2 وڈا چوھدری(captionistan)(4)
نا جانے گُجر کی جُدائی کا رنج تھا یا ٹھکانہ بدلنے کا اثر گجر کی گائے نے چارہ کھانہ کم کر دیا تھا،
اس کا اثر دودھ پر بھی پڑا،
دوسری طرف گجر بھی گائے کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوے سوچ رہا تھا کہ ایک مریل اور منحوس گھوڑے کو بچاتے ہوئے اپنی پیاری اورمقدس گائے قربان کردی، اب اس گھوڑے کا کرے تو کیا کرے،کیوں کہ کسی کام کاج کا بھی وہ نہ تھا،
وطن عزیز میں گدھوں کےچمڑے اور گوشت کا کاروباراپنے عروج پر دیکھ کر گجر نے ایک بار اس کا بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اور ماکا قسائ کے ہاتھوں اس گھوڑے کا سودا کردینا چاہا مگر ناکام رہا تھا، ایک تو گھوڑے کی صحت اوپر سے خریدار نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ ہم نے ابھی اتنی ترقی نہی کی کہ گھوڑوں پہ آجائیں، پہلے گدھوں میں تجربہ کار ہونے دو۔
نکے چوھدری کو ماکا سے بات اگلوانے کے لیے اس کی چمڑی نہی اُدھیڑنی پڑی، کیوں کہ ماکا دو ٹھڈوں کی مار تھا،
اچھا تو یہ کہانیاں چل رہی ہیں،
ارے میں کس مرض کی دوا ہوں، بڑے بولے ہو پا جی،مجھ سے کہا ہوتا، ایک سے ایک گُر سکھا دیتا،
نکا روداد سننے کے بعد دل میں سوچھتے ہوئے مُسکُرایا
نکے کو وہ وقت یاد آیا جب ابا جی حیات تھے اور اپنے لوہے کی بھٹی چلایا کر تے تھے،کہ ایک دن پنڈ کے سابق سربراہ چوھدری ضیاٗالدین ابا جی کے پاس آئے اور اپنے کام میں ہاتھ بٹانے کے لئےنکے کو ابا جی سے مانگا،
نھیں چوھدری جی یہ میرے بڑے کام کا ہے، آپ بھولےکو لے جائیں، کم بخت مفت کی روٹیاں توڑتا ہے،
ابا جی نے جواب دیا تھا،
وہ بھی کیا دن تھے جب صرف دھوتی میں پنڈ کی گلیوں میں گھومتے تھے،دھوتی وہ بھی ہفتوں کی میلی، آہ۔۔۔۔۔
نکا انہی سوچوں میں گھم تھا کہ باہر کچھ آہٹ ہوئی۔
جاری ہے۔۔
2 yadainیادیں۔ captionistan (6)