Authenticity of Bukhari

Status
Not open for further replies.

Aristo

Minister (2k+ posts)
May nay aysa comment kab aur kis post per kiya hay? Yeh tu LOL ho gaya kay mujhay khud iska pata nahi. Agar mil jaay tu share karna aur may maafi maang loon ga.
Mazrat Shiyed phir kisi aour ka ho ga jo thread delete howa hai os main tha main khud parh k hiraan reh giya tha main delete kar raha hon is question ko
 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)

اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ : امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔ اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔ تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ : علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔ اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔ اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔ پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگا‎ؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔ ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔


 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)

امام ابن الصلاح اپنی مشہور تالیف علوم الحدیث میں رقمطراز ہیں کہ

''وکتا بھما أصح الکتب بعد کتاب اللہ العزیز''( مقدمۃ ابن الصلاح ص18)

ترجمہ۔ یعنی بخاری و مسلم صحیح کتا بیں ہیں کتا ب اللہ کے بعد ۔

شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں تمام محد ثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام احادیث متصل ہیں اور مر فو ع ہیں اور تمام کی تمام یقینا صحیح ہیں یہ دونوں کتا بیں اپنے مصنفین تک متواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کر ے وہ مسلمان کی راہ کے خلاف چلتا ہے
(حجۃ البالغہ صفحہ 241)

نیز علامہ عینی حنفی رقمطراز ہیں کہ :

''وقد اجمع علماء الاسلام منذقرون طویلۃالی ھذا الیوم علی انہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ''
( علامہ عمدۃالقاری صفحہ6)

تر جمہ ۔ صحیح بخاری لکھنے کے بعد جتنے بھی علماء ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ بخاری (کا درجہ)کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے بعد ہے کتاب اللہ کے بعد وہ سب سے صحیح تر ین کتاب ہے
 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)

احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :

اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔

حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔

معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب کے نزدیک صحیحین کے راویوں پر جرح کرنا بےشرمی کا کام ہے !!

غلام رسول رضوي بريلوي صاحب فرماتے ہیں :

تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔

حوالہ : تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 ،

بعینہ یہی الفاظ آپ سعیدی صاحب کی کتاب "تذکرۃ المحدثین" کے صفحہ نمبر 324 پر دیکھ سکتے ہیں۔

پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :

جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔

حوالہ : سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء

ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :

پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔
حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔

امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث"

صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :

ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری) :

امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :

فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔

صحیحین کی صحت ، تلقی بالقبول یا قطعیت پر اجماع کا دعویٰ درج ذیل مستند علماء نے بھی کیا ہے :

ابن کثیر (774ھ)
ابن تیمیہ (728ھ)
ابن الصلاح (643ھ)
ابن القیسرانی (507ھ)
تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیں :
"احادیث الصحیحین بین الظن والیقین" - حافظ ثناءاللہ زاہدی

علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :

اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -
جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے

مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔

مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔۔۔۔ اس ہی بات کی دلیل ہے کہ :

صحیح بخاری میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں !!

قرآن مجید کو دنیا کی صحیح ترین کتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقانیت پر مبنی ہے۔

اگر بخاری میں کوئی ایک مرفوع متصل حدیث ، ضعیف ثابت ہو جاتی تو محدثین کبھی بھی اس کو "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا درجہ نہ دیتے !!

امام نسائی فرماتے ہیں :

اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔

حوالہ : نصرۃ الباری

امام ابوالفلاح فرماتے ہیں :

تمام فقہاء نے صحیح بخاری کی ہر سند حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔

حوالہ : نصرۃ الباری ، باب شذرات الذہب

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :

اور حفاظ حدیث کے نزدیک سب سے اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس کی روایت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔
حوالہ : نصب الرایۃ ، 421/1 ۔

محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)

وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)

استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔

امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔
(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)

اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔

امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔
(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)

تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں'تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔

علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ
(مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)

اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔
(قطر الولی'ص٢٣٠٭)

اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔
(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)

جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔


محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔
(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)

جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔

معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں لکھتے ہیں:

بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔
(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم
اکتوبر ١٩٨٤)


پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔

 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)

امام ابوجعفر عقیلی کا بیان ہے کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری کو مرتب کرلیا

'' عرضه على أَحْمد بن حَنْبَل وَيحيى بن معِين وعَلى بن الْمَدِينِيّ وَغَيرهم فاستحسنوه وشهدوا لَهُ بِالصِّحَّةِ الا فِي أَرْبَعَة أَحَادِيث قَالَ الْعقيلِيّ وَالْقَوْل فِيهَا قَول البُخَارِيّ وَهِي صَحِيحَة ''

تو اس کو احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی وغیرہ پر پیش کیا، تو سب نے اس کو سراہا ہے اور اس کی صحت کی شہادت دی ہے ، مگر صرف چار حدیثوں میں ۔ اور اس کے متعلق بھی عقیلی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی بات صحیح ہے اور وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام کتب احادیث پر کتاب بخاری کی اصحیت مسلم ہے۔ مقدمۃ ابن الصلاح، شرح نخبۃ الفکر، عمدۃ القاری کا مقدمہ اور مقدمہ فتح الباری سب اس چیز کی گواہی دیتے ہیں کہ ''اصح الکتب بعد کتاب اللہ کتاب البخاری'' تو ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔
 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)
احادیث کی کتابوں میں جن کتابوں کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ا ن میں صفِ اول میں بخاری شریف ہے، اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد سے اب تک اس کی عظمت کے بے شمار قائلین ہیں؛ بلکہ اس کتاب کے بارے میں بیشتر محدثین نے فرمایا کہ یہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے، یعنی قرآن کریم کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح ترین کتاب بخاری شریف ہے، امام بخاری نے اپنی اس کتاب میں صحیح احادیث نقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے؛ البتہ تمام کی تمام صحیح اور قابلِ عمل احادیث صرف بخاری شریف ہی میں نہیں ہے؛ بلکہ جواحادیث امام بخاری کی مخصوص شرائط پر پوری اتری ہیں اسی کو انہوں نے نقل کرنے کا التزام فرمایا ہے؛ الغرض اس کتاب کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاری کا انتقال 256ھ میں ہوا ،اس کے بعد سے اب تک امتِ محمدیہ اس کتاب سے مستفید ہورہی ہے ، امام بخاری کی حسن نیت وخلوص اور عرق ریزی کا نتیجہ خود دنیا میں یہ ظاہر ہوا کہ بلا واسطہ نوے ہزار حضرات نے آپ سے بخاری شریف کا سماع کیا، حضرت شیخ الہند فرماتے ہیں کہ امام بخاری زمانہٴ تصنیف کے پورے سولہ سال روزہ دار رہے اور کسی کو اس کا علم نہ تھا، حتی کہ گھر والوں کو بھی معلوم نہ تھا ،گھر سے جو کھانا آتا کسی مسکین کو کھلادیتے، جب بھی کوئی حدیث درج کرنے کاارادہ کرتے تو پہلے غسل فرماتے، دو رکعت نفل نماز ادا کرتے، پھر حدیث درج فرماتے، اسی کا اثر تھا کہ ابو زید مروزی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان سویا ہوا تھا کہ خواب میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو زید! تم امام شافعی کی کتاب کا درس کب تک دوگے؟ میری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے؟ میں نے عرض کیا حضور! آپ کی کون سی کتاب ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: محمد بن اسماعیل کی جامع صحیح۔ بقول حافظ ابن کثیرپریشانی خوفِ ودشمن، سختی مرض، قحط سالی اور دیگر بلاوٴں میں بخاری شریف کا پڑھناتریاق کاکا م دیتا ہے، ایک محدث نے اس کتاب کو ایک سو بیس مرتبہ مختلف مقاصد کے لیے پڑھا اور ہر مرتبہ ان کو کام یابی ملی، یہ بھی مقبولیت کی بات ہے کہ علماء اس کتاب کی خدمت کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوئے ،35 زائد شرحیں لکھی گئیں اورآج تک اس کا سلسلہ جاری ہے ، 22سے زائد مستخرج لکھے گئے۔ (بخاری شریف کی پہلی حدیث ص:72 )

اس کتاب کی قبولیت میں جہاں امام بخاری کے تقوی وطہارت کا دخل ہے، وہیں ان کے والدین کے احتیاط وتقوی کا بھی بڑا دخل ہے، امام بخاری کے والد کے سلسلہ میں ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ)رقم طراز ہیں: ان کے والد انتقال کے وقت فرمارہے تھے کہ میرے مال میں ایک درہم بھی حرام یا مشتبہ نہیں ہے۔ (فتح الباری1/478) غورکیجیے جس شخص نے اپنی زندگی میں حلال رزق کا اس قدر اہتمام کیا ہو اس کی اولاد میں صلاح وتقوی نہ آئے گا تو کیا آئے گا؟ خود قرآن کریم نے بھی اپنے رسولوں کو حلال رزق کھانے اور عملِ صالح کرنے کی تلقین کی ہے، اس آیت کریمہ کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے طیب رزق اور عمل کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے ،جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکیزہ رزق انسان کو نیک عمل پر ابھارتا ہے، امام بخاری کی والد ہ بھی بڑی عابدہ ،زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں، امام بخاری کمسن ہی تھے کہ باپ کا سایہ اٹھ گیا اور ظاہر ا صرف والدہ کا سہارا باقی رہ گیا تھا، والدہ نے ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت کا بیڑہ اٹھایا، امام بخاری بچپن ہی میں کسی عارضہ کی وجہ سے نابیناہوگئے تھے، علاج ومعالجہ کرانے کے باوجود بینائی واپس نہ ہوئی، آپ کی والدہ اس تعلق سے بڑی فکر مند رہتی اور رو رو کر بارگاہ الہٰی میں آپ کی بینائی کے لیے دعائیں مانگا کرتی تھیں، ایک مرتبہ خواب میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ں کی زیارت ہوئی آپں نے بشارت دی کہ تمہاری دعائیں قبول ہوگئیں او رتیرے لخت جگر کوپھر نور بصیرت سے نوازدیا گیا۔ چناں چہ جب وہ بیدار ہوئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی دونوں آنکھیں بالکل بے عیب ہوگئیں اور صحیح سالم ہیں۔ آپ کی بصارت اس قدر بڑھ گئی کہ تاریخ کبیر کا مسودہ چاندنی راتوں میں تحریر فرمایا۔ (بخاری شریف کی پہلی حدیث ص: 29)خود امام بخاری  کی زندگی تقوی وطہارت ہی سے عبارت تھی، خو دانہوں نے اپنے سلسلہ میں فرمایا :”ما اغتبت أحدا منذ علمت أن الغیبة حرام“․(ہدی الساری665) جب سے مجھے معلوم ہوا کہ غیبت حرام ہے تب سے میں نے کسی کی غیبت نہ کی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ امام بخاری کو کن کن مسائل سے دو چار ہونا نہ پڑا؟کیسی کیسی مصیبتیں آفتیں ان پر آئیں، ارباب ِحکومت کی طرف سے انہیں تنگ کیا گیا، اربابِ علم کی جانب سے ان پرطعنہ کشی کی گئی ،ان کے خلاف زہر آلودسازشیں کی گئیں، حتی کہ ان کے سلسلہ میں منقول ہے کہ ایک دفعہ ان مصائب وآلام سے تنگ ہو کر فرمایا تھا: اے اللہ! میرے اوپر تیری زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہو گئی ہے، اسی لیے مجھے اپنے پاس بلا لیجیے (کوثر المعانی1/106) ان سب کے ہوتے ہوئے زبان بندی پر عمل انتہائی قابل تعریف وقابلِ تقلید عمل ہے، جہاں تک عبادات کا تعلق ہے اس کا امام بخاری غیر معمولی اہتمام فرماتے تھے، ایک دفعہ ایک باغ میں ظہر کی نماز کے بعد نوافل میں مصروف ہوگئے، نوافل سے فارغ ہونے کے بعد قمیص کا دامن اٹھا کر لوگوں سے کہا کہ دیکھو! قمیص کے اند ر کیا چیز ہے؟ لوگوں نے دیکھا تو ایک بچھو تھا جس نے سولہ یا سترہ دفعہ ڈنک ماردیا تھا، جس سے آپ کا جسم اچھا خاصا متأثر ہوگیا تھا، لوگوں نے عرض کیاحضرت! آپ نے نماز کیوں نہ توڑی، نماز نفل تھی، بعد میں قضا کرلیتے؟ آپ نے فرمایا: جس سورہ کی تلاوت شروع کی تھی اس میں اتنا مزہ آرہا تھا کہ اس کے مقابلے میں یہ تکلیف کچھ بھی محسوس نہ ہوئی۔(ہدی الساری ص: 666،بحوالہ بخاری شریف کی پہلی حدیث کا درس)اسی طرح ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ )نے جو آپ کے رمضان کا معمول نقل کیا ہے وہ بھی قابل مطالعہ ہے۔اما م بخاری رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت فرماتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے، ہر دن سحری تک قرآ ن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح تین رات میں قرآن ختم فرماتے اور مضان کے ہر دن میں ایک قرآن ختم کرتے،اور یہ ختم افطار کے موقعہ پر ہوتا اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کرتے۔ (فتح الباری1/481)یہی تقوی طہارت کا ہی اثر تھاکہ اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو قبولیت عامہ سے نوازا۔

آج مدارس اسلامیہ سے ہزاروں طلباء تعلیم پاکر فارغ ہورہے ہیں، انہوں نے اپنا اختتام بخاری شریف کے ذریعہ کیاہے تو ان سے حدیث کی یہ کتابیں، محدثین کی روحیں تقاضا کررہی ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنے زمانے میں حدیث رسول کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، انہوں نے احادیثِ نبویہ کے خلاف ابھرنے والے ہر فتنہ کا منھ توڑجواب دیا اور ان فتنوں کو ایسی مات دی کہ پھروہ فتنے نہ ابھرسکے، جیسے اس زمانے میں وضع حدیث کافتنہ تھا، سندوں میں اختلاط وہیرا پھیری کافتنہ تھا، ان سب کا محدثین نے خداداد حافظہ وذہانت کے ذریعہ خاتمہ کردیا، اسی طرح حاملینِ بخاری سے وقت یہ تقاضہ کررہاہے کہ وہ فراغت کے بعدخدمتِ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیں، خد متِ حدیث کو اپنے لیے سعادت سمجھیں ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں جو شخص خدمت حدیث میں مصروف ہوتا ہے اس کا تعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر سے ہوجاتا ہے۔ آج تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے احادیث رسول کے خلاف انتہائی گھناوٴنا طرزِ عمل اپنایا جارہا ہے، کہیں احادیث کی حجیت کا انکار ہو رہا ہے تو کہیں احادیث کی من مانی تشریحات کے ذریعہ دیگر احادیث کو ناقابل عمل کہہ کر کوڑے دان کی نذر کیا جارہا ہے، اسلام کے نام پر اٹھنے والے یہ فتنے احادیث مبارکہ کو اپنا تختہٴ مشق بنائے ہوئے ہیں، احادیثِ مبارکہ کے ساتھ وہ طرز عمل اپنایا جارہا ہے جس کی محدثین نے کبھی اجازت نہ دی، ایک وہ طبقہ بھی ہے جو احادیث مبارکہ کو ان کے متعینہ مطالب اور سلف صالحین کے بتائے ہوئے مطالب سے ہٹا کر غلط تاویلات کا سہارا لے کر من چاہا مطلب بیان کررہا ہے، ایسے میں حاملینِ حدیث کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ انہوں نے جس حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے اس حدیث کی خدمت میں مگن ومست رہیں، کہیں خدا نخواستہ مادیت کے گرداب میں پھنس کر خدمتِ حدیث جیسی عظیم الشان نعمت سے محروم نہ ہوجائیں، اس عظیم نعمت کے ہاتھ آنے کے بعد دولت کی لالچ وطمع میں ہم نہ گھِر جائیں، اس لیے امام بخاری نے بھی جو دین کی خدمت کی ہے وہ سوکھی روٹی کھا کر کی ہے، ایک دفعہ علاج کے لیے طبیب کو قارو رہ دکھایا گیا توطبیب نے کہا کہ یہ اس شخص کا قارورہ ہے جو بغیر سالن کے روٹی کھاتاہے، آپ سے اصرار کیا گیاروٹی کے ساتھ سالن استعمال کریں۔ آپ نے انکار کیا اور صرف روٹی کے ساتھ بعض دفعہ شکر استعمال کرنے لگے،جب علمِ حدیث کی دولت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں مالا مال کیا ہے تو کم از کم روز انہ ایک حدیث یاد کرنے کا اہتمام کریں، ایک حدیث اور اس کا مطلب امت کے سامنے بیان کریں، کسی بھی موضوع پر چالیس احادیث منتخب کر کے اس پر کام کریں، بعض محدثین تو وہ ہیں جنہوں نے احادیث کے یاد کرنے کے لیے ایک آسان طرز یہ اپنایا تھا کہ وہ حدیث پر کم از کم زندگی میں ایک دفعہ عمل کرلیتے تاکہ وہ حدیث یاد رہے، الغرض حدیث کی دولت حاصل ہونے کے بعد اس کی قدر دانی کی ضرورت ہے اوراس راہ میں ترقی کی ضرورت ہے، دورِ حاضر میں بالخصوص ”مکتبہٴ شاملہ“ سافٹ ویئر کے آنے کے بعد ہر عالم کی رسائی اس تک ہے، اب کتابوں کی عدم فراہمی کا کوئی عذرلنگ نہیں کرسکتے، بالخصوص اس سافٹ ویئر میں جو سرچ کی صلاحیت ہے اس کی افادیت ناقابل بیان ہے، اسی لیے ہر عالم دین اس سافٹ ویئر سے استفادہ کرتے ہوئے خدمتِ حدیث میں نمایاں خدمات انجام دے سکتا ہے، ان احادیث کے پڑھنے کے بعد کم از کم محدثین کے اس مجاہدے کو ذہن نشین رکھے کہ انہوں نے ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے کتنی جاں فشانی سے کام لیا ہے؟ کتنا کتنا لمبا سفرطے کیا ہے؟ احادیث کے حاصل کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے؟ اگر ان باتوں کو ہم نے ذہن نشین رکھا تو ان شاء اللہ اس دولت حدیث سے بے اعتنائی وبے توجہی نہ کریں گے، اگر ہم ان مجاہدات کو پسِ پشت ڈال دیں یا ان سے صرف نظر کرلیں تو پھر سوائے نقصان وخسارے کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ تمام طالبانِ علوم نبوت کو خدمتِ حدیث کی دولت سے مالا مال کرے، آمین!
 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)
%D8%A7%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D9%A1-jpg.7530
 

Niazbrohi

Senator (1k+ posts)
یہ بات یاد رہے کہ صحیح بخاری کے بارے میں یہ دعویٰ تحقیق اور دلیل پر مشتمل ہے جسے محدثین نے چیک کرنے کے بعد ہی بخاری کو صحیح ترین کتاب ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ اب کسی محدث کا صرف شبہ یا بے دلیل دعویٰ کہ بخاری اصح الکتب نہیں ہے اس اجماع پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ کیونکہ اجماع ہوچکا ہے جس کا اقرار حنفیوں کو بھی ہے لہٰذا اگر اس کے خلاف کسی شخص کا کوئی اعتراض معقول یا قابل التفات ہوتا تو یہ اجماع وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
بخاری میں ہر قسم کی باتیں موجود ہیں اس میں موجود مواد سے ہر فرقے کے لوگ اپنا مذھب ثابت کر لیتے ہیں اس کے علاوہ بخاری میں بے سروپا باتیں بھی موجود ہیں جن کو لے کر لوگ منکر حدیث ہو جاتے ہیں

میری رائے میں مسٹر بخاری نے اس وقت موجھود تمام باتوں کو ایک کتاب میں جمع کر دیا تھا اور بس . . . . ان کا دعوا "صحیح ترین " کتاب کا ہرگز نہیں تھا یہ تو بعد میں جب سنی ازم کے پیروکاروں نے محسوس کیا کہ ان کی ایک کتاب ہونی چاہیے تو انہوں نے اس کی کتاب کو "صحیح ترین " قرار دے دیا

لہٰذا آج سنی ازم کے پیروکاروں کو مخالفین سے سوالات سننے پڑتے ہیں اور وہ یوں ہی تپوسیان مارتے رہتے ہیں جیسے اس تھریڈ پر ماری ہیں
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

جزاک اللہ نیاز بروھی آپ نے اتنی تحقیق کی۔ میں تو ایک سادا سا سوال کرتا ہوں کہ قرآن کی حقانیت بھی حدیث ہی سے ملے گی۔ اگر حدیث نکال دو تو یہ کون بتائے گا یہ قرآن اصل ہے۔ اللہ کے رسول کوئی لکھی ہوئی کتاب تو چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔ یہ قرآن ان ہی کا دیا ہوا ہے جنہوں نے حدیث بھی دی۔ جب قرآن کا یقین کر لیا تو حدیث کا انکار کیوں؟
 
Status
Not open for further replies.