وزیراعظم شہباز شریف کی گندم اسکینڈل سے متعلق تحقیقات کیلئے قائم کردہ انکوائری کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور محسن نقوی کو تفتیش کیلئے بلانے کی تردید کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق گندم خریداری کے حوالے سے اسکینڈل سےمتعلق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت لاہور ماڈل ٹاؤن میں اجلاس ہوا، اس موقع پر وزیراعظم نے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کوگندم کی امپورٹ کے حوالے سے شفاف تحقیقات کرنے اور سفارشات مرتب کرکے پیر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے والوں کے نام سامنے لائے جائیں۔
اس موقع پر وزیراعظم نے ریکارڈ اور دستاویزات کو سامنے رکھ کر سفارشات مرتب کرنے کی بھی ہدایات کی اور کہا کہ رپورٹ میں کوئی لگی لپٹی نا رکھی جائے، مجھے ذمہ داروں کا تعین کرکے بتائیں، نگراں دور میں گندم کی درآمد کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور بتائیں کہ گندم درآمد کرنے کی منظوری کس نے دی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنہوں نے زائد گندم درآمد کی ان کے نام بھی سامنے لائے جائیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے اس کی تجاویز بھی مرتب کی جائیں۔ دوسری جانب گندم اسکینڈل پر قائم کردہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو طلب کیےجانے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم انوارالحق کاکڑ کو طلبی کا کوئی نوٹس نہیں ملا اور وفاقی سیکرٹری کابینہ نے بھی گندم انکوائری سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی کو طلب نہیں کیا گیا، ان افراد کو طلب کیےجانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، میں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کررہا ہوں۔
دوسری جانب اپوزیشن لیڈ پنجاب ملک احمد خان بھچر نے مطالبہ کیا ہے کہ انوار الحق کاکڑ کو گرفتار کیا جائے۔منظم طریقے سے گندم درآمد کی گئی۔
شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ اس وقت پنجاب میں باردانہ پہ فی بیگ 5 سو روپے رشوت لی جا رہی ہے، یہ جو آٹا کچھ سستا ہوا ہے اسکا کریڈٹ پنجاب حکومت کو نہیں کسانوں کو جاتا ہے کیونکہ ان سے حکومت نے 39 سو کا وعدہ کیا تھا لیکن آج کسان اپنی گندم 32 سو 3 ہزار میں بیچنے پہ مجبور ہے۔ حکومت نے کسان کو تباہ کر دیا ہے۔