Geo paid Hina Butt for this disjointed ramblings, or vice versa???

desan

President (40k+ posts)

دِلوں کا بادشاہ شیر!

حنا پرویزبٹ

نوجوان بیٹا بولا، سخت مایوس ہوں کہ سارے خواب چکنا چور کر دیے ہیں، میں نے تو تبدیلی کو ووٹ اُس وعدے کی وجہ سے دیا تھا کہ پیسہ نوجوانوں کی تعلیم اور عوام پر خرچ کیا جائے گا لیکن اُس نے تو ہمارے وظیفے ہی بند کر دیے ہیں، ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کی گرانٹ نصف کردی ہے، یونیورسٹیوں و کالجوں کی فیسیں اِس قدر بڑھا دی گئی ہیں کہ غریب بچوں کیلئے تعلیم دلی دور است بن گئی ہے، میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے پاس اساتذہ کو دینے کیلئے تنخواہیں نہیں ہیں اور وہ گورنر ہائوس کے باہر مظاہرے کریں گے۔ باپ بولا، دیکھو بیٹا ایسا نہیں ہے، وہ خرچ تو کر رہا ہے۔ بیٹا چیں بہ چیں ہوکر بولا کس پر؟ باپ گویا ہوا اپنے حواریوں پر، کیا وہ عوام نہیں ہیں؟ وہ نہ صرف ان پر بلا روک ٹوک خرچ کررہا ہے بلکہ اس کے حواری مقدس گائے قرار دیے جا چکے ہیں، کوئی ادارہ کوئی محکمہ ان کی ہوا کو بھی نہیں چھو سکتا ہے، اس وجہ سے وہ دن رات اس منصوبہ بندی میں مصروف ہیں کہ کوئی ترقیاتی کام ہو یا نہ ہو اس کی منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہی وہ چمک سے سرفراز ہو جائیں، اسی وجہ سے انہیں سمیٹنے کی بہت جلدی ہے، شاید انہیں یقین ہو چکا ہے کہ کم ازکم انہیں تو توسیع نہیں ملنے والی ہے۔ لیکن بابا ریاستِ مدینہ تو رعایا کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوتی ہے لیکن انہوں نے مہنگائی کی لو چلا دی؟ یوٹیلٹی بلوں نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ہر طبقہ مہنگائی کی لو میں جھلس چکا ہے، ایسا کب تک چلے گا؟ بیٹا تیز تیز بولا۔ دیکھو بیٹا عوام کے نام پر مسلط ٹولہ عوام کو مہنگائی کے بیلنے میں پرو کرصبح دوپہر شام ان سے ٹیکسوں کے جوس نچوڑے چلے جارہا ہے، یہ ٹولہ کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی یوٹرن لے لیتا ہے لیکن مجال ہے کہ منزل کی جانب رخ بھی کرے، جس نکتے پر زور دینا چاہئے، اس پر یہ ٹولہ چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے، جن باتوں پر چپ رہنا چاہئے، ان پر یہ گز بھر لمبی زبانیں نکال کر یوں مغلظات کی برسات کرتے ہیں جیسے کوئی ثواب کا کام ہو،انھوں نے تو سیاست کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ لیکن بابا کیا ان کو ڈر نہیں کہ انہیں آخر کار عوام کے پاس جانا پڑے گا؟ سنو میرے بیٹے نہ تو یہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس عوام کے پاس جانے کی ہمت یا جواز ہے، جو عوام کا ووٹ لے کر آتے ہیں وہ عوامی پالیسیاں بناتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام میں جانا ہے، یہ تو بلدیاتی انتخابات کروانے سے بھاگ رہے ہیں، یہ جانتے ہیںکہ عوام ان کا حشر نشر کر دیں گے، ضمنی انتخابات میں نتائج سے صاف واضح ہے کہ شفاف عام انتخابات کی صورت میں حکومت کا صفایا ہو جائے گا اور منہ چھپانے کو بھی جگہ نہ ملے گی۔ بابا یہ ہر پلیٹ فارم پر غلط بیانی کیوں کرتے آرہے ہیں؟ کیا اُنہوں نے عوام کو بےوقوف سمجھا ہوا ہے؟ باپ بولا بیٹے انھوں نے اب تک تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں کم از کم 2190بار جھوٹ کا ڈھول پیٹا ہے کہ جو ہم کرنے جارہے ہیں ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے، لیکن عوام جان گئے ہیں، پہلی بار، پہلی بار کی گردان کرنے والوں نے سوائے میاں نواز شریف کے منصوبوں کی تختیاں اکھاڑ کر اپنی تختیاں لگانے کے کوئی کام نہیں کیا ہے، پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کے پروجیکٹ کو ہائی جیک کرکے انصاف صحت کارڈ کا نام دیا گیا، یہ تو یہ بھی نہیں جان سکے کہ گوادر میں جو تقریر موجودہ وزیراعظم نے کی ہے وہ ہو بہو وہی تھی جو میاں نواز شریف یہاں منصوبوں کے افتتاح کے وقت کر چکے تھے۔ ہاں یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق دو سو نااہلوں کی ٹیم نے ملک کو 38ہزار 6ارب روپے کے قرضوں میں پھنسا دیا ہے اور پاکستان اپنی مجموعی پیداوار کے 87فیصد کے برابر قرضے لے چکا ہے، اب قرضے اور انکا سود اتاریں یا پھر ترقیاتی کام؟ بیٹے ملکی معاشی صورتحال بہت خوفناک ہو چکی ہے، ہم تیزی سے دیوالیہ ہونے جارہے ہیں، ملک کو قرضوں کے پہاڑ تلے لانے والے بھونپو صمن بکمن کی زندہ مثال بن چکے ہیں۔ 1نہیں 2نہیں 30سے زائد سرکردہ ن لیگیوں کو جیل یاترا کرواکر سب پھڑے جان گے کی جھوٹی مہم چلائی گئی، آج سب کو عدالتوں نے رہا کرکے نیب کی غیرجانبداری پر اتنا بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ اس کے بعد نیب کا موجودہ شکل میں قائم رہنا ناممکن ہو گیا ہے۔ تین برسوں میں جھوٹوں نے میاں نواز شریف کا قد چھوٹا کرنے کیلئے ہر جتن کیا، صبح دوپہر شام جھوٹے الزامات لگائے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کے دعویدار یا تو ملک چھوڑ چکے ہیں یا پھر دنیا، موجودہ بھی یہی کررہے ہیں اور یہ بھی ماضی والوں کی طرح کے انجام سے دوچار ہوں گے، آزاد عوامی سروے کرواکے انٹرنیشنل میڈیا واضح طور پر بتا چکا ہے کہ میاں نواز شریف کی عوامی مقبولیت ماضی کی نسبت کوہ ہمالیہ کی بلندیوں کو چھو چکی ہے، شفاف انتخابات کے نتیجہ میں شیر چوتھی بار مخالفین کو دھول چٹا دے گا، بائیو میٹرک انتخابات کی آڑ میں دوبارہ جیتنے کے خواب دیکھنے والے ناکام ہوں گے، شیر دوبارہ آئے گا اور پوری طاقت سے آکر بتائے گا کہ دلوں پر بادشاہی کیونکر قائم کی جاتی ہے۔


https://jang.com.pk/news/958227
 
Last edited by a moderator:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
محترمہ کو اگر تعلیم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تو منہ نہ کھولے۔
ہمارے ملک میں تعلیم کا پیڑا غرق کرنے میں ایچ ای سی کا جتنا ہاتھ ہے اتنا کسی اور کا نہیں۔
دو سال کی بجائے چار سالہ پروگرام پر بغیر کسی سوچ بچار کے عمل درامد شروع کیا گیا۔یہ جانے بغیر کہ ہارے وسائل اس کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں
عام گورنمنٹ کالجز میں یہ پروگرام شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری تھا کہ بلڈنگ اور سٹاف ہے یا نہیں۔ عام بات ہے کہ اگر دو سالہ بی اے کے لیے دو کمرے چاہیے تو چار سالہ بی ایس کے لیے چار رومز ہونے چاہیں اور جہاں ہر 6 ماہ بعد نیا سمسٹر شروع ہو وہاں کے لیے آٹھ کلاس رومز ہونے چاہیں۔ اسے طرح بی اے ۔بی ایس سی میں تین مضمون ہوتے ہیں اور بہت سے کالجز میں تین پروفیسرز بھی کام چلا لیتے تھے۔ لیکن اس پروگرام می کچھ آپشنل مضامین بھی ہوتے ہیں جس کے لیے آپ کو ایکسٹرا سٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ پرائیویٹ طلبہ ہیں اور یہ طلبہ بڑی تعداد میں بی اے اور ایم اے کرتے تھے جن کی وجہ سے یونیورسٹی کو اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی۔ اب یہ ذریعہ بند ہوا اور عام لوگوں پر پرائیویٹ تعلیم کے دروازے بھی بند ہوگئے۔

پشاور میں انگریزی کے ایک بہترین پروفیسر جناب اللہ بخش ساجد تھے۔ مرحوم کو اپنے مضمون پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے سکول کے بعد تمام تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سےتھا وہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ٹرک لوڈر کا کام بھی کیا ساتھ ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اب پتا نہیں اب بھی کتنے اللہ بخش ساجد ہوں گے لیکن اس سسٹم میں انہیں پڑھنے کا موقع کہاں ملے گا۔
 

ranaji

President (40k+ posts)
کھسرے حنا پرویز بٹ کو تو۔ اپنے ساتھ ہیپی انڈنگ کرنے کے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں یہ تو پھر کوئی کسی پڑھے لکھے سے لکھوایا ہوا کوئی مضمون ہوگا بغیر پڑھے اس کھسرے پر لعنت
 

Jurist

Politcal Worker (100+ posts)
کھسرے حنا پرویز بٹ کو تو۔ اپنے ساتھ ہیپی انڈنگ کرنے کے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں یہ تو پھر کوئی کسی پڑھے لکھے سے لکھوایا ہوا کوئی مضمون ہوگا بغیر پڑھے اس کھسرے پر لعنت
It has obviously been written by Suhail Waraich who also writes under pen name of Asma Sherazi at BBCurdu. Rana it was expected from you to reveal this as it is general perception that no patwari can go unnoticed from your keen observation even if he is working behind curtain.
 
Last edited: