QADIYANION Ko Dawat-e-ISLAH, Khatam-e-NUBOWWAT ﷺ

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
But this will not justify Qadyanis wrongdoing. Qadyanis are enjoying much more privileges in US Germany USA even in ISRAEL. Do you know this they are in Israel. I think one of their channel is aired from Israel.
Using freedom of religion in West / Israel is a problem? 17 percent of Israelis are Sunni Muslims. Very few Qadianis live there in Haifa, Israel

ts_rana
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
یہودی تو بہرحال تم ہی ہواس لئے میں تو یہ نہیں کہنے والا ہاں دین میں کوئی جبر نہیں ہے یہ قرآن کہتا ہے۔ مذہب پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ اسلام ، قرآن یا مذاہب یہ خدا تعالیٰ کے ہیں نہ کہ کسی شخص ، کسی گروہ یا کسی ملک کے ۔ اس لئے خدا کے اختیارات میں مداخلت مت کریں ۔ باقی اگر کوئی ملک ، گروہ یا شخص خدا بننا چاہتا ہے تو وہ جانے اور خدا جانے۔
یہی بات اگر تم قادیانیو سمجھ جاؤ ۔ کوئی ذی عقل مرزا کی کتابوں کو نبی تو کیا کسی نیک فطرت عقلمند انسان کی کتاب بھی نہیں سمجھے گا
 

ts_rana

Minister (2k+ posts)
یہی بات اگر تم قادیانیو سمجھ جاؤ ۔ کوئی ذی عقل مرزا کی کتابوں کو نبی تو کیا کسی نیک فطرت عقلمند انسان کی کتاب بھی نہیں سمجھے گا

ہم نے جو سمجھنا تھا سمجھ لیا، بلکہ میں تو تمہیں ویسے ہی یہودی سمجھتا ہوں ، بار بار لکھ تو رہا کہ ہم مسلمان ہیں الحمد للہ ۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
یہودی تو بہرحال تم ہی ہواس لئے میں تو یہ نہیں کہنے والا ہاں دین میں کوئی جبر نہیں ہے یہ قرآن کہتا ہے۔ مذہب پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ اسلام ، قرآن یا مذاہب یہ خدا تعالیٰ کے ہیں نہ کہ کسی شخص ، کسی گروہ یا کسی ملک کے ۔ اس لئے خدا کے اختیارات میں مداخلت مت کریں ۔ باقی اگر کوئی ملک ، گروہ یا شخص خدا بننا چاہتا ہے تو وہ جانے اور خدا جانے۔
مرزا کی کتابوں کا مواد میں یہاں شئیر کر دیتا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کس پائے کا نبی تھا۔ جبھی خدا نے اس کو انگریز کا کتا بنا دیا۔ کوئی نبی اللہ کے علاوہ کسی کافر کو اپنا آقا کہے کوئی تصور بھی کر سکتا ہے؟
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
The Ahmadies living in Palestine are living there before existence of Israel and they are all Arab.
Exactly. Pakistanis think Israel is protecting Qadianis as part of some grand Zionist Jewish conspiracy. They forget 17 percent of Israelis are Sunni Muslims. Who is protecting them? What conspiracy is this?
 

ts_rana

Minister (2k+ posts)
مرزا کی کتابوں کا مواد میں یہاں شئیر کر دیتا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کس پائے کا نبی تھا۔ جبھی خدا نے اس کو انگریز کا کتا بنا دیا۔ کوئی نبی اللہ کے علاوہ کسی کافر کو اپنا آقا کہے کوئی تصور بھی کر سکتا ہے؟

جو کچھ تم یہاں شیئر کر رہے ہو جھوٹ کے اور جعل سازی کی پلندے ہیں ، اور یقین کرو یہودی یہی کام کرتے تھے اور کر رہے ہیں ۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
ہم نے جو سمجھنا تھا سمجھ لیا، بلکہ میں تو تمہیں ویسے ہی یہودی سمجھتا ہوں ، بار بار لکھ تو رہا کہ ہم مسلمان ہیں الحمد للہ ۔
یہودیوں کے اور عیسائیوں کے کتے دوسروں کو یہودی کہیں نامناسب بات ہے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
جو کچھ تم یہاں شیئر کر رہے ہو جھوٹ کے اور جعل سازی کی پلندے ہیں ، اور یقین کرو یہودی یہی کام کرتے تھے اور کر رہے ہیں ۔
یہودیوں نے اصلاح کر لی ہے۔ اسرائیل کا وجود اس کا ثبوت ہے۔ مشرق وسطی کی سب سے ترقی یافتہ ریاست یہودی اسرائیل ہے
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
جو کچھ تم یہاں شیئر کر رہے ہو جھوٹ کے اور جعل سازی کی پلندے ہیں ، اور یقین کرو یہودی یہی کام کرتے تھے اور کر رہے ہیں ۔
اپنے ٹٹی خانے میں مرنے والے نبی کی کتابوں کو جھٹلاتا ہے؟ مرزا کے الفاظ نہیں یاد کے ایسے لوگ رنڈیوں کی اولاد ہیں؟
 

ts_rana

Minister (2k+ posts)
یہودیوں کے اور عیسائیوں کے کتے دوسروں کو یہودی کہیں نامناسب بات ہے۔

بہرحال اب تو تم یہودی ڈیکلیئر ہوگئے ہو ، اب یہ سرٹیفیکٹ واپس نہیں لیا جاسکتا تم میں یہودیوں والی تمام خوبیاں اوہ سوری میرا مطلب یہودیوں والی تمام برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ اعزاز تمہیں مبارک ہو۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)


3۔ مرزاصاحب کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ​

مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘

مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 244

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی۔

4۔ شعبدہ بازی اور کیمیا گری کا شوق​

1۔ ’’لالہ بھین سین وکیل سیالکوٹ کا بیان ہے کہ جب میں اور مرزا غلام احمد بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کی عادت تھی کہ مٹی کا ایک لوٹا (سبلوچہ گلی) پانی سے بھرواتے اور دو لڑکوں سے کہتے کہ اسے ہاتھ میں ایک ایک انگلی سے اٹھائے رہو۔ لڑکے انگلیوں کے سہارے لوٹے کو تھام لیتے اس کے بعد مرزا صاحب کیمیا کے نسخوں کی دوائیں جدا کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر گولیاں بناتے اور ایک ایک گولی اس لوٹے میں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی کوئی اسم پڑھتے جاتے تھے، جس گولی کی نوبت پر لوٹا گھوم جاتا تھا، اس گولی کا نسخہ پڑھ کر علیحدہ رکھ لیتے تھے اور پھر اس نسخہ کا تجربہ کرتے تھے لیکن کیمیا گری میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔‘‘

چودھویں صدی کا مسیح: 11، مطبوعہ امرتسر، 1324ھ

2۔ ’’مولوی محمد حسین بٹالوی اور مرزا قادیانی بٹالہ میں ہم سبق تھے، ایک مرتبہ مولوی محمد حسین، مرزا قادیانی اور چند لڑکے رات کے وقت قصبہ بٹالہ سے باہر کھیتوں میں قضائے حاجت کے لیے گئے۔ گرمی کا موسم تھا، جگنو اڑ رہے تھے۔ رفع حاجت کے وقت ایک جگنو مرزا قادیانی کے گریبان میں آگیا۔ مرزا صاحب نے اسے ہاتھ میں دبا لیا۔ جب سب لڑکے جمع ہوئے تو مرزا قادیانی نے ہم جولیوں سے کہا: دیکھو میرے پیرہن کے نیچے درخشاں چیز کیا ہے؟ اور کہا اگر اسی طرح کوئی شعبدہ کیا جائے تو لوگوں کو پھانسا جا سکتا ہے یا نہیں؟‘‘

مولانا ابو القاسم رفیع دلاروی، رئیس قادیان: 16

اوائلِ جوانی اور آوارگی​

مرزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘

مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 34، 35

آج سے قریبا سوا سو سال قبل 700 روپیہ ایک خطیر رقم تھی۔ اتنی رقم کو کہاں اڑا کر ختم کر دیا؟ اس کا جواب سوائے ’’آوارگی‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

ابتدائی تعلیم​

یہ ایک مسلمہ حقیقت اور طے شدہ امر ہے کہ نبی کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ براہ راست اللہ رب العزت سے فیض حاصل کرتا ہے۔ نبی کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام اللہ پاک خود فرماتا ہے، انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے دنیوی مکتب میں استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کئے، نبوت کی یہ ایک ایسی تسلیم شدہ علامت ہے کہ مرزا قادیانی کو بھی یہ ڈھونگ رچانے کے لیے کہ اس کا کوئی استاد نہیں یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کر سکا بلکہ اس بات میں اپنے جھوٹے ہونے کی ایک اور شہادت رقم کر گیا۔ مرزا صاحب اپنے بارے میں رقمطراز ہیں:

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میںیہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 147؛ مندرجہ روحانی خزائن، 14: 394

اس دعویٰ کی تکذیب مرزا صاحب کی اپنی خود نوشت سے ہوتی ہے جو درج ذیل ہے:

’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کانام فضل الٰہی تھا اورجب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار ااور بزرگ وار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں پڑھیںاور کچھ قواعدِنحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والدصاحب نے نوکررکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وٖغیرہ کے علومِ مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 161؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 179-181

طب کا علم انہوں نے اپنے والد صاحب سے پڑھا جو ایک مجرب و حاذق طبیب تھے۔

’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181

انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں کتابوں سے گہرا شغف تھا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اور ان دنوں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میںنہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181

لیکن ان کو اپنے والد کے اصرار پر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے اپنی آبائی زمینوں کے حصول کے لیے تگ و دو اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 164؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 182

مرزا قادیانی کا جھوٹ​

مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میرا کوئی استاد نہیں، ایسا جھوٹ ہے جو تاویلات کے ہزار پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ اب جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بھی مرزا صاحب خود ہی بتائیں گے۔

جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے اپنے اَقوال​

جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے چنداپنے اقوال درج ذیل ہیں:

1۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 222؛ مندرجہ روحانی خزائن، 23: 231

2۔ ’’اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اورجھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56

3۔ ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56

پہلی شادی​

مرزا صاحب کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ ابھی زمانہ طالب علمی میں تھے کہ ان کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی بیٹی، مرزا شیر علی ہوشیار پوری کی ہمشیرہ سے کر دی گئی۔ مرزا صاحب کی اس بیوی سے دو لڑکے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔

مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150

مرزا قادیانی کے سوانح نگار ڈاکٹر بشارت احمد کے مطابق اس شادی کے وقت مرزا صاحب کی عمر 19 سال تھی، وہ اس اختلاف کا سبب مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف کو قرار دیتا ہے۔

ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، 1: 25

ملازمت​

مرزا قادیانی نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھایا اور 1864ء سے 1868ء تک چار سال ڈپٹی کمشنر آفس سیالکوٹ میں ملازمت کرتے رہے۔ مرزا محمود احمد اپنے والد کے بارے میں کہتا ہے:

’’اور ایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی تو گزارہ کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘

تحفہ شہزادہ ویلز: 341 بحوالہ رئیس قادیان

گھر والوں کے طعنے کس بات پر تھے؟ اس بارے میں مرزا محمود کی خاموشی صورتحال کو پراسرار بنا دیتی ہے۔

مرزا بشیر احمد اپنے والد کی ملازمت کے بارے میں نقل کرتا ہے:

’’چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے … خاک سار عرض کرتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقعہ ہے۔‘‘

مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 35، روایت نمبر: 49

ملازمت کے دوران مرزا صاحب ترقی کے لیے کوشاں رہے مگر ترقی کے لیے ضروری امتحان میں فیل ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:

’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری کے لیے قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا، پر اس امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘

مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 138، روایت نمبر: 150

انگریزی خوانی​

دوران ملازمت مرزاصاحب نے دو کتابیں انگریزی کی بھی پڑھیں۔ مرزا بشیر احمد اس حوالے سے لکھتاہے:

’’اسی زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدراس تھے، کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں، استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اورایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘

مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 137، روایت نمبر: 150

مرزا صاحب کا انگریزی پڑھنا یقینًاملازمت میں ترقی اور قرب شاہی کی خاطر تھا، ترقی تو مل نہ سکی مگر قرب شاہی میں بہت آگے تک پہنچ گئے۔

مختاری کا امتحان​

مرزا صاحب نے وکیل بننے کی غرض سے مختاری کا امتحان بھی دیا مگر ناکام ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:

’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے، وہ دنیوی اشغال کے لیے بنائے نہیں گئے تھے۔‘‘

مرزا بشیر احمد، سیرۃ المھدی، 1: 138؛ روایت نمبر: 150

یہ دنیاوی امتحانوں میں ناکامی مرزا صاحب کو انگریز کے در پر لے گئی اور وفاداری بشرط استواری کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے وہ سلطنت برطانیہ کے منظور نظربن گئے۔ قادیان کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی سے ان کی آئندہ کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بچپن میں چڑیوں کا شکار کرکے انہیں سرکنڈے سے ذبح کرنے والے مرزا صاحب عمر بھرسادہ لوح مسلمانوں کا شکار کر کے ان کے عقائد کو اپنے مکر و فریب کی چھری سے ذبح کرتے رہے​
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
بہرحال اب تو تم یہودی ڈیکلیئر ہوگئے ہو ، اب یہ سرٹیفیکٹ واپس نہیں لیا جاسکتا تم میں یہودیوں والی تمام خوبیاں اوہ سوری میرا مطلب یہودیوں والی تمام برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ اعزاز تمہیں مبارک ہو۔
تیرا باپ ڈیکلیئر کر رہا ہے یا تیرا ٹٹی میں مرنے والا نبی؟
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
مرزا محمود احمد اپنے والد کے بارے میں کہتا ہے:

’’اور ایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی تو گزارہ کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
رزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘

مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 244

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
آئیے اب مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوﺅں کے تضادات کا اپنی جانب سے کوئی تبصرہ کئے بغیر جائزہ لیں۔ دعوی¿ مسیح موعود کے بارے میں مرزا قادیانی کے متضاد خیالات۔ تحفہ¿ گولڑویہ میں مرزا قادیانی نے لکھا کہ”میں مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پیشگوئیاں ہیں“۔

پھر اپنی کتاب ازالہ اوہام میں یہ لکھ دیا کہ”اس عاجز نے جو مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں“۔

ان دو متضاد دعوﺅں میں سے کس دعوے کو درست سمجھا جائے۔ مرزا قادیانی کو مسیح موعود خیال کرنے والے کم فہم ہیں یا یہ متضاد دعوے کرنے والا خود فہم و عقل سے محروم ہے۔ مرزا قادیانی نے ایک کتاب میں لکھا کہ آنے والا ابنِ مریم نبی نہیں ہو گا۔ دوسری کتاب میں بالکل برعکس یہ لکھ ڈالا کہ آنے والا مسیح موعود نبی ہو گا۔ ایک کتاب میں تحریر کیا کہ خدا نے مسیح بن باپ پیدا کیا ہے ظاہر ہے قرآن سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے لیکن مرزا قادیانی نے اپنی ایک اورکتاب میں یہ لکھا کہ حضرت مسیح کا باپ یوسف نجار تھا اور حضرت مسیح کے اور بھی حقیقی بھائی تھے۔ پھر مرزا قادیانی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں اور ان کا جسم عنصری آسمان پر جانا اور پھر کسی وقت زمین پر آنا یہ سب تہمتیں ہیں لیکن مرزا قادیانی نے اپنی اس تحریر کے یکسر خلاف دوسری کتاب میں یہ تحریر کیا کہ بائبل اور ہماری احادیث کی رو سے مسیح ابن مریم کا اپنے وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا ثابت ہے۔ (جاری)
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
غلام احمد قادیانی نے اپنی ایک کتاب میں یہ لکھا کہ مسیح کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں سے کوئی اس کا باپ نہیں تھا پھر اس سے بالکل متضاد اور اسی کتاب میں دوسرے مقام پر یہ تحریر کیا کہ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاءہیں۔ غلام احمد قادیانی کے یہ متضاد خیالات پڑھ کر اس کی یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ جھوٹے کے کلام میں تضاد ضرور ہوتا ہے۔ اب یہ جھوٹا کون ہے؟ جس کی تحریروں اور دعوﺅں میں تضاد ہے۔ مرزا قادیانی نے ضمیمہ براہینِ احمدیہ میں لکھا کہ میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہے پھر اس سے بالکل متضاد مرزا قادیانی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ وحی کے ذریعے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کا تعلق بنی فارس سے ہے اور بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں۔ یہ بھی شاید پوری انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ غلام احمد قادیانی نے بار بار اپنی تحریروں میں اپنی قوم مغل برلاس بتائی ہے پھر جھوٹی وحی نے اس کی قوم بھی تبدیل کر دی۔ یہ تو صرف نسل کی تبدیلی کا معاملہ ہے، ایک کتاب میں مرزا قادیانی نے اپنی تبدیلی¿ دعویٰ بھی کیا ہے یعنی اسے کچھ دیر کےلئے مریم بنا دیا گیا۔