Namaz mein dheyan idher udher kiun ho jata hai?

FahadBhatti

Chief Minister (5k+ posts)
jahan tak meri nakis aqal kehti hai iski ek bunyadi wajah hum jo namaz mein sana , fateha , tasbeehat aur duaayen perhte hen un ka tarjama yaa mafhoom ka pata na hona hai.

Hamain kam az kam namaz ka mukammal tarjama aana chahye takay hamara mukammal focus namaz ke ander hee rahay.

agli dafa jab namaz perhen to tarjama apne zehan mein laane ki koshish kerein , inshaAllah afaqa ho ga.
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
No, the real reason is that we forget that God is watching us.
Imagine for a minute, you are a part of an online court hearing. You are sitting in your room. There is a camera which is lively televising your statement. Your statement will decide if you go to prison or not.
Tell me, will you lose concentration reading your statement in front of the camera, although there is no one in the room with you. No. You know you are being watched by the camera and each word you speak is important. But we keep losing concentration in a namaz because we don't have a belief that God is watching us. We alter our actions as soon as we realize that there is a CCTV camera or a Police camera next to us, we don't speed if there is a police speed camera on the road. So much belief in a Police camera and not a belief in Allah's warning that he is watching us.

Allah (swt) says surah al Fajr v14
"Verily, your Rubb is Ever Watchful"
Our world will turn into heaven if we just start believing that Allah is watching us. No, Police camera will be needed to correct our actions.
 
Last edited:

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)

وسوسے وغیرہ آنا یہ شیطان کی طرف سے ہے جو کہ مسلمان کو گمراہ کرنے اور خیر اور بھلائی سے محروم اور اس سے دور کرنے پر حریص ہے ۔

صحابہ میں سے ایک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ اسے نماز میں وسوسے آتے ہیں تو وہ کہنے لگا کہ میرے اور میری نماز کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا اور میری قرابت کو مجھ پر خلط ملط کر دیتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یہ شیطان ہے اسے خنزب کہتے ہیں جب آپ محسوس کریں تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں اور بائیں طرف تین دفعہ تھوکیں تو صحابی کہتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالی نے یہ وسوسے ختم کر دیۓ
صحیح مسلم حدیث نمبر 2203


بندہ یہ سوچنے اور سمجھنے میں جدوجہد کرے کہ وہ کیا عمل کرنے لگا اور کیا کہنے لگا ہے اور قرات اور اللہ تعالی کے ذکر اور دعا مانگنے میں غور و فکر اور تدبر کرنا اور یہ بات ذہن میں رکھنا کہ وہ اللہ تعالی سے سرگوشی اور مناجات کر اور اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے کیونکہ نمازی شخص جب کھڑا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ اپنے رب سے مناجات اور سرگوشیاں کر رہا ہے اور احسان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت ایسے کریں کہ گویا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہے

ن سوچوں اور تفکرات کو دفع اور دور اور ختم کرنے کی جدوجہد کرنا جو کہ دل کو مشغول کر دیں اور جن کا کوئی فائدہ نہ ہو اور ان چیزوں پر غور و فکر کرنا جو کہ دل میں نماز کے مقصد کی جاذبیت پیدا کریں اور یہ ہر بندے میں اس کے حال ہیں کیونکہ وسوسوں کی کثرت شبہات اور شہوات کی کثرت کی بنا پر ہیں اور دل کا تعلق ان محبوب چیزوں سے ہونا جو کہ دل کو انہیں حاصل کرنے کے لۓ پھیر دیں اور ان مکروہات کی طرف جو کہ دل کو انہیں دور کرنے کی طرف پھیر دیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ کرام نے ان وسوسوں کی شکایت کی جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی تو صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ائے اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی چیز پاتے ہیں جن کا زبان پر لانا بہت مشکل ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ ایسا پاتے ہیں تو صحابہ نے جواب دیا جی ہاں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی صریح ایمان ہے ۔

اسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے حدیث نمبر 132

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (یہی صریح ایمان ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ان وسوسوں کی کلام نہ کرنا اور انہیں زبان پر نہ لانا اور اسے برا جاننا یہی صریح ایمان ہے ۔

بے شک اسے بہت برا سمجھنا اور اس کو زبان پر لانے سے خوف زدہ ہونا چہ جائکہ اس کا اعتقاد رکھنا تو یہ حالت اس کی ہوتی ہے جس کا ایمان کامل اور محقق ہو اور اس سے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہوں ۔

شیطان وسوسے اسے ڈالتا ہے جس کے گمراہ کرنے سے وہ عاجز آچکا ہو تو اسے وسوسے میں ڈالتا ہے تا کہ وہ اپنے عاجز آنے کا بدلہ چکا سکے اور کافر کو تو جس طرح چاہے اور اس سے کھیلتا پھرے اور اسے وسوسے نہیں ڈالتا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے اس کے ساتھ کرتا ہے ۔

اور اس بناء پر حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ وسوسے کا سبب خالص ایمان ہے یا پھر وسوسہ خالص ایمان کی نشانی ہے ۔

تو پھر اسے نا پسند اور بغض کرنا اور دل کا اس سے بھاگنا یہی خالص اور صریح ایمان ہے اور ہر وہ شخص جو کہ اللہ تعالی کے ذکر اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسے وسوسہ آنا ضروری چیز ہے لہذا بندے کو صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا چاہۓ اور اسے نماز اور ذکر واذکار پر ملازمت اور ہمیشگی کرنا چاہۓ اور تنگ دل نہیں ہونا چاہۓ کیونکہ ان چیزوں پر ہمیشگی اور ملازمت سے شیطان کے ہتھکنڈے دور ہو جائیں گے ۔

( بے شک شیطان کے ہتھکنڈے اور تدبیریں کمزور ہیں )

جب بھی بندہ دلی طور پر اللہ تعالی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے کاموں کے وسوسے آنے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ شیطان اس ڈاکو کی طرح ہے جو کہ راستے میں بیٹھا ہو تو جب بھی بندہ اللہ تعالی کی طرف چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ شیطان اس کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اسی لۓ سلف میں سے کسی کو یہ کہا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں وسوسے نہیں آتے تو انہوں نے جواب دیا وہ سچے ہیں تو شیطان خراب گھر میں جا کر کیا کرے گا ۔

علاج

1- جب آپ ان وسوسوں کو محسوس کریں تو یہ کہیں میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم میں کسی کے پاس شیطان آتا اور اسے کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالی نے تو شیطان کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے تو جب تم میں سے کوئی اس طرح کی بات پائے تو یہ پڑھے ( آمنت باللہ ورسلہ ) میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کیونکہ یہ اس سے وسوسہ ختم کر دے گا )

مسند احمد حدیث نمبر ( 25671) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں حسن کہا ہے حدیث نمبر 116

2- اس معاملے میں سوچنے سے حتی الامکان اعراض کرنے اور بچنے کی کوشش کرے اور کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اسے اس سے ہٹا دے ۔

ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرو اور اس سے مدد طلب کرو اور سب کو چھوڑ کر اسی کی طرف متوجہ رہو اور اس سے موت تک کے لۓ ثابت قدمی طلب کرتے رہو اور یہ کہ وہ آپ کا خاتمہ اچھے کام پر کرے ۔

واللہ اعلم .
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)

نماز میں خشوع خضوع کی اَہْمِیَّت


خشوع کے معنى دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا عمل۔
دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہو اور نماز مىں دل لگا ہو اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جسم اور کپڑوں سے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے۔( تفسىر کبىر ج ۸ص۲۰۹)
اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔ (احىا العلوم ج ۱ ص ۱۸۰)
حکاىت:
اکثر صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان فرماتے ہىں کہ بروز قىامت لوگ نماز والى کىفىت پر اٹھائے جائىں گے ىعنى نماز مىں جس کو جتنا اطمىنان و سکون حاصل ہوتا ہے اسى کے مطابق ان کا حشر ہوگا۔(فىضان نماز ج۱)
حضرت سىدنا امام ابو حامد محمد بن محمد غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں کہ جب نمازى نما ز کے دوران التحیات مىں السلام علیک ایہا النبى کہے تصور مىں ذاتِ پاک مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تشرىف فرماسمجھتے ہوئے عرض کرے السلام علیک ایھا النبى ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ىعنى اے نبى آپ پر سلام اور اللہ پاک کى رحمتىں ہوں اور اس کى برکتىں ۔
آقا کے تصور نے جىنے کا مزہ بخشا
مىں کىسے کہوں جىنا دشوار نظر آہے

نماز مىں خشوع و خضوع پىدا کرنے والے اسباب :
ترمذى ج ۵، ص ۲۹۳ حدىث نمبر ۳۴۹۳،
اے اللہ مىں اس دل سے تىرى پناہ لىتا ہوں جو خشوع اختىار نہ کرے۔
نماز مىں خشوع و خضوع لانے کے ۱۱ نکات
۱۔جو بھى شے خلل یعنی رکاوٹ ہو ممکنہ صورت مىں اسے دور کردىجئے۔
۲۔جو نماز ادا کررہے ہوں اسے اپنى زندگى کى آخرى نماز تصور کىجئے۔
۳۔ىہ ذہن بنائىں رکھىں کہ اللہ مجھے دىکھ رہا ہے۔
۴۔ دوران نماز تلاوت مىں تجوىد کے ضرورى قواعد پر عمل کىجئے۔
۵۔ نماز مىں جو کچھ پڑھتے ہىں اس کے معانى پر نظر کىجئے۔
۶۔ نماز کے فرائض واجبات سنن و مستحبات اچھى طرح بجالائىے۔
۷۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد پڑھى جانے والى سورتىں بد ل بدل کر پڑھئے۔
۸۔ نقش و نگار والے مصلے پر نماز پڑھنے سے بچىے۔
۹۔ شور و غل سے بچنے کى ترکىب کىجئے۔
۱۰۔ سامنے والى دىوار پر نقش و نگار ہو اور دھىان بٹتا ہو تو جگہ بدل دىجئے۔
۱۱۔ قىام مىں سجدے کى جگہ نظر رکھىں اور ىہ تصور دل مىں جمائے رکھىں کہ ہم مٹى سے بنے ہىں اور مٹى مىں ہى جانا ہے رکوع مىں قدموں پر نظر رکھىں اور ىہ تصور دل مىں جمائىں کہ ہمارى روح قدموں سے نکلنا شروع ہوگئى ہے۔ اور قعدے مىں گود مىں نظر رکھىں اور یہ تصور دل مىں جمائىں کہ ہم نے دنىا سے خالى گود جانا ہے اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نماز مىں خشوع پىدا ہوگا۔
پارہ ۱۸ سورہ المومنىن کى آىت نمبر:۱ ااور ۲ مىں ارشاد ہوتا ہے :
تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔
اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں نماز کا کما ل نماز کا نور نماز کى خوبى فہم و تدبر حضور قلب( ىعنى خشوع) پر ہے۔
فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اس طرح خشوع سے نماز ادا فرماتے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ مىں نے امىر المومنىن حضرت سىدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پىچھے نماز پڑھى مىں نے تىن صفوں کے پىچھے سے آپ کے رونے کى آواز سنى۔
(حلیۃ الاولىا ج ۱، ص ۸۸)

امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مسجد مىں نماز پڑھ رہے تھے اىک سانپ چھت سے گرا لوگ ادھر ادھر بھاگ گئے لىکن آپ بدستور نماز مىں مشغول رہے اور آپ کو کچھ پتا نہىں چلا۔
(تفسىر کبىر ج۱، ص ۱۳)
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
نماز میں آسمان کی طرف دیکھنا

نماز میں آسمان کی طرف سر اُٹھا کر دیکھنا ناجائز اور گناہ ہے۔ حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
حدیث :
حضرت ا نس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو اپنی نماز میں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ۔(راوی کہتے ہیں ) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بارے میں بہت ہی سخت بات فرمائی ۔یہاں تک کہ فرمایا : لوگ ایسا کرنے سے باز رہیں ورنہ ضرور ان کی نگاہیں اُچک لی جائیں گی ۔ ( صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلوۃ، الحدیث : ۷۵۰، ج۱، ص۲۶۵)
 

Islamabadi1

Minister (2k+ posts)
If you can't even understand what you are saying in your prayer? then u are nothing but a puppet.....why would your God want a puppet like you?