سوشل میڈیا کی خبریں

کیا حسین نواز واقعی سڑک سے روٹی کے ٹکڑے چن رہے ہیں؟ برطانیہ میں تعینات نجی چینل کے صحافی کا دعویٰ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز ان دنوں لندن میں مقیم ہیں اور ایون فیلڈ فلیٹس کیس میں عدالت کو مطلوب ہیں۔ لندن میں مقیم ایک صحافی نے انکی ایک ویڈیو شئیر کی ہے جس میں ویڈیو میں واضح طور پر نظر نہیں آرہا کہ حسین نواززمین سے کیا اٹھارہے ہیں۔لیکن انکا دعویٰ ہے کہ حسین نواز سڑک سے روٹی کے ٹکڑے چن کر ساتھ لے گئے۔ لندن میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے فرید قریشی کے مطابق " حسین نواز نے دفتر کی طرف واک کرتے ہوے زمین پر روٹی کے ٹکڑے پڑے دیکھے تو وہ چُن کر ساتھ لے گئے۔" سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر دلچسپ تبصرے کئے ہیں، ن لیگ کے حامیوں نے اسے نوازشریف کی تربیت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے شریف خاندان کو اسی لئے بہت نوازا ہے کیونکہ وہ رزق کی بہت قدر کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ن لیگ کے مخالف سپورٹرز کا کہنا تھا کہ جو یہ عوام کی روٹی اٹھا کر ساتھ لندن لے گئے ہیں اسکا بھی حساب دیں، کچھ سوشل میڈیا صارفین نے تو اسے سٹنٹ قرار دیا ۔ شہزاد لیاقت نے تبصرہ کیا کہ اور جو 23 کروڑ عوام کی روٹی اٹھا کر ساتھ لے گئے ہیں اس کا حساب بھی تو دیں فرحان منہاج نے تبصرہ کیا کہ صحافت کی نئی معراج کو نظر نہ لگ جائے
ٹوئٹر صارف نے قومی ٹیم کے سابق لیجنڈری کرکٹر کپتان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم سے سفارش کی اپیل کر دی۔ تفصیلات کے مطابق محمد جنید نامی صارف نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر ایک سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صارف کو وسیم اکرم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بلاک کیا ہوا ہے۔ محمد جنید نے صارف نے وسیم اکرم سے اپیل کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وسیم اکرم نے مجھے کیوں بلاک کیا ہے براہ مہربانی مجھے ان بلاک کر دیں۔ ٹوئٹر صارف نے شنیرا سے مخاطب کرتے ہوئے درخواست کی کہ کہ میری سفارش کردیں، شاید آپ کی سفارش سے میری مدد ہوجائے۔ شنیرا اکرم نے محمد جنید کی سفارش کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کوئی منفی ٹوئٹ کیا ہوگا، جس کی وجہ سے وسیم نے آپ کو بلاک کیا ہوگا۔ سابق کپتان کی اہلیہ شنیرا نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ٹوئٹ کرنا۔
نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر اپنی نازیبا ویڈیو کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ محمد زبیر نے سوشل میڈیا صارفین کی تنقید سے بچنے کیلئے ٹویٹر پر کمنٹس سیکشن کو بند کر دیا۔ ان ان کی ٹویٹس پر صرف وہ لوگ رپلائی کر سکیں گے جنہیں وہ اپنی ٹویٹ میں ٹیگ کریں گے۔ سوشل میڈیا صارفین محمد زبیر کی ٹویٹس پر کمنٹ کرکے انکی غیر اخلاقی ویڈیو کی وجہ سے ان پر تنقید اور طنز کرتے اور انہیں سنگسار کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دوسری جانب لیگی سوشل میڈیا صارفین بھی اپنی قیادت سے انہیں ن لیگ سے نکالنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے محمد زبیر نے دلبرداشتہ ہوکر کمنٹ آپشن بند کردی تاکہ کوئی ان پر انکی نازیبا ویڈیو کی وجہ سے تنقید نہ کرسکے، ناں رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔ لیکن کمنٹس آپشن بند کرنے سے تنقید کا سلسلہ کم ہو سکتا ہے مگر ختم نہیں ہو سکتا۔ جس نے محمد زبیر پر تنقید کرنا ہو وہ اب بھی محمد زبیر کا ٹویٹ قوٹ کرکے تنقید کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے محمد زبیر کی نازیبا ویڈیو لیک ہوئی تھی جس میں وہ مختلف خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی حالت میں رنگ رلیاں مناتے دکھائی دے رہے تھے۔ محمد زبیر نے ان ویڈیوز کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی اور کے جسم پر میرا چہرہ لگا کر مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر انہوں نے ابھی تک اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنےکیلئے اس ویڈیو کے خلاف ایف آئی میں کوئی درخواست نہیں دی۔
نجی ٹی وی چینل سے منسلک خاتون صحافی عنبر رحیم شمسی نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام شیئر کیا جس میں ٹیکسلا عجائب گھر کی انتظامیہ کی شکایت کی۔ انہوں نے ایک کیو آر کوڈ شیئر کیا اور لکھا کہ میوزیم کی انتظامیہ نے کیو آر کوڈ دے رکھا ہے مگر انہوں نے جب اسے سرچ کیا تو کوئی لنک کھلا جس سے تھائی لینڈ بس کمپنی سے متعلق معلومات سامنے آ گئیں۔ انہوں نے ایک طرح سے انتظامیہ اور حکومت پر تنقید کی جس کے جواب میں صارفین نے انہیں بتایا کہ اس کو اسکین کرنے کے لیے انہیں پہلے میوزیم کی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا ہو گی جس میں اسکین کرنے سے عجائب گھر کی معلومات انہیں مل سکیں گی۔ منزہ نامی صارف نے کہا کہ ان کو اس کے لیے پہلے ایپلیکیشن انسٹال کرنا ہوگی۔ پشاوری الیٹ نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔ ایک صارف نے کہا کہ اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں اور ایپ انسٹال کریں۔ سعد نامی صارف نے کہا کہ اس میں عنبر شمسی کا قصور نہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ سے ناواقف ہیں، اس لیے اس کوڈ کو ایسا بنایا جانا چاہیے کہ یہ عام سکینر کے ذریعے بھی کام کرے۔ ایک اور صارف نے کہا کہ ایسا تب ہوتا ہے جب آپ بغیر سوال پڑھے جواب لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ سلمان نامی صارف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑامنہ اس پر آنکھیں اور دماغ کس لیے دیا ہے؟ لگتا ہے کہ اسد عمر کو ہر جگہ وہ طریقہ کار اپنانا چاہیے جس سے آپ واقف ہوں۔ آمنہ نے عنبر شمسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا حوصلہ تو دیکھیں کہ غلطی کر کے اوپر سے ٹوئٹر پر بھی ڈال دیا ہے۔ صاف لکھا ہے کہ میوزیم کی ایپ پر جا کر اسے اسکین کریں۔ ہانی نامی صارف نے طنزًا کہا کہ یہ ٹاپ جرنلسٹ ہیں۔ عماد احمد نے کہا کہ ایپ پر جا کر اسے استعمال کریں۔ حنیف داوڑ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ اگر آپ کا برا دن چل رہا ہے تو شکر ادا کریں اور اس کے بعد یہ دیکھیں۔
نوے کی دہائی وہ وقت تھا جب انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی معمول کی بات سمجھی جاتی تھی اور قومی اخبارات کو اس کی تشہیر سے سروکار نہیں ہوتا تھا۔ اخبار مشکل سے ایک کالم کی خبر دیتے اور غیر نُمایاں انداز میں ایسی خبر شائع کرتے تھے۔ اسٹرٹیجک یا سیاسی تجزیہ نگاری پر مبنی تبصرے بھی اخبارات کی زینت نہیں بنتے تھے۔ خبر بھی دو پیراگراف پر مشتمل ہوا کرتی تھی، پہلے میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرر پانے والے لیفٹیننٹ جنرل کا نام اور دوسرے پیراگراف میں ان کے قبل ازیں منصب کی کچھ تفصیل شامل ہوتی تھی۔ مگر اب حالات یکسر تبدیل ہوئے ہیں جب سے لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری کا اعلان سامنے آیا ہے تب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک بحث چل رہی ہے۔ صحافی حضرات اس پر مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیں جن کو افواہوں پر مبنی قیاس آرائیاں کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ آیئے اس معاملے پر کچھ صحافیوں کی رائے آپ تک پہنچاتے ہیں۔ صحافی ڈھکی چھپی زبان میں معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دراصل سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں میں دعوے کیے جا رہے ہیں کہ عمران خان لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی سے ناخوش ہیں۔ معروف ٹی وی میزبان اور کامیڈین شفاعت علی نے کہا ہے کہ پنڈی والے صحافی کہتے ہیں کہ چائے کی پیالی میں طوفان ہے۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں ٹینشن کم ہوئی ہے مگر مکمل طور پہ نہیں ٹلی۔ دونوں سچ کہتے ہیں۔ سید کوثر کاظمی نامی صحافی نے کہا کہ ڈٹ کے کھڑا کپتان سوموار تک تھک جائے گا۔ سرال المیڈا نے ہارون رشید کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو حل ہونے میں 2، 3 یا 4 دن بھی لگ سکتے ہیں آخر کار وہ عمران نیازی ہیں۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ یہ بحرانی کیفیت جو صورتحال اختیار کر رہی ہے اس میں دو چیزیں صاف ظاہر ہیں کہ جن باتوں پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے ان پر ہم آہنگی نہیں ہے۔دوسرے نمبر پر عمران خان نے اسے نجانے کیوں زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے حالانکہ اس سے کچھ بدلے گا بھی نہیں۔ کامران شاہد نے نام لئے بغیر اپنے ہی ملک کے وزیراعظم کو کم ظرف کہہ دیا اور اس کے شر سے بچنے کا مشورہ دیدیا۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں بھارتی فلم کا کلپ شیئر کرتے ہوئے معاملہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نےارشد شریف کو مخاطب کرتے ہوئے مہدی حسین کی غزل ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا شیئر کی، ایک شعر بھی کپشن میں لکھا۔ ارشد شریف نے بھی شاعرانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا اک بے وفا سے پیار کیا اس سے نظر کو چار کیا ہائے رے ہم نے کیا کیا انہوں نے ایک اور شاعرانہ تبصرہ کیا جس میں انہوں نے بھارتی گانہ شیئر کیا تو نے نہیں پی ہاں میں نے پی ہے جس نے بھی پی یہ عادت بری ہے بہت ہو چکی دنیا سو چکی اب مان جا نہیں سر پھوڑتا ہوں مجھ کو یارو معاف کرنا میں نشہ میں ہوں جس کا بڑا بھائی ہو شرابی چھوٹا پیے تو کیا ہے خرابی بھلا یا برا تم ہی سمجھنا تم پہ فیصلہ یہ میں چھوڑتا ہوں صابر شاکر نے بھی ایک گانا شیئر کیا جس میں عشق کے روٹھنے کا ہی ذکر ہے۔ عمار مسعود نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے نام پر اختلاف قائم انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل فیض حمید اور عمران خان کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے ہیں۔ صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ شٹل سروس نے دو چکر کل رات اور دو آج صبح لگائے، فنی خرابی کے سبب جب سروس تعطل کا شکار ہوئی تو ٹریکٹر ٹرالی کا استعمال بھی ہوا حاصل سفر یہ ہے کہ بزرگوں نے جو طے کیا ہے اس پر تین ماہ تک برداشت کا مظاہرہ کیا جائے گا اسکے بعد کا لائحہ عمل بھی بزرگ ہی طے کرینگے۔ ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان جاری شٹل سروس دو دن چل کر بند ہو گئی ہے میٹرو کو ہی دیرپا متبادل تصور کیا جا رہا ہے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا بادی النظر میں معاملہ حل ہو گیا ہے مگر اس کی گرد اتنی جلدی نہیں بیٹھے گی۔ سید طلعت حسین نے کہا کہ ان کے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ حال ہی میں فوج کی جانب سے کیے جانے والے تقرر وتبادلوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ سلیم صافی نے لکھا ہزاروں یوٹرنز لئے لیکن ماشااللہ محسنوں کے گلے میں ہاتھ ڈالنے اور انہیں رسوا کرنے کی عادت پر کوئی یوٹرن نہیں لیا۔100 مودی مل کر پاکستانی اداروں کےا میج کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو تنہا اس شخص نے پہنچادیا۔ ادارے کے اندر بھی سب سے زیادہ اس شخص کو آزمائش میں ڈال رکھا ہے جنہوں نے ان کی خاطر دشمنیاں مول لیں۔ سلیم صافی نے یہ بھی کہا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک معاملے سے باہر ہیں۔ فواد چودھری، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے ذریعے قضیہ حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صرف فواد چودھری اخلاص سے کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں۔ اسد اور قریشی کے ذریعے معاملہ سلجھانا ایسا ہے جیسے صادق سنجرانی کے ذریعے بلوچستان کا قضیہ سلجھانا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ دستخط کر دیئے گئے ہیں۔ گل بخاری نے کہا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
سانحہ گریٹر اقبال پارک کے کیس میں ایک نیا موڑ آگیا ہے، متاثر ہونے والی ٹک ٹاکر خاتون نے اپنے ہی ساتھی ریمبو کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیدیا ہے۔پولیس کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا ہے کہ 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک جانے کے حوالے سے سارا پلان خود ریمبو نے تیار کیا تھا اور مجھے مجبور کرکے ساتھ لے جایا گیا تھا۔ عائشہ اکرام نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ریمبو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری نازیبا ویڈیوز بنا رکھی تھیں جن کی بنیاد پر وہ مجھے بلیک میل کرتا تھا۔ریمبو نے بلیک میل کرکے مجھ سے 10 لاکھ روپے بھی بٹورے، میں ہر مہینے اپنی آدھی تنخواہ ریمبو کو دیتی تھی۔ عائشہ اکرام کے انکشافات کی روشنی میں ریمبو کو گرفتار کرلیا جس پر ریمبو نے انکشاف کیا کہ منظر عام پر آنیوالی ویڈیو اور تصاویر ایک سال پرانی ہیں۔ عائشہ نے مقدمے میں گرفتار فی ملزم سے 5 لاکھ لینے کا کہا تھا، ‏عائشہ نے بلیک میل کیا اگر بات نہ مانی تو جیل بھجوا دوں گی، راتوں رات مجھ پر ایف آئی آر کرائی گئی۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے نہ صرف عائشہ اکرم اور ریمبو کو بلکہ اقرارالحسن کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ریمبو ،عائشہ اکرم اور اقرارالحسن کی وجہ سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوئی ہے بلکہ تمام مردوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ عائشہ اکرم پر تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ اس خاتون نے الزام لگایا کہ 400 مردوں نے اسکے ساتھ بدتمیزی کی جب شناخت پریڈ ہوئی تو 6 مرد تھے جبکہ 4 مردوں کی اس نے غلط شناخت کی۔عائشہ اکرم کی وجہ سے ایک 70 سالہ بے گناہ بزرگ کو پولیس نے گرفتار کیا جبکہ ایک بے گناہ درزی کو بھی گرفتار کیا جس کی اس قدر بدنامی ہوئی کہ اسکا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے یہ بھی کہا کہ واقعے کے بعد عائشہ اکرم تو ریمبو کو اپنا بھائی کہتی ہیں، اب اسے یہ کیسے یاد آگیا کہ ریمبو نے اسکی نازیبا ویڈیوز بنائی ہیں؟ عائشہ اکرم بتائیں کہ وہ اتنا عرصہ کیوں چپ رہیں، اب اسے کیوں یاد آیا اور اسے واقعے کے بعد ریمبو کے ساتھ کیوں پھرتی رہیں؟ اقرارالحسن پر تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے مطالبہ کیا کہ اب تاویلیں دینے سے کام نہیں چلے گا، اقرارالحسن کو معافی مانگنا ہوگی تاج محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ملک کی دنیا میں بدنامی ہوئی کہ چار سو افراد نے ملکر ایک عورت سے بدتمیزی کی پھر بھی اقرار الحسن قوم سے معافی مانگنے کی بجائے تاویلیں پیش کر رہا ہے۔ افسوس صحافی اسداللہ خان نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں عائشہ اکرم کہتی ہیں کہ ریمبو میرے بھائی کی طرح ہے۔ عائشہ اکرم نے تبصرہ کیا کہ عائشہ اکرم سے بھی تفتیش ہونی چاہئے۔ مخدوم شہاب الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بدنام کرنے والوں کو مینار پاکستان کے سامنے سر عام سزا دی جائے۔ میرے ملک کو بدنام کیا گیا، اس ملک کے مردوں کا گالیاں دی گئیں، خواتین میں خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ اس کا حساب کون دے گا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے ریمبو کی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں ریمبو کہتا ہے کہ عائشہ اکرم نے گھبرا کر مجھے بھائی بول دیا تھا لیکن وہ مجھ سے ریلیشن میں تھی۔ معظم امتیاز نے لکھا کہ جس شخص کو کچھ عرصے پہلے ایشا اکرام نے اپنا بھائی اور ساتھی قرار دیا، آج اسی بھائی اور ساتھی کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر لیزی نے عائشہ اکرم، ریمبو اور اقرارالحسن کے بدلتے بیانات پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ طاہر کا کہنا تھا کہ معروف صحافی ایک معصوم لڑکی کی دلجوئی کر رہا ھے پھر بھی عوام نجانے کیوں صحافیوں سے ناخوش ہیں؟ صدف کا کہنا تھا کہ ریمبو نازیبا ویڈیو پر گرفتار ہوا لیکن زبیر عمر کیوں نہیں؟ مینا رفیق کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے اپنے گندے عزائم کے لیے نہ صرف مینار پاکستان جیسی جگہ کا بھی نام خراب کیا بلکہ یوم آزادی کے دن کا بھی مزاق اڑایا۔ ان کو سبق ملنا چاہیے ۔ آئندہ سستی شہرت اور چند پیسوں کے لیے ملک کو بد نام نہ کریں اس پر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی رائے دی
سانحہ گریٹر اقبال پارک کے کیس میں ایک نیا موڑ آگیا ہے، متاثر ہونے والی ٹک ٹاکر خاتون نے اپنے ہی ساتھی ریمبو کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیدیا ہے۔ عائشہ اکرام نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو جمع کروائے گئے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک جانے اور فینز سے ملاقات کے حوالے سے سارا پلان خود ریمبو نے تیار کیا تھا اور مجھے مجبور کرکے ساتھ لے جایا گیا تھا عائشہ اکرام نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ریمبو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری نازیبا ویڈیوز بنا رکھی تھیں جن کی بنیاد پر وہ مجھے بلیک میل کرتا تھا۔ریمبو نے بلیک میل کرکے مجھ سے 10 لاکھ روپے بھی بٹورے، میں ہر مہینے اپنی آدھی تنخواہ ریمبو کو دیتی تھی۔ عائشہ اکرام کے انکشافات کی روشنی میں ریمبو کو گرفتار کرلیا جس پر ریمبو نے انکشاف کیا کہ منظر عام پر آنیوالی ویڈیو اور تصاویر ایک سال پرانی ہیں ریمبو کا مزید کہنا تھا کہ عائشہ نے مقدمے میں گرفتار فی ملزم سے 5 لاکھ لینے کا کہا تھا، ‏عائشہ نے بلیک میل کیا اگر بات نہ مانی تو جیل بھجوا دوں گی، راتوں رات مجھ پر ایف آئی آر کرائی گئی۔ اس انکشاف کے بعد اقرار الحسن تنقید کی زد میں آگئے۔ اقرارالحسن اور یاسر شامی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی عائشہ اکرام کے معاملہ کو ہوا دی تھی ۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اقرارالحسن نے ہی اس واقعہ کو لیکر ملک کو بدنام کیا اور تمام مردوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ جس پر اقرارالحسن کی وضاحتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں اور ریمبو سے اظہارلاتعلقی اختیار کیا۔ اقرارالحسن نے پہلی بار ریمبو کو ٹیم سرعام کا حصہ ماننے سے بھی انکار کیا۔ اقرارالحسن نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ عورت کے نام سے نفرت کرنے والے عائشہ اکرام کو بدکردار اور فاحشہ ثابت کرنے پر معافی مانگیں گے؟؟ اگر یہ سچ ہے تو عائشہ تو بلیک میلنگ کا شکار ایک لڑکی ثابت ہوئی۔ شکر ہے کہ حکومت پنجاب، پنجاب پولیس، ایف آئی اے سب اس کیس میں سنجیدہ ہیں۔ اس کیس کو ملکی تاریخ کی ایک مثال بننا چاہئیے اقرار الحسن نے ریمبو سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ریمبو کے خلاف قانونی کاروائی کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ ریمبو کبھی ٹیم سرعام کا حصہ نہیں تھا، ٹیم سرعام کی شرٹ چند سو میں بنوائی جاسکتی ہے۔ نجی چینل کے صحافی کا کہنا تھا کہ لکھا کہ باقی رہا ریمبو تو خون کےعطیات دیتے، مدد کرتے اور ملک کو سرسبز بناتےٹیم سرِعام کےسولہ لاکھ جانباز گواہ ہیں کہ یہ شخص کبھی بھی ٹیم سرِعام کی اس رضاکارانہ فورس کاحصہ نہیں تھا۔ ٹیم سرِعام کی شرٹ تو چند سو میں بنوائی جاسکتی ہے۔ ہم اس جعلسازی پراس کے خلاف قانونی کارروائی کر رہے ہیں ۔ اقرار الحسن نے مزید کہا کہ عائشہ اکرام مینارِ پاکستان خود گئی یا اسے کوئی وہاں لے کر گیا۔ وہ پرہیز گار تھی یا خدانخواستہ طوائف۔۔۔۔ اُس کے کپڑے پھاڑنے کا حق کسی کو نہیں تھا۔ صرف اس ایک بات پر ہم سب کو اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے تھا۔ ہمیں ہر اُس عورت کا ساتھ دینا ہے جس کے ساتھ بدتہذیبی کی جائے۔ ختم شُد
سرفراز احمد کی قومی اسکواڈ میں واپسی ہوگئی ہے،پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے لیے قومی اسکواڈ میں تبدیلیاں کیں،حیدر علی، فخر زمان اور سرفراز احمد کو پندرہ رکنی اسکواڈ میں شامل کیا گیا،سابق کپتان سر فراز احمد کو بھی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے، جس پر شائقین کرکٹ نے خوشی کا اظہار کیا، سوشل میڈیا پرصارفین کی جانب سے سرفراز کو مبارکباد دی جارہی ہے، جبکہ پیار بھرے دلچسپ تبصرے اور میمز بھی شیئر کی جارہی ہیں۔ صارفین کی جانب سے سرفراز احمد کی دوبارہ شمولیت پر صارفین جہاں خوش ہیں وہیں واپسی کو سرفراز احمد کی محنت کا نتیجہ اور صبر کا پھل قرار دیا جارہاہے۔ روحان نے لکھا پیر سرفراز نے اپنا کام کردکھایا۔ سعید احمد نے میم شیئر کرتے ہوئے سرفراز کی خوشی ظاہر کی۔ دیگر صارفین کی جانب سے بھی سرفراز احمد کو خراج تحسین پیش کیا جارہاہے۔ قومی اسکواڈ مین سرفراز کی شمولیت کااعلان اس وقت ہوا جب لاہور میں نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں سینٹرل پنجاب اور ناردرن کے درمیان میچ جاری تھا،سرفراز احمد کی ٹیم سندھ اور سدرن پنجاب کا میچ اس کے بعد ہونا تھا اور سرفراز ڈگ آؤٹ میں موجود تھے،اس دوران قومی اسکواڈ کا اعلان ہوا اور اس میں سرفراز کی واپسی ہوئی،ڈگ آؤٹ میں موجود سندھ کے کھلاڑی سرفراز کو مبارک باد دینے ان کے پاس گئے،سرفراز بھی خوشی سے نہال ہوگئے،2019میں ہونے والے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد سرفراز احمد کو قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹادیا گیا تھا،ٹیم سے ڈراپ بھی کیا گیا تھا، 6 ستمبر کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلئے اعلان میں بھی اسکواڈ میں سرفراز کا نام نہیں تھا۔ دوسری جانب صہیب مقصود انجری کے باعث ٹی ٹؤئنٹی ورلڈکپ سے باہر ہوگئے ہیں،صہیب نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوران کمر کی تکلیف کا شکار ہوئے تھے،پی سی بی کے میڈیکل پینل نے انجری کا جائزہ لیا جس کے بعد صہیب مقصود کو آرام کا مشورہ دے دیا گیا۔صہیب مقصود کی انجری کے باعث شعیب ملک کی بھی لمبے عرصے بعد قومی سکواڈ میں انٹری ہو گئی ہے۔ سترہ اکتوبرسے شروع ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلیے پاکستان کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں،قومی اسکواڈ کو کل سے ٹریننگ کی اجازت مل گئی، ہوٹل پہنچنے پر کی گئی کورونا ٹیسٹنگ میں تمام افراد کی رپورٹ منفی آئی، کھلاڑی کل نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں ٹریننگ کریں گے،میگا ایونٹ میں شرکت کیلیے پاکستان ٹیم پندرہ اکتوبر کو یواے ای جائے گی۔۔ پہلا میچ چوبیس اکتوبر کو روایتی حریف بھارت سے ہوگا۔
ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیاگیا جبکہ ان کی جگہ پر کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو تعینات کیا گیا، نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہے ،جہاں کچھ لوگ اس تعیناتی پر سوال اٹھا رہے ہیں تو کچھ ایسے اشارے دے رہے ہیں جیسے سب معمول کے مطابق نہیں۔ اس پر سب سے پہلے غریدہ فاروقی نے سوال اٹھایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہے؟ کس نے تاخیر کرنے کا مشورہ دیا ہے؟ کیا وزیراعظم مناسب تاریخ کا انتظار کررہے ہیں؟ اسکے بعد طلعت حسین، عمرچیمہ، اعزازسید اور دیگر نے بھی ٹویٹس کئے جنہوں نے دبے الفاظ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ وزیراعظم عمران خان جنرل آصف غفور کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانا چاہتے تھے۔ طلعت حسین نے ٹویٹ کیا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم کی تقرری اور دیگر تقرر وتبادلے جن کا آئی ایس پی آر نے اعلان کیا ، کیا شرمناک گڑبڑہوئی، یہ نازک وقت میں نازک فیصلے ہیں،ایسا سلوک نہیں کیا جاسکتا جیسا فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان کے ساتھ کیاگیا‘۔ عمر چیمہ نے تبصرہ کیا کہ پہاڑی پر موجود درویش کا اصرار ہے کہ ٹویٹر والا مجاہد حساس ذمہ داریوں کیلئے بہتر ہے جبکہ مرد مجاہد کی نگاہ نے کسی اور کو چن لیا، جس کے سبب ابھی تک کی صورتحال اصرار اور انکار کے درمیان لٹکی ہوئی ہے ان سوشل میدیا پر چلنےو الی افواہوں پر عدیل وڑائچ نے ردعمل دیا کہ جو لوگ کسی ایڈونچر یا بڑی خبر کا انتظار کر رہے ہیں انہیں مایوسی ہو گی، یوں تو صورتحال واضح ہے مگر تسلی کیلئے کچھ وقت میں مزید واضح ہو جائیگی عدیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ تین سال تک کئی دانشور کہتے رہے کہ عمران خان کو فوج چلا رہی ہے آج وہی کہہ رہے ہیں کہ فوج اور عمران خان ایک پیج پر نہیں ، حالانکہ ان میں سے بہت سے دانشور جانتے ہیں کہ فوج ایک منظم سسٹم کا نام ہے، اب دکانداری چلانے کیلئے کچھ تو مارکیٹ میں بیچنا ہے مگر یہ زیادہ نہیں بکنے لگا اسکے بعد صدیق جان نے تبصرہ کیا کہ ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے صدیق جان نے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر آرمی چیف اور عمران خان میں اختلاف کی خبر کہاں سے آئی؟؟ کیسے یہ سب سے بڑی بحث بنی؟؟ ایک گھنٹے میں تفصیلات شیئر کرتا ہوں. ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کی بات پر قائم ہوں، ٹویٹ ڈیلیٹ نہ ہوئے تو جرمانہ دینے کو تیار ہوں... صدیق جان کا کہنا تھا کہ غیر حتمی نہیں حتمی نتیجہ سامنے آگیا پہلا ٹویٹ ڈیلیٹ.... آغاز ہوگیا کس نے اور کونسا ٹویٹ ڈیلیٹ کیا ؟؟؟ بتانے والے کو پنڈی کے کوئٹہ شاندار ہوٹل کی بہترین چائے پلائی جائے گی اطہر کاظمی کا کہنا تھا تین برسوں سے آئے روز حکومت کے فوج سے اختلافات،جانے کی تاریخ ،قومی حکومت، بزدار کی تبدیلی وغیرہ جیسی خبریں دے کر تین برسوں سے عزت افزائی کروانے والے صحافی دوست کوئی موقع جانے نہیں دیتے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقریری ہو اور یہ اپنی عزت میں مزید اضافہ نہ کروائیں۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں اسٹریٹ کرمنلز نے سبزی فروش بھی نہ چھوڑا اور لوٹ کر فرار ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی میں ڈاکوؤں نے سبزی فروش کو لوٹ لیا جس کی فوٹیج منظر عام پر آگئی ہے ، فوٹیج میں ملزمان کے چہرے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سبزی فروش ایک گلی میں کھڑا سبزی بیچنے کی کوشش کررہا ہے،ا سی اثناء میں دو نوجوان سبزی فروش سے کچھ دور رک جاتے ہیں جن میں سے ایک نوجوان پیدل جبکہ دوسرا موٹرسائیکل پر سبزی فروش کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ بعدازاں پیدل نوجوان سبزی فروش کو پستول دکھاکر اسکی جیبوں کی تلاشی لیکر سے پیسے نکال لیتا ہے جس پر سبزی فروش کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرتا۔ ملزمان کو جاتے جاتے سبزی فروش سے سبزی بھی لوٹ کر فرار ہوتے دیکھاجاسکتا ہے۔ پولیس کے مطابق سبزی فروش کو لوٹنے کا واقعہ گزشتہ روز پیش آیا جس کی تفتیش جاری ہے۔ واضح رہے کہ 2021 کے آٹھ ماہ کے دوران کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے 50 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ وارداتیں موٹرسائیکل چھیننے، اسکے بعد موبائل فونز اور گاڑیاں چھیننے کی ہیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران شہریوں سے 34 ہزار 181 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں ،شہریوں کو 14 ہزار 578 موبائل فون اور ایک ہزار 268 گاڑیاں چھینی گئی ہیں۔ ان وارداتوں میں 54 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 458 افراد زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں ایک خاتون ریسٹورنٹ عملے سے جھگڑ رہی ہے۔ جھگڑے کی وجہ ریسٹورنٹ عملے کا خاتون سے کرونا ویکسین سرٹیفکیٹ طلب کرنا تھا جو این سی او سی کی پالیسی کے مطابق ریسٹورنٹ سٹاف کو دکھانا ہوتا ہے ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذکورہ خاتون ریسٹورنٹ عملے سے بدتمیزی کرتی ہے،انگلش میں کھری کھری سناتی ہے اور الٹا ان پر الزام لگاتی ہے۔ کراچی کے ایک ریسٹورنٹ میں ماسک پہننے کی تلقین کرنےاور کورونا ویکسین سرٹیفکیٹ طلب کرنے والے ریسٹورنٹ عملے سے بدتمیزی کرنے والی 'دیسی کیرن' کو مشہور کامیڈین و سنگر علی گل پیر نے کرار جواب دیدیا۔ علی گل پیر نے اپنی ایک تازہ ترین پیروڈی ویڈیو ٹویٹر پر پوسٹ کی جس میں وہ 'دیسی کیرن' اور ریسٹورنٹ ملازم کے روپ میں نظر آرہے ہیں، انہوں نے وائرل ویڈیو کی آڈیو کے ساتھ اپنی ویڈیو شوٹ کرکے واقعے کی بہترین منظر کشی کی اور اصل حقیقت بیان کی۔ انہوں نے اس ویڈیو کو پوسٹ کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ جب ایک دیسی کیرن نیا لفظ 'وائلیشن' سیکھتی ہے تو وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ریسٹورنٹ میں بغیر ویکسین سرٹیفکیٹ دکھائے کھانا کھانے پہنچ جاتی ہیں۔ علی گل پیر نے عوام سے اپیل کی کہ ریسٹورنٹ سٹاف کےساتھ احترام سے پیش آئیں، ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھانے ضرور جائیں مگر پہلے ویکسین لگوائیں۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر کراچی کے ایک ریسٹورنٹ کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خاتون ریسٹورنٹ عملے کی جانب سے ماسک پہننے اور ویکسین سرٹیفکیٹ دکھانے کا اصرار کرنے پر عملے سے الجھتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس خاتون کو'دیسی کیرن' کا نام دیا جارہا ہے جو خود ریسٹورنٹ عملے کو ماسک پہننے پر 'ایڈیٹ' یعنی بے وقوف قرار دیتے ہوئے ویکسین سرٹیفکیٹ طلب کرنے کو اپنی میڈیکل پرائیوسی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عملے کی ویڈیو بنارہی ہیں اوراسٹاف کی بے عزتی کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر دیسی کیرن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ ریسٹورنٹ کے عملے کو اپنی ڈیوٹی نبھانے پر خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز پاک فوج میں اہم تبدیلیاں ہوئیں ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر ذمہ داری نبھانے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کردیا گیا۔ اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے ہوئے، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نجی چینل کی اینکر غریدہ فاروقی اس خبر پرزبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اور مشکل اردو میں ایک ٹویٹ داغ دی ۔ اس ٹویٹ میں غریدہ فاروقی نے ایسی مشکل اردو لکھی کہ پڑھنے والے حیران رہ گئے اور یہ تبصرہ کرنے لگے کہ کیا غریدہ فاروقی کا یہ لیول ہے کہ اتنی مشکل اردو لکھ سکے؟ اپنے ٹویٹر پیغام میں غریدہ فاروقی نے لکھا کہ لیفٹنٹ جنرل ندیم احمدانجم؛ میدانِ حرب کے جری مردِ مجاھد؛ طبعاً کم گو مگر پیشہ ورانہ قابلیت میں صفِ اوّل؛ چہرے سے نرم خُو دِکھنے والے جرنیل سخت گیر اُصولوں کے حامی؛ نرم بریشم مگر رزمِ حق و باطل میں فولاد؛ روایتی غیرروایتی اندرونی بیرونی خطرے سے نمٹنے کی بَلا کی صلاحیت۔۔ اس ٹویٹ پر مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے حیرت کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا غریدہ فاروقی اتنی مشکل اردو لکھ سکتی ہیں تو غریدہ فاروقی نے جواب دیا کہ یقین مانئیے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اردو زبان کی ایک معمولی سی خبریہ ٹویٹ لوگوں میں وسیع پیمانے کی جلن اور حسد کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ خوش رہا کیجئیے؛ اَفاقہ ہو گا؛ اور سوشل میڈیا سے دور رہ کر اَدَب کا مطالعہ کیا کریں؛ زبان کی دُرُستی و بہتری ہو گی اور اَخلاق کی اصلاح بھی غریدہ فاروقی کے اس ٹویٹ پر معروف صحافی بشیر چوہدری اور دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھانڈا پھوڑ دیا۔انہوں نے میجر ریٹائرڈ عدیل راجہ کی ٹویٹ شئیر کی جنہوں نے نشاندہی کی کہ یہ تعریفی تحریر دراصل میجر ریٹائرڈ حسن معراج کی تھی۔ جسے غریدہ فاروقی کاپی پیسٹ کرکے کریڈٹ لیتی رہیں۔ میجر ریٹائرڈ عدیل راجہ نے تبصرہ کیا کہ نقل کیلئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئ بتائے غریدہ کو۔۔۔۔۔ یہ تحریر تو میجر(ر)محمد حسن معراج کی ہے جسے غریدہ فاروقی نے چوری کر کے چاپلوسی کرنی چاہی۔۔۔۔۔ بشیر چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں غریدہ فاروقی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ریسرچر تیرا بیڑا غرق ۔۔۔ تو نے پھر ایک اور کو دھوکا دے دیا۔۔ ریسرچر دھوکے باز نکلا۔۔اسی کیساتھ غریدہ فاروقی کی اردو فہمی کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اور ان کی چاپلوسی بھی واضح عیاں ہو گئی۔
گزشتہ روز غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں وہ مریم نواز کے سرخ لباس پر تبصرہ کررہی تھیں اور سرخ رنگ کو مزاحمت، جرات، جارحیت، جنگ وجدل ، فتح شکست کی علامت قرار دے رہی تھیں جسے سوشل میڈیا صارفین نے مریم نواز کی چاپلوسی اور چمچہ گیری قرار دیا۔ غریدہ فاروقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سُرخ رنگ علامت ہے مزاحمت کی،جُرات کی، جارحیت کی،جنگ و جدل کی،میدان میں فتح و شکست کے تناسب کی؛تاریخی اعتبار سے سُرخ رنگ ہمیشہ اقتدارکےاوتار و اظہارواسطےاستعمال ہوا ہے؛اور سب سے بڑھ کر سُرخ علامت ہے تبدیلی کی۔ غریدہ فاروقی نے مزید لکھا کہ مریم نواز کاآج کے اہم دن سرخ رنگ کا استعمال محض اتفاقیہ ہے یا علامیہ۔۔؟ سوشل میڈیا صارفین نے غریدہ فاروقی کے اس ٹویٹ کا خوب مذاق اڑایا ور کہا کہ غریدہ فاروقی نے تو صالح ظافر کو بھی مات دیدی ہے۔ کچھ نے اسے مریم نواز کی چاپلوسی اور خوشامد قرا ردیا تو کچھ نے کہا کہ صحافت ایسے ہی تباہ نہیں ہوئی، اس قسم کے صحافی ملے ہیں۔ سینیر صحافی عامر متین نے تبصرہ کیا کہ رنگوں کی تشریح فضول ہے۔ لال رنگ عروسیت کا ہے کمیونسٹ انقلاب کا یا کربلا کا۔ مگر اگلی دفعہ مریم بی بی نے ذعفرانی رنگ پہنا تو کیا وہ ہندوتوا کہلائے گا۔ پیلا مہندی کا اور نیلا آسمانی رنگ خلائی مخلوق کا۔ چھوڑیں رنگ بازی کو -یہ کام حناپرویز بٹ کیلئے رہنے دیں۔ ثناء کا کہنا تھا کہ اسی لئے ہمارے صحافیوں کو انٹرنیشنل لیول پر کسی ڈیبیٹ یا انٹلیکچوئل فورم پر کوئی نہیں بلاتا ملاحظہ فرمائیں دانشور و سینئرصحافی غریدہ فاروقی کا تجزیہ فرماتی ہیں"چونکہ مریم صفدر نے سرخ پہنا ھے اسکا مطلب ھے انقلاب آ گیا۔۔ حکومت کی سرخ رنگ دیکھ کر ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی ھیں"۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ٹویٹ پڑھ کر لگا کہ حنا بٹ نے کی ہوگی مگر اکاؤنٹ کا نام دیکھا تو غریدہ فاروقی نے کی ہے۔ پھر خیال آیا ۔۔کوئی زیادہ فرق بھی نہیں حنا بٹ اور غریدہ میں ۔ دونوں نے مالکن کی جی حضوری کرنا ہوتی ہے۔ عباس نے طنز کیا کہ غریدہ باجی کا ٹویٹ دیکھ کر صالح ظافر پر غشی کے دورے.. شاہد ندیم نامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ غریدہ فاروقی اور حنا پرویز بٹ میں کیا فرق رہ گیا اب؟ سیرت فاطمہ نے لکھا کہ صحافت کا جنازہ ہے۔۔۔ذرہ دھوم سے نکلے۔۔۔ ڈاکٹر بابراعوان کے صاحبزادے عبداللہ بابر اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ کس قسم کی صحافت ہے؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے وزیراعظم عمران خان کی تصویر شئیر کی جس میں وہ سرخ لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی غریدہ فاروقی پر طنز کے خوب تیر برسائے اور کہا کہ پہلے ایک صالح ظافر نہیں سنبھالا جاتا تھا اور اب چھوٹے چھوٹے صالح ظافر پیدا ہوگئے ہیں۔ غریدہ فاروقی اپنے ایک اور ٹویٹ کی وجہ سے طنز کا نشانہ بنیں جس میں انہوں نےنئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم کی تعریف کی لیکن مشکل اردو استعمال کی۔ غریدہ فاروقی نے لکھا کہ نئے ڈی جی آئی اسی آئی لیفٹنٹ جنرل ندیم احمدانجم؛ میدانِ حرب کے جری مردِ مجاھد؛ طبعاً کم گو مگر پیشہ ورانہ قابلیت میں صفِ اوّل؛ چہرے سے نرم خُو دِکھنے والے جرنیل سخت گیر اُصولوں کے حامی؛ نرم بریشم مگر رزمِ حق و باطل میں فولاد؛ روایتی غیرروایتی اندرونی بیرونی خطرے سے نمٹنے کی بَلا کی صلاحیت۔ اس ٹویٹ پر بھی غریدہ فاروقی خوب طنز کا نشانہ بنیں جس پر غریدہ فاروقی نے اگلے روز ایک ٹویٹ کیا جس میں وہ انہوں نے لوگوں کو سوشل میڈیا سے دور رہ کر اردو ادب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ غریدہ لکھتی ہیں کہ یقین مانئیے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اردو زبان کی ایک معمولی سی خبریہ ٹویٹ لوگوں میں وسیع پیمانے کی جلن اور حسد کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ خوش رہا کیجئیے؛ اَفاقہ ہو گا؛ اور سوشل میڈیا سے دور رہ کر اَدَب کا مطالعہ کیا کریں؛ زبان کی دُرُستی و بہتری ہو گی اور اَخلاق کی اصلاح بھی
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی تعریف میں پاکستانی صحافیوں نے زمین آسمان ایک کردیئے ہیں، یہ تعریف اس وقت سامنے آئی جب سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو بطور کور کمانڈر پشاور تعینات کرنے کے احکامات سامنے آئے ہیں۔ تفصیلا ت کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہوئیں۔ جہاں انہوں نے حسب روایت گزشتہ روز کی طرح لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو شدید کا تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جنرل فیض حمید نے نہ صرف اپنے حلف کی خلاف ورزی کی بلکہ پاک فوج کی بحیثیت ادارہ بدنامی کا سبب بھی بنے۔ مریم نواز نے پیشی کے موقع پر سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ جس پر مشہور اینکر اور صحافی غریدہ فاروقی نے کہا کہ سُرخ رنگ علامت ہے مزاحمت کی،جُرات کی، جارحیت کی،جنگ و جدل کی،میدان میں فتح و شکست کے تناسب کی؛تاریخی اعتبار سے سُرخ رنگ ہمیشہ اقتدارکےاوتار و اظہارواسطےاستعمال ہوا ہے؛اور سب سے بڑھ کر سُرخ علامت ہے تبدیلی کی۔غریدہ فاروقی نے مریم نواز کے سرخ لباس کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کاآج کے اہم دن سرخ رنگ کا استعمال محض اتفاقیہ ہے یا اعلامیہ۔۔؟ جنرل فیض حمید کا بطور سربراہ آئی ایس آئی ٹرانسفر کور کمانڈر پشاور ہونے کے بعد پاکستانی صحافیوں نے اسے مریم نواز کی جانب سے دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مریم نواز کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیے۔ مشہور اینکر پرسن ثنا ء بچہ نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ مریم نواز شریف کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کو پشاور منتقل کرنے کا فیصلہ، کیا ٹائمنگ ہے۔ اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ مریم نواز نے آج براہ راست جنرل فیض حمید کو نشانہ بنایا ، ججز کے نام لیے اور کہا کہ آرمی اس کھیل کا حصہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ پاک فوج میں آج اہم تقرریاں و تبادلے کیے گئے ہیں جس میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور کور کمانڈر پشاور تعینات کرکے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا گیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی 3 سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انکا ٹرانسفر کورکمانڈر پشاور کے طور پر کردیا گیا ہے جبکہ انکی جگہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کریں گے۔ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے بعد ن لیگی کارکنوں اور حامی صحافیوں نے یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ جنرل فیض حمید کو مریم نواز کے الزامات کی وجہ سے عہدے سے ہٹاکر کورکمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے۔ ان میں ثناء بچہ بھی پیش پیش تھیں مریم نواز نے جنرل فیض حمید پر الزام لگایا تھا کہ ان کی سزا کے پیچھے انکا ہاتھ ہے، انہوں نے ججوں پر دباؤ ڈالا تھا کہ مریم نواز اور نوازشریف کو 2 سال تک باہر نہ آنے دیا جائے۔ جنرل فیض حمید کے تبادلے پر ثناء بچہ نے تبصرہ کیا کہ غیر متوقع ٹائمنگ: مریم نواز کی گرج چمک والی پریس کانفرنس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا پشاور کور میں تبادلہ کردیا گیا ثناء بچہ کی اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے ثناء بچہ کا خوب مذاق اڑایا اور خالی دماغ سے عاری خاتون قرار دیدیا، کسی نے کہا کہ عقل نہ ہو تو موجاں ای موجاں۔۔ کسی نے ثناء بچہ کی صحافتی اہلیت پر سوال اٹھائے، کسی نے اسے مریم نواز کی چاپلوسی قرار دیا تو کسی نے سوچ سمجھ کر ٹویٹ کرنے کا مشورہ دیا طارق متین کے ثناء بچہ کو دئیے گئے دلچسپ جواب پر صحافی خاورگھمن نے جگہ چھوڑ کرلکھا کہ ".........نہ ہوئے تے موجاں ہی موجاں" حسان خان کا کہنا تھا کہ کل کو اس پریس کانفرنس کے نتیجے میں بننے والا کور کمانڈر آرمی چیف بن گیا تو مٹھائیاں اگلنی پڑیں گی ماہ نور کا کہنا تھا کہ گیارہ جماعتیں مل کر عمران خان کی حکومت نہیں گرا سکی لیکن مریم نواز کی پریس کانفرنس نے ڈی جی آئی ایس آئی کا ٹرانسفر کروا دیا۔ بلڈی سویلین کا کہنا تھا کہ یہ خاتون کیا کبھی صحافی، رپوٹر یا اینکر رہ چُکی ہے؟، انکا کہنے کا مطلب ہے یہاں مریم کی پریس کانفرنس ہوئی وھاں “جنرل فیض” کہ حوالے سے ایمرجنسی میٹنگ ہوئی،انکو کور کمانڈر پشاور لگا دیا، مطلب حد ہوتی ہے بچپنے کی بھی انہوں نے فوج کو بھی اپنی سیاسی لیڈر “مجرم نواز” کی پارٹی سمجھا ہے انیس کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی ساری کوششیں ناکام جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشاور بنا دئے گئے اگلے آرمی چیف بننے کا رستہ کھل گیا روک سکو تو روک لو سفینہ خان کا کہنا تھا کہ یار یہ کون لوگ ہیں ؟ جرنل فیض حمید اپنی آئی ایس آئی کی تین سال کی مدت پوری کر لی ہے بجائے اس کے رئٹائرڈ ہوتے وہ کور کمانڈر پشاور تعینات ہو گئے ہیں یہ ناکامی نہی کامیابی ہوتی ہے باجی اب یہ آگے پروموٹ ہو کر آرمی چیف بننے کی ریس میں بھی شامل ہو گئے ہیں دیگر سوشل میڈیا صارفین اور صھافیوں نے بھی ثناء بچہ کا خوب مذاق اڑایا
مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی حنا پرویز بٹ اکثر و بیشتر پارٹی کی نائب صدر مریم نواز شریف کی ایسی تصاویر شیئر کرتی ہیں جسے وہ کوئی سیاسی قائد نہیں ، ماڈل ہوں۔ کچھ روز قبل مسلم لیگ ن کی رہنما حنا پرویز بٹ نے مریم نواز شریف کی تصاویر شیئر کہا " سٹائل کوئین، مریم نواز شریف"۔ جس پر سینئر صحافی عامر متین نے حنا پرویز بٹ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آپ کی مستقبل کی وزیراعظم کو سیاسی ذہانت کے ساتھ پروموٹ کیا جانا چاہیے ناکہ ان کے بان کے برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں کےساتھ۔ عامر متین نے مزید کہا کہ یہ شہزادی کا برانڈ مریم کے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کے ساتھ نہیں جچتا۔ حنا پرویز بٹ جو ہمیشہ مریم نواز کی تصاویر شئیر کرکے گلیمرائز کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کئی دن بعد اس بار بھی مریم نواز کی تصویر شئیر کی لیکن اس بار مریم نواز کو سٹائل کوئین قرار دیتے ہوئے عامر متین کو بھی ٹیگ کیا۔ اس پر عامر متین نے ایک بار پھر حنا پرویز بٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ لگی رہیں مادام- اگر آپ کی لیڈر مریم نوازf اسی میں خوش ہیں۔ ہمارا کام تھا مشورہ دینا۔ باقی آپ کی مرضی۔ عامر متین نے مزید کہا کہ اگر مریم بی بی واقعی سمجھتی ہیں کہ ان کے مہنگے Versace پرس Cinderella slipper اور برانڈڈ گھڑیاں دکھانے سے وہ وزیر اعظم بنیں گیں تو میں کون ہوتا ہوں۔ عامرمتین کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ آپ نے مجھے خاص طور پر ٹیگ کیا ہے میں اس سے یہ اخذ کر رہا ہوں کہ آپ نے اپنی “سٹائل کوئین سے اجازت لی ہو گی اور آپ یہ فیش شو ان کی فرمائش پر ہی کر رہی ہیں۔ امید ہے وہ آپکو شائد اپنی آفیشل فیشن ڈیزائنر بھی بنا دیں-آخر لمز ڈگری کا کیا فائدہ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ روزی روٹی سے فارغ ہونے کے بعد بحث جاری رہے گی۔ اس دوران کوئی نئی تصویر لگا دیں تو مہربانی ہو گی۔ شائد کچھ مذید ووٹ بڑھ جائیں-کیونکہ لگتا ہے آپ اس طرح ووٹ جیتنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ ان میں اچھا خاصہ ٹیلنٹ نظر آتا ہے کئی گھنٹوں وقفے کے بعد عامر متین دوبارہ سامنے آئے اور لکھا کہ میں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا ہے۔ اس کو فوٹوشاپ یا ٹریٹ کیا گیا ہے۔ اس میں دو ہمارے جیسے کالے پیلے نوکر ٹائپ بھی ہیں۔ مگر ان کو دھندلا کر دیا گیا ہے۔ اب میں سوچ رہا ہو ں کیوں؟کئی سوال ذہن میں آُ رہے ہیں۔ آخر کیوں؟!!! مریم نواز کے پیچھے کھڑے لوگوں پر عامر متین نے تبصرہ کرتے ہوئے طنز کیا کہ شائد یہ بچارے نوکر ٹائپ ہیں؛ کالے پیلے نیلے؛ شہزادی کے تخیل کے ساتھ نہیں جا رہے۔ شہزادی سے فوکس ہٹ کر ان پر نہ آ جائے- وہ بیچارے تصویر خراب کر رہے ہیں- شائد لوگ شہزادی کی بجائے ان کے طرف نہ دیکھ لیں۔ لمز میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ عامر متین نے مزید طنز کیا کہ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ “شہزادی، سٹائل کوئین” تو جلسوں میں ہر وقت ان کے لیے فکرمند نظر آتی ہے۔ ان ہی کی بات کرتی ہے۔ اور کہتی ہیں کہ مسلۂ نواز شریف کا نہیں۔ اس نے تو ان کے لیے قربانی دے کر لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی جیل کو ترجیح دی۔ تو پھر یہ لوگ کیوں نہی دکھلائے جا سکتے۔ ان کو دھندلا کیوں کرنا پڑتا ہے- سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ہماری “سٹائل کوئین ” کوئی برطانیہ کی ملکہ تھوڑی ہے۔وہ تو والد کی طرح دن رات غریبوں کے لیے دن رات فکرمند رہتی ہے،سو نہیں پاتی- حالانکہ ملکہ برطانیہ کو بھی عوام کے ساتھ گھلنا ملنا دکھلانا پڑتا ہے عامرمتین نے کہا کہ میری رؤف کلاسرا کے ساتھ لڑائ ہوئی ، شاید پہلی دفعہ ۔ وہ مجھے یہ سمجھا رہا تھا کہ ہمارے جیسے ملکوں میں لوگ اپنے حکمرانوں کو بادشاہ یا شہزادی دیکھ کر مرعوب ہوتے ہیں اور حنابٹ صاحبہ لوگوں کی نبض کو صحیح سمجھ رہیں ہیں۔میرا بھائی رؤف کلاسرا شائد اس پر کالم بھی لکھے- شاید میں نے 35 سال صحافت میں جھک ماری ہے یا حنا پرویز بٹ مجھ سے زیادہ عوامی نبض کو جانتی ہیں۔ بنیادی مسلۂ یہ ہے کہ یا تو آپ عوامی لیڈر بنیں اور ان میں گھلتی ملتی نظر آئیں یا “شہزادی” بنیں۔ یہ روزانہ کی فیشن پریڈ اور عوام کے درد کا رونا کیسے چلے گا۔ عامرمتین نے مشورہ دیا کہ ہو سکے تو چچا شہباز شریف سے وہ ربڑ کے جوتے ادھار مانگ لیں جو وہ ہر سیلاب میں نکال کر پہنتے تھے۔ ہمیں اسکی حقیقت معلوم تھی مگر یقین کریں اس کی وجہ سے وہ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ عامرمتین نے مریم نواز سے اپیل کی کہ حنا پرویز بٹ کو فیشن زدہ نمائش جاری رکھنے کی تلقین کرتی رہیں مگر ان کالے پیلے نیلے لوگوں کو دھندلا نہ کریں کیونکہ کل کو ووٹ ان ہی نے دینے ہیں۔ سینئر صحافی نے طنز کیا کہ مجھے حنا پرویز بٹ کے جواب کا انتظار رہے گا۔اک اور فوٹو-کیا ہے کہ راتیں لمبی ہیں اور مجھے جاگنے کی عادت ہے۔
مسلم لیگ نون کی رہنما، سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے دائر کی گئی درخواست میں سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے انکشافات کی روشنی میں بریت کی استدعا کر دی۔ پاکستانی میڈیا نے اگرچہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا نام نہیں لیا تھا لیکن مریم نواز سابق جج جسٹس شوکت عزیز کی جس تقریر پر انحصار کررہی تھیں اس میں سب سے زیادہ جنرل فیض حمید کا تذکرہ تھا اور شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض حمید پر الزامات لگائے تھے۔ اسی کو جواز بناکر مریم نواز نے ڈی جی آئی ایس آئی اور فوج پر خوب حملے کئے اور جسٹس شوکت عزیز کا بیان اپنے دفاع میں استعمال کیا۔ میڈیا پر چلنے والے ٹکرز پر مریم نواز نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی میری درخواست کے بنیادی موضوع کو اجاگر نہیں کیا ہے جس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ میری درخواست کا خلاصہ یہ ہے کہ میرے خلاف مقدمہ/فیصلہ پہلے سے پلانڈ ، ترتیب دیا گیا تھا اور اس مقدمے پر آج کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا اثرورسوخ تھا۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ جیسا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی کہا تھا اور انکشا ف کیا تھا کہ کیسے قانون ، انصاف اور منصفانہ عمل کے اصولوں کی صرف خلاف ورزی کی گئی ۔ یہ مضحکہ خیز کیس ایک کلاسک مثال ہے کہ کیسے پاکستان میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح بطور جنرل فیض حمید نہ صرف اپنے حلف کے تقدس کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ایسا کرتے ہوئے مسلح افواج کے قابل احترام ادارے کو بھی بدنام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ذاتی عزائم کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
پینڈورا لیکس آنے سے پہلے چند صحافیوں اور اینکرز نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی اور مختلف قسم کے ٹویٹس کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وزیراعظم عمران خان کا نام پینڈورا لیکس میں آرہا ہے۔ ان صحافیوں میں غریدہ فاروقی، ابصارعالم، عمارمسعود، ثناء بچہ، رضوان رضی، وسیم عباسی، عاصمہ شیرازی شامل ہیں لیکن 3 اکتوبر رات 930 بجے پینڈورا لیکس سامنے آئیں تو کئی حکومت صحافیوں کی خوشیوں پر پانی پھر گیا کیونکہ پینڈورا پیپرز میں وزیراعظم عمران خان کا نام شامل نہیں تھا۔ جس کے بعد اپوزیشن اور عمران خان مخالف صحافیوں نے یہ کہا کہ چلیں عمران خان کا نام تو پینڈورا پیپرز میں شامل نہیں لیکن اسکے وزیروں کا نام توشامل ہے، کچھ نے کہا کہ یہ عمران خان کی اے ٹی ایمز ہیں، عمران خان کے کچن کا خرچہ اٹھاتی رہیں، کچھ نے لکھا کہ اگر عمران خان کے وزیر کرپٹ ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ عمران خان خود بھی کرپٹ ہے۔ یہ امربھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پینڈورا پیپرز آنے کے بعد کچھ عمران خان مخالف صحافیوں نے اسے مایوس کن اور پھسپھسا قرار دیا اور کچھ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔ پینڈورا پیپرز سامنے آنے سے سے قبل ابصارعالم نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی سطح پر پانامہ طرز کا ایک دھماکہ خیز سکینڈل جلد سامنے آ رہا ہے جس کے جھٹکے پاکستان میں زلزلہ پروف عمارات میں بھی شدت سے محسوس کیے جائیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ کہ مُنصف، مُحترم ،میڈیا اور محتسب کا اس پر ردعمل پانامہ جیسا ہوگا یا کہ مختلف !! ابصار عالم نے ایک اور ٹویٹ کیا جسے مریم نواز نے بھی ری ٹویٹ کیا، اس ٹویٹ میں ابصار عالم نے لکھا کہ “چور کی داڑھی میں تنکا” بولا جاتا ہے جب چور کو شک ہوکہ اسُ پر شک کیا جا رہا ہے، یہ مُحاورہ یاد آیا جب ایک TV چینل پر عمران خان کی صفائی پیش کی گئی ایسی خبر پر جو ابھی آئی ہی نہیں یعنی زمان پارک والی آفشور کمپنیاں خان کی نہیں ۔ ابصار عالم نے مزید لکھا کہ جنہیں نہیں پتہ تھااُنہیں بھی پتہ چل گیاکہ دال کالی ہے پیندورا لیکس آنے سے ایک روز قبل کئے گئے ٹویٹ میں غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیا تھا کہ 3 اپریل ، اتوار کا دن حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے جب پانامہ پیپرز ریلیز ہوئے تھے تو نوازشریف کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ اب 3 اکتوبر ، اتوار کا دن،حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ ثناء بچہ نے وزیراعظم عمران خان کی ایک ویڈیو شئی رکرتے ہوئے کہا کہ وقت کم رہ گیا ہے۔۔۔۔ سچ بتائیں ، آپ گھبرا تو نہیں رہے نا؟ شاہد خاقان عباسی سے منسوب ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ٹویٹ کیا کہ یا پرودگار عوام کو ہنسانے والے کو تو نے واپس بلا لیا۔ اب عوام کو رلانے والے کو بھی بلا لے۔(آمین) اس ٹویٹ کو قوٹ کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے لکھا کہ اے اللہ اپوزیشن قائدین کی دعاؤں کو قبول فرما، آمین ! وسیم عباسی نے ٹویٹ کیا کہ بھی تو پینڈورا پیپرز سامنے نہیں آئے مگر وضاحتیں شروع ہو گئی ہیں۔۔ “گبھرانا نہیں ہے” ۔موقف کے لیے صحافی فون تو کرتے ہیں ۔ وجیہہ ثانی نے اے آروائی کے ٹکرز شئیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ عاصمہ شیرازی نے پینڈورا پیپرز منظرعام پر آنے سے قبل کہا تھا کہ کچھ بڑا آنیوالا ہے۔ وجیہہ ثانی کے ایک اور ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ابھی تو پینڈورا پیپرز آئے ہی نہیں ؟ ن لیگی رہنما حنا پرویز بٹ نے لکھا کہ جس طرح خیراتی مشیر زمان پارک کا دفاع کر رہے ہیں، لگتا ہے واقعی دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔
کراچی سے تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے عامر لیاقت حسین نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا اپنے ٹویٹ میں عامر لیاقت نے کہا تھا کہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ ارسال کردیا ہے، اللہ تعالی عمران خان اور پی ٹی آئی کا حامی و نا صر ہو ۔ اللہ حافظ'۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کا استعفیٰ تاحال قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو موصول نہیں ہوا، قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق استعفیٰ کی تصدیق استعفیٰ ملنے کے بعد ہی کی جاسکتی ہے۔ اپنے ٹویٹ کے کچھ گھنٹوں بعد عامر لیاقت نے ایک اور دعویٰ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے منتخب رکن اسمبلی جنہوں نے اپنی محنت اورعمران خان کی محبت میں بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی انہوں نے بھی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے عامرلیاقت کا یہ بھی کہانت ھا کہ خیبر پختونخواہ سے قومی اسمبلی کے ایک رکن استعفی آج یا کل ارسال کردیں گے نام نہیں بتا سکتا عامر لیاقت کے بیان پر بلاول بھٹوزرداری کو شکست دینے والے تحریک انصاف کے ایم این اے شکور شاد کا بھی ردعمل سامنے آگیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ہمارا لیڈر ہے اور رہے گا اس من گھڑت بیان کی مکمل ترید کرتا ہوں شکورشاد کا مزید کہنا تھا کہ فی الحال اپنے حلقے میں وفاق سے ملنے والے فنڈز سے ترقیاتی کام کروارہے ہیں ۔ شکورشاد نے کہا کہ اس مشن میں عمران خان کو اکیلا نہیں چھوڑینگے آخری دم تک انکے ساتھ ہے کرپٹ مافیہ کے خلاف یہ جنگ لڑتے رہینگے۔
پنڈورا پیپرز پر مبنی تحقیقاتی دستاویز منظر عامر پر آئیں تو ایک خبر چلی کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر بھی 5 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ جب کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ جو کہ کسی طرح وائرل ہو گئی۔ اس خبر کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے کے بعد معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئٹ کیا کہ کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ کسی چوری وغیرہ کی تحقیقات ہو اور مریم باجی پیچھے رہ جائیں؟ کبھی بھی نہیں۔ اس ٹوئٹ پر ردعمل میں اینکر پرسن کامران شاہد نے کہا کہ درحقیقت یہ خبر جھوٹی ہے مگر وزیراعظم کے معزز معاون خصوصی ہمیں صحافتی اخلاقیات کا درس دے رہے تھے۔ دوسری جانب وہ جھوٹی خبر کی تائید بھی کررہے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ جھوٹی خبر کہاں سے نکلی تھی۔ کامران شاہد کی ٹوئٹ پر معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل خود میدان میں آ گئے اور کہا کہ میرے دوست یہاں دو باتیں کنفیوز کی جا رہی ہیں۔ پہلے نمبر پر تو فیک خبر کا سورس میں نہیں اور ایسے ہی فیک نیوز سورسز کے خلاف ایکشن کے لئے ہم دس کروڑ جرمانہ چاہتے ہیں تاکہ ایسی خبریں نہ پھیلیں اور ہمارے دوست ایسے جرمانوں کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف اظہر جاوید صاحب خود جھوٹی خبروں کا سورس ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹی خبر کا میں سورس نہیں پھر بھی میرے میں اخلاقیات ہیں کہ میں اسے جھوٹا کہہ رہا ہوں اور اظہر جاوید سالہا سال سے جھوٹی خبریں گھڑتے ہیں اور ایک بار بھی کسی خبر کو جھوٹا نہیں مانا نہ معذرت کی۔ بلکہ ڈٹ کر اس کا دفاع کیا۔میرے دوست ethics are important.