پنجاب پولیس کے حوالے سے روزبروز شہریوں کی طرف سے شکایات سامنے آتی ہیں اور حکومت و انتظامیہ کی طرف سے پولیس نظام میں بہتری لانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن پنجاب کے شہر پاکپتن سے 3 سال پہلے اغوا ہونے والی عدن فاطمہ نامی 5 سالہ بچی کے کیس نے ایک بار پھر سے پنجاب پولیس کے تفتیش کے نظام پر سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں۔
پولیس کی طرف سے بچی کے اغواء کے بعد مشتبہ ملزم سے قتل کا اعتراف بیان لے لیا گیا لیکن وہ 3 سال بعد آج اپنے گھر پہنچ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کے شہر پاکپتن کے ایک گائوں ڈھپئی سے سال 2021ء میں عدم فاطمہ نامی 5 سالہ بچی غائب ہو گئی تھی جس کی گمشدگی کی ایف آئی آر ملک ہانس تھانے میں درج کروائی گئی تھی۔ پولیس نے 2 سال گزرنے کے بعد گزشتہ برس 2023ء میں ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا جس سے بچی کے قتل کا اعتراف بھی کروا لیا۔
پولیس کی طرف سے ملزم کے اعتراف جرم کا ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا جس میں ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے بچی کو قتل کرنے کے بعد نعش کو نہر میں پھینک دیا تھا۔ ڈی پی او پاکپتن سے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ مزمل نامی ملزم کی عدن فاطمہ کے چچا کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے بچی کو قتل کیا اور پولیس نے بہترین انداز میں تفتیش کرتے ہوئے بچی کے اغوا کا معمہ حل کر لیا ہے۔
پنجاب پولیس کی بہترین تفتیش کا بھید اس وقت کھلا جب گھپئی گائوں کی ہی ایک سڑک پر پٹرولنگ پولیس کو ایک لاوارث بچی ملی، تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ یہ تو 3 سال پہلے غائب اسی گائوں سے غائب ہو جانے والی عدن فاطمہ ہے۔ عدم فاطمہ نے بتایا کہ وہ پچھلے 3 سال سے کسی مدرسہ کے اندر رہ رہی تھی اور جس شخص کے پاس رہ رہی تھی وہی اسے موٹرسائیکل پر یہاں چھوڑ کر فرار ہوا ہے۔
واضح رہے کہ عدن فاطمہ اغوا کیس چلنے کے دوران ہی اعتراف جرم کرنے والے ملزم مزمل کا خاندان اس گائوں سے اپنا مکان اور مال مویشی بیچ کر کہیں اور رہائش اختیار کر چکے ہیں۔ پولیس کی طرف سے ملزم کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری ہونے کے 3 سال بعد عدم فاطمہ کے گھر واپس پہنچنے پر پنجاب پولیس کے تفتیش نظام کا کچا چٹھا ایک بار پھر سے کھل کر سامنے آ چکا ہے۔