘ بزنس کمیونٹی کو بھی خلاف کر چکے ہیں‘ میڈیا سے بھی ’’متھا‘‘ لگا بیٹھے ہیں‘ امریکا‘ چین اور عربوں سے بھی بگاڑ لی ہے اور ان کی پارٹی بھی بری طرح تقسیم ہے‘ اتنی لڑائیاں تو یونانی دیوتا ہرکولیس نہیں جیت سکا آپ تو پھر بھی انسان ہیں لہٰذا آپ خود سوچیے کیا آپ اتنی لڑائیاں جیت سکیں گے؟ آپ کس کس کا مقابلہ کریں گے اور آپ اگر جیت بھی گئے تو کیا یہ ملک اس کے بعد چلنے کے قابل رہے گا؟ بہرحال عمران خان یہ الیکشن جیت جائیں یا ہار جائیں یہ اس ملک کے آخری زار ثابت ہوں گے‘ یہ سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ کوشاید22 کروڑ لوگوں کی کوئی نیکی پسند آ گئی اور اس وقت ملک میں عمران خان کے مقابلے میں عمران خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ورنہ اس ملک میں اب تک 1971 واپس آچکا ہوتا‘1971 میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو دو خوف ناک مقرر اور خوف ناک پاپولر لیڈر آمنے سامنے آ گئے تھے اور ان کی مقبولیت کا تاوان پاکستان کو دینا پڑ گیا تھا‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا لہٰذا آج اگر پی ڈی ایم کی صفوں میں بھی عمران خان جیسا کوئی شخص ہوتا تو یہ ملک اب تک فارغ ہو چکا ہوتا‘اللہ کا خصوصی کرم ہے عمران خان صرف ایک ہی ہے لہٰذا ہمارے پاس اب بھی وقت ہے‘ ہم اکٹھے بیٹھ جائیں اور ملک کو بچائیں‘ یہ کشتی یوں ملاح کے بغیر زیادہ وقت نہیں نکال سکے گی ۔

یہ فیصلہ جیدے کو تباہ کر دے گا
 

Cape Kahloon

Chief Minister (5k+ posts)
Jeeday to kitna bad qismat ha Imran khan ke mukhalft kay bawajood be tujay kalam lekhnay kay leay Imran khan ka nam he istamal kerna perta ha.
 

Atif_Ali

MPA (400+ posts)
Its totally wrong, nothing more then a desperate attempt to counter this move ...

Why it is wrong???
What do you think about presidential system ??? if that works in a country and deliver as making that country a supper power ...

CH. Sb think something else ....
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
Ye haqeeqat hay keh PTI sirf Imran khan ki waja se hay, ager jin ki jagha Imran khan election lar raha hay wo khud ko leader samjhtey hain to Imran Khan kay beghair jalsa kar kay dikhaein or PTI se nikal kar election lar kar dikhaein, Election abhi hoon ya 2023 mein jeet PTI ki hay isi liey PTI or Imran khan ko kisi na kisi tarha bahir nikalney ki koshish ho rahi hay, ager PTI or Imran khan ki .5 year ki karkardagi kharab thi to pichhley 4 month ko kia kahein ge? Javed choudhary kay har column or har talk show cheekh cheekh kar batata hay keh ye Lifafa journalist hay or PMLN kay payroll pe hay or is ne Musharaf kay baad jub PPP ka zamana aya tub se PMLN kay payroll pe chala gia tha, PMLN kay media cell ko chalane or banane mein sub se ziada kirdaar isi shakhas ka hay
 

Terminator;

Minister (2k+ posts)
javed1h1h11.jpg


نکولس دوم روس کا آخری زار تھا‘ اس کے بعد روس میں رومانو (Romanov) سلطنت کا تین سو سالہ اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ وہ پارا صفت انسان تھا‘ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘ غلط فیصلوں میں اس سے بڑا ماہر کوئی نہیں تھا‘ اس کا ہر فیصلہ غلط نکلتا تھا اور وہ پچھلے فیصلے کا ریکارڈ توڑ دیتا تھا۔

سن 1894 میں زار بنا‘ زار بنتے ہی جاپان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور اس جنگ نے سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘ ملک کسادبازاری‘ مہنگائی‘ غربت‘ بیماری اور افراتفری کا شکار ہو گیا‘ عوام کے پاس کھانے اور سر چھپانے کی جگہ تک نہ بچی لہٰذا یہ طول وعرض سے سینٹ پیٹرز برگ میں جمع ہوگئے۔

ہزاروں لوگ ونٹر پیلس کے سامنے بیٹھے تھے اور ایک آواز میں دہائیاں دے رہے تھے‘ بادشاہ کو یہ آوازیں بری لگیں اور اس نے فوج کو انھیں اٹھانے کاحکم دے دیا‘ فوج نے کوشش کی‘ لوگ قابو نہ آئے تو گولی چلا دی گئی‘ دو ہزار لوگ مارے گئے‘ یہ 5 جنوری 1905اتوار کا دن تھا‘ یہ دن تاریخ میں آج بھی ’’بلڈی سنڈے‘‘ کہلاتا ہے‘ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو روس کی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں تھی‘ جنرلز نے اسے سمجھایا‘ ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے لیکن اس کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی صفات سے نواز رکھا ہے۔

وہ یہ جنگ جیت جائے گا‘ فوج نے مزید سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کی عنان اپنے ہاتھ میں لے لی‘ اس کی ماں ملکہ ماریا سمجھ دار اور جہاں دیدہ خاتون تھی‘ اس نے اسے سمجھایا ’’بیٹا فوج کی کمان اگر کسی جنرل کے ہاتھ میں ہو گی تو شکست کا ملبہ اس پر گرے گا لیکن اگر تم کمانڈرکی حیثیت سے ہار گئے تو یہ زار اور روس کی شکست ہو گی اور تمہاری سلطنت ختم ہو جائے گی‘‘ ملکہ ماریا کی دلیل حقیقی اورمشورہ شان دار تھا لیکن جب قدرت کسی کی مت مارتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں‘ نکولس دوم نے اپنی ماں کا مشورہ بھی مسترد کر دیا اور خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کے ساتھ محاذ پر چلا گیا۔

وہ دو سال دارالحکومت سے دور محاذ جنگ پر رہا‘ اس دوران زار کے تمام اختیارات ملکہ الیگزینڈرا اور ملکہ کا پیر راسپوٹین استعمال کرتا رہا اوریوں زار محاذ اور دارالحکومت دونوں ہار گیا‘ اسے جنگ میں شکست ہوئی اور مادر ملکہ کی پیشن گوئی کے عین مطابق یہ شکست زار اور سلطنت دونوں کی شکست سمجھی گئی ‘ پورا ملک اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوا‘ کسان‘ مزدور اور فیکٹری ورکرز محل کے سامنے جمع ہوئے اور سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر زار کا اقتدار ختم ہوگیا‘ نکولس دوم خاندان سمیت گرفتار ہوا‘ لینن نے اقتدار سنبھالا اور ایک سال بعد پورے شاہی خاندان کو گولی مار کر پہاڑوں میں دفن کر دیا اور یوں زار کا دور اور خاندان دونوں ختم ہوگئے۔

عمران خان زار نہیں ہیں اور پی ٹی آئی بھی روس نہیں ہے‘ یہ تیسری دنیا کے چھوٹے سے ملک کی 20 سال کی الڑ جوان مقبول سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اس جماعت کے سربراہ ہیں مگر یہ جماعت اور یہ لیڈر بدقسمتی سے روس اور آخری زار بنتے چلے جا رہے ہیں‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ اعتراف بھی کرتا چلوں عمران خان اس وقت واقعی مقبولیت کی ماؤنٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہیں اور اگر آج الیکشن ہو جائیں تو یہ ماضی سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے۔

یہ ساڑھے تین سال کی انتہائی خراب پرفارمنس کے باوجود اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ یہ ایک نیا میڈیم ہے اور عمران خان نے اسے دل وجان سے استعمال کیا‘ یہ شخص بیانیہ بنانے‘ اس میں سے نیا بیانیہ نکالنے اور پرانے بیانیے کو دفن کر کے ایک نئے بیانیے کی عمارت کھڑی کرنے کا ایکسپرٹ ہے‘ اس فیلڈ میں کوئی دوسرا شخص اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی خامی متبادل بیانیہ کی کمی ہے‘ بارہ جماعتیں مل کر بھی عمران خان کے بیانیے بنانے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

یہ ایک بڑی حقیقت ہے‘ یہ لوگ آج بھی توشہ خانہ میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ عمران خان ایمن الظواہری تک جا پہنچا ہے اور پورا سسٹم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ سوشل میڈیا کی تلوار عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور یہ اسے شان دار طریقے سے استعمال کررہا ہے‘ یہ بیانیہ بناتا ہے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر پاکستانی کے ذہن میں اتار دیتا ہے‘ دوسری وجہ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں‘ افسر فوجی ہوں یا سول ملک کے زیادہ تر ریٹائرڈ سرکاری افسر عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ سسٹم کی خامیوں سے واقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں۔

اس فرسودہ سسٹم کو بریک کرنے کے لیے سسٹم سے بڑا اور ضدی شخص چاہیے ‘ عمران خان میں انھیں یہ خوبی نظر آتی ہے اور یہ اسے کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں‘ تیسری وجہ اوورسیز پاکستانی ہیں‘ ملک سے باہر نوے فیصد پاکستانی عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے اور صاف ستھرے معاشروں میں بیٹھے ہیں‘ عمران خان نے بڑی مہارت سے ان معاشروں کی بات کر کر کے ان کے دل موہ لیے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں صرف عمران خان ہی پاکستان کو کینیڈا‘ امریکا‘ جرمنی اور جاپان بنا سکتا ہے چناں چہ یہ لوگ اسے رقم بھی دیتے ہیں اور اس کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیںاور چوتھی وجہ نوجوان لوگ ہیں۔

ملک کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ بدقسمتی سے مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں تجزیے کی صلاحیت ہے‘ سوشل میڈیا ان کا واحد سورس آف انفارمیشن ہے اور یہ لوگ سوشل میڈیا کی ہر بات کو (خواہ وہ سرے سے موجود ہی نہ ہو) سچ مان لیتے ہیں‘عمران خان نوجوانوں کی اس خامی سے واقف ہیں اور یہ اسے کھل کر استعمال کرتے ہیں اور ان چار چیزوں نے مل کر عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔

عمران خان لیڈر ہیں لیکن یہ بیک وقت قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی الیکشن کے امیدوار بن کر نکولس دوم جیسی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ سیاست کے آخری زار بننے کی پوری پوری تیاری کر رہے ہیں‘ یہ اگر جیت جاتے ہیں تو بھی پارٹی ختم ہو جائے گی اور یہ اگر ہار جاتے ہیں تو بھی ان کی پارٹی نہیں بچے گی‘ کیسے؟ یہ بات سیدھی اور سادی ہے مثلاً عمران خان کا خیال ہے میں اگر نو حلقوں سے جیت گیا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔

یہ خیال سو فیصد غلط ہے‘سوال یہ ہے یہ حکومت اگر ملک کی تاریخی مہنگائی‘ پنجاب کے ضمنی الیکشنز میں شکست اور پنجاب کی حکمرانی کھونے کے بعد بھی قائم ہے تو یہ ایسے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد کیوں گھر چلی جائے گی جن کے بارے میں یہ جانتے ہیں عمران خان کو یہ حلقے چھوڑنے پڑیں گے‘ ان میں ایک بار پھر ضمنی الیکشن ہوں گے اور ہم وہاں اگست نہیں تو ستمبر میں جیت جائیں گے لہٰذا یہ لوگ اگر اس وقت اکتوبر یا نومبر میں الیکشنز کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو بھی عمران خان سے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد یہ کسی صورت حکومت نہیں چھوڑیں گے‘ الیکشن پھر اکتوبر 2023 میں ہی ہوں گے‘ دوسرا اگر عمران خان 9 حلقوں میں جیت جاتے ہیں تو پارٹی کے باقی ایم این ایز اور لیڈرز کو محسوس ہو گا پی ٹی آئی میں صرف عمران خان ہی عمران خان ہیں۔

پارٹی میں ہم اور ہماری کوئی حیثیت نہیں اور یہ تاثر انھیں مزید احساس کمتری اور عمران خان کو مزید احساس برتری میں مبتلا کر دے گا اور یہ احساس ہمیشہ پارٹیوں کو کھا جاتا ہے لہٰذا پارٹی مزید کم زور ہو جائے گی اور اگر اس احساس کے بعد عمران خان واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا یہ تمام وزارتیں بھی خود چلائے گا؟ کیوں کہ جو لوگ الیکشن نہیں جیت سکتے وہ خود میں وزارت کی اہلیت کیسے پیدا کریں گے؟ اور اگر اس کے برعکس ہو گیا‘ عمران خان تمام نشستیں یا آدھی ہار جاتے ہیں تو کیا اسے عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکست فاش نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا پارٹی اس کے بعد پارٹی رہ سکے گی؟ اور کیا یہ نکولس دوم ثابت نہیں ہوں گے؟عمران خان بے شک مقبول ہیں لیکن انھوں نے نکولس دوم کی طرح پورے ملک سے جنگ شروع کر دی ہے‘ یہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی لڑ رہے ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی برسرپیکار ہیں‘ یہ سول بیوروکریسی سے بھی ’’ہیڈ آن‘‘ ہیں‘ بزنس کمیونٹی کو بھی خلاف کر چکے ہیں‘ میڈیا سے بھی ’’متھا‘‘ لگا بیٹھے ہیں‘ امریکا‘ چین اور عربوں سے بھی بگاڑ لی ہے اور ان کی پارٹی بھی بری طرح تقسیم ہے‘ اتنی لڑائیاں تو یونانی دیوتا ہرکولیس نہیں جیت سکا آپ تو پھر بھی انسان ہیں لہٰذا آپ خود سوچیے کیا آپ اتنی لڑائیاں جیت سکیں گے؟ آپ کس کس کا مقابلہ کریں گے اور آپ اگر جیت بھی گئے تو کیا یہ ملک اس کے بعد چلنے کے قابل رہے گا؟ بہرحال عمران خان یہ الیکشن جیت جائیں یا ہار جائیں یہ اس ملک کے آخری زار ثابت ہوں گے‘ یہ سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ کوشاید22 کروڑ لوگوں کی کوئی نیکی پسند آ گئی اور اس وقت ملک میں عمران خان کے مقابلے میں عمران خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ورنہ اس ملک میں اب تک 1971 واپس آچکا ہوتا‘1971 میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو دو خوف ناک مقرر اور خوف ناک پاپولر لیڈر آمنے سامنے آ گئے تھے اور ان کی مقبولیت کا تاوان پاکستان کو دینا پڑ گیا تھا‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا لہٰذا آج اگر پی ڈی ایم کی صفوں میں بھی عمران خان جیسا کوئی شخص ہوتا تو یہ ملک اب تک فارغ ہو چکا ہوتا‘اللہ کا خصوصی کرم ہے عمران خان صرف ایک ہی ہے لہٰذا ہمارے پاس اب بھی وقت ہے‘ ہم اکٹھے بیٹھ جائیں اور ملک کو بچائیں‘ یہ کشتی یوں ملاح کے بغیر زیادہ وقت نہیں نکال سکے گی ۔


جیدے چنگڑ کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی ہے، کہ یہ حرامزادہ خود کو بڑی توپ قسم کا دانشور سمجھتا ہے
گوگل سے کہانیاں تلاش کر کر کے اخباروں میں کالم چھپواتا ہے،، اور خود کو بہت بڑا تاریخ دان سمجھتا ہے

اس حرامزادے کے اس کالم کا لب لباب یہ ہے کہ عمران تمام تر برائیوں، اور جھوٹ کے باوجود لوگوں کو بے وقوف بنا دینے کا ایکسپرٹ ہے
حرامزادہ اس بات سے انکاری ہے کہ کپتان ایک دیانتدار بندہ ہے، جو بات 25 سال پہلی کیں تھیں،،آج بھی اُنہی باتوں پر قائم و دائم ہے
سوشل میڈیا کے دور میں بھلا انسان جھوٹ کیسے بول سکتا،،یا کسی کو بے وقوف کیسے بنا سکتا ہے ؟؟
جھوٹ کی ڈوری بہت چھوٹی ہوتی ہے،،،اسکا دوسرا سرا بہت جلد لوگوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے، اور انسان ننگا ہو جاتا ہے
کپتان کا یہ کس قسم کا جھوٹ ہے، جو 25 سال میں پکڑا نہیں جا سکا ؟؟؟ ۔۔۔جواب دو' رنڈی کے بچّے جیدے چنگڑ

کپتان کی مقبو لیّت کا راز ہی اسکی دیانتداری، اور اسکی سچائی ہے،،،جس سے یہ حرامزادہ انکاری ہے

 
Last edited:

Melanthus

Chief Minister (5k+ posts)
Jaida is changar number one.Khan is standing from 9 constituencies to ruin the plans of imported bhikaris.These by elections are part of a chess game.They are not real by elections.The bhikaris thought they will outwit PTI but PTI came with a brilliant strategy.
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
It never occurs to them that there could be truth in IK’s narrative. Javaid chohdri and likes of him first jump to conclusion and then search of reasoning.
 

alis

MPA (400+ posts)
javed1h1h11.jpg


نکولس دوم روس کا آخری زار تھا‘ اس کے بعد روس میں رومانو (Romanov) سلطنت کا تین سو سالہ اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا‘ وہ پارا صفت انسان تھا‘ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘ غلط فیصلوں میں اس سے بڑا ماہر کوئی نہیں تھا‘ اس کا ہر فیصلہ غلط نکلتا تھا اور وہ پچھلے فیصلے کا ریکارڈ توڑ دیتا تھا۔

سن 1894 میں زار بنا‘ زار بنتے ہی جاپان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور اس جنگ نے سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘ ملک کسادبازاری‘ مہنگائی‘ غربت‘ بیماری اور افراتفری کا شکار ہو گیا‘ عوام کے پاس کھانے اور سر چھپانے کی جگہ تک نہ بچی لہٰذا یہ طول وعرض سے سینٹ پیٹرز برگ میں جمع ہوگئے۔

ہزاروں لوگ ونٹر پیلس کے سامنے بیٹھے تھے اور ایک آواز میں دہائیاں دے رہے تھے‘ بادشاہ کو یہ آوازیں بری لگیں اور اس نے فوج کو انھیں اٹھانے کاحکم دے دیا‘ فوج نے کوشش کی‘ لوگ قابو نہ آئے تو گولی چلا دی گئی‘ دو ہزار لوگ مارے گئے‘ یہ 5 جنوری 1905اتوار کا دن تھا‘ یہ دن تاریخ میں آج بھی ’’بلڈی سنڈے‘‘ کہلاتا ہے‘ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو روس کی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں تھی‘ جنرلز نے اسے سمجھایا‘ ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے لیکن اس کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے اسے خصوصی صفات سے نواز رکھا ہے۔

وہ یہ جنگ جیت جائے گا‘ فوج نے مزید سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کی عنان اپنے ہاتھ میں لے لی‘ اس کی ماں ملکہ ماریا سمجھ دار اور جہاں دیدہ خاتون تھی‘ اس نے اسے سمجھایا ’’بیٹا فوج کی کمان اگر کسی جنرل کے ہاتھ میں ہو گی تو شکست کا ملبہ اس پر گرے گا لیکن اگر تم کمانڈرکی حیثیت سے ہار گئے تو یہ زار اور روس کی شکست ہو گی اور تمہاری سلطنت ختم ہو جائے گی‘‘ ملکہ ماریا کی دلیل حقیقی اورمشورہ شان دار تھا لیکن جب قدرت کسی کی مت مارتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں‘ نکولس دوم نے اپنی ماں کا مشورہ بھی مسترد کر دیا اور خود کو کمانڈر انچیف ڈکلیئر کر کے فوج کے ساتھ محاذ پر چلا گیا۔

وہ دو سال دارالحکومت سے دور محاذ جنگ پر رہا‘ اس دوران زار کے تمام اختیارات ملکہ الیگزینڈرا اور ملکہ کا پیر راسپوٹین استعمال کرتا رہا اوریوں زار محاذ اور دارالحکومت دونوں ہار گیا‘ اسے جنگ میں شکست ہوئی اور مادر ملکہ کی پیشن گوئی کے عین مطابق یہ شکست زار اور سلطنت دونوں کی شکست سمجھی گئی ‘ پورا ملک اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوا‘ کسان‘ مزدور اور فیکٹری ورکرز محل کے سامنے جمع ہوئے اور سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر زار کا اقتدار ختم ہوگیا‘ نکولس دوم خاندان سمیت گرفتار ہوا‘ لینن نے اقتدار سنبھالا اور ایک سال بعد پورے شاہی خاندان کو گولی مار کر پہاڑوں میں دفن کر دیا اور یوں زار کا دور اور خاندان دونوں ختم ہوگئے۔

عمران خان زار نہیں ہیں اور پی ٹی آئی بھی روس نہیں ہے‘ یہ تیسری دنیا کے چھوٹے سے ملک کی 20 سال کی الڑ جوان مقبول سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اس جماعت کے سربراہ ہیں مگر یہ جماعت اور یہ لیڈر بدقسمتی سے روس اور آخری زار بنتے چلے جا رہے ہیں‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ اعتراف بھی کرتا چلوں عمران خان اس وقت واقعی مقبولیت کی ماؤنٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہیں اور اگر آج الیکشن ہو جائیں تو یہ ماضی سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے۔

یہ ساڑھے تین سال کی انتہائی خراب پرفارمنس کے باوجود اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ یہ ایک نیا میڈیم ہے اور عمران خان نے اسے دل وجان سے استعمال کیا‘ یہ شخص بیانیہ بنانے‘ اس میں سے نیا بیانیہ نکالنے اور پرانے بیانیے کو دفن کر کے ایک نئے بیانیے کی عمارت کھڑی کرنے کا ایکسپرٹ ہے‘ اس فیلڈ میں کوئی دوسرا شخص اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی خامی متبادل بیانیہ کی کمی ہے‘ بارہ جماعتیں مل کر بھی عمران خان کے بیانیے بنانے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

یہ ایک بڑی حقیقت ہے‘ یہ لوگ آج بھی توشہ خانہ میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ عمران خان ایمن الظواہری تک جا پہنچا ہے اور پورا سسٹم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ سوشل میڈیا کی تلوار عمران خان کے ہاتھ میں ہے اور یہ اسے شان دار طریقے سے استعمال کررہا ہے‘ یہ بیانیہ بناتا ہے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر پاکستانی کے ذہن میں اتار دیتا ہے‘ دوسری وجہ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں‘ افسر فوجی ہوں یا سول ملک کے زیادہ تر ریٹائرڈ سرکاری افسر عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ سسٹم کی خامیوں سے واقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں۔

اس فرسودہ سسٹم کو بریک کرنے کے لیے سسٹم سے بڑا اور ضدی شخص چاہیے ‘ عمران خان میں انھیں یہ خوبی نظر آتی ہے اور یہ اسے کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں‘ تیسری وجہ اوورسیز پاکستانی ہیں‘ ملک سے باہر نوے فیصد پاکستانی عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے اور صاف ستھرے معاشروں میں بیٹھے ہیں‘ عمران خان نے بڑی مہارت سے ان معاشروں کی بات کر کر کے ان کے دل موہ لیے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں صرف عمران خان ہی پاکستان کو کینیڈا‘ امریکا‘ جرمنی اور جاپان بنا سکتا ہے چناں چہ یہ لوگ اسے رقم بھی دیتے ہیں اور اس کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیںاور چوتھی وجہ نوجوان لوگ ہیں۔

ملک کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ بدقسمتی سے مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں تجزیے کی صلاحیت ہے‘ سوشل میڈیا ان کا واحد سورس آف انفارمیشن ہے اور یہ لوگ سوشل میڈیا کی ہر بات کو (خواہ وہ سرے سے موجود ہی نہ ہو) سچ مان لیتے ہیں‘عمران خان نوجوانوں کی اس خامی سے واقف ہیں اور یہ اسے کھل کر استعمال کرتے ہیں اور ان چار چیزوں نے مل کر عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔

عمران خان لیڈر ہیں لیکن یہ بیک وقت قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی الیکشن کے امیدوار بن کر نکولس دوم جیسی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ سیاست کے آخری زار بننے کی پوری پوری تیاری کر رہے ہیں‘ یہ اگر جیت جاتے ہیں تو بھی پارٹی ختم ہو جائے گی اور یہ اگر ہار جاتے ہیں تو بھی ان کی پارٹی نہیں بچے گی‘ کیسے؟ یہ بات سیدھی اور سادی ہے مثلاً عمران خان کا خیال ہے میں اگر نو حلقوں سے جیت گیا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔

یہ خیال سو فیصد غلط ہے‘سوال یہ ہے یہ حکومت اگر ملک کی تاریخی مہنگائی‘ پنجاب کے ضمنی الیکشنز میں شکست اور پنجاب کی حکمرانی کھونے کے بعد بھی قائم ہے تو یہ ایسے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد کیوں گھر چلی جائے گی جن کے بارے میں یہ جانتے ہیں عمران خان کو یہ حلقے چھوڑنے پڑیں گے‘ ان میں ایک بار پھر ضمنی الیکشن ہوں گے اور ہم وہاں اگست نہیں تو ستمبر میں جیت جائیں گے لہٰذا یہ لوگ اگر اس وقت اکتوبر یا نومبر میں الیکشنز کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو بھی عمران خان سے نو حلقوں میں ہارنے کے بعد یہ کسی صورت حکومت نہیں چھوڑیں گے‘ الیکشن پھر اکتوبر 2023 میں ہی ہوں گے‘ دوسرا اگر عمران خان 9 حلقوں میں جیت جاتے ہیں تو پارٹی کے باقی ایم این ایز اور لیڈرز کو محسوس ہو گا پی ٹی آئی میں صرف عمران خان ہی عمران خان ہیں۔

پارٹی میں ہم اور ہماری کوئی حیثیت نہیں اور یہ تاثر انھیں مزید احساس کمتری اور عمران خان کو مزید احساس برتری میں مبتلا کر دے گا اور یہ احساس ہمیشہ پارٹیوں کو کھا جاتا ہے لہٰذا پارٹی مزید کم زور ہو جائے گی اور اگر اس احساس کے بعد عمران خان واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا یہ تمام وزارتیں بھی خود چلائے گا؟ کیوں کہ جو لوگ الیکشن نہیں جیت سکتے وہ خود میں وزارت کی اہلیت کیسے پیدا کریں گے؟ اور اگر اس کے برعکس ہو گیا‘ عمران خان تمام نشستیں یا آدھی ہار جاتے ہیں تو کیا اسے عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکست فاش نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا پارٹی اس کے بعد پارٹی رہ سکے گی؟ اور کیا یہ نکولس دوم ثابت نہیں ہوں گے؟عمران خان بے شک مقبول ہیں لیکن انھوں نے نکولس دوم کی طرح پورے ملک سے جنگ شروع کر دی ہے‘ یہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی لڑ رہے ہیں۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی برسرپیکار ہیں‘ یہ سول بیوروکریسی سے بھی ’’ہیڈ آن‘‘ ہیں‘ بزنس کمیونٹی کو بھی خلاف کر چکے ہیں‘ میڈیا سے بھی ’’متھا‘‘ لگا بیٹھے ہیں‘ امریکا‘ چین اور عربوں سے بھی بگاڑ لی ہے اور ان کی پارٹی بھی بری طرح تقسیم ہے‘ اتنی لڑائیاں تو یونانی دیوتا ہرکولیس نہیں جیت سکا آپ تو پھر بھی انسان ہیں لہٰذا آپ خود سوچیے کیا آپ اتنی لڑائیاں جیت سکیں گے؟ آپ کس کس کا مقابلہ کریں گے اور آپ اگر جیت بھی گئے تو کیا یہ ملک اس کے بعد چلنے کے قابل رہے گا؟ بہرحال عمران خان یہ الیکشن جیت جائیں یا ہار جائیں یہ اس ملک کے آخری زار ثابت ہوں گے‘ یہ سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ کوشاید22 کروڑ لوگوں کی کوئی نیکی پسند آ گئی اور اس وقت ملک میں عمران خان کے مقابلے میں عمران خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ورنہ اس ملک میں اب تک 1971 واپس آچکا ہوتا‘1971 میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو دو خوف ناک مقرر اور خوف ناک پاپولر لیڈر آمنے سامنے آ گئے تھے اور ان کی مقبولیت کا تاوان پاکستان کو دینا پڑ گیا تھا‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا لہٰذا آج اگر پی ڈی ایم کی صفوں میں بھی عمران خان جیسا کوئی شخص ہوتا تو یہ ملک اب تک فارغ ہو چکا ہوتا‘اللہ کا خصوصی کرم ہے عمران خان صرف ایک ہی ہے لہٰذا ہمارے پاس اب بھی وقت ہے‘ ہم اکٹھے بیٹھ جائیں اور ملک کو بچائیں‘ یہ کشتی یوں ملاح کے بغیر زیادہ وقت نہیں نکال سکے گی ۔

ye landay ka historian lifafa kahan kahan se tojihat nikal kar la raha hai ke IK bas 9 seaton per election na laray.