سیاسی

مفرور اور اشتہاری کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوئی پابندی آئین میں ہے نہ قانون میں۔ عدالتیں اور ریٹرننگ افسران اپنے طور پر اضافی پابندیاں نہیں لگا سکتے، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ کا طاہر صادق کیس میں فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی نمائندہ حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے میجر طاہر صادق کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ امیدواروں کی اہلیت / نااہلیت کے متعلق اگر آئین یا قانون میں کوئی ابہام ہو تو پھر انتخابی قوانین کی تشریح امیدوار کے حق میں ہی کی جائے گی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپنی پسند کے امیدوار کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق جمہوری معاشرے کی روح ہے، ووٹ دینے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندی منتخب حکومت کے دل پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، جمہوریت کا انحصار اس پر ہے کہ عوام منتخب حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، عوام کے انتخاب پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عوام کا مینڈیٹ حکومت کی تقدیر بدل سکتا ہے، سپریم کورٹ عوام انتخابی عمل اور ووٹ کے ذریعے جمہوریت اور ملک کے عوامی معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اس طرح شہری ووٹ دے کر اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کا انتخاب کرنے کے اپنے حق سے لطف اندوز ہوتے ہیں فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایک آزاد ملک میں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے زیادہ قیمتی حق اور کوئی نہیں، اگر ووٹ کا حق مجروح ہو رہا ہو تو دیگر تمام حقوق محض خیالی ہیں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 17 کی تشریح کرتے ہوئے کہا آرٹیکل 17(2) کے تحت سیاسی جماعت بنانا یا اس کا ممبر منتخب ہونا ہی الیکشن لڑنے کا حق نہیں بلکہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی حق ہے، اگر سیاسی انصاف کی آئینی اہمیت کے تحت شہریوں کی اپنی پسند کے نمائندوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا حق تسلیم نہ کیا جائے تو آرٹیکل 17(2) کھوکھلا ہے، شہریوں کا بطور ووٹر انتخابات میں حصہ لینا جمہوری حکومت کی بنیاد ہے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ووٹ کے حق کا استعمال شہریوں کی پسند کا اظہار ہے جس کو آئین کے آرٹیکل 19 سے بھی سپورٹ حاصل ہے، اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کر کے شہری اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنی پسند کی حکومت بنا کر کرتے ہیں فیصلے کے مطابق امیدوار کا الیکشن لڑنا اور ووٹر کا ووٹ دینا امیدوار کی اہلیت اور نااہلی کو طے کرتا ہے، امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کا تعین کرنے کا مقصد الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی دیانتداری اور انتخابی عمل کی افادیت برقرار رکھنا ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کچھ معیارات پر پورا اترتے ہوں، ایک مضبوط جمہوری معاشرے میں اہلیت اور نااہلی کا معیار کی واضح تشریح کی جاتی ہے جس کے بارے عوام کو آگاہی ہوتی ہے اور اس کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے، اہلیت اور نااہلی کا آئین میں واضح طور پر لکھا جانا چاہیے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی قوانین حق رائے دہی کے حق میں بنائے جانے چاہیے تاکہ ووٹرز کے پاس اپنے مستقبل کی قیادت کے انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ چوائس ہو، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر عدالتوں کو کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے معاملات کو دیکھنا چاہیے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف اعتراض کنندہ اشتہاری مجرم کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ درخواست گزار ایک اشتہاری مجرم ہے، کیس کو سنے بغیر کسی کو اشتہاری مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی اشتہاری کا صرف اس کے متعلقہ کیس تک ہی تعلق ہوتا ہے اس کا دیگر مقدمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا، آئین اور الیکشن ایکٹ میں اشتہاری مجرم کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں، الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ درخواست گزار عام انتخابات میں حصہ لے سکے،الیکشن کمیشن چاہے تو اعتراض کنندہ سے کیس کے اخراجات وصول کر سکتا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہالیکشن کے بعد سیاسی بحران کم ہوجائے گا، ہمارے ووٹوں کے بغیر کوئی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتا. شہباز شریف کے محنتی ہونے پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نےکہا کہ شہباز شریف 'لکیرکے فقیر' ہیں، ملکی مسائل کے حل 'آؤٹ آف دی باکس' سوچے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی سوچ کا عکس ہے، 16 ماہ جو حکومت چلی ہے اس کی کارکردگی کا مسئلہ ان کو بھی ہے ہم سے بھی کچھ دوست پوچھتے ہیں، سب کہتے تھے کہ شہباز شریف سخت محنتی ہیں وہ ہیں، لیکن یہ لکیر کے فقیر ہیں۔ ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا ود عاصمہ شیرازی میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں جو مسائل ہیں وہ آؤٹ آف دی باکس سوچے بغیر حل نہیں ہو سکتے، یہ تو پہلے دن بائیکاٹ اور استعفیٰ دینا چاہتے تھے، اگر پارلیمنٹ میں نہ رہتے تو عدم اعتماد میں ووٹ بھی نہ دے سکتے. ایک انٹرویو میں آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہم باتیں بھی سن لیتے ہیں جیلیں بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن جیل بھیجنے والوں کو کچھ نہیں کہتے، مگر میاں صاحب کے ہاں یہ حساب کتاب نہیں وہ بہت مغرور آدمی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کبھی ہوا ہے کہ میاں صاحب لاڈلے نہ رہے ہوں؟ جب لاڈلے نہیں رہتے تو پاور سے نکل جاتے ہیں، کیسز میرے ختم نہیں ہوئے تو میں بانی پی ٹی آئی کے کیسز کا انجام کیا بتاؤں؟ کیسز میرے بھی چل رہے ہیں صرف میاں صاحب کے کیسز ختم ہوئے، وجہ شاید ہمارا ڈومیسائل کمزور ہوگا۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہبابا بھٹ سے کشمور تک پی ٹی آئی نظر نہیں آتی، میں نے کب کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا، جو آزاد امیدوار آئیں گے ان سے بات کریں گے۔ جے یو آئی، جماعت اسلامی، باپ پارٹی سے بات کریں گے. آصف زرداری نے کہا کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا ہدف تھا اور ہمیشہ رہے گا، ملک میں نواز حامی نہیں اینٹی نواز ووٹ موجود ہے، جس پر بلاول ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بہت محرومیت ہے جو دوستوں کو نظر نہیں آتی۔ انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی آتی ہے تو زراعت دوست پالیسی لاتی ہے، پیپلز پارٹی ہر گھر اور ہر محلے میں موجود ہے، بی بی کے زمانے سے ہمیں پنجاب میں توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس بار ارادہ ہے کہ مستقل پنجاب میں بیٹھنا ہے۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ میرے حساب سے تو پرو نواز ووٹ ہے ہی نہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دوبارہ سے مین پارٹیاں بنیں گی، تحریک انصاف اب سیاست ایک سائیڈ شو رہے گی، تحریک انصاف کوئی نظریہ فلاسفی نہیں بدتمیزی کا ڈرامہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ تحریک انصاف میں گئے تھے وہ دوست واپس آنا چاہتے ہیں، امید ہے یہ دوست الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی میں واپس آجائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ مجھے حیرانی ہوگی اگر لطیف کھوسہ الیکشن جیت جائیں۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری تو وزارت خارجہ سے مستعفی ہونا چاہتے تھے، بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت خارجہ کا تجربہ چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں موسم سرد ہے اس موسم میں دہشتگردی کم ہوتی ہے، لوگ ووٹ ڈال سکیں گے، سرد موسم میں پہلے بھی الیکشن ہوئے ہیں، کچھ روڈ بلاکس ہیں اگر نہ ہو تو قومی اسمبلی کی 80 سے زائد نشستیں جیت سکتے ہیں۔ کچھ روڈ بلاکس نہ ہوئے تو کراچی کی تمام نشتیں جیت سکتے ہیں، انسان کو حالات کے ساتھ سمجھوتا کرناچاہیے، حالات سمجھوتا نہیں کرتے۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل سمجھتا ہوں، بلوچوں کو بہت پیار سے سنبھالنا ہوگا، مسائل حل کرنا ہوں گے، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں ہے بلوچستان میں نہیں، پنجاب میں ساؤتھ میں پی ٹی آئی کم ہے سینٹر میں ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ لائن لاسسز کم کریں گے تو 300 یونٹ بجلی غریب کو مفت مل سکتی ہے، سولر سسٹم سے بھی غریبوں کو مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے ، غریبوں کو 300 یونٹ مفت بجلی ایک سال میں فراہم کردیں گے، پی آئی اے بیچنے نہیں دیں گے ، تمام ادارے بیچے بغیر چل سکتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ جیل میں گزارا اور انہوںنے سیاست میںبہت تنقید کا سامنا بھی کیا۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان آصف زرداری کو سوپنی گئی اور 2008ء میں وہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ آصف علی زرداری کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے، ان کے والد حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی میںشامل ہونے سے پہلے بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم تھے تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کو جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بننے والافیصلہ قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہےجس میں فیصلے کے حق میں دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار اسد طور نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان پر ہونے والی تنقید کا جواب ہے۔ اسد طور نے کہا کہ بظاہر تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس کی جانب سے آنے والے عام انتخابات کی ساکھ غیر منصفانہ او ر جانبدارانہ چوٹ لگانے اوراسٹیبلشمنٹ کے آلہ کارالیکشن کمیشن پرہونے والی تنقید کے دفاع میں دیا جانے والا جواب ہے۔ https://x.com/AsadAToor/status/1750495886134903144?t=NbkjTx6wYnvmug9q0cRzmg&s=08 اسد طور نے کہا کہ فیصلے سے لگتا ہے کہ چیف جسٹس ملک میں جمہوریت پر پی ٹی آئی کے اندر کی جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کیلئے پی ٹی آئی کے شفاف انٹراپارٹی انتخابات ملک میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ اہم ہیں، چیف جسٹس نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے بلے کا نشان کھونے کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی ہے۔ اسد طور نے تحریری فیصلے میں درج ایک پورے پیراگراف کا حوالہ بھی دیا جس میں نشان سے محروم ہونے کی ساری ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈالی گئی تھی اور انٹرپارٹی انتخابات نا کروانے کو پی ٹی آئی ہٹ دھرمی قرار دیا گیا۔ اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے انٹرپارٹی انتخابات کروانے سے متعلق آرٹیکل 17 کی شق 4 کو ہٹانے کو واضح طور پر نظرانداز کیا اور اپنے فیصلے کا دفاع میں نفرت یا عداوت کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں انٹراپارٹی کی ضرورت کو ختم کرنا ایک غلطی تھی، جسے اگر تسلیم کرلیا جائے تو یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اسد طور نے کہا کہ چیف جسٹس نے لاکھوں ووٹرز اور ان کے امدیواروں کے حق رائے دہی کا دفاع کیا اور کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار ممبران ہیں ، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرائے گئے تو یہ سب حق رائے دہی سے محروم ہو گئے۔
صحافی عامرمتین کا کہنا تھا کہ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو ! ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ اب پنجاب کی پارٹی رہ گئی ہے وہ بھی پتا نہیں کتنے فیصد۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک خاندان کے چار لوگ لاہور میں 14 سیٹوں پہ الیکشن لڑ رہے ہوں۔ آدھے لاہور میں بڑا خاندان الیکشن میں کھڑا ہے لاہور میں ۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ مصیبت پڑ گئی ہے نواز شریف کو 26 سال بعد حلقے میں جانا پڑ گیا ہے ۔ تین بار کا وزیراعظم جیت کے بھی ہارا ہوا ہے کیونکہ انکا مقابلہ جیل میں موجود عمر رسیدہ عوت سے ہے عامرتمین نے کہا کہ نواز شریف کامقابلہ اک کینسر کی قیدی مریضہ یاسمین راشد سے ہے۔ یہ جیت کر بھی ہارے ہوئے ہیں۔ اگر ہار گئے تو بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔ سارا شریف خاندان الیکشن لڑ رہا ہے اور مقابلے پر قیدی عورتیں ہیں جن کے ہاتھ اور منہ بندھے ہیں۔ واہ او شیرو !
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے سرگودھا میں واضح پیغام دیا ہے کہ ہم تقسیم اور نفرت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ کسی کی بچیوں کو گھسیٹا جائے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر ہمارے ملک کے مفاد میں ہے، پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے 80 فیصد لوگوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے کارکنوں کے درمیان ایک دوری تھی جسے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو نے آکر ختم کیا ہے، بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری عوام میں آیا ہے اور اپنے کارکنوں سے بات کر رہا ہے۔ بلاول بھٹو روایتی سیاست کے خلاف ہیں اور وہ اپنے منشور میں نوجوانوں کو صرف نعرہ نہیں دے رہے بلکہ اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی بتا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ہر ضلع اور تحصیل میں جاکر لوگوں سے مل رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی پالیسی پر نوجوانوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں دوسرا کوئی بھی رہنما نظر نہیں آرہا جو ایسے ہر ضلع یا تحصیل میں جا کر کارکنوں سے بات کر رہا ہو، سیاسی ماحول بنا رہا ہے۔ لوگوں نے ہمارے اداروں کو پولیٹیسائز کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری ڈی پولیٹیسائز لوگوں کو پولیٹیسائز کر کے سسٹم میںلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ دوبارہ سے سیاست میں آئیں، ان کے ساتھ کرنے کی ضرورت تھی جو بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کے انتخاب جیتنے کی صورت میں ان کے سامنے اگر 2 چوائسز ہوں کہ ن لیگ میں جانا ہے یا پیپلزپارٹی میں تو ان کی ترجیح پیپلزپارٹی ہی ہو گی کیونکہ پیپلزپارٹی ان کی بات بھی کر رہی ہے۔ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خیال میں پیپلزپارٹی ایک جمہوری جماعت ہے اور وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور ہمیشہ آئین کی بات کرتی ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے نوجوان طبقے کے پاس اگر ن لیگ یا پیپلزپارٹی چوائس ہو تو یقیناً ترجیح پیپلزپارٹی ہو گی اور ہمارا انتخاب بھی تحریک انصاف ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بہت سے کھلواڑ ہو چکے ہیں لیکن ہم بی بی کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اے آر ڈی انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر بنائی جو ان کی حکومت گرانے میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی نے ملک کے آئین کے لیے بڑے بڑے کمپرومائز کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے بڑھے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ہم تیار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پارٹی کے بانی عمران خان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں, جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بنانے کی پوری کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کی امیدیں خلائی مخلوق سے وابستہ ہیں، خیبرپختونخوا کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی نے پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اپنے امیدواروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر آپ نے وفاداری تبدیل کی تو کارکن آپ کا احتساب کریں گے۔ حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار اگر کامیابی کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ان سے زور زبردستی سے وفاداری تبدیل کروائی گئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے الیکشن سے پہلے کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے لوگ نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں ہماری اوپر بات ہوگئی ہے وزیراعلیٰ پنجاب ہمارا ہوگا، نواز شریف کے انتخابی مہم میں فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکیورٹی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ تحریک انصاف کا ہر آزاد امیدوار ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے کہ اسے جیتنے دیا جائے پھر پارٹی چھوڑ دے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ججز، حکومت اور سپریم کورٹ بار ایک پیج پر ہیں۔ سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلارہے ہیں، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سپورٹرز اپنے امیدواروں کے انتخابی نشانات کی پبلسٹی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار پکے ہوئے پھل کی طرح کسی دوسری جماعت کی جھولی میں جاگریں گے، اگر کوئی بھی کامیاب امیدوار ایسا کرتا ہے تو اسے حلقے میں کارکنوں کے شدید ردعمل کا سامنا ہوگا، پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے انہیں اٹھانا پڑے گا، پھینٹی لگانی پڑے گی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی، الیکشن سے 3دن قبل مجھے چھوڑیںاور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں سب کو لگ پتہ جائے گا،نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی نہیںپتہ ،پی ٹی آئی چھوڑنے والا اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، انہوں نے کہا ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی مگر ہم آخری گیند تک لڑیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اڈیالہ جیل میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ میں تمام تحائف کا تخمینہ دبئی میں بھارتی شہری کی چھوٹی سی دکان سے لگوایا گیا عمران خان نے کہا سارا کیس اسی گواہ پر تھا جس پر آج جرح کی نہیں گئی, ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کی جیولری کو 300 کروڑ روپے تک پہنچا دیا گیا، تحائف کی قیمت میں اضافہ صاحب کو خوش کرنے کےلئے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نااہل کیا گیا جبکہ عدالت کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے دوسری جانب ،سزا یافتہ نواز شریف کو کلیئر کر دیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نااہلی کے خلاف اپیل اور انسانی حقوق کےلئے دائر پٹیشن کو نہیں سنا جا رہا، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہمارے امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کےخلاف لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کے باوجود 4 روز سے تحریری آرڈر جاری نہیں کر رہا، جس طرح کا الیکشن کروایا جا رہا ہے اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا ملک کابیڑا غرق ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی لیکن ہم آخری گیند تک لڑیں گے، 5اگست کے بعد نریندر مودی سے کبھی رابطہ نہیں کیا، ابھی نندن کے معاملہ پر بھی مودی سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی یہ سب جھوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ جو پی ٹی آئی چھوڑے گا وہ اپنا سیاسی مستقبل ختم کر لے گا، پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بینک ہے اسی لئے یہ پارٹی نہیں ٹوٹ رہی، الیکشن ختم ہوتے ہی لوگ پی ٹی آئی کی طرف آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ میں سیاست دان ہوں سیاست کروں گا بندوق ہاتھ میں نہیں پکڑوں گا، عزت ،ذلت ،زندگی ،موت ،رزق ،اقتدار سب اللہ دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا میچ پہلے سے فکس تھا اسی لئے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے کو التوا دیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال نہیں اٹھا سکتا، نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے یا نہیں اس بارے ابھی کوئی پتہ نہیں، صدر مملکت نے معاملات سلجھانے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے نواز شریف نے لیہ کا جلسہ کینسل کر دیا ان کے جلسے نہیں جلسیاں ہو رہی ہیں، میں کہتا ہوں الیکشن سے تین دن قبل مجھے چھوڑ دیں اور صرف ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں ان کو لگ پتہ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک پلان اللہ بناتا ہے اور ایک پلان بندہ بناتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کا پلان ہوتا ہے، پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کروں گا، یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں نہ آ جائے۔
تحریک انصاف کو مختلف حلقوں سے بڑی بڑی کامیابیاں ملنے لگیں۔ قصور، جھنگ، ننکانہ صاحب، راولپنڈی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم۔۔ پی پی 125 جھنگ سردار افتخار احمد خان بلوچ سے پی ٹی آئی امیدوار سردار غلام احمد خان گاڈی کی سردار حاجی مختار خان بلوچ ،سرادر ظفر خان بلوچ کے ہمراہ ملاقات سرادر افتخار احمد خان بلوچ نے غلام احمد گاڈی کی ہمایت کا اعلان کر دیا جو انتخابی نشان چارپائی پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ننکانہ صاحب سے 2018 میں 69 ہزار کے قریب ووٹ لینے والے آزاد امیدوار طارق محمودباجوہ نے تحریک انصاف کے ارشد ساہی کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ طارق محمودباجوہ نے نومئی کے واقعات پر تحریک انصاف چھوڑدی تھی۔ این اے 53 سے 2018 کے آزادامیدوار پیر نصیر الحسنین شاہ نے تحریک انصاف کے کرنل (ر) اجمل صابر راجہ اور صوبائی امیدوار امیر افضل کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پیر نصیر الحسنین شاہ نے 2018 میں صوبائی نشست پر 22000 سے زائد ووٹ لئے تھے۔ این اے 97 سے تاندلیانوالہ سے عائشہ رجب بلوچ اور انکے بیٹے روشن رجب بلوچ نے تحریک انصاف کے امیدوار سعداللہ بلوچ کی حمایت کا اعلان کردیا لودھراں پی پی 225 سے حاجی عبداللہ تھیم ،ملک مشتاق تھیم نے تحریک انصاف کی امیدوار شازیہ حیات اللہ خان ترین کی حمایت کا اعلان کر دیا قصور کے حلقہ این اے 133 سے سابق وزیر سردار آصف نکئی نے تحریک انصاف کے امیدوار عظیم الدین کی حمایت کااعلان کردیا۔۔ سردار آصف نکئی تحریک انصاف کے سابق وزیر رہ چکے ہیں۔
تحریک انصاف سے بلا چھینے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کی نظریں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں پر۔۔ بلاول کا آزاد امیدواروں کو ساتھ لیکر وزیراعظم بننے کا عزم۔۔ دوسری جانب فیاض الحسن چوہان بھی پیچھے نہ رہے اور کہا کہ جو بھی آزاد امیدوار جیتے گا وہ ہماری پارٹی میں آئے گا، انہیں اسی یقین دہانی پر جتوایا جائے گا کہ وہ ہماری پارٹی میں شامل ہونگے گزشتہ روز بلاول بھٹو نے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آزاد ارکان کے ساتھ ملکر پیپلز پارٹی کی حکومت بنائیں گے اور اگلی حکومت میں نواز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے صرف یہی نہیں ایک نجی چینل کے شو میں بھی بلاول نے کہا کہ یہ جو الیکشن ہو رہے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم بالکل بہت سارے آزاد امیدواروں کیساتھ رابطے میں ہیں دوسری جانب فیاض الحسن چوہان نے بھی بڑے بڑے دعوے کردئیے اور کہا کہ تحریک انصاف کے صرف وہی لوگ الیکشن جیتیں گے جوکمٹمنٹ کریں گے کہ وہ بعد میں پارٹی چھوڑ دیں گے۔۔ ان جیتنے والوں کی بڑی تعداد استحکام پارٹی جوائن کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یاسمین راشد سمیت کچھ اہم رہنماوں کے خلاف الیکشن سے کچھ دن پہلے یا بعد ،فیصلے آسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نا اہل ہو جائیں گے فیاض چوہان کا کہنا تھا کہ میرے الیکشن لڑنے سے حلقے کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا جسکا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا اسلیے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے
سینئر صحافی وتجزیہ کار شہزاد اقبال نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے بظاہر شکوہ شکایت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ہے لیکن اصل شکایت مسلم لیگ کو ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے پاس نہ تو بیانیہ ہے نہ ہی وکٹم کارڈ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اس کے پاس بیانیہ بھی ہے اور وکٹم کارڈ بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ آج ہوا ہے وہ اس کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے لیکن انتخابات کے موقع پر یہ سب کچھ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں جائے گا، اس لیے ن لیگ کو فکرمند ہونا چاہیے۔ کبھی کسی کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جاتے ہیں، کوئی آر او کسی کو اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دیتا جسے تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنی طاقت کے ذریعے اسے اپنا بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو وکٹم کارڈ دے کر ان کو سیاسی فائدہ دیا جا رہا ہے، تحریک انصاف بلے کا نشان واپس مل گیا، سائفر کیس اڑا دیا گیا۔ لوگ 2017ء کی بات سننے کے بجائے 2023ء کی بات سنیں گے اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ن لیگ کو نقصان ہو رہا ہےاس لیے انہیں فکرمند ہونا چاہیے۔ سینئر تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر دل دہل رہا ہے، شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ چیزیں جان بوجھ کر کرائی جا رہی ہیں، یا تو اس دہشت پھیلانا چاہتے ہیں یا کچھ ایسا ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ بلاول بھٹو سے اچھا منشور عمران خان نے دیا تھا جس میں 50 کروڑ نوکریاں اور پتا نہیں کیا کیا شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے منشور کا کیا بنا؟ ق لیگ اور پرویز الٰہی کی حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا لیکن ان کا دور حکومت بہت اچھا تھا لیکن 2008ء میں ق لیگ کہیں نظر آئی؟ میری پاکستانی سیاست پر ایک ہی رائے ہے کہ یہاں ایک ہی نعرہ چلتا ہے۔ حال ہی میں نوازشریف اور عمران خان نے اینٹی سٹیبلشمنٹ بیانیہ دیا تو ان کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی جبکہ پرویز الٰہی پرو سٹیبلشمنٹ تھے اس لیے سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے بہت مدبرانہ سیاست کی۔ 2013ء میں نوازشریف عمران خان کی قیادت کرنے شوکت خانم ہسپتال گئے، مارچ 2018ء میں بنی گالہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں سٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر عمران خان نے سیاست سے کھلواڑ کیا۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا ، نوازشریف نے 20 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا میرا جھگڑا عمران خان سے نہیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تب ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم باجوہ کا نام لے رہے ہو، تمہاری جرات کیسے ہوئی۔ عمران خان سٹیبلشمنٹ کو گالم گلوچ نکالنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جو آج بھی سیاسی جماعتوں کے بجائے سٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ اور بڑے بڑے نام شامل کرنے کے بعد بھی آئی پی پی کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 18 اور صوبائی اسمبلی کی 40 نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین، ملتان اور لودھراں، علیم خان، عون چوہدری لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔جہانگیر ترین نے این اے 155 لودھراں اور این اے 149 ملتان سے کاغذات جمع کروا دیے۔ عون چوہدری نے لاہور کے حلقوں این اے 124، 127 اور 128 جبکہ علیم خان نے لاہور کے حلقوں این اے 117 شاہدرہ، این اے 119 گڑھی شاہو سے کاغذات جمع کروائے۔ راجہ عامر کیانی نے اپنے پرانے حلقہ انتخابات راولپنڈی کی بجائے این اے 47 اسلام آباد سے کاغذات جمع کروا دیے۔غلام سرور خان نے راولپنڈی کے حلقوں این اے 53، 54 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، فردوس عاشق اعوان نے این اے 70 سیالکوٹ سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جبکہ سالکوٹ سے کسی اور قابل ذکر رہنما نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔فردوس عاشق اعوان کے مقابلے میں ارمغان سبحانی اور سعید بھلی زیادہ مضبوط امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔ فرخ حبیب نے این اے 101 فیصل آباد اور ہمایوں اختر نے لاہور کی بجائے استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے این اے 97 تاندلیانوالہ فیصل آباد سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔فرخ حبیب کی جیت کے امکانات بھی انتہائی کم ہیں کیونکہ 2018 میں انہیں جتوانے میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک مددگارثابت ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی نے پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنماؤں کو توڑا مگر کاغذات نامزدگی ڈیڑھ درجن جمع کرائے ۔ لاہور سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا ون ٹو ون مقابلہ متوقع ہے جبکہ عون چوہدری اور علیم خان کا اس میں چانس نظر نہیں آرہا۔مرادراس قومی اسمبلی کی بجائے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اترنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ غلام سرور خان الیکشن 2018 میں دونوں سیٹیں جیت گئے تھے لیکن اس بار غلام سرور خان کا جوڑ آزادامیدوار چوہدری نثار اور پی ٹی آئی کے کرنل اجمل صابر راجہ سے پڑے گا۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی پی پی جہانگیرترین، غلام سرور خان کی سیٹیں شاید جیت پائے اور شاید 2 سے 3 سیٹوں تک محدود رہے۔
اپنے پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے عامرمتین نے سوال اٹھایا کہ عثمان ڈار کی ماں سے شروع ہونے والا ظلم کہا ں رکے گا۔ جب ماں،بہن کا تقدس بھی نہ رہے تو پھر سیاست کس بات کی۔ میاں شفیق آرائیں کے سیاست سے دستبرداری پر عامرمتین نے کہا کہ تیس سال سے سیاست میں رہنے کے باوجود میاں شفیق ارائیں نے عزت بچا کر رکھی تھی۔ اب جہانگیر ترین کو جتوانے کے لیے ان کی بھتیجے کو اٹھا لیا گیا۔ اک جیتے ہوئے ممبر کو مجبور کیا کہ وہ دستبردار ہو جائے۔ اگلا سلوک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ شریف آدمی نے سیاست کو خیر آباد کہہ کے عزت بچا لی۔ مگر یہ نظام کس طرف چل پڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ طاقت میں مخمور سیٹھ اپنے بچوں کے لیے کیا سبق چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کیا لودھراں کے لوگ بھیڑ بکریاں ہے جو کہ تھانے کے زریعے ہانکے جائیں گیں۔ یہ سفر کہاں رکے گا۔ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ عامرمتین نے جہانگیرترین پر طنز کیا کہ جہانگیر ترین نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ وہ بڑے ہو کر لودھراں سے ایم این اے ضرور بنیں گے۔ حسن اتفاق 2015 کے ضمنی انتخابات میں وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہی تھا کہ نااہلی کی تلوارپہنچ گئی۔ عامرمتین کا کہنا ھا کہ مجھے علی ترین سے ہمدردی ہے۔ وہ اک خوبصورت اور قابل نوجوان ہے۔ میں اس کے کرکٹ کے علاوہ انسانیت کے حوالے سے کئ اچھے واقعات کا گواہ ہوں۔ مگر بلاول کی طرح وہ بھی اپنے باپ کا محصور ہے۔ وہ بیچارہ میاں شفیق جیسے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کا حساب ساری عمر دیتا رہے گا۔ عامرمتین نے مزید کہا کہ آپ باعزت لوگوں کے بچے اٹھا کے، ان کو تھانہ کچہری کے زریعے مجبور کر کے تسخیر کر لیں گیں مگر لوگ بے عزتی بھولتے نہی۔ ایجنسیاں چلی جاتیں ہیں مقامی لوگ وہیں رہتے ہیں۔ ترین صاحب اتنا ظلم کریں جتنا سنبھال سکیں اور اپنے بچے کے لیے اک با عزت راستہ چھوڑ کر جائیں۔
الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی۔۔پولیس کے پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے الیکشن کااعلان ہوتے ہی تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز عثمان ڈار کی والدہ کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا اور عثمان ڈار کی والدہ کے کپڑے پھاڑدئیے، عثمان ڈار کی والدہ نے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز ہی میاں عباد فاروق کے گھر بھی پولیس پہنچی، میاں عباد فاروق کی اہلیہ اور بھائی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا تھا۔ صرف یہی نہیں گزشتہ روز ہی لودھراں سے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے میاں شفیق آرائیں نے بھی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا اور گجرات سے افتخارگوندل نے بھی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی ائی کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی، آدھی رات کو ضلعی صدر قصور مہر سلیم کے گھر پر پولیس کا دھاوا۔۔ پولیس اور انتظامیہ کو مہر سلیم کی جانب سے الکشن لڑنے کا خدشہ ہے بہاولپور سے سابقہ صوبائی وزیر سمیع اللہ چوہدری کے گھر ہاشمی گارڈن پر پولیس کا چھاپہ۔۔ سمیع اللہ چوہدری نے تحریک انصاف نہ چھوڑنے کااعلان کیا تھا جس کی پاداش میں انکے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار اسامہ حمزہ کو بھی پولیس نے رات کے اندھیرے میں اٹھالیا۔۔ اسامہ حمزہ نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک انصاف آفیشل کے مطابق صبح کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا پہلا دن ہے اور پنجاب میں اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدواران کے گھروں پر آدھی رات کو چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ سب ایک غیرمقبول ٹولے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ضلعی و نگران انتظامیہ اس پلان کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی آفیشل کا مزید کہنا تھا کہ پورا ملک اس وقت چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ کب "اغوا برائے بیان" پر اعتزاز احسن کی پٹیشن سنیں گے اور اس پری پول رگنگ کا نوٹس لیں گے؟ فیصل آباد سے پی ٹی ائی امیدوار ملک عمر فاروق کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔ میاں عمرفاروق نے این اے 99 اور پی پی 107 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کاغذات نامزدگی حاصل کئے تھے۔ اس پر میاں عمر فاروق کا کہنا تھا کہ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور جو اللہ نے لکھ دیا ہے اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا ہوں نہ کو ئی اور جناب وزیراعلی پنجاب ائی جی پنجاب صاحب اج میں نے حلقہ این اے 99 اور پی پی 107کے لیے نومینیشن پیپر حاصل کیے اور اج ہی پولیس نے چھاپوں کا اغاز کر دیا کیا میں پاکستانی نہیں ہوں کیا میرا حق نہیں ہے کوئی بات نہیں میں ہر ظلم سہوں گا لیکن انشاءاللہ الیکشن ضرور لڑوں گا انہوں نے مزید کہا کہ آپ سب کا شکریہ مجھے ہر دن مظبوط بنا رہے ہیں مسلم لیگ نون والے میدان میں مقابلہ کریں اگر ایسے ہی ڈرا کر جیتنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں آپ اور کتنا ظلم کرتے ہیں تھوڑے دن بعد عوامی عدالت میں حاضری دیتا ہو ں میں سہوں گا آپ ظلم کریے گا دیکھیں کون جیتتا ہے آپ کا ظلم یا میرا صبر شکریہ امید کرتا ہوں سچ بولنے پر غصہ نہ کریں گے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیساتھ ہی گجرات سے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق ایم این اے سید فیض الحسن شاہ اور ایم پی اے چوہدری ارشدنے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔دونوں رہنماؤں کو کچھ دن پہلے گھروں سے اٹھایا گیا تھا۔ان دونوں کے جانے کے بعد قمرزمان کائرہ اور ن لیگی امیدوار کا راستہ صاف ہوگیا ہے اسی طرح پولیس نے سوات سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے فضل مولا کو بھی گرفتار کرلیا جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ محمود خان کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے۔
آن لائن اخبار کے صحافی عارف ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف نے سابق ایم پی اے اشرف انصاری کو پارٹی امیدواروان کے انٹرویو کے دوران گارڈز کے ذریعے پارٹی میٹنگ سے نکلوادیا۔ صحافی عارف ملک کے مطابق نواشریف امیدواروں کے کے انٹرویوز کررہے تھے جہاں سابق لیگی ایم پی اے اشرف انصاری بھی موجود تھے توانہوں نے اپنی پارٹی سے وابستگی سے متعلق بتایا ۔ رانا ثناء اللہ نے انہیں بٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ بیٹھے اسکے بعد مریم نواز نے بھی ٹوکا تو نہ بیٹھے ۔ اس پر اشرف انصاری غصے میں آگئے اور کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں سننا چاہتے تو ہمیں بلایا کیوں ہے، میں نے درخواست دی ہے اور پیسے بھی جمع کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حمزہ شہبازکوووٹ چاہئے تھا تو ہم پارٹی کیساتھ کھڑے تھے مجھے سے وعدہ کیا گیا کہ آپکو ٹکٹ دیں گے جس پر نوازشریف نے کہا کہ آپ تو وہی نہیں جو پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کی حمایت کر رہے تھے لہذا آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اشرف انصاری نے جانے سے انکار کیا تو نوازشریف نے گارڈز کو کہا کہ اسے باہر نکالو جس پر اشرف انصاری کو دھکے مار کر کمرے سےنکال دیا گیا۔ اس موقع پر نوازشریف نے کہا کہ ایک تو یہ شخص ہمارا وفادار نہیں اور دوسرا بد نظمی پھیلا رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ جب ن لیگ پر مشکل وقت تھا تو اس شخص نے فارورڈ گروپ بنایا یادرہے کہ 2018 کے بعد جب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اشرف انصاری نے فارورڈ بلاک بنایا جس میں ناروال سے مولانا غیاث دین ، خانیوال سے نشاط ڈاہا اور فیصل نیازی اور شیخوپورہ سے جلیل شرقپوری تھے۔ حمزہ شہباز جب وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو اشرف انصاری، مولانا غیاث الدین اور جلیل شرقپوری نے اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دیا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اشرف انصاری اور مولانا غیاث اب ن لیگ کا ٹکٹ مانگ رہے ہیں، جلیل شرقپوری عمران خان ساتھ چھوڑچکے ہیں جبکہ فیصل نیازی تحریک انصاف کیساتھ کھڑے ہیں، نشاط ڈاہا انتقال کرگئے ہیں جبکہ انکی اہلیہ تحریک انصاف کیساتھ کھڑی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ڈان لیکس اور راحیل شریف کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع مانگنے سے متعلق ہوشربا انکشافات کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سماء ٹی وی کے پروگرام دو ٹوک میں اینکر کرن ناز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے متعدد انکشافات کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو راحیل شریف سے کوئی شکایت نہیں ہے، تاہم جنرل (ر) راحیل شریف کو میاں نواز شریف سے کچھ شکایات تھیں جن کی وجہ سے تلخی بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بات جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی تھی جس پر جنرل راحیل شریف ناراض تھے، یہاں سے دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہونا شروع ہوئی، اس کے بعد جنرل راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے، انہوں نے خو د براہ راست میاں نواز شریف سے اس بارے میں بات کی مگر میاں صاحب نہیں مانے، جس کے بعد پانامہ کا معاملہ اٹھایا گیا، ڈان لیکس سامنے آئیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آج تک سرل المیڈا کی اس خبر کے درست یا جھوٹ ہونے پر کوئی کمیٹی نہیں بیٹھی، کسی نے تحقیق نہیں کی ، کیونکہ جو باتیں خبر میں کہی گئیں وہ بالکل ٹھیک تھیں، یہ کوئی معاملہ نہیں تھا بلکہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا گیا تھا صرف اس وقت کے وزیراعظم کو پریشرائز کرنے کیلئے، تاکہ جو کہا جائے وہ ہوجائے۔ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ڈان لیکس میں کابینہ ارکان کو اس لیے ہٹایا گیا کہ میاں نواز شریف تصادم نہیں چاہتے تھے، انہوں نےپرویز رشید کی قربانی دی کہ معاملہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر معاملہ ٹھیک نہیں ہوا، پھرطارق فاطمی کو ہٹایا گیا ، پھر دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ اس خبر میں ایسا کچھ نہیں تھا، میاں نواز شریف کو تو وہ باتیں کھلے عام بھی کرتے رہتے ہیں جو اس اجلاس میں کی گئیں، یہ ایک اسکینڈل خود بنایا گیا، اس اسکینڈل کے ذریعے کابینہ کے 3،4 لوگوں کو نکالا گیا، میاں نواز شریف نے ان لوگوں کو صرف اس لیے نکالا کہ لڑائی آگے نا بڑھے ، مگر لڑائی آگے بڑھتی چلی گئی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس سب کے پیچھے جنرل راحیل شریف کی توسیع حاصل کرنے کی منصوبہ بندی تھی جو وہ وزیراعظم کو پریشر میں لاکر حاصل کرنا چاہتے تھے، ایک کے بعد ایک قربانیاں مانگی گئیں، نوازشریف نے تصادم سےبچنے کیلئے قربانیاں دیں بھی مگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے یہاں تک کہ وزیراعظم کو خود نشانہ بنادیا گیا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے۔ جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کو پرانی مقتدرہ یعنی جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے بڑے حقیقی گلے ہیں، ان دونوں نے نواز شریف کے ساتھ بہت زیادتیاں کی تھیں، نئی مقتدرہ نواز شریف کو سپورٹ کررہی ہے اس لیے بیانیہ میں بڑا تضاد آگیا ہے۔ نواز شریف پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح پرانی عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دیئے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے، نواز شریف نے اس تضاد سے نکلنے کیلئے انتقام نہیں حساب کا بیانیہ اپنالیا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ میری رائے میں جن لوگوں نے اس وقت غلط کیا انہیں بھگتنا چاہیے، جسٹس منیر سے لے کر آج تک جن ججوں نے اور جن جرنیلوں نے مارشل لاء لگائے ہیں ان کے خلاف کم از کم علامتی فیصلے تو آنے چاہئیں، پاکستان میں مظلوم کا ووٹ بینک توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی پارٹی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو اس کا ووٹ بینک تادیر قائم رہتا ہے، یہ بات درست ہے نواز شریف اس وقت اکیلے لڑرہے ہیں ان کے مخالف کوئی نہیں ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ شہری حلقوں میں بظاہر پی ٹی آئی اکثریت میں نظر آرہی ہے، پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی تو شہروں میں جیت جائے گی، پی ٹی آئی کو الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے، فی الحال لگتا ہے عمران خان کو نااہل قرار دیدیا جائے گا، پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملٹری ٹرائل ہوں گے، اس طرح مزید خوف اور ناامیدی پھیلائی جائے گی جس سے پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نہیں نکلے گا۔ مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف سماعت میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکلاء لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ اور اعتزاز احسن تمام وقت روسٹرم پر موجود رہے، ججوں کے ساتھ گفتگو سے زیادہ وکلاء کی آپس میں بحث ہوتی رہی۔ اٹارنی جنرل بھی اپنے عمومی رویے کے خلاف غصہ میں نظر آئے، ججوں سے بھی یہ صورتحال کنٹرول نہیں ہورہی تھی، جسٹس طارق مسعود نے بار بار وکلاء سے نشستوں پر بیٹھنے کیلئے کہا مگر وہ کھڑے رہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی صورتحال سامنے آئی جس میں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ نے اپنے ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے معطل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کا وہ فیصلہ معطل کردیا ہے جس میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا، سپریم کورٹ نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل جاری رکھنے کی ہدایت تو کردی مگر اس حوالے سے حتمی فیصلہ جاری نہ کرنے کے احکامات بھی دیدیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ انتقام نہیں چاہتا، حساب لینا تو بنتا ہے۔مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آج جھوٹ ہوا میں اڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے خلاف مقدمات میں جان نہیں تھی، سزا مجھے نہیں 25 کروڑ عوام کو ملی۔ نواز شریف نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیے گئے ان کا کوئی مداوا ہے؟ ہم نے جنرل باجوہ یا جنرل راحیل کے خلاف کبھی کوئی سازش نہیں کی,کبھی کسی کے خلاف سازش نہیں کی، دفاع کو مضبوط کیا، جے ایف 17 کے معاہدے پر میرے دستخط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو دکھ ہمیں دیئے گئے ہیں اس کا کوئی مداوا ہے؟ میری اہلیہ آخری سانسیں لے رہی تھیں میں نے مریم سے کہا اللہ انہیں شفا عطا فرمائیں ، ہم چلتے ہیں پاکستان، جعلی مقدمہ ہے سزا بھگتیں گے، یہ نہیں کرسکتے کہ سزا سننے کے بعد ہم یہاں بیٹھے رہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو میرے بے قصور ہونے کا یقین تھا، ایسا فیصلہ سنایا گیا جو دنیا میں مذاق بنا، جو دکھ ملے کیا ان کا کوئی مداوا ہے؟ انتقام لینا نہیں چاہتا لیکن احتساب ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 21 اکتوبر کو میں نے لاہور آکر یہ کہا تھا کہ میں کسی انتقامی جذبے سے یہاں نہیں آیا لیکن یہ تو پوچھنا چاہیے کہ اس ملک کیساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو سب سے بڑی عدالت بنے گی، عوامی جے آئی ٹی بنے گی، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈالر کو چار سال باندھ کر رکھا، ہم نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا، کیا ججز کبھی سسلین مافیا، گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، میری دشمنی میں کیے گئے اقدام نے عوام کو نقصان پہنچایا۔ نواز شریف نے کہا کہ سازشی عناصر روز شام میں دکانداری چمکاتے تھے، ہمارے وقت میں آٹا، چینی، گوشت اور سب اشیا سستی تھیں، میں نے کیا بگاڑا تھا اس بینچ کا جس نے مجھے سسیلین مافیا کہا، مجھے بطور فرد سزا ملی، اصل سزا 25 کروڑ عوام کو ملی۔ قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے پیغام بھیجا گیا کہ نوازشریف کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے، اس مائنڈ سیٹ سے لوگ آئیں گے تو یہی ہوتا رہے گا، مجھے انتقام سے کوئی غرض نہیں، میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا حساب ہونا چاہیے، جنھوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی میں انھیں معاف نہیں کرسکتا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے مجھے جھوٹے مقدمات سے بری فرمایا ہے، دنیا بھی کہہ رہی ہے کہ سازش کے تحت مقدمات بنائے گئے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور اس کے 25 کروڑ عوام کے خلاف یہ سازش ہوئی ہے اور 25 کروڑ عوام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام کیا اور کیوں کیا؟ میں نے تو کسی کے خلاف کوئی سازش نہیں کی ہم نے تو اپنا کام کیا سڑکیں بنائیں , موٹرویز بنائیں ,لوڈشیڈنگ ختم کی , ایٹمی دھماکے کیے دفاع کو مضبوط کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک الیکشن سے بھاگنے سے متعلق سوال کے جواب میں اپنا بیان بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق جیونیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال نے پی ٹی آئی (پی) کے چیئرمین پرویز خٹک کو 23 مارچ 2023 کو دیئے گئے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ پی ٹی آئی رہتے میں آپ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر الزام لگارہے تھے کہ وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، آج آپ یہی الزام پی ٹی آئی پر لگارہے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک نے کہا کہ انتخابات سے دونوں بھاگ رہے ہیں، عمران خان اس لیے الیکشن سے نہیں بھاگ رہے تھے کہ وہ ہار جائیں گے، بلکہ عمران خان الیکشن سے اس لیے بھاگ رہے تھے کیونکہ وہ ملک میں انتشار پھیلانا ،عوامی طاقت پر قبضہ کرنا اور صدارتی نظام لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر جب مشاورت ہوئی تو میں نے اس کی مخالفت کی ، جب حکومت چلی گئی تو عمران خان نے اپنا پورا ذہن بنالیا تھا کہ انہوں نے عوامی طاقت کی بنیاد پر واپس اقتدار میں آنا ہے، فوج کو کمزور کرنا ہے، صدارتی نظام لاؤں گا کہ میرے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے۔ ماضی میں عمران حکومت کے خلاف امریکی سازش کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز خٹک نے کہا کہ جو میں باتیں ماضی میں کررہا تھا وہ اس بریفنگ کی بنیاد پر تھیں جو ہمیں پارٹی کی طرف سے دی گئی تھی، لیڈر کی بات کو عوام کے سامنے بیان کرنا پڑتا ہے، ہم اکیلے میں اس پر بحث بھی کرلیتے تھے مگر لیڈر کی بات کو ردکرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خفیہ دستاویزات عمران خان کے پاس آئی تھیں، اس کو پبلک کرکے عمران خان نے حلف کی خلاف ورزی کی، ہم نے تو وہ باتیں عوام میں جاکر کیں جو ہمیں عمران خان نے بتائیں، ہم نے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور ق لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ گھمبیر ہونے لگا۔۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن ق لیگ کو 2 قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دینے کو تیار ہے لیکن دوسری طرف چوہدری شجاعت کے بھتیجے حسین الٰہی کی سیٹ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا جس سے 9 مئی کے واقعات کو جواز بناکر تحریک انصاف چھڑوائی گئی تھی۔ مسلم لیگ ق 4 سیٹیں چاہتی ہے جن میں حسین الٰہی کیلئے اور ایک حلقہ چوہدری سرور کیلئے بھی چاہتی ہے جبکہ ن لیگ گجرات کے نوابزدگان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جنیدانورچوہدری کی قربانی نہیں دے سکتی، اسی طرح چوہدری سرور کو لاہور کے شاہدرہ حلقہ سے ٹکٹ ملنا مشکل ہے کیونکہ وہاں ملک ریاض اور عظمیٰ بخاری کے سمیع اللہ خان شوہر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ حسین چوہدری سالک کو قومی اسمبلی اور چوہدری شافع کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ آفر کی گئی ہے لیکن چوہدری سالک اور چوہدری شافع کیلئے بڑا مسئلہ پرویزالٰہی اور تحریک انصاف کی مقبولیت بنے ہوئے ہیں۔اس سے نہ صرف ووٹ بنک تقسیم ہوگا بلکہ عابدرضاکوٹلہ کی وجہ سے ن لیگ کا ووٹ نہ پڑنے کا بھی خدشہ ہے۔ اگرچہ طارق بشیر چیمہ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن اسکے باوجود اسکےحلقے پر بھی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے کیونکہ طارق بشیرچیمہ اپنا پینل لاکر لڑوانا چاہتا ہے لیکن ن لیگ اپنے ایم پی ایز کو ٹکٹ دینا چاہتی ہے۔ طارق بشیر چیمہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ نوازشریف کیساتھ بیٹھے کافی پریشان نظرآرہے ہیں جس کی وجہ غالبا سعود مجید اور اسکا پینل ہے یہاں سےصوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر خالد محمود ججا ایک ہزار ووٹ سے جبکہ دوسری سیٹ سے سعد مسعود3500 ووٹوں سے ہارا تھا۔ یہاں سے طارق بشیرچیمہ کے نیچے دونوں ایم پی ایز تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے لیکن ان سے بھی 9 مئی واقعات کو جواز بناکر پارٹی چھڑوائی گئی۔ اسکے باوجود تحریک انصاف کا حلقے میں ذاتی ووٹ بنک ن لیگ کیلئے پریشان کن ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں تحریک انصاف جاٹ، آرائیں اور راجپوت برادری پر مشتمل پینل بناکر میدان میں نہ آجائے ۔ صحافی محمد عمیر کے مطابق نون لیگ اور ق لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مطابق طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں امیدوار ن لیگ کے ہونگے۔ یزمان کا یہ حلقہ جٹ آرائیں کی لڑائی ہے۔طارق بشیر چیمہ کے نیچے دونوں ایم پی اے آرائیں ہیں اور یہ دونوں 2018 میں جیتے تھے اور یہ اسوقت پرویز الہی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے سعود مجید آرائیں ہیں وہ الیکشن نہیں لڑیں گے تو کیا سعود مجید اپنا بیٹے چیمے کے نیچے لڑوائے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ آرائیں چوہدری مجید اور جٹ چوہدری بشیر کی اس حلقہ کی لڑائی قیام پاکستان سے چل رہی ہے۔ ن لیگ کے یہاں سے ایک مضبوط ایم پی اے کے امیدوار جٹ ہیں،اگر اوپر نیچے جٹ امیدوار ہونگے تو آرائیوں کا ووٹ اکٹھا ہوجائے گا۔یزمان ون وے ٹریفک مشکل چلے گی۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف یہاں بہتر پینل دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ جیتے ہوئے دونوں امیدوار اب بھی پرویز الہی کے ساتھ ہیں اور ان کا وہاں اپنا ووٹ بینک ہے۔ 2018 میں تحریک انصاف نے یہاں ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار نہیں دئیے تھے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے سابق وزیراعظم وقائد ن لیگ میاں نوازشریف پر شدید تنقید کے باوجود چیف آرگنائزر ن لیگ مریم نوازشریف نے اپنی توپوں کا رخ سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی طرف رکھا ہوا ہے۔ پنجاب کے شہر جلالپور جٹاں میں ن لیگ کے یوتھ کنونشن سے خطاب میں کہا کہ ہمارے جن مخالفین نے کہا کہ نوازشریف کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے وہ سب اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میاں نوازشریف کو ماضی میں چور کہنے والا آج خود سے جیل میں بیتھا ہوا ہے۔ نوازشریف پر جلسوں میں چوری کا الزام لگانے والے کبھی بھی معاملہ عدالت لے کر نہیں گیا۔ ایک بار وزیراعظم رہنے والے شخص کی چوری کے چرچے ہیں لیکن نوازشریف پر آج تک کرپشن پر کوئی الزام نہیں لگا، اس شخص سے چوری کا حساب مانگا گیا تو ٹانگ پر پلستر چڑھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ 60 ارب روپے کی ڈکیتی مارنے والا شخص جیل میں بیٹھ کر کبھی دیسی مرغی تو کبھی ایکسائز مشین کا مطالبہ کر رہا ہے، اگر جیل میں اسے سہولت دینی ہے تو تمام قیدیوں کو یہ سہولت دی جائے۔ جیل میں اپنے اعمالوں کی سزا بھگتنے والے کا نام بھی نہیں لینا چاہتی، ایک بار اقتدار ملنے پر اس شخص پر ملکی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا کیس بنا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کو تین دفعہ ملک کا اقتدار ملا لیکن اس پر کوئی چوری کا الزام نہیں لگا سکا، اس شخص نے بہت جھوٹ بولے، نوازشریف کے بجائے اس کے اعمال نے ہی اس سے انتقام لے لیا۔ کہا گیا کہ نوازشریف تاریخ کا حصہ بن گیا، کبھی واپس نہیں آئے گا لیکن سازش کرنے والوں نے دیکھا کہ میاں نوازشریف کس عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس آیا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کا استقبال کرنے کے لیے 21 اکتوبر کو پورا ملک سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور سڑکیں چھوٹی پڑ گئی تھیں۔ نوازشریف اب بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، وہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو عدالتوں سے فیور مل رہی ہے، انہیں شرم آنی چاہیے۔ نوازشریف کو انصاف رینگ رینگ کا مل رہا ہے، ان کے خلاف پانامہ کے نام پر جھوٹ پہ جھوٹ بولا گیا۔
سابق وزیر دفاع وصدر پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز پرویز خٹک نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا انکشاف کر دیا ہے۔ پرویز خٹک نے نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی آفر کی گئی تھی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع کی آفر والی بات جھوٹی ہے۔ جنرل باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک پانی سر سے اونچا جا چکا تھا، انہیں غیرمعینہ مدت کیلئے آرمی چیف بننے کی آفر کی بات غلط ہے۔ عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ان کو وزارت داخلہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر مکر گئے، وہ جھوٹے شخص ہیں۔ مجھے صدر پاکستان بنانے کی آفر بھی کی گئی تھی جسے میں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ کیا میری سیاست ختم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر میں خود 2 دفعہ سابق آرمی چیف کے پاس گیا تھا اور انہیں عہدے میں توسیع کی آفر کی لیکن غیرمعینہ مدت تک توسیع والی بات کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے کیونکہ ملک کے قانون میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ جنرل باجوہ کی مدت میں 1 سال باقی تھا جب انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کرنے کیلئے عمران خان نے مجھے بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلے صدر پاکستان کیلئے مجھے آفر کی، پھر اسد قیصر کو بھی آفر کی گئی لیکن وہ انکاری ہو گئے جس کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو صدر بنایا گیا۔ عمران خان نے جب مجھے وزیر دفاع لگانے کا فیصلہ کیا تو مجھے پتہ لگ گیا کہ اس نے مجھے کھڈے لائن لگانا ہے لیکن اللہ نے میرے لیے بہتر کیا کہ میں آرمڈ فورسز کے ساتھ تعلقات اچھے ہو گئے۔ انہوں نے نوشہرہ کے حلقے سے اپنے رشتے داروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے بارے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹکٹ صرف اسے جاری کیا جائے گا جو پارٹی کو سیٹ پر جیت دلوا سکتا ہے، چاہے وہ امیدوار میرے اپنے گھر سے ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک نے نوشہرہ کے حلقے میں 7 نشستیں اپنے رشتے داروں کو دینے کی تردید نہیں کی۔
مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کی طرف سے رانا ثناء اللّٰہ، ایاز صادق اور سعد رفیق جبکہ آئی پی پی کی طرف سے عون چوہدری، اسحاق خاکوانی اور نعمان لنگڑیال کمیٹی میں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست پر علیم خان کو سپورٹ کرے گی، ن لیگ عون چوہدری،اسحاق خاکوانی،نعمان لنگڑیال کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کرے گی، لودھراں میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر آئی پی پی کی حمایت کرے گی ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین یا ان کے بیٹے علی ترین لودھراں سے رکنِ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔اگر ن لیگ جہانگیرترین یا انکے بیٹے کی حمایت کرتی ہے تو ن لیگ کو صدیق بلوچ کی قربانی دینا پڑے گی اور اس صورت میں صدیق بلوچ کی جانب سے آزاد حیثیت میں الیکشن متوقع ہے۔ آئی پی پی کے صدر علیم خان اور عون چوہدری لاہور سے قومی اسمبلی کا ایکشن لڑیں گے۔علیم خان کا حلقہ وہی ہے جو یازصادق کا حلقہ ہے جبکہ علیم خان کو این اے 127 لاہور جہاں سے شائستہ پرویز ملک اور انکے شوہر پرویز ملک مرحوم این این اے رہے ہیں، سے بھی الیکشن متوقع ہے۔ یادرہے کہ علیم خان 2002 اور 2008 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن لڑچکے ہیں۔ 2002 میں وہ طاہرالقادری سے ہارگئے تھے جبکہ 2008 میں نصیربھٹہ کے ہاتھوں انکی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ عون چوہدری این اے 128 سے خود کو امیدوار تصور کرتے ہیں جو رانا مبشراقبال کا حلقہ ہے اور عون چوہدری کے بھائی چوہدری امین یہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے تھے او ربعدازاں منحرف ہونے کے بعد ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو ہارگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق خاکوانی وہاڑی سے اور نعمان لنگڑیال ساہیوال سے الیکشن لڑیں گے جبکہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک مضبوط امیدوار کو حلقے میں سامنے لایا جائے گا اور مضبوط امیدوار کے لیے غیر جانبدار سروے بھی کرایا جا سکتا ہے۔ نعمان لنگڑیال کی صورت میں ن لیگ کو چوہدری زاہداقبال اور اسحاق خاکوانی کی صورت میں تہمینہ دولتانہ اور انکے بیٹے کی سیٹ کی قربانی دینا ہوگی جبکہ اس حلقے سے عائشہ نذیر جٹ ایک مضبوط امیدوار تصور کی جاتی ہیں۔ عون چوہدری کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آئندہ دو تین روز میں میٹنگ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کے نام سامنے رکھیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی فردوس عاشق اعوان، فرخ حبیب، غلام محمدلالی، غلام سرور خان، ذوالفقاردُلہ کیلئے بھی سیٹ چاہتی ہے لیکن ماسوائے کسی اور کو دینے کو تیار نہیں نظرآتی جبکہ غلام سرور خان کے نام پر ن لیگ غور کرسکتی ہے۔