بگ برادر سب دیکھ رہا ہے،جسٹس منصور کا جارج اوروِل کے ناول کا حوالہ

justi1hh112.jpg


"بگ برادر سب دیکھ رہا ہے یہ کیا کلچر ہے"۔جسٹس منصور علی شاہ نے جارج اوروِل کے ناول کا حوالہ دیا ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے جارج اوروِل کے ناول 1984 میں ایک کردار بگ برادر کا حوالہ دیا جو ہر خفیہ چیز پر نظر رکھتا تھا

انہوں نے کہا کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے کہ ہر وقت اس چیز کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، کوئی ہمیں سن رہا ہے، کوئ ہماری ریکارڈنگ کر رہا ہے، کیمرے ہماری ویڈیو بنا رہے ہیں کیا ریاست اس طرح چلائی جاتی ہے؟

جارج آرویل ایک برطانوی رائیٹر تھا جو 1936 سے 1939 کی اسپین کی سول وار کا ایک کردار تھا- اس نے 1945 میں ایک ناول "اینمل فارم " اور 1949 میں ایک ناول " 1984 " لکھا تھا جس میں اس نے سپینش سول وار کے اپنے ذاتی احوال لکھے - 16 فروری 1936 کو سپین میں الیکشن کے بعد بایں بازو کے ایک اتحاد "پاپولر فرنٹ " نے الیکشن جیتا تھا لیکن وہاں کے دائیں بازو کی کونزرویٹو ونگ نے اس وقت کے آرمی جنرل جنرل فرانسسکو فرانکو کی مدد سے جولائی 1936 میں ملک میں مارشل لا لگا کر قبضہ کرنے کی کوشس کی تھی ' جس کے نتیجے میں وہاں سول وار شروع ہوگئی تھی -


جارج اورول کا شہرہ آفاق ناول 1984 سال 1949 میں شائع ہوا جس میں ایک جماعتی نظام اور اس کے پیچھے کار فرما آمرانہ سوچ اور ہتھکنڈوں کو اجاگر کیا گیا کیسے ایک جماعتی نظام کام کرتا ہے کیسے اس جماعت کے پندرہ فیصد لوگ پچاسی فیصد پر حکمرانی کرتے ہیں، کس طرح لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے ان سے سوچنے سمجھے کی صلاحیت چھین لی جاتی ہے

ان کو وہی دکھایا جاتا ہے وہی بات کی جاتی ہے بلکہ منوائی جاتی ہے اور وہی سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کا لیڈر سوچتا ہے اور ظاہر ہے وہ وہی سوچے گا جو اس کے فائدے میں ہوگا، پھر ان کی اس محدود سوچ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس ناول میں لندن شہر میں ایک جماعت کی آمریت دکھائی گئی ہے شہر کے ہر دور درودیوار پر “بڑے بھائی” کی تصویر والے پوسٹرز لگائے گئے ہوتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے ۔

Big brother is watching you
یعنی بڑے بھائی آپ کو دیکھ رہے ہیں

ناول 1984 کی کہانی کے مطابق بگ برادر کی پارٹی کے نمائندے اور جاسوس ہر گھر ، ہر دفتر اور ہر جگہ موجود ہوتے وہ باقی لوگوں کی ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں،بگ برادر کی مرضی سے زیادہ کسی کو سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی ،لوگوں کو امن اور آزادی کی اپنی مرضی کی تعریف بتائی جاتی اور اس سب کو شعور کا نام دیا جاتا، ناول کی کہانی دو مرکزی کرداروں کی بگ برادر کی پالیسی سے انحراف اور پھر ان کے انجام پر مبنی ہے لیکن دراصل اس کہانی میں آمرانہ حکمرانی اور اس کو قائم رکھنے کے لئے اپنائے جانیوالے ہتھکنڈوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کہ آج بھی دنیا میں کئی ملکوں کی حکومتوں اور نظام سے مطابقت رکھتا ہے اسی وجہ سے روس اور کچھ دیگر ملکوں میں اس ناول پر پابندی بھی لگائی گئی۔

جارج اورول کا ایک اور ناول اینمل فارم کو بھی بہت پذیرائی ملی جس میں انہوں نے حوالہ دیا کہ سور اپنے خونخوار کتوں کی مدد سے فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں اور خود کو باقی جانوروں سے افضل سمجھتے ہیں۔ خوراک کی قلت کے باعث جانوروں کے راشن میں کٹوتی ہوتی جبکہ سور متواتر دودھ، شراب اور بارلے سے لطف اندوز ہوتے ہیں

جاوج ارول کے مطابق دنیا میں سیاستدان جنگل میں بندروں کی طرح ہوتے ہیں جب وہ جھگڑا کرتے ہیں تو فصلوں کو خراب کر دیتے ہیں اور جب وہ صلح کرتے ہیں تو فصل کھا جاتے ہیں
 

ranaji

President (40k+ posts)
جارج اورول کا ایک اور ناول اینمل فارم کو بھی بہت پذیرائی ملی
جس میں انہوں نے حوالہ دیا کہ سور اپنے خونخوار کتوں
کی مدد سے فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں اور خود کو باقی جانوروں سے افضل سمجھتے ہیں۔ خوراک کی قلت کے باعث
جانوروں کے راشن میں کٹوتی ہوتی جبکہ سور متواتر دودھ، شراب اور بارلے سے لطف اندوز ہوتے ہیں
——————- —————
اور یہ سب کچھ اس وقت
پاکستان میں بھئ سور اپنے خونخوار کتوں سے کرا رہا ہے