Relationship between Sahaba and Ahl Bayt

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Yehi to mera sara muqadama hai. Aur aaj tak koi jawab nahi mila aur na hi milnay wala hai.
شیعہ کا سب سے برا عقیدہ جو ان کی تباہی کا باعث بنا وہ ہے ان کا عقیدہ تقیہ جس کے باعث وہ سچ جھوٹ میں تمیز نہ کر پاۓ- انہی جھوٹوں نے، ان کو ہی کو نگل لیا
 

Slider

Voter (50+ posts)

ان ناسمجھ لوگوں سے پوچھو تمہارے عقیدے کے مطابق تمہارے خیالی اماموں کو زمین آسمان کی ہر چیز کا علم تھا مگر رسول اللہ جن پر وہی نازل ہوتی تھی وہ اپنی زندگی میں دوست دشمن میں تمیز نہ کر سکے - أستغفر الله ہ

I have no dog in firqaparasti race but its quite pathetic all around . Some very smart and for humanity's sake type people have argued that biggest con job 'devil' or anti-human did is to box humans in many many dogmas/belief systems to the point that they can never see anything beyond their marked boundaries.
Many quote a saying by Ali and I am paraphrasing that look at the content of whats said before you think who is saying .... but how many of us actually, really do that ?
I have no doubt we are in end times , most Zionists have their messiah in physical dimension by mid 2024 , true or false is irrelevant in this context but if we dont realize the urgency of mutual respect and defense against common enemy , then ....... well you have front row seats to watch the utter destruction , very soon !
If you post anything that does not serve any purpose to unite then you are part of the problem and please dont do any shopping for your trip to some heaven --- aint happening :)
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
118046984_10157782544245748_3927996155911153897_o.jpg
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
گوگل انپٹ ٹول کا آئیڈیا تو ہے مگر اردو کا ا سٹائل تھوڑا الگ سا ہے آپ کا

Very good.... now the whole gambit is as simple as that:

So you type on your keyboard at the google input tool page after you have clicked urdu fonts, after finishing your message copy paste it on your siasat.pk page where you wanna give your comments. Once that google input fonts urdu text is there then highlight it and click 7th icon "A" from your left, at the top of your page, you will see over there Jameel Noori Nastaleeq, click that and your urdu text will automatically convert into Jameel..... which I think you are LQQKING for.
Try it.
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)

تمہاری ساری کاپی پیسٹ کی حیثیت دو ٹکے سے بھی کم ہے ذیل میں صحیح بخاری کی حدیث تمہارے دروغ گو چہرے پر زناٹے دار تھپٹر ہے اب تم اپنی تمام گھڑنتو خود ساختہ کاپی پیسٹ کسی کوڑے دان میں ڈال دو


جناب فاطمہ سلام اللہ علیہ کی ابوبکر سے ناراضگی
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کا ابوبکر پر غضبناک ہونا، یہ سب کے لیے اس طرح روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی کے لیے بھی قابل انکار نہیں ہے۔ صحیح بخاری کہ جو اہل سنت کی قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب ہے، اس میں موجود ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام ابوبکر پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ان کی یہ ناراضگی مرتے دم تک جاری رہی۔
بخاری نے خمس کے ابواب میں لکھا ہے کہ:

فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ صلي الله عليه و سلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتي تُوُفِّيَتْ.
رسول خدا کی بیٹی فاطمہؐ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور ان سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا اور ان سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی۔

صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ،

رسول خدا کی بیٹی فاطمہؐ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور ان سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا اور ان سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی۔
صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ

كتاب المغازي کے باب غزوة خيبر کی حديث نمبر 3998 میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ:

فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ علي أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي تُوُفِّيَتْ،
فاطمہؐ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی تھی۔
صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر
بخاری نے كتاب الفرائض کے بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ کی حديث نمبر 6346 میں لکھا ہے کہ:

فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي مَاتَتْ.
پس فاطمہؐ نے اپنا تعلق ابوبکر سے ختم کر دیا اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2474، ح6346، كتاب الفرائض، بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

 

London Bridge

Senator (1k+ posts)


، ابن قتیبہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب ابوبکر اور عمر عیادت کے لیے گھر آئے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا نے فرمایا اوریہ اعتراف لیا
نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول: رضا فاطمة من رضاي و سخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني و من أ رضي فاطمة فقد أرضاني و من أسخط فاطمة فقد أسخطني،


میں تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم دونوں نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا کہ: فاطمہؑ کا راضی ہونا، میرا راضی ہونا ہے اور اسکا ناراض ہونا، میرا ناراض ہونا ہے۔ جو بھی میری بیٹی فاطمہؐ سے محبت کرے اور اسکا احترام کرے، تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور میرا احترام کیا ہے اور جو فاطمہؐ کو راضی کرے تو اس نے مجھے راضی کیا ہے اور جو فاطمہؑ کو ناراض کرے تو اس نے مجھے ناراض کیا ہے؟؟؟
ابوبکر اور عمر دونوں نے اعتراف کیا کہ: ہاں ہم نے اس بات کو رسولؐ خدا سے سنا ہے،

نعم سمعناه من رسول الله صلي الله عليه و سلم.

یہ اعتراف لے کر صدیقہ طاہرہ نے فرمایا کہ:
فإني أشهد الله و ملائكته أنكما أسخطتماني و ما أرضيتماني و لئن لقيت النبي لأشكونكما إليه.
پس میں خداوند اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے اذیت دی اور ناراض کیا ہے اور میں اپنے والد رسول خدا سے ملاقات میں تم دونوں کی شکایت کروں گی۔
اور مزید فرمایا کہ:

و الله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها.
خدا کی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر نفرین کرتی ہوں۔
أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة،الإمامة و السياسة، ج 1، ص 17، باب كيف كانت بيعة



 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
I have no dog in firqaparasti race but its quite pathetic all around . Some very smart and for humanity's sake type people have argued that biggest con job 'devil' or anti-human did is to box humans in many many dogmas/belief systems to the point that they can never see anything beyond their marked boundaries.
Many quote a saying by Ali and I am paraphrasing that look at the content of whats said before you think who is saying .... but how many of us actually, really do that ?
I have no doubt we are in end times , most Zionists have their messiah in physical dimension by mid 2024 , true or false is irrelevant in this context but if we dont realize the urgency of mutual respect and defense against common enemy , then ....... well you have front row seats to watch the utter destruction , very soon !
If you post anything that does not serve any purpose to unite then you are part of the problem and please dont do any shopping for your trip to some heaven --- aint happening :)
تفرقے کی ایک اور بڑی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے وسیع عقائد ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہی قرآن اور ایک ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باوجود ، مسلمان آج بھی مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ یہ کیوں ہے؟ اگر ہم سب ہی ہر معاملے میں قرآن و سنت کا ذکر کر رہے ہیں تو پھر اختلاف کیوں؟ اللہ تعالیٰ سورہ نساء ،آیت نمبر ٥٩ میں فرماتا ہے:ہ

(Qur'an 4:59) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَ‌ٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے

ذرا تصور کیجئے اگر ہر مسلمان نے اس آیت پر عمل کیا - تو کیا اس میں کوئی اختلاف ہوگا؟ نہیں ، سوائے اس کے کہ فقہ کے معاملات میں ، جیسے نماز۔ لیکن ہمارے عقائد اور طریقہ کار ایک ہوں گے ، تو ایسا کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان آج ہر مسئلے کو اللہ (سبحانہ و تعالٰی) اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہیں لوٹاتے ، بلکہ وہ اپنے مقامی امامت یا والدین سے پوچھتے ہیں یا اسے اپنے پیر و مرشد کے حوالے کرتے ہیں۔ .

سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں تمام انبیاء نے ترجیح دی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست یا جہاد کی طرف بلانے سے پہلے ، عقائد کی اصلاح کی جاۓ ، ۔ تو ہم کیسے اتحاد کر سکتے ہیں جب کہ مسلمانوں نیچے بیان کئے گئے خلاف قرآن عقائد موجود ہیں۔

غلط عقیدہ کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہر جگہ موجود ہے ، حالانکہ اللہ تعالٰی یہ کہتے ہیں:
ہ

(Qur'an 16:50) يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں

یہ غلط عقیدہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان نہیں تھے اور اللہ کی روشنی میں بنے ہوئے تھے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے


(Qur'an 41:6) قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ

آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تم جیسا ایک آدمی ہوں میری طرف یہی حکم آتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے پھراس کی طرف سیدھے چلے جاؤ اور اس سے معافی مانگو اور مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے

یہ غلط عقیدہ کہ اللہ کے رسول کے فرمان پر امام کے قول پر عمل کیا جانا چاہئے۔

(Qur'an 24:63) لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے جیسا نہ سمجھو الله انہیں جانتا ہے جو تم میں سے چھپ کر کھسک جاتے ہیں سو جو لوگ الله کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس سے ڈرنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت آئے یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے باوجود ، یہ ایمان بڑھتا یا کمی نہیں کرتا ہے۔


سہیل نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایمان کے ستر سے اوپر ( یا ساٹھ سے اوپر ) شعبے ( اجزاء ) ہیں ۔ سب سے افضل جز لااله الا الله کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت ( دینے والی چیز ) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے ۔ ‘ ‘
Sahih Muslim – 153-Islam360
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

، ابن قتیبہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب ابوبکر اور عمر عیادت کے لیے گھر آئے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا نے فرمایا اوریہ اعتراف لیا
نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول: رضا فاطمة من رضاي و سخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني و من أ رضي فاطمة فقد أرضاني و من أسخط فاطمة فقد أسخطني،


میں تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم دونوں نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا کہ: فاطمہؑ کا راضی ہونا، میرا راضی ہونا ہے اور اسکا ناراض ہونا، میرا ناراض ہونا ہے۔ جو بھی میری بیٹی فاطمہؐ سے محبت کرے اور اسکا احترام کرے، تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور میرا احترام کیا ہے اور جو فاطمہؐ کو راضی کرے تو اس نے مجھے راضی کیا ہے اور جو فاطمہؑ کو ناراض کرے تو اس نے مجھے ناراض کیا ہے؟؟؟
ابوبکر اور عمر دونوں نے اعتراف کیا کہ: ہاں ہم نے اس بات کو رسولؐ خدا سے سنا ہے،

نعم سمعناه من رسول الله صلي الله عليه و سلم.

یہ اعتراف لے کر صدیقہ طاہرہ نے فرمایا کہ:
فإني أشهد الله و ملائكته أنكما أسخطتماني و ما أرضيتماني و لئن لقيت النبي لأشكونكما إليه.
پس میں خداوند اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے اذیت دی اور ناراض کیا ہے اور میں اپنے والد رسول خدا سے ملاقات میں تم دونوں کی شکایت کروں گی۔
اور مزید فرمایا کہ:

و الله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها.
خدا کی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر نفرین کرتی ہوں۔
أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة،الإمامة و السياسة، ج 1، ص 17، باب كيف كانت بيعة



حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں

شیعہ کسی لّلو،پنجّو سے حدیث نہیں لیتے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ کسی ایرا،غیرا یا ابوہریرہ سے (جو صرف حضور(ص) کے ساتھ محض آخری دو برس رہے اور ان سے 70 فیصد احادیث مروی ہیں) شروع نہیں ہوتا اور نہ فتح مکہ کے بعد جبری مسلمان ہونے والوں سے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ مولا علی علیہ السلام سے شروع ہوتا اور ان کے تمام آئمہ اطہار سے ان تک پہنچا ہے جو کچھ اس طرح ہے مثلا" اگر کوئی حدیث سید سجاد امام زین االعابدین علیہ السلام سے مروی تو وہ کچھ یوں بیان ہوتی ہے " میں نے اپنے بابا امام حسین علیہ السلام سے سنا انہوں نے اپنے پدر بزرگوار امام علی علیہ السلام اور انہوں نے اس حدیث کو براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا-اس کے بعد حدیث کا بیان ہوتا ہے-
 

Umar_LA

MPA (400+ posts)
Very good.... now the whole gambit is as simple as that:

So you type on your keyboard at the google input tool page after you have clicked urdu fonts, after finishing your message copy paste it on your siasat.pk page where you wanna give your comments. Once that google input fonts urdu text is there then highlight it and click 7th icon "A" from your left, at the top of your page, you will see over there Jameel Noori Nastaleeq, click that and your urdu text will automatically convert into Jameel..... which I think you are LQQKING for.
Try it.

کیا بات ہے----- بہت شکریہ
 

Umar_LA

MPA (400+ posts)

شیعہ کسی لّلو،پنجّو سے حدیث نہیں لیتے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ کسی ایرا،غیرا یا ابوہریرہ سے (جو صرف حضور(ص) کے ساتھ محض آخری دو برس رہے اور ان سے 70 فیصد احادیث مروی ہیں) شروع نہیں ہوتا اور نہ فتح مکہ کے بعد جبری مسلمان ہونے والوں سے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ مولا علی علیہ السلام سے شروع ہوتا اور ان کے تمام آئمہ اطہار سے ان تک پہنچا ہے جو کچھ اس طرح ہے مثلا" اگر کوئی حدیث سید سجاد امام زین االعابدین علیہ السلام سے مروی تو وہ کچھ یوں بیان ہوتی ہے " میں نے اپنے بابا امام حسین علیہ السلام سے سنا انہوں نے اپنے پدر بزرگوار امام علی علیہ السلام اور انہوں نے اس حدیث کو براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا-اس کے بعد حدیث کا بیان ہوتا ہے-
جو صحابہ کرام راضی تعالیٰ عنہا کو نہ مانے اس کی کسی بھی بات کی کیا اہمیت
 

Slider

Voter (50+ posts)

اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے

ذرا تصور کیجئے اگر ہر مسلمان نے اس آیت پر عمل کیا - تو کیا اس میں کوئی اختلاف ہوگا؟ ‘
Sahih Muslim – 153-Islam360
سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں تمام انبیاء نے ترجیح دی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست یا جہاد کی طرف بلانے سے پہلے ، عقائد کی اصلاح کی جاۓ
غلط عقیدہ کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہر جگہ موجود ہے
یہ غلط عقیدہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان نہیں تھے اور اللہ کی روشنی میں بنے ہوئے تھے

Is there any differences among all muslims that Prophet lead farz namaz since 2nd hijrah ?

Namaz is something that is much more involved in terms of following The Prophet , and He performed it 5 times a day , every day , and then at Hajj He performed it in front of 125000 companions .
So any non-muslim would easily bet their life that there can never be any differences among muslims , at least, on how to perform namaz ?
Think about that fact for a while, dont need to ask anyone or read anything ,, and then , may be , dont state which are the false haqeedas so categorically .

How does the haqeeda of allah being anywhere , everywhere or nowhere have any relevance to a common human? The guy adding water to milk does not care either way ,by the way.

I was merely saying its a terrible time to wash any dirty laundry in the open , or cause more confusions among masses but say with one loud voice that even though we will stab each other later but we will defend each other against any satanic cabal.
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا : مشہور شیعہ عالم علامہ شفیع بن صالح لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے ۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا ۔ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا : کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)

امام حسین رضی ﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا ۔ (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)

پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا ۔ (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)

ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا ۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا ۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم ۔ ترجمہ : یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)


حضرت سیدہ طاہرہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو ؟ ایسا ہی سہی ۔ روتے رہو ، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے ۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا ۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو ۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے ۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوؤں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے ۔ (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)

اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے ۔ (مجالس المومنین ج 1، ص 56)
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
کیا شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا تھا ؟

امام حسین رضی ﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا : کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ (جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)

مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے : ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے ۔ (صافی شرح اصول کافی)

کیا امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل شیعہ تھے ؟


مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے ۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
ترجمہ : یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی ﷲ عنہما ۔ (جلاء العیون ص 358)

ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا ۔ اب اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا ۔

بارہ اماموں رضی اللہ عنہم کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا ۔ چوتھی صدی ہجری 352 ھجری میں المطیع ﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے ، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا ۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452،چشتی)،(البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

شیعہ کسی لّلو،پنجّو سے حدیث نہیں لیتے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ کسی ایرا،غیرا یا ابوہریرہ سے (جو صرف حضور(ص) کے ساتھ محض آخری دو برس رہے اور ان سے 70 فیصد احادیث مروی ہیں) شروع نہیں ہوتا اور نہ فتح مکہ کے بعد جبری مسلمان ہونے والوں سے شیعوں کے یہاں حدیث کا سلسلہ مولا علی علیہ السلام سے شروع ہوتا اور ان کے تمام آئمہ اطہار سے ان تک پہنچا ہے جو کچھ اس طرح ہے مثلا" اگر کوئی حدیث سید سجاد امام زین االعابدین علیہ السلام سے مروی تو وہ کچھ یوں بیان ہوتی ہے " میں نے اپنے بابا امام حسین علیہ السلام سے سنا انہوں نے اپنے پدر بزرگوار امام علی علیہ السلام اور انہوں نے اس حدیث کو براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا-اس کے بعد حدیث کا بیان ہوتا ہے-
Is there any differences among all muslims that Prophet lead farz namaz since 2nd hijrah ?

Namaz is something that is much more involved in terms of following The Prophet , and He performed it 5 times a day , every day , and then at Hajj He performed it in front of 125000 companions .
So any non-muslim would easily bet their life that there can never be any differences among muslims , at least, on how to perform namaz ?
Think about that fact for a while, dont need to ask anyone or read anything ,, and then , may be , dont state which are the false haqeedas so categorically .

How does the haqeeda of allah being anywhere , everywhere or nowhere have any relevance to a common human? The guy adding water to milk does not care either way ,by the way.

I was merely saying its a terrible time to wash any dirty laundry in the open , or cause more confusions among masses but say with one loud voice that even though we will stab each other later but we will defend each other against any satanic cabal.

شیعہ کی حدیث کی کتابوں کو غیر مستند ثابت کرنے کے لئے شیعہ کے باطل خلاف قرآن عقائد کو دہرانا ہی کافی ہے:ہ

اللہ نے ہمیں قرآن میں بتا دیا کہ رسول اللہ اس کے اس دنیا میں آخری نبی ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد شیعہ نے یہ بات نہ مانی اور امامت کا عقیدہ گھڑ لیا اور کہا ہمارے امام کا درجہ تو نبیوں اور رسولوں سے بھی بلند ہے -
حوالہ

قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ رسول اللہ کے بعد اپنی اذان، کلمہ، اور نماز بدل لینا اور کلمہ میں "وعليٌ وليُّ الله" کا اضافہ کرلینا-حوالہ

الله نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے "آیت نمبر نو،سوره الحجر" ، کس نے کہا کہ قرآن میں بعد میں تحریف ہو گئی؟-مزید پڑھئیے

الله تعالیٰ نے قرآن،"آیت نمبرسولہ،سوره الأحقاف" میں صحابہ کی غلطیوں کو معاف کر دیا - کس نے کہا صحابہ پر لعنت بھیجو - أستغفر الله-مزید پڑھئیے

الله تعالیٰ نے قرآن،"آیت نمبراکسٹھ ،سوره آل عمران" میں کہتا ہے کے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت- بعد میں تقیّہ کا عقیدہ کس نے گھڑا ؟-مزید پڑھئیے

الله تعالیٰ نے قرآن،"آیت نمبربتیس،سوره الإسراء" میں کہتا ہے زنا کے قریب نہ جاؤ- بعد میں زنا کی تدبیر کس نے گھڑی؟مزید پڑھئیے

الله تعالیٰ نے قرآن میں پچیس بار کہا کہ "الله ہر چیز پر قادر ہے"- بعد میں یہ عقیدہ کہ الله تعالیٰ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوۓ غلطی کر سکتا ہے" عقیدہ بداء" کس نے گھڑا -أستغفر الله؟مزید پڑھئیے

الله تعالیٰ نے قرآن،"آیت نمبرایک سو پچیس،سوره النحل " اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر - بعد میں کس امام نے قرآن کے بر خلاف کہا کہ اپنے مقابل کی بیزاری اختیار کرو اور انکی توہین کرنے میں بڑھ جاؤ؟مزید پڑھئیے
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔
ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)

فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔
ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)

عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)

کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا :
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت


یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت
۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا ۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399،چشتی)

مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں : کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی ، اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔
ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)

فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔
ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)

عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)

کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا :
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت


یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا ۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399،چشتی)

مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں : کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی ، اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)


بہت خوب لیکن خود نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا کلمہ آپ اور ہم صجح ،شام پڑھتے ہیں خود ان کا شہادت امام مظلوم (ع) یوم عاشورہ کیا حال تھا خود ان کا گریباں چاک تھا

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں،
۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں :

دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شهدت قتل الحسين انفا.

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،(سنن، ترمذي، ابواب المناقب

 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔
ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)

فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔
ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)

عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)

کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا :
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت


یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی
بن


امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔
ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)

فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔
ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)

عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)

کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا :
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)

کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت


یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا ۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399،چشتی)

مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں : کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی ، اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)


عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے? میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
محقق کتاب، حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں محقق کتاب کہتا ہے نینوٰی، نبی یونس
ؑ کا گائوں تھا، موصل عراق میں اور یہ نینوٰی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسینؑ شہید ہوئے تھے


مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363


 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں :

دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شهدت قتل الحسين انفا.
میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،(سنن، ترمذي، ابواب المناقب

لندن برج صحاب آپ نے بھی خاص شیعہ کا طریقہ اپنایا ہے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق آگے بڑھا دو۔ یہاں بھی آپ نے وہی کم کیا ہے، جس حدیث کے بارے میں امام ترمزی نے خود لکھا ہے کا یہ حدیث ضعیف ہے اسے ہی آگے بڑھا دیا ، امام ترمزی کے کمنٹس کے بغیر - یہ سراسر بد دیانتی ہے جس کی امید ایک شیعہ ہی سے کی جا سکتی ہے جو ہر اس بات کو جس سے ان کا موقف کی حمایت ہوتی ہو آنکھ بند کر کے قبول کر لیتے ہیں - اس رویے سے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ کبھی حق تک نہیں پہنچ سکتے۔

جو حدیث آپ نے قوٹ کی ہے وہ اسلام ٣٦٠ ایپ کے زریعے آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے - حدیث کے الفاظ نیچے بیان کئے گئے ہیں ، امام ترمزی کے کمنٹس کے ساتھ :ہ


میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ( یعنی خواب میں ) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
Jam e Tirmazi – 3771-Islam360
بہت خوب لیکن خود نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا کلمہ آپ اور ہم صجح ،شام پڑھتے ہیں خود ان کا شہادت امام مظلوم (ع) یوم عاشورہ کیا حال تھا خود ان کا گریباں چاک تھا
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں،
۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں :
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں

 
Last edited: