jani1
Chief Minister (5k+ posts)
ایک ہندو پیر کا سچا واقعہ
ہمارے گاوں ڈھوک للیال کے ایک طرف نور خان ائیر بیس ہے ۔ دوسری طرف فضائیہ کالونی۔ کورنگ اور غوری ٹاون ہے۔
1967 میں Runway کی ایکسٹینشن کی وجہ سے کچھ زمینیںRun way کے نیچے آ گئیں ۔ ہمارے کھلے کھیت تھے۔
دوسرے طرف اسلام آباد ایکسپریس ہے. اس کےپاس جس ٹیلے پر قائداعظم کا پورٹریٹ بنا ہوا ہے اس کو ہم کٹہڑا کہتے تھے ۔اس پر بھی بیٹھ کر اپنی زمینوں کا نظارہ کرتے تھے۔ اس ٹیلے پر کچھ آثار قدیمہ کے آثار تھے۔ اور اس ٹیلے کے ساتھ ایک اور ٹیلہ تھا جو اب نظر نہیں آتا اوپر فلیٹ بن گئے۔ پتہ نہیں اتنی مٹی کہاں گئی ۔ دونوں ٹیلے ساتھ ساتھ تھے جن کو ہم کٹہرے بولتے تھے ۔ اب ایک بچا ہے جس پر قائداعظم کا پورٹریٹ بنا ہوا ہے اور ساتھ ایمان اتحاد تنظیم لکھا ہے۔
جب چھوٹے تھے تو اس ٹیلے پر بیٹھ کر اپنی زمینوں کا نظارہ کرتے تھے
پرانے وقتوں میں اس ٹیلے پر کوئی آبادی ہو گی۔ لیکن پراپرٹی ڈیلروں نے بلڈوز کر کے فلیٹ اور کالونیاں بنا دیں۔ درالخلافہ بننے سے اسلام آباد ایکسپریس وے بنی اس کے نیچے بھی ہمارے
کھیت تھے۔ سب مٹی کے بھاؤ بکے۔
بچپن میں اس ٹیلے میں تین غار بنے ہوئے تھے جن کو ہم گفیں کہتے تھے۔ خاص اس جگہ پر جہاں Unity لکھا ہوا ہے۔ باہر سے تین غار یا گفیں مٹی کھود کر بنائی گئی تھیں لیکن اندر جا کر تینوں مل جاتی تھیں ۔ تین راستے باہر سے گفوں یا غاروں کے اندر جاتے تھے۔ لیکن اندر ایک کمرے کی طرز پر بنے غار میں مل جاتے تھے ۔شائد ہوا کی آمدو رفت کے لئے کسی نے ڈیزائینگ کی تھی پرانی کوئی آبادی ہو گی ٹوٹے ہوے برتن اور مٹی کے کھلونے بہت بکھرے ہوے ملتے تھے۔ غاروں یا گفوں کا رخ مشرق میں کورنگ کی طرف تھا۔ غاروں کے سامنے ایک صحن بھی تھا یا مٹی کا تھلہ کہہ سکتے ہیں۔ اب یہ غار اور تھلہ نہیں رہا اس کو گول کر کے Unity کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔
1960 سے پہلے راول ڈیم نہیں تھا تو ستمبر ساون کے مہینے میں کورنگ میں بہت سیلاب آتا تھا۔ جس کو ہم پوٹھواری میں ہاڑ کہتے تھے۔ ہم غاروں کے صحن میں کھڑے ہو سیلاب کا نظارہ کرتے تھے۔ بہت خوبصورت لگتا تھا ۔
1965
کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں میٹرک کر چکا تھا۔ جنگ سے پہلے ایک پیر صاحب نے ان گفوں یا غاروں میں ڈیرہ لگایا۔ تعویز جادو کا کام کرنے لگا۔ گلے میں موتیوں کی مالا اور ہاتھ میں تسبیح اورانگوٹھیوں میں نگینے جڑے ہوے تھے۔ قریبی گاوں کی عورتیں اور کچھ ان پڑھ مرد باہر تھلے پر انتظار کرتے اور ایک ایک کر کے پیر صاحب اندر بلاتے۔ اور اس کے پاس بیٹھ کر تعویز اور غیب کی باتیں پوچھتے تھے پیر بات نہیں کرتا تھا۔ خاموشی سے بندے کی طرف دیکھتا اور کاغذ پر کچھ الٹی سیدھی لکیروں مار کر تعویز بنا کر دے دیتا۔ لوگوں کو کہتے ہوے سنا تھا کہ بہت پہنچا ہوا پیر ہے اس کے ہاتھ میں بہت شفا ہے۔ سارے علاقے میں مشہور ہو گیا کہ کوئی بہت بڑا پیر ہے۔ کافی لوگ چڑھاوے اور کھانا وغیرہ دے آتے تھے۔ 1965 کی لڑائی کے دوران آئیر اٹیک ہوا انڈیا کا بمبار کینبرا نے تین چار بم پھینکے لیکن بیس سے کافی دور پھینکے جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ستمبر میں کو رنگ میں کافی پانی تھا۔ راول ڈیم اور اسلام آباد نہیں بنا تھا۔ پانی چمکتا دیکھ کر کو رنگ میں بم پھینک کر بھاگ گئے۔
سکیورٹی فورسز نے کچھ پیغام جو کسی وائرلیس سیٹ سے دیا گیا تھا ڈیٹیکٹ کیا۔ اس علاقے کی سرچ ہوئی تو معلوم ہوا یہ وائرلیس پیغام ان غاروں سے کیا گیا ہے۔ تلاشی کی گئی تو پیر صاحب سے ایک وائرلیس سیٹ برآمد ہوا۔ سکیورٹی فورسز نے اس کو گرفتار کیا۔ اور تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ یہ تو مسلمان ہی نہیں ہے۔ اس کی سنتیں اور ختنہ بھی نہیں ہوا تھا۔
یہ ایک ہندو جاسوس تھا۔ جس نے پیر کا روپ دھارا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ انڈین آرمی میں میجر تھا اور جاسوسی کے لئے بیس کے قریب ان غاروں میں اپنا ڈیرہ بنایا۔ دن کو تعویز لکھتا اور رات کو وائرلیس پر پیغام بھیجتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو لوگوں کو سمجھ آئی کہ ہمیں کتنا گمراہ کیا گیا تھا ۔ لوگ اور عورتیں تو اس وقت ویسے ہی پیر پرست تھے
تحریر راجہ قدیر

1967 میں Runway کی ایکسٹینشن کی وجہ سے کچھ زمینیںRun way کے نیچے آ گئیں ۔ ہمارے کھلے کھیت تھے۔
دوسرے طرف اسلام آباد ایکسپریس ہے. اس کےپاس جس ٹیلے پر قائداعظم کا پورٹریٹ بنا ہوا ہے اس کو ہم کٹہڑا کہتے تھے ۔اس پر بھی بیٹھ کر اپنی زمینوں کا نظارہ کرتے تھے۔ اس ٹیلے پر کچھ آثار قدیمہ کے آثار تھے۔ اور اس ٹیلے کے ساتھ ایک اور ٹیلہ تھا جو اب نظر نہیں آتا اوپر فلیٹ بن گئے۔ پتہ نہیں اتنی مٹی کہاں گئی ۔ دونوں ٹیلے ساتھ ساتھ تھے جن کو ہم کٹہرے بولتے تھے ۔ اب ایک بچا ہے جس پر قائداعظم کا پورٹریٹ بنا ہوا ہے اور ساتھ ایمان اتحاد تنظیم لکھا ہے۔

جب چھوٹے تھے تو اس ٹیلے پر بیٹھ کر اپنی زمینوں کا نظارہ کرتے تھے

کھیت تھے۔ سب مٹی کے بھاؤ بکے۔

بچپن میں اس ٹیلے میں تین غار بنے ہوئے تھے جن کو ہم گفیں کہتے تھے۔ خاص اس جگہ پر جہاں Unity لکھا ہوا ہے۔ باہر سے تین غار یا گفیں مٹی کھود کر بنائی گئی تھیں لیکن اندر جا کر تینوں مل جاتی تھیں ۔ تین راستے باہر سے گفوں یا غاروں کے اندر جاتے تھے۔ لیکن اندر ایک کمرے کی طرز پر بنے غار میں مل جاتے تھے ۔شائد ہوا کی آمدو رفت کے لئے کسی نے ڈیزائینگ کی تھی پرانی کوئی آبادی ہو گی ٹوٹے ہوے برتن اور مٹی کے کھلونے بہت بکھرے ہوے ملتے تھے۔ غاروں یا گفوں کا رخ مشرق میں کورنگ کی طرف تھا۔ غاروں کے سامنے ایک صحن بھی تھا یا مٹی کا تھلہ کہہ سکتے ہیں۔ اب یہ غار اور تھلہ نہیں رہا اس کو گول کر کے Unity کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔

1960 سے پہلے راول ڈیم نہیں تھا تو ستمبر ساون کے مہینے میں کورنگ میں بہت سیلاب آتا تھا۔ جس کو ہم پوٹھواری میں ہاڑ کہتے تھے۔ ہم غاروں کے صحن میں کھڑے ہو سیلاب کا نظارہ کرتے تھے۔ بہت خوبصورت لگتا تھا ۔



یہ ایک ہندو جاسوس تھا۔ جس نے پیر کا روپ دھارا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ انڈین آرمی میں میجر تھا اور جاسوسی کے لئے بیس کے قریب ان غاروں میں اپنا ڈیرہ بنایا۔ دن کو تعویز لکھتا اور رات کو وائرلیس پر پیغام بھیجتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو لوگوں کو سمجھ آئی کہ ہمیں کتنا گمراہ کیا گیا تھا ۔ لوگ اور عورتیں تو اس وقت ویسے ہی پیر پرست تھے


