حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ
حذیفہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں
داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ کافی ہوگا جو ان کے کندھوں سے ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔
ویسے معاویہ کی موت اسی دبیلہ نامی پھوڑے سے ہوئی تھی
حضرت حذیفہ ؓ نے رسول اللہؐ سے سنا کہ
آٹھ منافقوں کی نشانی موت دبیلہ پھوڑے کی وجہ سے ہوگی
حوالہ :۔صحیح مسلم
معاویہ دبیلہ پھوڑے سے مرا
: قال ابن قتيبة في المعارف - (1 / 79)
وولي معاوية الخلافة عشرين سنة إلا شهراً وتوفي سنة ستين وهو ابن اثنتين وثمانين سنة.
وقال ابن إسحاق: مات ( معاوية) وله ثمان وسبعون سنة وكانت علته النقابات وهي الدبيلة ولم يولد له في خلافته ولد،..الخ.
: ابن قتیبہ نے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ معاویہ کو دبیلہ پھوڑا نکلا اس سے اسکی موت ہوگئی۔۔
آخری لائن
وهذه الرويات في دبيلة معاوية:
الرواية الأولى : طلحة بن يحيى عن أبي بردة بن أبي موسى (شاهد عيان)
في تاريخ دمشق - (ج 26 / ص 45)
أخبرنا أبو سعد بن البغدادي أنا أبو منصور بن شكروية ومحمد بن أحمد بن علي السمسار قالا أنا إبراهيم بن عبد الله بن محمد نا أبو عبد الله المحاملي نا سعيد بن يحيى الأموي نا أبي نا طلحة بن يحيى عن أبي بردة قال :
دخلت على معاوية وهو يشتكي وبه قرحة في ظهره قال والطبيب يعالجها وهو يتأوه تأوه الصبي!
قال فقلت يا أمير المؤمنين إنك تأوه قال قم فانظر إليها؟
قال فقمت فإذا قرحة قبيحة!
فقال هذه تدعونها الراقية! وأهل العراق يزعمون أنها النقابة أو الثقابة! ويزعمون أنها قاتلتي!!
قال ثم قال أما ما ذكرت من تأوهي فإني سمعت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول : (ما من مسلم يصيبه أذى في جسده إلا كفر الله بها خطاياه ودون هذا يا أبا بردة أذى) اهـ
التعليق:
أما السند فصحيح ، وزاد من صحتها أن في رواتها نواصب، بل يكاد أن يكون السند مسلسل بالنواصب ، فإن تم إخفاء شيء فإنما يتم إخفاء ما يسيء إلى معاوية ونشر ما يدفع عنه ، وللرواية شواهد صحيحة وستأتي ، وقد حاول معاوية أن يخدع الناس حياً وميتاً لأجل استمرار الملك في ذريته.
وأما من حيث المتن فواضح، فهذا أبو بردة بن أبي موسى دخل على معاوية فرأى قرحته في ظهره! والطبيب يعالجها ومعاوية يتأوه تأوه الصبي! ورآها قرحة قبيحة! ويستبق معاوية دلالة الحديث فيقول : أن أهل العراق يسمونها كذا! ويصرف اسم ( الدبيلة) عنها! ثم ينقل عن أهل العراق أنهم يزعمون أنها قاتلته! - وهذا أخذه أهل العراق من حذيفة وعمار وأبي الطفيل وأمثالهم فقد استطاعوا فك هذه الرموز في أحاديث الدبيلة وأصحاب العقبة و...الخ!
ابو بردۃ فرماتے ہیں : میں معاویہ کے ہاں داخل ہوا اور وہ شکایت (اپنی بیماری سے بیزار ہوکر) کررہے تھے . انکی پیٹھ میں ایک بہت بڑا زخم تھا . پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک طبیب انکا علاج کررہا تھا . وہ بچوں کی طرح رو رہے تھے . پھر وہ کہتے ہیں کہ مینے کہا کے اے امیر آپ تو رو رہے ہیں . پھر معاویہ نے کہا کہ ذرا کھڑے ہوکر دیکھو زخم کو . تو کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا . تو مینے جب دیکھا تو وہ ایک قسم کا گہرا گڑہ تھا . پس اس نے کہا . یہ وہ ہے جسکو تم لوگ الراقیة کہتے ہو اور اہل عراق اسکو النقابة یا الثقابة کہتے ہیں . اور انکا یہ گمان ہے کہ "یہ میرا قاتل ہے" . کہتے ہیں کہ پھر معاویہ نے کہا . کیا تو نہیں دیکھتا کہ جسکا ذکر کیا تو نے . پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوے سنا کہ . کسی بھی مسلم کو جب اس کے جسم میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے مگر یہ کہ اللہ اسکے زریعے سے اسکی خطاوں کا کفارہ بنادیتا ہے . پھر کہا معاویہ نے کہ اے ابو بردة کیا ایسی بات ہے یا نہیں ہے؟
التعلیق:
جہاں تک سند کی بات ہے تو سند بلکل صحیح ہے بلکہ اسکی صحت کو اور بھی زیادہ کردیا ہے اس چیز نے کہ اسکے روایت کرنے والے راویان میں نواصب کی ایک تعداد ہے بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ نواصب کی وجہ سے اسکی صحت سند مسلسل ہے . اگر (نواصب) اس (روايت) ميں سے کچھ مخفی (چپھانا) هوتا تو وه اس كو مخفی رکھتے جو معاوية کو ضرر (كردار) دے اور وہ بيان كيا جائے جو اسکو فائدہ دے ۔
اس روایت کیلئے شواھد صحیحہ بھی ہیں جو عنقریب آگے آیینگے . تحقیق یہ ہے کہ جہاں تک معاویہ کی بات ہے تو اس نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے دھوکہ دینے کیلئے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی . اس وجہ سے کہ اس نے اپنی اولاد میں ملوکیت کو جاری کردیا . جہاں تک سند کی بات ہے تو اسکی سند صحیح ہے
اور جہاں تک متن کی بات ہے تو بلکل واضح ہے کہ یہ ابو بردة بن ابی موسی تھے جوٰ داخل ہوے معاویہ کے ہاں تو انہوں نے گھڑے کو دیکھا زخم کو دیکھا اور طبیب انکا علاج معالجہ کررہا تھا اور معاویہ بچوں کی طرح رو رہا تھا اور معاویہ لپکے اس حدیث سے دلیل کی طرف . اس نے کہا کہ اہل عراق اسکا اس طرح نام رکھتے ہیں کہ اسکا نام الدُبیلة بیان کیا اور اہل عراق یہی گمان رکھتے ہیں کہ یہ ہی انکا (معاویہ) کا قاتل ہے . اہل عراق کا یہ نظریہ حذیفہ بن یمان رض اور عمار بن یاسر رض اور ابی طفیل رض کی بیان کردہ الدبیلة اور اصحاب العقبة کے متعلق احادیث رسول ﷺ سے ہے جن سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ یہی معاویہ کی موت کا سبب ہے ... الخ!