تو نہ مٹ جائے گا ایراں کے مٹ جانے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
کشتیئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے۔
عصر نورات ہے' دھندلا سا ستارا تو ہے۔
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا۔
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا۔
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا۔
امتحاں ہے تیرے ایثار کا' خود داری کا۔
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے۔
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے۔
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری۔
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری۔
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری۔
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے۔
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔
علامہ محمد اقبال