بونگہ بخیل

Syaed

MPA (400+ posts)
بونگہ بخیل

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے قائد پٹواریان و رئیس چولان بونگہ المعروف بونگہ بخیل ایک سیاسی پارٹی کے قائد بھی ہیں۔آج کل وہ لندن سے بہت ہی پر مغز خطابات کرکے اس “ناقدری” قوم کو جگانے کا کام کررہے ہیں جس پہ حکومت کرنے کے لیے وہ اکثر آتے رہتے ہیں اور مدت اقتدار ختم ہونے پہ اپنے دودھ شریک بھائی جو کسی زمانے میں سب پہ بھاری ہوا کرتے تھے،زمام اقتدار ان کے حوالے کرکےاپنے گھر لندن چلے جاتے ہیں۔آج کل ان کی زندگی کا سب سے بڑا مطمح نظر اپنی ایک بوڑھی صاحبزادی(میں کچھ غلط بول گیا ہوں شاید)کو نوجوان بچی ظاہر کرنا اور ان کی اپنے گھر لندن واپسی کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ دونوں لندن میں بیٹھ کے اس “نا قدری قوم” اور ان پہ مسلط حکمرانوں کے بخیے ادھیڑ سکیں۔

پچھلے دنوں بونگے کے ساتھ لندن کے ایک کیفے میں ملاقات ہوئی تو خوب ہشاش بشاش اور صحت مند نظر آرہے تھے بلکہ میری آمد کافائدہ اٹھاتے ہوئے خوب مرچ مصالحے سے مزین کھانے آرڈر کرنے لگ گئے۔میں نے موقعے کی مناسبت سے بونگے کو ان کے پسندیدہ ٹاپک یعنی پاکستانی سیاست اور ریاست پہ تبادلۂ خیال کی دعوت دی۔ان کی باچھیں کھل گئیں اور مجھے لگنے لگا کہ آج بونگہ گھنگھرو توڑکے بونگیاں مارے گا۔

بونگہ بہت فخر سے اپنی تقاریر کا زکر کرنے لگا جو ان کے بقول ریاست گریز مگر ریاست گر طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں کیونکہ بقول ان کے سچ بہت ہی کڑوا ہوتا ہے۔جب ان کی توجہ ماضی بعید میں ان کی بونگیوں کی طرف دلائی جن میں وہ ایک مرحوم جنرل کے مشن کی تکمیل کا وعدہ کرتے نظر آئے تو بونگے نے ریستوران کے اندر بننے والی کڑاہی گوشت کی تعریف شروع کردی اورویٹر کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ جلدی سے کھانا لے آئے۔اسی دوران وہ شروع سے لے کر آج تک فوجی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا زکرکرنا شروع ہوگئے۔مگر جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ ان کے خیال میں ایک متحرک جمہوری نظام کیسا ہونا چاہیے تو بونگہ بجائےبراہ راست جواب دینے کے اپنے دور حکومت میں بننے والے موٹر ویز کا زکر کرنے لگ گیا اور اپنی بیٹی کو پاکستان کی امیدوں کا مرکزقرار دے دیا اور عمران کے ان مشیروں کو لتاڑنے شروع کردیا جو بقول ان کے غیر منتخب تھے اس لیے عوام کو جوابدہ نہیں تھے۔جب بونگے کو یاد دلایا کہ ان کی پہلی وزارت کونسی تھی اور کیسے ملی تھی تو کہنے لگے کہ آپ نے گھڑی بہت اچھی پہنی ہوئی ہے۔اسی دوران کھانا آگیا اور وہ بجائے سوال جواب کے کھانے پہ ٹوٹ پڑے اور میری پلیٹ میں بھی زبردستی بوٹیاں ڈالنے لگ گئے۔

جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو میں نے انہیں بتائے بغیر کہ یہ بیان کس کی طرف سے تھے،انہیں براہمداغ بگٹی،ایاز صادق اور ان کےاپنے بیانات پڑھ کر سنائے،اس پہ وہ بغیر پوچھے کہ یہ بیانات کس کے ہیں یہ کہنا شروع ہوگئے کہ دیکھ لو اب حکومت بھی ہمارےبیانیہ پہ چلنا شروع ہوگئی ہے اور اس سے مریم کی جیت ہوئی ہے۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ،بونگہ خود ہی کہنے لگا کہ حکومت شکست خوردہ نظر آتی ہے اور مجھے کہنے لگا کہ آپ نہ بھی بتائیں تو بھی مجھے معلوم ہے کہ یہ بیانات فواد چوہدری،شہزاد اکبراور شبلی فراز کے ہیں۔مگر جب میں نے اخبارات میں بونگے اور اس کی بیٹی کے بیانات دکھائے اور وضاحت کی کہ جن بیانات کو وہ حکومتی غداری کہہ رہے تھے وہ ان کے اور ایاز صادق کے بیانات تھے۔مگر بونگہ تو پھر بونگہ ہے جس شخص کو اپنے ہی محسنوں کےخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے شرم نہ آتی ہو وہ بھلا غداری کے بیانات پہ کیسے شرم سار ہوسکتا تھا؟سو بونگہ جھٹ سے کہنےلگا کہ یہ بیانات بالکل درست تھے اور یہی ان کا بیانیہ تھا۔جب بونگے کی توجہ براہمداغ بگٹی کے بیانات کی طرف دلائی اور ثناءاللہ زہری کی جانب سے اختر مینگل پہ لگائے جانے والے الزامات پڑھ کر سنائے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے براہمداغ بگٹی کی توسیق کی اور ثناءاللہ زہری کے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کردی۔جب بونگے کو یاد دلایا کہ وہ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور براہمداغ بگٹی کی سیاسی پناہ کے خلاف ان کی اپنی حکومت نے کام کیا ہوا ہے تو انہوں بغیر کسی حیل و حجت کے اس کا م کی پوری ذمہ داری چوہدری نثار علی خان پہ ڈال دی اور کہنے لگا کہ میرا بس چلتا تو میں بلوچستان کو آزاد کردیتا۔

اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا کیونکہ بونگیاں مارنا تو ایک نارمل روٹین تھی بونگے کے لیے مگر اب وہ باقاعدہ بکواس کرنے لگ گیا تھا۔جب میں نے انہیں یاد دلایا کہ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی انہوں نے فوج کے سربراہ کو توسیع دینے پہ ووٹ دیا تھا اوراب اسی سربراہ پہ کیچڑ اچھال رہے تھے تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ مجھے سبز چائے پسند ہے یا کالی؟میں کچھ کہتا اس سےپہلے ہی ایک سر پھرا پاکستان پلٹ نوجوان وہاں آ دھمکا اور اس نے بونگے کو ادھیڑ کے رکھ دیا۔

نوجوان نے نہایت ہی دھیمے مگر سرد لہجے میں بونگے سے کہا “کہ آپ سیاستدان کیا سمجھتے ہو کہ پاکستان آپ کے بغیر نہیں چل سکتا یا لوگ آپ کو بہت مس کر رہے ہیں ؟آپ کو آپ کی بے ہودہ پارٹی کے بکاؤ ممبران کے علاوہ صرف میر حامد نجم سیٹھی اور میرشکیل ہی مس کررہے ہیں۔عوام کو پہلے بھی چھتر پڑتے تھے اب بھی پڑتے ہیں،ہم پہلے بھی بے روزگار تھے اب بھی ہیں،گیس پہلےبھی نہیں آتی تھی اب بھی وہی حال ہے،پیٹرول کی لائن پہلے بھی لگتی تھی اور اب بھی کچھ عرصہ پہلے وہی ہوا تھا۔آپ اتنی بونگیاں صرف اس لیے مارتے ہو کیونکہ اقتدار سے باہر رہنا آپ کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔غداروں کے سینگ نہیں نکلا کرتے مگر جو بکواس تم اور تمہارے اتحادی کررہے ہیں ویسی باتیں براہمداغ نے کیں تو انہیں تم نے بھی غدار کہا تو پھر ویسی ہی بکواس کرنے پہ تم غدار کیوں نہیں ہو؟صرف اس لیے کہ تم زیادہ لوگوں کو بریانی کھلا کر اکٹھا کرسکتے ہو اور تمہارا تعلق پنجاب سے ہے؟تمہارا اورزرداری کا گھٹیا خاندان صرف حکومت کرنے کے لیے ہی پاکستان کیوں آتا ہے؟ایک بات یاد رکھو اس ملک کو کچھ ہوا تو ہمیں معلوم ہےکہ تم اور زرداری خاندان کہیں اپنے اپنے ملکوں میں جاسکتے ہو مگر سب سے زیادہ نقصان ہم عام لوگوں کا ہوگا۔اس لیے تم جانو اورتمہارے پنجابی جنرل جانیں مگر خبردار پاکستان کو کچھ ہوا تو تمہیں اور تمہاری نسلوں کو یہ عوام ہی عبرت کا نشان بنانے کے لیےکافی ہے”


نوجوان نے بغیر لگی لپٹی کے اپنی باتیں تیر کی طرح بونگے کے سینے میں پیوست کردی تھیں اور یہ صورتحال دیکھتے ہی بونگے کےبیٹے مہابونگے نے یہ کہتے ہوئے بونگے کو اٹھنے کے لیے کہا کہ اباجی پاکستانی بہت ناقدرے لوگ ہیں چلیں آپ کی دوائی کا ٹائم ہوگیاہے۔بونگہ چلاگیا مگر نوجوان کی باتیں میرے دل میں بھی تیر ہوچکی تھیں۔
 
Last edited by a moderator:

Jurist

Politcal Worker (100+ posts)
بونگہ بخیل

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے قائد پٹواریان و رئیس چولان بونگہ المعروف بونگہ بخیل ایک سیاسی پارٹی کے قائد بھی ہیں۔آج کل وہ لندن سے بہت ہی پر مغز خطابات کرکے اس “ناقدری” قوم کو جگانے کا کام کررہے ہیں جس پہ حکومت کرنے کے لیے وہ اکثر آتے رہتے ہیں اور مدت اقتدار ختم ہونے پہ اپنے دودھ شریک بھائی جو کسی زمانے میں سب پہ بھاری ہوا کرتے تھے،زمام اقتدار ان کے حوالے کرکےاپنے گھر لندن چلے جاتے ہیں۔آج کل ان کی زندگی کا سب سے بڑا مطمح نظر اپنی ایک بوڑھی صاحبزادی(میں کچھ غلط بول گیا ہوں شاید)کو نوجوان بچی ظاہر کرنا اور ان کی اپنے گھر لندن واپسی کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ دونوں لندن میں بیٹھ کے اس “نا قدری قوم” اور ان پہ مسلط حکمرانوں کے بخیے ادھیڑ سکیں۔

پچھلے دنوں بونگے کے ساتھ لندن کے ایک کیفے میں ملاقات ہوئی تو خوب ہشاش بشاش اور صحت مند نظر آرہے تھے بلکہ میری آمد کافائدہ اٹھاتے ہوئے خوب مرچ مصالحے سے مزین کھانے آرڈر کرنے لگ گئے۔میں نے موقعے کی مناسبت سے بونگے کو ان کے پسندیدہ ٹاپک یعنی پاکستانی سیاست اور ریاست پہ تبادلۂ خیال کی دعوت دی۔ان کی باچھیں کھل گئیں اور مجھے لگنے لگا کہ آج بونگہ گھنگھرو توڑکے بونگیاں مارے گا۔

بونگہ بہت فخر سے اپنی تقاریر کا زکر کرنے لگا جو ان کے بقول ریاست گریز مگر ریاست گر طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں کیونکہ بقول ان کے سچ بہت ہی کڑوا ہوتا ہے۔جب ان کی توجہ ماضی بعید میں ان کی بونگیوں کی طرف دلائی جن میں وہ ایک مرحوم جنرل کے مشن کی تکمیل کا وعدہ کرتے نظر آئے تو بونگے نے ریستوران کے اندر بننے والی کڑاہی گوشت کی تعریف شروع کردی اورویٹر کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ جلدی سے کھانا لے آئے۔اسی دوران وہ شروع سے لے کر آج تک فوجی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا زکرکرنا شروع ہوگئے۔مگر جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ ان کے خیال میں ایک متحرک جمہوری نظام کیسا ہونا چاہیے تو بونگہ بجائےبراہ راست جواب دینے کے اپنے دور حکومت میں بننے والے موٹر ویز کا زکر کرنے لگ گیا اور اپنی بیٹی کو پاکستان کی امیدوں کا مرکزقرار دے دیا اور عمران کے ان مشیروں کو لتاڑنے شروع کردیا جو بقول ان کے غیر منتخب تھے اس لیے عوام کو جوابدہ نہیں تھے۔جب بونگے کو یاد دلایا کہ ان کی پہلی وزارت کونسی تھی اور کیسے ملی تھی تو کہنے لگے کہ آپ نے گھڑی بہت اچھی پہنی ہوئی ہے۔اسی دوران کھانا آگیا اور وہ بجائے سوال جواب کے کھانے پہ ٹوٹ پڑے اور میری پلیٹ میں بھی زبردستی بوٹیاں ڈالنے لگ گئے۔

جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو میں نے انہیں بتائے بغیر کہ یہ بیان کس کی طرف سے تھے،انہیں براہمداغ بگٹی،ایاز صادق اور ان کےاپنے بیانات پڑھ کر سنائے،اس پہ وہ بغیر پوچھے کہ یہ بیانات کس کے ہیں یہ کہنا شروع ہوگئے کہ دیکھ لو اب حکومت بھی ہمارےبیانیہ پہ چلنا شروع ہوگئی ہے اور اس سے مریم کی جیت ہوئی ہے۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ،بونگہ خود ہی کہنے لگا کہ حکومت شکست خوردہ نظر آتی ہے اور مجھے کہنے لگا کہ آپ نہ بھی بتائیں تو بھی مجھے معلوم ہے کہ یہ بیانات فواد چوہدری،شہزاد اکبراور شبلی فراز کے ہیں۔مگر جب میں نے اخبارات میں بونگے اور اس کی بیٹی کے بیانات دکھائے اور وضاحت کی کہ جن بیانات کو وہ حکومتی غداری کہہ رہے تھے وہ ان کے اور ایاز صادق کے بیانات تھے۔مگر بونگہ تو پھر بونگہ ہے جس شخص کو اپنے ہی محسنوں کےخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے شرم نہ آتی ہو وہ بھلا غداری کے بیانات پہ کیسے شرم سار ہوسکتا تھا؟سو بونگہ جھٹ سے کہنےلگا کہ یہ بیانات بالکل درست تھے اور یہی ان کا بیانیہ تھا۔جب بونگے کی توجہ براہمداغ بگٹی کے بیانات کی طرف دلائی اور ثناءاللہ زہری کی جانب سے اختر مینگل پہ لگائے جانے والے الزامات پڑھ کر سنائے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے براہمداغ بگٹی کی توسیق کی اور ثناءاللہ زہری کے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کردی۔جب بونگے کو یاد دلایا کہ وہ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور براہمداغ بگٹی کی سیاسی پناہ کے خلاف ان کی اپنی حکومت نے کام کیا ہوا ہے تو انہوں بغیر کسی حیل و حجت کے اس کا م کی پوری ذمہ داری چوہدری نثار علی خان پہ ڈال دی اور کہنے لگا کہ میرا بس چلتا تو میں بلوچستان کو آزاد کردیتا۔

اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا کیونکہ بونگیاں مارنا تو ایک نارمل روٹین تھی بونگے کے لیے مگر اب وہ باقاعدہ بکواس کرنے لگ گیا تھا۔جب میں نے انہیں یاد دلایا کہ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی انہوں نے فوج کے سربراہ کو توسیع دینے پہ ووٹ دیا تھا اوراب اسی سربراہ پہ کیچڑ اچھال رہے تھے تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ مجھے سبز چائے پسند ہے یا کالی؟میں کچھ کہتا اس سےپہلے ہی ایک سر پھرا پاکستان پلٹ نوجوان وہاں آ دھمکا اور اس نے بونگے کو ادھیڑ کے رکھ دیا۔

نوجوان نے نہایت ہی دھیمے مگر سرد لہجے میں بونگے سے کہا “کہ آپ سیاستدان کیا سمجھتے ہو کہ پاکستان آپ کے بغیر نہیں چل سکتا یا لوگ آپ کو بہت مس کر رہے ہیں ؟آپ کو آپ کی بے ہودہ پارٹی کے بکاؤ ممبران کے علاوہ صرف میر حامد نجم سیٹھی اور میرشکیل ہی مس کررہے ہیں۔عوام کو پہلے بھی چھتر پڑتے تھے اب بھی پڑتے ہیں،ہم پہلے بھی بے روزگار تھے اب بھی ہیں،گیس پہلےبھی نہیں آتی تھی اب بھی وہی حال ہے،پیٹرول کی لائن پہلے بھی لگتی تھی اور اب بھی کچھ عرصہ پہلے وہی ہوا تھا۔آپ اتنی بونگیاں صرف اس لیے مارتے ہو کیونکہ اقتدار سے باہر رہنا آپ کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔غداروں کے سینگ نہیں نکلا کرتے مگر جو بکواس تم اور تمہارے اتحادی کررہے ہیں ویسی باتیں براہمداغ نے کیں تو انہیں تم نے بھی غدار کہا تو پھر ویسی ہی بکواس کرنے پہ تم غدار کیوں نہیں ہو؟صرف اس لیے کہ تم زیادہ لوگوں کو بریانی کھلا کر اکٹھا کرسکتے ہو اور تمہارا تعلق پنجاب سے ہے؟تمہارا اورزرداری کا گھٹیا خاندان صرف حکومت کرنے کے لیے ہی پاکستان کیوں آتا ہے؟ایک بات یاد رکھو اس ملک کو کچھ ہوا تو ہمیں معلوم ہےکہ تم اور زرداری خاندان کہیں اپنے اپنے ملکوں میں جاسکتے ہو مگر سب سے زیادہ نقصان ہم عام لوگوں کا ہوگا۔اس لیے تم جانو اورتمہارے پنجابی جنرل جانیں مگر خبردار پاکستان کو کچھ ہوا تو تمہیں اور تمہاری نسلوں کو یہ عوام ہی عبرت کا نشان بنانے کے لیےکافی ہے”


نوجوان نے بغیر لگی لپٹی کے اپنی باتیں تیر کی طرح بونگے کے سینے میں پیوست کردی تھیں اور یہ صورتحال دیکھتے ہی بونگے کےبیٹے مہابونگے نے یہ کہتے ہوئے بونگے کو اٹھنے کے لیے کہا کہ اباجی پاکستانی بہت ناقدرے لوگ ہیں چلیں آپ کی دوائی کا ٹائم ہوگیاہے۔بونگہ چلاگیا مگر نوجوان کی باتیں میرے دل میں بھی تیر ہوچکی تھیں۔
Perhaps you forgot to mention that Bonga also did not pay the bill for food proving to be Bakheel. Because he is habitual of inviting for meal on public expense.?
 

ranaji

President (40k+ posts)
دونوں حرامی پیو پتر فوٹو میں ہاتھ ملا رہے ہیں اس حرام زادے نواز شریف امرتسری بھڑوے اور کنجر دلے ہاراں ولد ولد نامعلوم کے پڑپوتے کا امرتسری رام گلی کا غلیظ ناپاک اور حرامی خون جب بھی جوش مارتا ہے یہ حرام زادہ نواز شریف رام گلی امرتسر والا پاکستان کی فوج کے خلاف بھونکنا شروع کر دیتا ہے غلیظ اور ناپاک حرامی خون والا حرامی ٹبر