وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس پر انصار عباسی کا ردعمل۔۔ ڈاکٹرارسلان خالد سمیت سوشل میڈیا صارفین کا انصارعباسی کو جواب
گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف کی آڈیوز لیک ہوئیں یہ آڈیوز مریم نواز ااور دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ تھیں جس میں بھارت سے مریم نواز کے داماد کیلئے پاور پلانٹ منگوانے، تحریک انصاف کے استعفوں کو منظور کرنے کی سٹریٹجی اور دیگر امور پر گفتگو ہوتی رہی۔
اس پر تمام صحافیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا جبکہ ن لیگی صحافی آڈیوز کے مواد پر بات کرنے کی بجائے اسے سیکیورٹی ایشو قرار دیتے رہے۔ انصار عباسی جنہوں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی آڈیوز پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا، اسے سیکیورٹی رسک قرار دینے پر ہی اکتفا کیا جبکہ تحریک انصاف کی لیکڈ آڈیوز پر وہ تحریک انصاف پر خوب تنقید کے نشتر برساتے رہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی خیبرپختونخوا کے وزیرخزانہ تیمور جھگڑا اور محسن لغاری کی آڈیوز پر کہا تھا کہ میں یہ گفتگو سن کر حیران ہوں، کوئی سیاست میں اتنا کیسے گرسکتا ہے؟
اپنے ٹوئٹر پیغام میں انصار عباسی نے لکھا کہ آڈیو لیک ایک بڑے سکینڈل کا رخ اختیار کر سکتا ہے جس کے مخلتف پہلو ہیں اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے اہم ترین سرکاری دفتر میں کی گئی کوئی بات بھی محفوظ نہیں۔
جس پر ڈاکٹرارسلان خالد نے جوابد یا کہ کچھ روز پہلے تک آپ سابق وزیراعظم اور خاتون اول کے مبینہ طور پر فون ٹیپ ہونے اور مبینہ بات چیت کو انکشافات کہہ کر پھیلا رہے تھے، تب یہ نیشنل سیکیورٹی کا مسلہ نہیں تھا لیکن آج شہباز اور بیٹی مریم کی دفعہ سیکیورٹی مسلہ بن گیا۔اب جب اس منافقت کو ایکسپوز کرو تو ہمیں بدتمیز کہا جاتا ہے
صحافی طارق متین نے جواب دیا کہ سر، اس سے پہلے آپ پی ٹی آئی لیکڈ آڈیوز پر انکشاف اور سازش وغیرہ کر رہے تھے اب شہباز شریف آفس میں ہیں تو دفتر کی فکر پڑ گئی ہے۔ کیسے سر ایسے کیسے؟
ارم زعیم نے انصارعباسی کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ کیسے کرلیتے ہیں آپ ویسے کیا یہ آڈیو لیک سن کر آپ حیران نہیں ہیں؟ آپ نے کہا تھا کوئی سیاست کے لیے اتنا کیسے گر سکتا ہے کیا آج یہ کہنے کی ہمت نہیں ہورہی؟ کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ کل تک جب پی ٹی آئی کے کسی لیڈر کی آڈیو لیک ہوتی تھی تو آپ بریکنگ نیوز دے رہے ہوتے تھے اور آج جب آپ کے لیڈر کی آڈیو لیک ہوئی ہے تو پیٹ میں درد شروع ہو گیا۔ یا منافقت تیرا ہی آسرا
ایک اور سوشل میڈیا صارف نے جواب دیا کہ دیکھیں معیار دوہرا نہیں رکھنا چاہیے ۔
آمنہ احمد کا کہنا تھا کہ خطرناک پہلو تب کہاں تھا جب تحریک انصاف کی ویڈیوز آئیں تھیں؟ اب شریف خاندان کی پاکستان دشمنی کُھل کر سامنے آئی ھے تو بات بھی اُسی پر ھونی چاھیے
حسن خان نے تبصرہ کیا کہ اگر یہ تحریک انصاف کے لیڈر کی ہوتی تو حلال تھی لیکن