Read the mail to the bottom and read what link is saying about these news papers.
ایکسپریس ٹریبیون کی ویب سائٹ پر چھپنے والی تردید کا عکس
پاکستان کے بعض اخبارات کو وکی لیکس کے نام سے اس جعلی دستاویز کی اشاعت پر خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں بھارت کو سخت تنقید کا نشانا بنایا گیا تھا اور اخبارات نے اس خبر کی اشاعت پر معافی بھی مانگی ہے۔
جمعرات کی اشاعت میں پاکستانی اخبارات نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی تھی جس کے مطابق وکی لیکس کے ایک مراسلے میں جہاں بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی مداخلت کا ذکر آیا تھا وہیں ہندو انتہاپسند تنظیموں کے بھارتی فوجی جرنیلوں سے روابط کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔
تاہم برطانوی اخبار گارڈین نے جمعرات کی شام ہی اپنی ایک خبر میں اس دستاویز کو جعلی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ تمام تر کوشش کے باوجود وکی لیکس میں کوئی ایسی دستاویز سامنے نہیں آ سکی۔
اس خبر کی شاعت کے بعد جمعہ کو ایک پاکستانی اخبار کی جانب سے اس خبر کو بلا تحقیق شائع کرنے پر معذرت کی گئی ہے۔
انگریزی کے اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون نے اس خبر کی اشاعت پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ روز بھارت کے متعلق وکی لیکس کی جو دستاویز شائع کی گئی تھی وہ جعلی ثابت ہوئی ہے۔
ایک اور انگریزی روزنامے دی نیوز نے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ گزشتہ روز بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی مداخلت کے متعلق جو وکی لیکس کی دستاویز شائع کی گئی وہ جعلی تھی اور اس پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔
دی نیوز نے صفحۂ اول پر خبر کے جعلی ہونے کی خبر شائع کی ہے
دی نیوز نے یہ بھی لکھا ہے کہ وکی لیکس کی جعلی دستاویز کی رپورٹ خبر رساں ادارے آن لائن کی طرف سے بھیجی گئی تھی اور دی نیوز اور روزنامہ جنگ نے اس اعتماد کے ساتھ شائع کی کہ وہ درست ہے، تاہم شائع کرنے سے پہلے اخبارات کو اس رپورٹ کی تحقیق کرنے چاہیے تھی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جب اس خبر کی مزید تفتیش کی گئی تو ذرائع سے پتا چلا کہ وکی لیکس کی دستاویز کے بارے میں خبر رساں ایجنسی کی خبر مشکوک تھی اور مخصوص مقاصد کے تحت چلوائی گئی۔
اس بارے میں بی بی سی کے نامہ نگار حفیظ چاچڑ سے بات کرتے ہوئے خبر رساں ایجنسی آن لائن کے سربراہ محسن بیگ نےدعوٰی کیا یہ دستاویز اصل ہے۔ انہوں نے ان اخبارات پر تنقید کی جنہوں نے اس خبر پر معذرت شائع کی ہے۔
ان کے مطابق اگر ہماری خبر کی وکی لیکس تردید کر دے تو ان اخبارات کی معذرت جائز ہے اور وکی لیکس کی اس خبر کے انٹرنیٹ پر بے شمار لنکس موجود ہیں۔
محسن بیگ نے کہا کہ وکی لیکس کے دستاویزات شائع کرنے کا برطانوی اخبار گارڈین کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ دستاویزات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور انہیں کوئی بھی چھاپ سکتا ہے۔ انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی جن میں کہا گیا ہے کہ خبر رساں ایجنسی کو یہ خبر مخصوص مقاصد پورے کرنے کے لیے دی گئی تھی۔
پاکستان کے بعض اخبارات کو وکی لیکس کے نام سے اس جعلی دستاویز کی اشاعت پر خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں بھارت کو سخت تنقید کا نشانا بنایا گیا تھا اور اخبارات نے اس خبر کی اشاعت پر معافی بھی مانگی ہے۔
جمعرات کی اشاعت میں پاکستانی اخبارات نے اس خبر کو نمایاں جگہ دی تھی جس کے مطابق وکی لیکس کے ایک مراسلے میں جہاں بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی مداخلت کا ذکر آیا تھا وہیں ہندو انتہاپسند تنظیموں کے بھارتی فوجی جرنیلوں سے روابط کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔
تاہم برطانوی اخبار گارڈین نے جمعرات کی شام ہی اپنی ایک خبر میں اس دستاویز کو جعلی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ تمام تر کوشش کے باوجود وکی لیکس میں کوئی ایسی دستاویز سامنے نہیں آ سکی۔
اس خبر کی شاعت کے بعد جمعہ کو ایک پاکستانی اخبار کی جانب سے اس خبر کو بلا تحقیق شائع کرنے پر معذرت کی گئی ہے۔
انگریزی کے اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون نے اس خبر کی اشاعت پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ روز بھارت کے متعلق وکی لیکس کی جو دستاویز شائع کی گئی تھی وہ جعلی ثابت ہوئی ہے۔
ایک اور انگریزی روزنامے دی نیوز نے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ گزشتہ روز بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی مداخلت کے متعلق جو وکی لیکس کی دستاویز شائع کی گئی وہ جعلی تھی اور اس پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔
دی نیوز نے یہ بھی لکھا ہے کہ وکی لیکس کی جعلی دستاویز کی رپورٹ خبر رساں ادارے آن لائن کی طرف سے بھیجی گئی تھی اور دی نیوز اور روزنامہ جنگ نے اس اعتماد کے ساتھ شائع کی کہ وہ درست ہے، تاہم شائع کرنے سے پہلے اخبارات کو اس رپورٹ کی تحقیق کرنے چاہیے تھی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جب اس خبر کی مزید تفتیش کی گئی تو ذرائع سے پتا چلا کہ وکی لیکس کی دستاویز کے بارے میں خبر رساں ایجنسی کی خبر مشکوک تھی اور مخصوص مقاصد کے تحت چلوائی گئی۔
اس بارے میں بی بی سی کے نامہ نگار حفیظ چاچڑ سے بات کرتے ہوئے خبر رساں ایجنسی آن لائن کے سربراہ محسن بیگ نےدعوٰی کیا یہ دستاویز اصل ہے۔ انہوں نے ان اخبارات پر تنقید کی جنہوں نے اس خبر پر معذرت شائع کی ہے۔
ان کے مطابق اگر ہماری خبر کی وکی لیکس تردید کر دے تو ان اخبارات کی معذرت جائز ہے اور وکی لیکس کی اس خبر کے انٹرنیٹ پر بے شمار لنکس موجود ہیں۔
محسن بیگ نے کہا کہ وکی لیکس کے دستاویزات شائع کرنے کا برطانوی اخبار گارڈین کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ دستاویزات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور انہیں کوئی بھی چھاپ سکتا ہے۔ انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی جن میں کہا گیا ہے کہ خبر رساں ایجنسی کو یہ خبر مخصوص مقاصد پورے کرنے کے لیے دی گئی تھی۔