خبریں

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے بارے میں اپنے بیانات سے متعلق وضاحت پیش کردی ہے ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حالیہ تقریر میں غربت کے بارے میں بات ہوئی تھی اور کہا کہ جتنا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں، اتنے بچے پیدا کریں۔ ایک انٹرویو میں مودی نے بتایا کہ انہوں نے کسی کمیونٹی کا نام نہیں لیا اور ان کا مقصد ہندو مسلم سیاست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی زندگی میں ہندو مسلم مسائل پر بات کرنا ان کے عزم کے خلاف ہے۔ مودی نے اتر پردیش کے حلقہ وارانسی میں ایک نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا کہ عوام انہیں ووٹ دیں گے۔ ناقدین اکثر مودی اور ان کی پارٹی پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہیں، جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ مودی نے کہا کہہ جس روز میں ہندو مسلم کے بارے میں بات کرنا شروع کروں گا، وہ دن ہوگا جب میں عوامی زندگی گزارنے کی اپنی صلاحیت کھو دوں گا۔ میں ہندو مسلم کی سیاست نہیں کروں گا، یہ میرا عزم ہے۔ واضح رہے کہ مودی کے ناقدین اکثر ان پر اور بی جے پی پر اپنے سخت گیر ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے اقلیتی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہیں، جس کی وہ اور پارٹی تردید کرتے ہیں۔ یادرہے کہ مودی سرکار کو حیدرآباد، بنگال، بھارتی پنجاب، اترپردیش، بہار کے اکثریتی مسلم علاقوں میں مزاحمت کا سامنا رہتا ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں سکھ برادری مودی سرکار کو ووٹ دینے کی بجائے عام آدی اور کانگریس کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتی ہے۔
پنجاب پولیس نےساہیوال میں ہنی ٹریپ گینگ چلانے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ساہیوال کے تھانہ فرید ٹاؤن کی پولیس نے ایک پولیس اہلکار اور خاتون سمیت دو افراد کو گرفتار کرلیا ہے، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ہنی ٹریپ کے ذریعے ایک کاروباری آدمی کو بلیک میل کیا اور 3 لاکھ42ہزار سے زائد کی رقم حاصل کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ کارروای کاروباری آدمی ارشد کی درخواست پر کی گئی اور کانسٹیبل رانا اکمل، ساتھی رانا ضیاء اور ماہم کو گرفتار کیا۔ فرید ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کانسٹیبل ایک ہنی ٹریپ گینگ چلاتا تھا جس میں 2 سے 3 لڑکیاں بھی شامل تھیں، یہ لڑکیاں امیر لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی اور پھر انہیں بلیک میل کرکے رقم اینٹھی جاتی تھی۔ ایس ایچ او نے مزید انکشاف کیا کہ رانا اکمل نےایک پرائیویٹ ٹارچر سیل بھی بنا رکھا تھا جہاں وہ اپنے شکاریوں کو رقم کی ادائیگی تک قید کرکے رکھتا تھا۔ درخواست گزار ارشد نے پولیس کو بتایا کہ 27 اپریل کو ماہم کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کے بعد اسےرانا اکمل نے گرفتار کیا اور کچھ تصاویر دکھاتے ہوئے ڈکیتی اور زیادتی کے کیسز میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دیں اور اپنے مطالبات سامنے رکھے۔ متاثرہ شخص کے مطابق رانا اکمل نے اپنے ساتھی رانا ضیا ء کوسینئر پولیس افسر بنا کر پیش کیا اور بلیک میل کرکے پہلے 3لاکھ روپے کیش وصول کیے اور بعد میں میرے ڈیبٹ کارڈ کو استعمال کرتے 43ہزار روپے نکلوائے۔
خیبرپختونخوا کے سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں وی آئی پی شخصیات اور ان کی فیملیز کے مفت قیام پر پابندی عائد کر دی گئی صوبائی مشیر سیاحت، ثقافت و آثار قدیمہ زاہد چن زیب نے سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں وی آئی پی شخصیات اور فیملیز کے مفت قیام پر پابندی کے حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔ مشیر سیاحت خیبرپختونخوا زاہد چن کا کہنا تھا کہ وی آئی پی اور انکی فیملیز مفت کئی کئی روز تک قیام کرتے تھے،اس بار ے میں مشیر سیاحت کو عوامی حلقوں کی جانب سے شکایات موصول ہو رہی تھیں۔ مشیر سیاحت کا کہنا تھا کہ عوامی شکایات پرسرکاری ریسٹ ہاؤسز میں مفت قیام پر پابندی لگائی ہے، وی آئی پیز اور ان کے خاندان کی وجہ سے عوام کے لئے سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں جگہ نہیں ہوتی تھی۔ مشیر زاہد چن زیب نے نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا کلچرل اینڈ ٹورازم اتھارٹی سمیت، کیلاش، گلیات، کاغان، اپر سوات اور کمراٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے سربراہان سمیت تمام متعلقہ حکام کو بھی ہدایت جاری کر دی,مشیر سیاحت کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اور محکمہ سیاحت کے اعلیٰ حکام سے لیکر وہ خود یا ان کی فیملیز بھی گنجائش کے مطابق ان ریسٹ ہاؤسز میں قیام کریں تو ان سے بھی قانون کے مطابق واجبات وصول کئے جائیں۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا کی حکومت نے 170 سے زائد سرکاری ریسٹ ہاوسز کو عوام کیلئے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا، نتھیا گلی میں قائم گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، اسپیکر ہاؤس اور کرناک ہاؤس سمیت 170 سے زائد سرکاری ریسٹ ہاوسز کو عوام کیلئے کھولا تھا۔ سیاحت اور امور نوجوانان کے صوبائی وزیر محمد عاطف خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے نتھیا گلی میں عام لوگوں کے لئے گورنر ہاوس، وزیراعلی ٰ ہاوس، سپیکر ہاوس اور کرناک ہاوس سمیت170 سے زائد سرکاری ریسٹ ہاوسز کو عام آدمی کیلئے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ اقدام سرکاری عمارتوں تک عوام کو رسائی دینے کے وزیراعظم کے وعدے کو پورا کرنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ اس سے سرکاری اثاثوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے ذریعے آمدنی بڑھانے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔
نو مئی، عوام کا مسلح افواج سمیت تمام ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ۔۔انصار عباسی کی رپورٹ میں تفصیلات سامنے آگئیں انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق نگراں حکومت کی 9 مئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے فسادات کی وجہ سے مسلح افواج سمیت ریاست کے تمام اداروں پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا,اب عوام اور مسلح افواج کے درمیان ایک خلیج کا تاثر واضح ہے جس کی وجہ سے فوجیوں کے حوصلے پست ہوئے,ایک ایسے موقع پر جب مسلح افواج دہشت گردی کیخلاف مسلسل جنگ میں مصروف ہیں، باہمی اعتماد کا یہ ٹوٹنا سازگار نہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 9مئی کو 14افراد ہلاک اور 423 زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر پولیس والے اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اہلکار تھے۔ مزید برآں، 40؍ سرکاری اور 15؍ نجی عمارتوں کو نقصان پہنچا، اور137؍ سرکاری گاڑیوں سمیت کُل 159 گاڑیاں تباہ ہوئیں یا انہیں نقصان پہنچا۔مظاہروں کی وجہ سے تقریباً 17؍ ارب روپے کا فوری مالی نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق س قدر نقصان اور قانون نافذ کرنے والی اداروں کی احتجاج پر قابو پانے میں ناکامی ان کی تیاری اور صلاحیت پر سوال اٹھاتی ہے، لیکن رپورٹ میں فوجی اہلکاروں کی تعریف کی گئی ہے کہ فسادیوں کے حملوں پر اُس نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق فوجی اہلکاروں نے مشکل اور ایسے حالات میں بہتر رویے کا مظاہرہ کیا جب ان کی اپنی جان کو خطرات لاحق تھے۔ فوج نے بھرپور حملہ کرنے والوں کے حوالے سے بھی غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ فوجیوں کو خطرات بے اثر کرنے کیلئے تربیت دی جاتی ہے، شہریوں کی جان و مال کی فکر کی وجہ سے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ فوج کی طرف سے جو تحمل کا مظاہرہ کیا گیا اس سے کئی جانیں بچ گئیں اور تشدد کو بڑھنے سے روکا جا سکا۔ تحمل کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو انسانی جانوں کا غیر معمولی نقصان ہوتا جو مشکل صورتحال کو بدتر بنا دیتا۔ رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی درست رویے کا اظہار کیا اور اس وقت اسی رویے کی اشد ضرورت تھی، تاہم صوبائی حکومتوں کی جانب سے موثر رابطہ کاری کی عدم موجودگی باعث تشویش ہے۔ اسی طرح ان واقعات نے مسلح افواج کے اہلکاروں کے حوصلے اور نظم و ضبط کو بری طرح مجروح کیا۔ ایسی کوششیں خطرناک اور پاکستان کے تحفظ اور مفاد کیلئے نقصان دہ ہیں اور اس سے ایک ایسی 6بحث کی گنجائش پیدا ہوجائے گی جس کی ضرورت نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا بالخصوص فوجی تنصیبات بشمول راولپنڈی میں جی ایچ کیو، پی اے ایف بیس میانوالی، کئی شہروں میں آئی ایس آئی کے دفاتر، بنوں چھاؤنی، لاہور میں جناح ہاؤس وغیرہ، چک درہ اور تیمر گرہ میں ایف سی کے قلعے اور کور کمانڈر کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں اُن میں زور دیا گیا ہے کہ ’’قومی مفاہمت کی اشد ضرورت ہے۔ غیر ذمہ دارانہ سیاست کی وجہ سے معاشرہ پولرائز ہو چکا ہے۔ اب ذمہ دارانہ سیاست کے ذریعے معاشرے کو ڈی پولرائز کرنا ہوگا اور یہ کام آئندہ پارلیمنٹ کو موثر بنا کر کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو ایماندارانہ اور باوقار بحث کیلئے ایک فورم کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قابل احترام ورکنگ ریلیشن شپ مستقبل میں برداشت اور امید کو متحرک کرے گی۔
محسن نقوی نے جنوری میں دعویٰ کیا تھا کہ انکے دور حکومت میں جرائم کی شرح میں 30 فیصد کمی ہوئی جبکہ حقیقت اسکے برعکس نکلی۔۔محسن نقوی سرکار میں جرائم کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نگران پنجاب حکومت کے دور میں ریپ کے واقعات میں 134 فیصد اضافہ ہوا، گینگ ریپ کے مقدمات 149 فیصد بڑھے، چوری، ڈکیتی، تیزاب گردی، اغوا، اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا، قتل کے واقعات میں 5 فیصد، اقدام قتل کے واقعات میں 12 فیصد ، جبکہ اغوا برائے تاوان میں 98 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح ڈکیتی میں 12 فیصد، موٹرسائیکل اور گاڑیاں چوری واقعات میں 55 فیصد اضافہ ہوا، صرف غیرت کےنام پر قتل میں 35 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ دوسری جانب پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جرائم تھمنے کا نام نہیں کے رہے, گزشتہ ماہ لاہور میں ایک دن میں جرائم کی 375 وارداتیں بھی سامنے آچکی ہیں۔رپورٹ کے مطابق لاہور میں ایک دن میں جرائم کی 375 وارداتیں ہوئیں جس میں ڈاکوؤں نے مختلف مقامات سے 18 افراد سے لاکھوں روپے اور موبائل فونز چھین لیے ۔ ان وارداتوں میں 19شہری موبائل فونز سے محروم ہوئے جبکہ مختلف علاقوں میں 13 گھروں میں چوری کی وارداتیں ہوئیں,لاہور میں رواں سال اب تک موٹرسائیکل اور گاڑی چوری یا چھیننے کی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ 2023 کے پہلے 3 ماہ میں موٹرسائیکل اور گاڑی چوری یا چھیننے کی 6435 وارداتیں ہوئی تھیں.
ضلع خیبر میں قبائلی اضلاع کے پولیس اہلکاوں نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قبائلی اضلاع کے پولیس اہلکاروں نے ضلع خیبر میں احتجاج دھرنا دے رکھا ہے، دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے پولیس اہلکار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ شہید پیکج سے محروم رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں پولیس اہلکاروں کی تعداد 28 ہزار ہے، ان اہلکاروں کو اگر صوبوں کے اہلکاروں کےبرابر سہولیات اور مراعات نا دی گئیں تو تمام قبائلی اضلاع کے ڈی پی اوز دفاتر کو تالے لگادیں گے۔ دھرنے سے خطاب کے دوران پولیس افسران و مقررین کا کہنا تھا کہ فاٹا کو صوبے میں شامل ہوئے 6 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس کا نا تو درکاری اسلحہ فراہم کیا گیا اور نا ہی انہیں سروس اسٹرکچر میسر آیا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ انتخابات کے باوجود سیاسی بے یقینی برقرار رہے گی، آئی ایم ایف نے عام انتخابات 2024 میں پی ٹی آئی کی کامیابی کا اعتراف کرلیا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے متعلق نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے عام انتخابات میں دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نئی حکومت نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی پالیسیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، پیچیدہ سیاسی صورتِ حال، مہنگائی اور سماجی تناؤ پالیسی اصلاحات کا نفاذ متاثر کر سکتا ہے بینکوں پر حکومت کو قرض دینے کے دباؤ سے نجی شعبے کے لیے فنانسنگ کی گنجائش مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق معاشی پالیسیوں کے عدم نفاذ، کم بیرونی فنانسنگ کے باعث قرضوں اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ کا خدشہ ہے، بیرونی فنانسنگ میں تاخیر کی صورت میں بینکوں پر حکومت کو قرض دینے کا دباؤ بڑھے گا۔ آئی ایم ایف کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں ،شپنگ میں رکاوٹیں یا سخت عالمی مالیاتی حالات بھی بیرونی استحکام کو متاثر کریں گے۔ اپنی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ انتخابات کے بعد دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے مخلوط حکومت بنائی، پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی گروپوں سے زیادہ ووٹ لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے قومی اسمبلی میں بڑی اپوزیشن قائم کی ہے۔
9 مئی کے حوالے سے نگران حکومت کی رپورٹ سامنے آگئی,رپورٹ میں کہا گیا یہ ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی تھی جس کا مقصد نہ صرف پاکستانی فوج پر عمران خان کے سیاسی مطالبات کیلیے دبائو ڈالنا تھا بلکہ یہ ایک کھلی کوشش تھی کہ فوج کے اندر پی ٹی آئی کے حق میں بغاوت کرائی جائے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی اداروں کے خلاف پہلے کے تشدد کا مضبوط جواب نہ ملنے پر پارٹی زیادہ بیباک ہوگئی تھی، فوجی تنصیبات پر سامنے سے حملے کرنے کا مقصد فوج کے مورال کو کمزور کرنا اور سیاسی ڈیل کےلیے دباؤ ڈالنا تھا، یہ ایک کھلی اور غلطی پر مبنی کوشش تھی جس کا مقصد مسلح افواج کے اندر اپنے حق میں ڈیل کرانا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے9 مئی 2023 کے واقعات نہ تو اکادکا تھے اور نہ ہی بے ساختہ، وہ ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا مقصد مسٹر خان کی ڈیمانڈز منوانے کیلیے ریاستی اداروں پر دائو ڈالنا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی 2023 ایک بیانیے کا عروج تھا جو کہ ایک شخصی فرقے کے گرد بنا گیا تھا اور ایک حکمت عملی کے تحت ان کے مخالفین کے خلاف تشدد کو قومی خدمت کے طور پر جواز فراہم کیا گیا۔ نگران حکومت کی کابینہ کمیٹی جس نے اس معاملے کی تحقیقات کیں اس نے ’ گہرےدرد‘ کے ساتھ نوٹ کیا کہ ایک مقبول سیاسی جماعت اپنے انتخاب کے بعد اس قسم کے منصوبوں سے قومی مفادات کو نقصان پہنچائے گی,آئین لوگوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کےلیے سیاسی اجتماع کے حق کو عوام کے مفاد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی ضمانت دیتا ہے نہ کہ ریاستی اداروں اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے۔ رپورٹ کے مطابق مسٹر خان بہت عرصے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی تصور کرتے رہے ہیں اور وہ صرف اسی ایک ادارے کے ساتھ مذاکرات پر تیار بھی تھے، مسٹر خان نے بارہا دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے حوالے سے اپنی تحقیر آمیز اندا مین بات بھی کی اور وہ پارلیمنٹ مین ان سے بات کرنے سے مستقل بات کرنے سے بھی انکار کر تے رہے۔ انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی حل نکالنے کےلیے مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے، مسٹر خان نے فوج کے آئینی کردار کی عزت کرنے سے انکار کردیا تھا جو ان سے غیرسیاسی رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انہوں نے مسلح فوج کے ساتھ فعال انگیجمنٹ کی خواہش کا اظہار کرکے فوج کے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورز ی کی، جب مسلح افواج نے انکار کیا سیاست میں گھسیٹے جانے سے تو مسٹر خان اور ان کی جماعت نے ایک ایسی فضا تخلیق کردی جس سے فوج پر دباؤ پڑ سکے کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے، اسے مقامی اور غیر ملکی میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے مضبوط کیا گیا۔ مسٹر خان نے کسی بھی مرحلے پر نہ تو 9 مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی ان کی مذمت کی بلکہ اس کے بجائے انہوں نے عوام اور مسلح فوج کے مابین تقسیم کو وسیع کرنے کےلیے حقائق کو توڑا مروڑا ۔انہوں نے ان واقعات کی پاکستان کی قومی سیکورٹی پراثرات کو بھی کھلے عام تسلیم کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایک حکمت عملی تشکیل دی گئی جس کے تحت عوامی طاقت ( اسٹریٹ پاور) سے دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے، اس سے پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو موقع ملا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پر مسلح فوج کے خلاف اپنا غصہ نکال سکیں۔ اس حکمت عملی کی بنیاد ایک سادہ مفروضہ تھا کہ غیر مسلح احتجاجی مظاہرین اور فوج کے مابین تصادم سے فوج مخالف جذبات جنم لیں گے اور اس طرح عوام اور مسلح فوج کے مابین خلیج وسیع ہوپائے گی۔ ایسی خلیج سے فوج کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ سیاسی طور پر ملوث ہو غالباً خان اپنے اپ کو ایسی خلیج پاٹنے کے لیے ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے حوالے سے قرار داد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی گئی,پنجاب اسمبلی میں قرارداد مسلم لیگ (ن) کی ایم پی اے راحیلہ خادم حسین نے جمع کرائی,قرار داد کے متن میں کہا گیا کہ انتشاری ٹولہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے، انتشاری ٹولے کا سربراہ مسلسل ریاست کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ ایسے کرداروں کو کسی طور پر ملکی سیاست میں حصہ لینے کی پابندی ہونی چاہئیے، کالعدم مذہبی گروہ سیاست نہیں کر سکتا، نو مئی کو ان کردار کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
کچے کے ڈاکوؤں نے بچوں کو بھی نہ بخشا,کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کمسن ایاز پٹھان کنھ کوڑ کے ڈاکوؤں کے قبضے میں ہے، ڈاکوؤں نے معصوم بچے کو زنجیروں سے جکڑ کر ویڈیو وائرل کی ہے جس میں بچہ زنجیروں سے جکڑا ہوا زاروں قطار رو رہا ہے۔ ویڈیو میں مغوی بچہ اپنے ورثا سے اپیل کررہا ہے کہ ڈاکوؤں کو پیسے دے کر میری جان چھڑوائیں۔ کندھ کوٹ میں ڈاکوؤں نے کمسن ایاز پٹھان کو 14 اپریل کو گڈو کشمور سے باہر کھیلتے ہوئے اغوا کیا اور بچے کی رہائی کے بدلے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا۔ جیکب آباد میں 25 روزپہلے اغوا ہونے والے پولیس اہلکارکی ویڈیو کچے کے ڈاکوؤں نے جاری کر دی ۔ویڈیو کے مطابق پولیس اہلکار کو ڈاکوؤں نے درخت کے ساتھ زنجیروں سے باندھ کر رکھا ہوا ہے ، ویڈیو ْ میں اہلکارفیروز بروہی دہائیاں دے رہا ہے۔ مغوی اہلکار کا کہنا ہے کہ 16اپریل کو شکار پورسے مجھے والد سمیت اغوا کیا گیا، میرے والد ماسٹرسہیل بروہی گولی لگنے سے زخمی ہیں، والد کی حالت کیسی ہے، کچھ نہیں بتایا جارہا۔ فیروز بروہی کا مزید کہنا تھا کہ 25 روز گذرچکے ہیں کسی نے رہائی کی کوشش نہیں کی، مغوی اہلکارنے اپیل کی کہ ایم این اے اعجاز جکھرانی، ایم پی اے شیر محمد ہمیں بازیاب کرائیں۔ ماچھکہ کے علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں نے ایک غریب قلفی فروش کو اغوا کرلیا اور ایک کروڑ تاوان طلب کیا ہے, صادق آباد میں ماچھکہ کے علاقے سردارپور سے کچے کے ڈاکوؤں نے قلفی فروش کو اغوا کر لیا، قلفی فروش گھر کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ کچے کے ڈاکو اس کو اٹھا کر لے گئے۔ ڈاکوؤں نے غریب محنت کش کے ورثا سے ایک کروڑ تاوان طلب کر لیا، اہلخانہ کا کہنا ہے کہ 10 دن گزرنے کے باوجود پولیس نے واقعے کا مقدمہ تک درج نہیں کیا۔
پنجاب حکومت نے آئندہ برس گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کرلیا اور صوبے میں گندم کی خریداری سے متعلق نئی پالیسی بھی تشکیل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق گندم خریداری کی نئی پالیسی تیار کرلی گئی۔ جس سے محکمہ خوراک کا گندم خریداری میں کردار ختم ہو جائے گا، کسانوں سے گندم پرائیویٹ سیکٹر خریدے گا۔ اس سلسلے میں دعویٰ کیا گیا ہے پنجاب کے 95فیصد کسان اپنی گندم مڈل مین کو فروخت کر چکے ہیں اور کسان کا نام لے کر مڈل مین شور مچا رہے ہیں۔ گندم خریداری نہ کرکے محکمہ خوراک پر اربوں روپے سود اور اسٹوریج اخراجات نہیں پڑیں گے۔ اس وقت محکمہ خوراک سالانہ 400 ارب روپے کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ محکمہ خوراک اس وقت سالانہ 400 ارب روپے کا بوجھ برداشت کررہا ہے، ا س لیے نئی پالیسی میں تجویز ہے کہ حکومت عالمی قیمت کے مطابق مقامی گندم کی قیمت کا تعین کرےگی۔ ذرائع کے مطابق نئی پالیسی میں تجویز دی گئی ہے کہ چاروں صوبوں میں گندم کے یکساں نرخ مقرر کیے جائیں۔ ادھر وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے دعویٰ کیا کہ گندم کی خریداری کا ہدف پورا کریں گے اور واضح کیا کہ باردانہ کی فراہمی کیلئے آن لائن درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔
سرکاری اداروں کے ملازمین محکمے کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بجائے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں ملوث نکلے۔ ذرائع کے مطابق ضلع اوکاڑہ میں سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر محکمہ تعلیم نے اپنے ہی محکمے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جس کی آڈٹ رپورٹ میں ثبوت بھی سامنے آ گئے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں محکمہ تعلیم کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد کی کروڑوں روپے کی کرپشن کے انکشافات کیے گئے ہیں اور اس کے ثبوت بھی منظرعام پر آگئے ہیں۔ ارشد نامی سابق سی ای او محکمہ ایجوکیشن نے اپنے اداروں کو بوگس بلنگ کے ذریعے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا، اس نے سٹیشنری، کمپیوٹر اور آفس فرنیچر کی مد میں بوگس بلنگ کے ذریعے قومی خزانے کو 5 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا کہ ارشد نے پٹرول کی مد میں 35 لاکھ روپے اور گاڑی کے مرمتی کاموں کی مد میں بھی لاکھوں روپے کی خوردبرد کی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ملزم ارشد نے محکمے کے اکائونٹ سے 1 کروڑ 53 لاکھ روپے کی رقم خوردبرد کی، صابن جیسی چھوٹی آئٹم ودیگر سامان کی مد میں بھی 65 لاکھ روپے نکلوا لیے۔ دوسری طرف آڈٹ رپورٹ میں اتنے سارے انکشافات سامنے آنے کے بعد بھی محکمہ تعلیم کی جانب سے اب تک کسی بھی انکوائری پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق چیئرمین عارف شاہ کو صوبائی محکمہ تعلیم میں 170.6 ملین روپے کے کرپشن سیکنڈل میں گرفتار کر لیا گیا تھا، ان کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا تھا کہ ملزم سکول کی نصابی کتابوں کی اشاعت اور کنٹریکٹ ایوارڈ میں غیرقانونی طور پر ٹھیکیداروں کی حمایت میں ملوث تھا۔
گوادر:خانیوال کے سات حجام قتل,گھر کی کفالت کرنے والے دو بیٹے بھی شامل,اہلخانہ غم سے نڈھال گوادر سربندر کوارٹر میں سوئے ہوئے چچا بھتیجے سمیت سات مزدورں پر دہشت گردوں کی فائرنگ سات جاں بحق جبکہ ایک شدید زخمی ہو گیا ۔ مکان میں گھس کر انہیں نشانہ بنایا گیا، واردات کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے، جاں بحق ہونے والے افراد حجام تھے تعلق خانیوال سے تھا,مرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے دو بیٹے بھی شامل ہیں, میرا سب کچھ اجڑ گیا۔ جس کا سب کچھ اجڑ جائے اس کے پاس اپنے غم اور دکھوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے,یہ کہنا تھا پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے حیبب الرحمان کا جن کے دو بیٹے اور ایک بھتیجا بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے سربندر میں نامعلوم افراد کے حملے میں مارے گئے۔ بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے حیبب الرحمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے نہ صرف ان کے گھر بلکہ پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا,حبیب الرحمان نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق ان کے خاندان سے ہے۔ حبیب الرحمان نے بتایا کہ ایک حادثے میں ان کا بازو متاثر ہونے کے بعد گھر کی کفالت ان کے بیٹے ہی کرتے تھے,میرے دونوں بیٹے خاندان کا معاشی سہارا بننے کے لیے گھر سے سینکڑوں میل دور سربندر محنت مزدور کرنے گئے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ان کے دونوں بیٹیوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھتیجا بھی مارا گیا جبکہ زخمی ہونے والا فرد بھی ان ہی کے خاندان کا ہے۔ حبیب الرحمان اپنے بیٹوں کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا سب کچھ لٹ گیا۔ جب کسی کا سب کچھ لٹ جائے تو اس کے غم کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ میں اور میرے گھر والوں پر اس وقت غم کا پہاڑ ہے۔ اس کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ حبیب الرحمان کے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے بچوں میں سب سے بڑا بیٹا سجاد تھا جن کی عمر 35 سال تھی جبکہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے دوسرے بیٹے حسیب کی عمر 15 سال تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا تیسرا بیٹا نہ صرف چھوٹا بلکہ ذہنی طور پر معذور بھی ہے۔ ’اسی لیے سجاد گذشتہ سات آٹھ سال سے سربندر میں محنت مزدوری کر رہا تھا جبکہ یہاں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے حسیب بھی ڈیڑھ سال قبل وہاں گیا تھا۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والا ان کا چھوٹا بیٹا حسیب عید کے موقع پر گھر آیا تھا اور چند روز قبل ہی واپس گیا جبکہ ان کے بڑے بیٹے سجاد عید پر بھی گھر نہیں آ سکے تھے۔ حسیب چار پانچ روز قبل واپس سربندر گیا تھا جبکہ چند روز بعد سجاد نے گھر آنا تھا لیکن وہ اب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا,حبیب الرحمان اس حملے میں مارے جانے والوں میں شامل اپنے بھتیجے اسد کے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسد کے والد کی گذشتہ برس موت ہو گئی تھی جس کے بعد وہ بھی اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔ بدھ کی رات بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا,مقامی پولیس کے مطابق ان افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا اور یہ سربندر میں حجام کا کام کرتے تھے۔ سربندر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں دو سگے بھائی سجاد اور حسیب بھی تھے۔ ان کے والد حبیب الرحمان خانیوال میں ایک سرکاری اسکول سے نائب قاصد کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان تمام افراد کو ضلع گوادر کے علاقے سربندر میں نشانہ بنایا گیا,گوادر پولیس کے ایس ایچ او محسن علی نے فون بتایا کہ یہ تمام افراد گذشتہ شب ایک ہی گھر میں سوئے تھے جہاں تین بجے مسلح افراد آئے اور انھوں نے ان پر فائر کھول دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے سات افراد نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا,انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ زخمی شخص کو بھی طبی امداد فراہم کی گئی ہے,سربندر گوادر شہر سے مشرق کی جانب 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سربندر گوادر میں ماہی گیروں کی ایک قدیم بستی ہے جس کی آبادی 20 ہزار سے زائد ہے۔ کوسٹل ہائی وے پر واقع ماہی گیروں کی یہ بستی گوادر میں تعمیر ہونے والے نئے ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے۔ حق دو تحریک کے سربراہ اور گوادر سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق بھی سربندر سے ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے گوادر کے علاقے سربندر میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا پیچھا کیا جائے گا,اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں اور نہ ہی کوئی جگہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف جس قسم کی فورس استعمال کرنا پڑی وہ کریں گے اور ریاستی رٹ ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ دہشت گردوں سے سختی سے نمٹیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نہتے معصوم مزدوروں کا قتل بزدلانہ اقدام ہے جس کے تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ گوادر میں رواں سال پیش آنے والا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل مارچ کے مہینے میں گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملہ کیا گیا تھا۔ گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔ اس سے قبل نومبر 2003 میں کوسٹل ہائی وے پر ایک بڑے حملے میں سیکورٹی فورسز کے 14اہلکار مارے گئے تھے۔ گوادر میں اس سے قبل پی سی ہوٹل اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ چینی کارکنوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں,گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی بہرام بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں پہلے بھی حجاموں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن حجاموں کی ہلاکتوں کے اعتبار سے سربندر میں پیش آنے والا یہ پہلا بڑا واقعہ ہے۔ گوادر میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں جن میں لوگ ہلاک اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے رہا ہے,اسی طرح 2017 میں گوادر کے علاقے پشکان اور گنز میں تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے 10 مزدور مارے گئے تھے۔ 2017 ہی میں گوادر میں ایئر پورٹ روڈ پر ایک ہوٹل پر کھانا کھانے والے مزدوروں پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے 20 مزدور زخمی ہوئے تھے,گوادر انتظامی لحاظ سے مکران ڈویژن کا حصہ ہے اور گوادر سے متصل مکران ڈویژن کا دوسرے ضلع کیچ کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوتا ہے جو شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔ کیچ میں بھی پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں پر حملے ہوتے رہے ہیں,رواں سال 28 اپریل کو ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں تعمیراتی کام کرنے والے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے دو مزدور نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے,اپریل 2015 میں بھی ضلع کیچ میں ایک پل پر کام کرنے والے مزدوروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس میں 20 مزدور مارے گئے۔ اس حملے میں مارے جانے والے مزدوروں کا تعلق سندھ اور پنجاب سے تھا۔
پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں لڑکی بن کر نوجوان لڑکوں کو پھنسانے اور پھر فحش ویڈیوز بنانے والے گروہ کا سرغنہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں نوعمر لڑکوں کو جھانسہ دے کر فحش ویڈیوز بنانے والے گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے، گروہ کا سرغنہ لڑکوں کو جھانسہ دینے کیلئے لڑکی کا روپ دھار لیتا تھا۔ پولیس کے مطابق سخاوت ایک ایسے گروہ کا سرغنہ تھا جو سوشل میڈیا پر لڑکی بن کر کم عمر لڑکوں کو پھنسانے اور پھر فحش ویڈیوز بناکر بلیک میل کیا کرتا تھا، اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا پر لڑکیوں کے ناموں سے بنائے گئے اکاؤنٹس سے لڑکوں سے رابطہ کیا جاتا اور انہیں بلیک میل کرکے لاکھوں روپے وصول کیےجاتے بلکہ لڑکوں کو بلا کر مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ متاثرہ طالب علم کے مطابق ملزم نے لڑکی کے نام سے سوشل میڈیا پر میسجز کیے اور پھر ویڈیو کال کرنے کا کہا، ویڈیو کال پر طالب علم کی فحش ویڈیوریکارڈ کی گئی جس کے ذریعے بعد ازاں طالب علم کو بلیک میل کیا گیا، پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزمان کو ٹریس کرکے گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سے فحش ویڈیوز برآمد کرلی گئی ہیں اور مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، ملزم کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
لاہور میں مبینہ پولیس مقابلے کی اصلیت سامنے آگئی ہے، پولیس نے لین دین کے معاملے کو پولیس مقابلہ بنایا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کی حقیقت سامنے آگئی ہے، پاکپتن پولیس نے لاہور پولیس کو اپنی کارروائی سے آگاہ کیے بغیر سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کو تاجر یوسف بٹ کو گرفتار کرنے کیلئے بھیج دیا۔ پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر جیسے ہی یوسف بٹ کے گھر میں داخل ہوئے تو یوسف بٹ کی والدہ نے انہیں ڈاکو سمجھ کر شور مچادیا جس پر بیٹے نے آؤ دیکھا نا تاؤ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ پاکپتن پولیس نے اسپتال میں ہوشیاری دکھاتے ہوئے مرنے والے اہلکار کو پولیس یونیفارم پہنائی، واقعہ کے بعد پاکپتن پولیس کے اہلکار دوبارہ یوسف بٹ کے گھر گئی اور فیصل بٹ کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ خیال رہے کہ لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ ایک کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، پولیس کے مطابق ملزمان نے پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی فائرنگ کردی ،پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے فیصل بٹ نامی ملزم ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
پاکستان نے آئی کیوب قمر کی کامیابی کے بعد ایک اور سیٹلائٹ لانچ کرنے کا فیصلہ کرلیا,نیا سیٹلائٹ ایم ایم ون 30 مئی کو خلا میں چھوڑا جائے گا,جو جدید ترین مواصلاتی نظام کی تشکیل میں رہنمائی کرے گا۔سیٹلائٹ ٹیلی کام سیکٹر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے,فائیوجی اور انٹرنیٹ کی بہتر دستیابی کو سیٹلائٹ یقینی بنائے گا۔ سیٹلائٹ سپارکو اور نیشنل اسپیس ایجنسی کی جانب سے خلاء میں لانچ کیا جائے گا,گزشتہ روز پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب قمر‘نے کامیابی کیساتھ چاند کے مدار سے پہلی تصویر بھیجی تھی ، آئی کیوب قمر نے چاند کے گرد تین چکر لگائے۔ ترجمان سپارکو نے بتایا کہ آئی کیوب قمر کے کنٹرولرز، سب سسٹمز اور پروٹو کولز کی مدار میں ٹیسٹنگ کا سلسلہ جاری ہے، یہ مشن چاند کے مدار میں پہنچنے کے بعد 5 سے 6 دن تک تجرباتی مراحل میں رہے گا,آئی کیوب قمرکوچینی مشن چینگ6 کے ساتھ 3 مئی کو ہینان سپیس لانچ سائٹ سے خلا میں بھیجا گیا تھا، پاکستان کا سیٹلائٹ مشن 3 سے 6 ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا۔ آئی کیوب قمر ’ کو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اور پاکستان نیشنل اسپیس ایجنسی ’سپارکو‘ کے تعاون سے ڈیزائن اور تیار کیا ہے,یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا، پاکستانی سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ملک میں سولر پینل کی قیمتیں مزید کم, اوسط ریٹس 37روپے تک گر گئے ملک بھر میں سولر پینل کی قیمتوں میں مزید کمی کردی گئی,2022 میں 80 روپے فی واٹ ملنے والی پلیٹ کی قیمت 37 روپے فی واٹ ہوگئی اور 5 کلو واٹ سولر سسٹم کی قیمت 2022کے مقابلے میں 2 لاکھ 15ہزار جب کہ 10 کلو واٹ سسٹم کی قیمت 4 لاکھ30 ہزار روپے تک گرگئی تاہم سولر سسٹم کے لیے ضروری انورٹرز اور بیٹریز کی قیمت کم نہ ہوئی۔ سولر پینل ڈیلرز کے مطابق سولر پینل پر فی واٹ قیمت 40 روپے یا اس سے نیچے تک آگئی ہے ۔ سولر پینل کی قیمتوں میں کمی کے بعد مختلف اقسام اور برانڈز کے سولر پینل کے اوسط ریٹس 37 روپے تک گرگئے ہیں,قیمتوں میں کمی کے حوالے سے سولر پینل ڈیلرز نے کہا بے تحاشہ سپلائی موجود ہونے کے سبب ریٹس کریش ہوئے ہیں اور صرف 6 ماہ میں سولر پینل کی قیمتیں 30 فیصد کم ہوئی ہیں جب کہ قیمتوں میں کمی کا رجحان مزید جاری رہنے کا امکان ہے۔ ملک میں سولر پینل کی قیمتیں مزید کم ہوگئیں۔ سولر پینل ڈیلرز کے مطابق فی واٹ قیمت 40روپے یا اس سے نیچے تک آگئی ہے، مختلف اقسام اور برانڈز کے سولر پینل کے اوسط ریٹس 37روپے تک گر گئے ہیں, بے تحاشہ سپلائی موجود ہونے کے سبب ریٹس کریش ہوئے ہیں۔ 6ماہ میں سولر پینل کی قیمتیں 30فیصد کم ہوئی ہیں۔
9مئی جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے آئین اور قوانین میں ترامیم کی تجویز سانحہ9 مئی کے حوالے سے جمعرات کو شہباز شریف کابینہ نے نگراں حکومت کی تیار کردہ جس رپورٹ پر بحث و مباحثہ کیا, انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق اس میں سفارش کی گئی ہے کہ 2023 میں پیش آنے والے پی ٹی آئی کے فوجی تنصیبات پر حملوں جیسے واقعات اور پرتشدد حملوں کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ آئین میں ترامیم کے ساتھ مختلف قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں تاکہ سرخ لکیر کو عبور کرنے والے لوگوں کو عبرت کی مثال بنایا جا سکے۔ آئین کے بنیادی حقوق کا اطلاق مسلح افواج کے ارکان پر نہیں ہوتا جبکہ جو لوگ فوج یا عسکری تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں ان کے بارے میں اس آرٹیکل میں کوئی ایسی وضاحت موجود نہیں۔ رپورٹ میں دہشت گردی کی تعریف میں ہنگامہ آرائی اور مخصوص مقامات بشمول فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی شمولیت کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ رپورٹ میں پاکستان آرمی ایکٹ، تعزیراتِ پاکستان، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور فوجداری قانون میں ترمیم ایکٹ، ہتک عزت کے قوانین، پبلک آرڈر آرڈیننس کی بحالی، ضابطہ فوجداری اور قانونِ شہادت میں تبدیلیوں کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللّٰہ نے سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کےلیے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کردی,ان کا کہنا ہے کہ اگر سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کےلیے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تو مزید وقت ضائع ہوگا۔ رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا تھا کہ سوموٹو نوٹس نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے، سوموٹو نوٹس آئین میں موجود ہے, عدلیہ آزاد ہے اس پر ایگزیکٹو کا کوئی عمل دخل نہیں، سب سے پہلے دباؤ تو وکلا تنظیمیں اور بار کی طرف سے آتا ہے، جو صاحب کردار اور مضبوط ہیں ان کو آج تک کوئی زیر دباؤ نہیں لا سکا۔ رانا ثنا نے کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے ثبوت واضح ہیں، کوئی شک والی بات نہیں، 9 مئی واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنا تو تین سال اور لگ جائیں گے، انصاف کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ملٹری کورٹس کے ٹرائل پر اسٹے ہے، سال ہوگیا اب تک فیصلہ نہیں ہوا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نے کہا تھا کہ پنجاب حکومت کسانوں کے لیے پیکیج لانے کی تیاری کر رہی ہے، کسانوں کےلیے پنجاب حکومت کا پیکیج بہت ہی فائدہ مند ہوگا، پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ کسان اپنی گندم بیچ چکا ہے، گندم اب مڈل مین کے پاس ہے، حکومت خریدے گی تو فائدہ مڈل مین کو جائے گا,مولانا فضل الرحمان صرف اس الیکشن کے خلاف نہیں 2018 میں بھی تحریک کا آغاز کیا تھا۔
پارٹی رہنماوں کے خلاف متنازع بیانات ، شیر افضل مروت کو شو کاز نوٹس جاری پاکستان تحریک انصاف نے شیر افضل مروت کو پارٹی رہنماوں کے خلاف متنازع بیانات دینے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا,پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب کی جانب سے شیر افضل مروت کو جاری شوکاز نوٹس کے متن کے مطابق کہا گیا آپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے پارٹی کے مفادات کو نقصان پہنچا، بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کے باوجود آپ نے بیانات دیئے۔ متن میں کہا گیا آپ کے بیان سے پارٹی ممبران اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعلقات خراب ہوئے، آپ تین روز کے اندر جواب دیں ورنہ کارروائی کی جائے گی,شوکاز نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر آپ کا جواب اطمینان بخش نہ ہوا تو پارٹی آپ کے خلاف ایکشن لے گی۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پارٹی رہنما شیر افضل مروت کو سیاسی کمیٹی اور واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا,پی ٹی آئی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کو پارٹی رہنماﺅں کے خلاف بیان دینا مہنگا پڑگیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے شیر افضل مروت کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے انہیں سیاسی کمیٹی سے نکال دیا,شیر افضل مروت کو سیاسی کمیٹی کے واٹس ایپ گروپ سے بھی نکال دیا گیا ہے جبکہ پارٹی نے انہیں مکمل سائیڈ لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی چیئرمین عمران خان غیر ضروری بیانات اور رویے کی وجہ سے شیر افضل مروت سے خفا ہیں اور انہوں نے ہی کل اور آج اڈیالہ جیل میں ملاقات سے انکار کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی رہنماؤں نے بانی تحریک انصاف کو شیر افضل مروت کو سیاسی کمیٹی اور کور کمیٹی سے نکالنے کی تجویز دی تھی,ذرائع کا کہنا ہے کہ شیر افضل مروت کی جانب سے متنازع بیانات پر ڈسپلنری ایکشن بھی لیا جا سکتا ہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے پارٹی رہنماؤں شبلی فراز اور عمر ایوب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزامات عائد کیے تھے اور کہا تھا کہ شبلی فراز اور عمرایوب نے آج بھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہونے نہیں دی۔انھوں نے بتایا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے پارٹی سے کہا کہ اگر مجھے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی چیئرمین شپ دی گئی تو ہمیں قبول نہیں۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو میں نے اس وقت اٹھایا جب یہ سب لوگ چھپے ہوئے تھے اور پارٹی مردہ گھوڑا بن گئی تھی، خدمت کا صلہ یہ ملا کہ سوشل میڈیا ٹیم میرے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے شیر افضل مروت کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے لیے نامزد کیا تھا۔تاہم حکومت نے شیرافضل مروت کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے سے انکار کرتے ہوئے اپوزیشن سے کسی اور کو نامزد کرنے کی درخواست کی تھی۔اس کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد کیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے طلباء کو الیکٹرانک بائیکس فراہم کرنے کا عمل روک دیا لاہور ہائیکورٹ کا جشن بہاراں کے سلسلے میں شہر بھر میں لائٹیں لگانے کے عمل پر ناراضی کا اظہار پنجاب حکومت کی طرف سے طلباء وطالبات میں الیکٹرانک بائیکس کی تقسیم کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں سموگ کے تدارک کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی گئی۔ جسٹس شاہد کریم نے جشن بہاراں کے سلسلے میں شہر بھر میں حکومت کی طرف سے لائٹیں لگانے کے عمل پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے اگر لائٹس کی جگہ پر پودے لگائے جاتے تو یقیناً ماحول میں بہتری آتی۔ جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ شہر بھر میں عجیب وغریب لائٹس لگا دی گئی ہیں جن سے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے، عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ یہ لائٹس لگانے پر کتنا خرچہ آیا؟ وکیل نے عدالت سے کہا کہ اس حوالے سے تفصیلات منگوا لیتے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران ہی جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت کی الیکٹرانک بائیکس کی قرعہ انداز کو عدالتی حکم سے مشروط کر دیا۔ جسٹس شاہد کریم نے 13 مئی تک قرعہ اندازی کے ذریعے طالب علموں کو دی جانے والی الیکٹرانک بائیکس کے عمل کو روکتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کون کون سے شہروں میں طلباء کو کتنی الیکٹرانک بائیکس دی جا رہی ہیں اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جسٹس شاہد کریم کا اس حوالے سے اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ طالب علموں کو بائیکس دیں گے تو وہ ون ویلنگ کریں گے، وہ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر جائیں گے، حکومت بائیکس دینے کے بجائے کالجز میں بسیں فراہم کریں۔ جسٹس شاہد کریم نے مساجد میں وضو کا پانی پودوں کو دینے کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایات کے ساتھ کیس کی آئندہ سماعت پر متعلقہ محکموں سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب میں طلباء کو 20 ہزار موٹرسائیکلوں کی فراہمی کے پراجیکٹ کا آغاز کرتے ہوئے رجسٹریشن شروع کی گئی تھی اور طلباء کو بلاسود بائیکس فراہم کرنے کیلئے پنجاب حکومت نے 1 ارب روپے کی سبسڈی کا پروگرام بنایا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں 19 ہزار پٹرول اور 1 ہزار الیکٹرانک بائیکس لاہور، راولپنڈی، بہاولپور، ملتان اور فیصل آباد کے طلباء کو دی جانی ہیں۔
ملک بھر میں لاقانونیت کے باعث بچوں سے زیادتی کے واقعات میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی روک تھام میں انتظامیہ مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی تھانہ سٹیل ٹاﺅن کی حدود میں کمسن بچی سے زیادتی کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس کی نشاندہی بچی نے کی تھی، ملزم بچی کا چچا ہے اور اس گرفتاری کے بعد اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت مں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، ملزم نے ایک ویران جگہ پر جا کر اپنی کمسن بھتیجی کو حوس کا نشانہ بنایا تھا، کمسن بچی کو میڈیکل کروانے کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔عثمان شیخ نامی ملزم نے اپنی بھتیجی سے زیادتی کرنے کا اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، میں بہک گیا تھا۔ متاثرہ بچی کے والد نے بتایا کہ ملزم واقعے کے بعد گھر کے قریب ہی ایک ویران جگہ پر چھپ کر بیٹھا ہوا تھا، علاقہ مکین موقع پر پہنچ گئے اور اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ بچی کی میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوانے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ ساحل نامی ایک این جی او نے پاکستان میں بچوں سے جنسی ہراسگی کے واقعات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے 4 ہزار 213 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں ہر روز 11 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں 53 فیصد (2 ہزار 251 ) متاثرین لڑکیاں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے 1 سال میں 47 فیصد (1ہزار 962) کم عمر بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے زیادہ تر کی عمریں 6 سے15 سال بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 5 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان واقعات میں بچوں کے جاننے والے ہی ملوث پائے گئے۔