عوام کوکچھ نہیں مل رہا،سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتےرہیں گے؟چیف جسٹس

battery low

Minister (2k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1783413385608249590
https://twitter.com/x/status/1783454645077074016
2633339-jucticeqazifaizesa-1714029184-395-640x480.jpg


کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ ۔

سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔


درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟


درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔

وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟


وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔


Source
https://twitter.com/x/status/1783380891596673439
 
Last edited by a moderator:

merapakistanzindabad

MPA (400+ posts)

او ڈرامے باز تو بول بچن نہ دے، انصاف دے انصاف . اگر نہیں..... تو اپنا منہ بند رکھ . لوگوں کو تیری ڈرامے بازیوں کی ضرورت نہیں
Dafa ho zlil insaan. Ain ki dhajian tu ne oorai ek political party se symbol leke oor begunah ko jailoon mein daalke.
You will be remembered the WORST Chief justice in the history of Pakistan 🇵🇰.
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
او بھائی اپنا کام کرو۔۔
یہ کیا انتظامی معاملات میں گھسے ہوئے ہو؟؟

سپریم کورٹ کی اوقات بس تجاوزات ہٹانے کی رہ گئی ہے۔
ذہنی مریض کتے کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کا انجام دیکھ لیا؟ بڑی اس کی طرفداری کیا کرتے تھے بغض عمران میں۔ اب بھگتو اسے۔
 

Meme

Minister (2k+ posts)
ذہنی مریض کتے کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کا انجام دیکھ لیا؟ بڑی اس کی طرفداری کیا کرتے تھے بغض عمران میں۔ اب بھگتو اسے۔

ہم تو بندیال پہ بھی تنقید کرتے تھے، قاضی پہ بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔

پر یہ ککڑی کیوں اتنی ملول خاطر ہے، ننھی سی جان کو کیا روگ لگ گیا ہے؟؟
😕😁
 

MMushtaq

Minister (2k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1783413385608249590
https://twitter.com/x/status/1783454645077074016
2633339-jucticeqazifaizesa-1714029184-395-640x480.jpg


کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ ۔

سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔


درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟


درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔

وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟


وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔


Source
https://twitter.com/x/status/1783380891596673439
پاکستان میں ہر کوئی اپنے کام کے علاوہ سب کچھ کر رہا ہے-
 

wasiqjaved

Chief Minister (5k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1783413385608249590
https://twitter.com/x/status/1783454645077074016
2633339-jucticeqazifaizesa-1714029184-395-640x480.jpg


کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ ۔

سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔


درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟


درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔

وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟


وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔


Source
https://twitter.com/x/status/1783380891596673439
جس جج کے فیصلے سے زیادہ اس کی نو گز کی زبان بولے، ایسے جج تو تھوک کے حساب سے ہیرا منڈی میں پائے جاتے ہیں
 

Azpir

MPA (400+ posts)
https://twitter.com/x/status/1783413385608249590
https://twitter.com/x/status/1783454645077074016
2633339-jucticeqazifaizesa-1714029184-395-640x480.jpg


کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ ۔

سپریم کورٹ نے برطرفی کیخلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔


درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میں کنٹریکٹ ملازم نہیں، ریگولر ملازم تھا۔ حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملازم تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں تمام ضابطہ کار کو فالو کیا گیا تھا۔ ہمیں کیا پتا آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، ذرا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے۔ لسٹ آ جاتی ہے کہ اِن کو رکھنا ہے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ملازمین بھر کررہے ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہو رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں، صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے۔ صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر 3، 3 گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں۔ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنا ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟


درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے خود پروجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں۔

وکیل نے کہا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟


وکیل نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں، پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔ عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔


Source
https://twitter.com/x/status/1783380891596673439
Khud yeh Ain ko G pe likhta ha. Aik lawless state bana Diya ha mulk ko or is nafsiati k dialogue suno . Bakchod
 

Ontarianpakistani

Senator (1k+ posts)

او ڈرامے باز تو بول بچن نہ دے، انصاف دے انصاف . اگر نہیں..... تو اپنا منہ بند رکھ . لوگوں کو تیری ڈرامے بازیوں کی ضرورت نہیں
We have all kinds of Drame baaz running this country. The problem is Shareef family has introduced a culture of lies that no one including CJP and COAS feel any shame while telling lies with straight face. Laanat.
 

Ontarianpakistani

Senator (1k+ posts)
جس جج کے فیصلے سے زیادہ اس کی نو گز کی زبان بولے، ایسے جج تو تھوک کے حساب سے ہیرا منڈی میں پائے جاتے ہیں
Heera mandi ki touheen na kareen. Woh sirf jism baechti hain aur yeh dulle zameer, deen, iman ke saath saath mulk baech rahe hain.
 

Kam

Minister (2k+ posts)
Qazi sb. it is only six months remaining and if got extension, only 29 months.
So shut up and we know very well what you are doing and from where you are getting extension and decisions.
Tumhary judges tak ki to videos ban rahi hain leave azam swati and other victims. Isy interference ni, but ghar main ghusna kahty hain.
Yeh jitny bhi baluchistan waly Islamabad aaty hain, gharat/izzat sari udher hi phank kar aaty hain.