خواہش

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

"خواہش" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر:جانی۔

کڑکتی دھُوپ اور ناہموار سی سڑک پر سلیم دُوکانداروں کے سامان سے لدی ریڑھی کھینچے جارہا تھا۔ ریڑھی کے پہیئوں کی گڑگڑاہٹ اور بے ترتیب سی چال سے اُن پہیوں کی ضعیفی کا پتہ چلتا تھا۔ جس سے ریڑھی کو کھینچنے کے عمل میں مزید قوت درکار ہوتی تھی۔مگر اُس کے ناتواں وجُود کو قوت اور دھُوپ میں پڑی برف کی طرح پھگلتی عُمر کو وقت کی قلت کا ہی تو سامنا تھا۔۔

پھر بھی وہ اپنی بساط کے مُطابق زندگی کی وہ لڑائی لڑ رہا تھا ۔جس میں ڈھال بھی وہ خُود تھا تو تلوار بھی وہ خُود۔ پیادہ بھی وہ خُود تھا تو گُھڑسوار بھی وہ خُود۔ سپاہی بھی وہ خُود تھا تو سپاہ سالار بھی وہ خُود۔ ایسی لڑائی لڑنے کے لیئے جس طاقت کی ضرُورت ہوا کرتی ہے وہ ایمان کی طاقت ہوتی ہے۔ ورنہ آدمی ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جایا کرتا ہے۔

حالات خراب اور زندگی سخت ضرُور تھی مگر اتنی بھی نہیں کہ وہ بھُوکا ہی مرجاتا۔۔بھلا ہو چند دریا دل قسم کے سیٹ دُکانداروں کا۔ جو حلق تک قورمے و بریانیوں و چکن کبابو سے بھر جانے کے بعد اس جیسے کمیں کمینوں کو اپنا بچا کُچا کھانا کھانے کو دے دیتے تھے۔۔ بے شک اُس رزاق کے ہاں رزق کی کمی نہیں ۔ شاید وہ آزما رہا تھا ۔ ان بھوکے ننگوں کو اس طرح اور اُن دریا دل بے شرم و بے ننگوں کو اُس طرح رزق دے کر۔

ان سخی دُکانداروں و کاروباریوں میں کُچھ صاحبان قدرے نرم دل والےبھی تھے۔ اُن کے دل کی نرمی اگر خالصتا اپنی بیگمات و اُن کی ضرُوریات و خواہشات کے لیئے تھی تو اس میں حرج ہی کیا تھا۔ جن کے میک اپ کے خرچے سے ہی کئی سلیموں کے گھروں کا چولہا جل سکتا تھا ۔ اُن کے دل کی نرمی و گرمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا تھا کہ ان میں سے اکثر کی بیگمات نے کُتے بلی ایڈاپٹ یعنی گود لیئے ہوئے تھے۔ جن کی دیکھ بھال کے لیئے الگ سے نوکر چاکر تھے۔ اس طرح وہ ایک وقت میں زمانے کے دو مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک تو بے چارے و بے سہارہ کُتے بلیوں کو رہائش و آسائش فراہم کر رہے تھے تو دُوسری طرف بے روزگاروں کو روزگار۔

۔۔یہ لو۔ اور دو گھنٹے بعد آنا یہاں سے کُچھ مال گودام واپس لے جانا ہے۔۔
اُن نرم دلوں میں سے ایک نرم دل سیٹھ اکبر نے سلیم کے پھیرے کے پیسے احسان جتلانے والے انداز میں دیتے ہوئے حُکم صادر فرمایا۔ تو وہ اپنے کندھے پر پڑے رومال سے پسینہ پونچتے ہوئے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے روانہ ہونے لگا۔ روانہ ہونے سے پہلے اُس نے رقم گنی جو پہلے کی طرح کام کے حساب سے کم تھی۔اُس کا جی چاہا کہ اس بار پلٹ کر سیٹھ کو مُناسب پیسوں کا بولے مگر پھر کام کے دوبارہ نہ ملنے کے ڈر سے رُک گیا۔کیونکہ مارکیٹ میں سیٹھ اکبر ہی تھا جس کے پاس اس کے لیئے تھوڑا بہت کام آتا تھا۔ باقی دوکانداروں کے پاس اس کے لیئے کام کم ہی ہوتا تھا کیونکہ اُن کا اکثرمال کُچھ بھاری سا ہوتا تھا جسےاس کا ناتواں
اور ضعیف وجُود کھیچنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔

وہ ریڑی کھینچتے کھینچتے جب تھک گیا۔ اور اُس کا کام تقریبا مُک گیا ۔ تو قریبی مسجد میں نماز اور اُس کے بعد کُچھ دیر سستانےکی غرض سے داخل ہُوا۔ معمُول کے مُطابق اُس نے نماز ادا کی ۔ اور ایک دریا دل کی دی ہوئی بچی کُچی روٹی کھائی۔
۔.......................................
سلیم کی ریل گاڑی اُس کے گاوں کے اسٹیشن پہنچی تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھا اور گاڑی کے دروازے پر ایک ساعت کے لیئے رُکا ۔۔ آنکھ بند کرکے گاوں کی ہوا کو پھیپڑوں میں کھینچتے ہوئے مُسکُرایا کہ آگیا اپنے گھر۔ اسٹیشن سے سیدھے گھر کی راہ لی ۔گھر پہنچا تو گھر والے اُسے اپنے درمیان یوں اچانک پا کر خوشی سے جھُوم اُٹھے کیونکہ اُنہیں بھی سلیم کی آمد کا یقین نہیں ہورہا تھا۔
اُس کی آنکھیں بھی اپنوں کی قُربت پاکر کُچھ نم سی ہوئیں۔ اور ۔۔
زررر۔بزرررر۔۔یہ اُس کے تینتیس دس ٹائپ موبائل میں لگائی گئی وائبریشن تھی جس نے اس کی آنکھ کھولی۔

نماز کے بعد جب وہ کمر سیدھی کر کے لیٹا تو اُس کی آنکھ لگ گئی۔ مزدُور ہو یا نہ ہو مگر جو حق حلال کی کمائے تو رات ہو کہ دن اُسے نیند پُرسکون آتی ہے۔ دُوسری صُورت میں باقی اشیا کی طرح ،دولت سے نیند کو بھی خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اکثر کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔

وہ جلدی سے اُٹھا۔ اور مسجد سے نکلتے ہوئے کال ریسیو کی۔ دُوسری طرف سیٹھ اکبر دھاڑ رہا تھا۔ کہ کہاں مر گئے اتنی دیر کرادی ۔ اور ساتھ میں دوچار نازیبا الفاظ کا تڑکا بھی لگایا۔ سلیم بس اتنا ہی کہہ سکا کہ ۔ ابھی آتا ہوں۔ معاف کرنا صاحب ۔
مگر ریڑی کو اپنی پارکنگ سے نکالتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ سیٹھ نے تو دو گھنٹوں کا وقت دیا تھا پھر ایسی کیا قیامت آگئی۔

سلیم یہ سب سوچتے ہوئے پریشانی کے عالم میں سیٹھ کی دُکان پر پہنچا۔سیٹھ اس کی شکل دیکھتے ہی دُبارہ سے شُروع ہوا۔۔

سلوُ ۔۔۔ نا جانے کہاں مر گیا تھا تُو۔۔ اتنی دیر سے انتظار کررہے ہیں تیرا۔
درحقیقت سیٹھ کو بیگم صاحبہ کے ساتھ کہیں جانا تھا جو وقت سے پہلے ہی آپہنچی تھیں۔ مگر کام نمٹائے بغیر جانا بھی ممکن نہ تھا۔ اور کھانے کے وقت مارکیٹ کے باقی مزدُور یا ریڑی والے بھی غائب تھے۔

ٹھیک ہے سیٹھ صاحب ابھی مال اٹھائے دیتا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ جب سلیم نے بیگم صاحبہ کو دُکان کے باہر کھڑی گاڑی میں پایا تو وہ کہانی سمجھ گیا۔ چونکہ سلیم کافی عرصے سے اس مارکیٹ میں کام کرتا تھا اس لیئے بہت سے لوگوں سے اس کی دُعا سلام بن گئی تھی خاص طور پر نوکر طبقے سے۔اُن میں سیٹھ کا ذاتی ڈرائیور آصف بھی تھا جس نے اسے ایک دن گپ شپ میں بتا دیا تھا کہ سیٹھ کا اپنی خواہشات کو بیگم صاحبہ کی خواہشات پر قُربان کرنا اُن کا شوق نہیں بلکہ مجبُوری ہے۔کیونکہ وہ پیدائشی زن مُرید ہیں۔ بیگم صاحبہ کو تھوڑی دیر انتظار کرانا اُنہیں بڑا مہینگا پڑتا ہے۔ ایک بار تو باقاعدہ سرونٹ کوارٹرز میں ہمارے ساتھ رات گُزارنا پڑ گئی تھی۔

بس تھوڑی دیر اور پھر نکلتے ہیں۔ سیٹھ اکبر نے گاڑی کے قریب جاکر بیگم صاحبہ سےمُسکُرا کر سرگوشی کی۔ جو گاڑی کے پاس ہی کھڑے ڈرائیور کے زیرو زیرو سیون نُما کانوں سےبچ نہ سکی۔ اور وہ دل ہی دل میں مُسکُرادیا ۔
دوسری طرف سلیم کے کان پر تو کُچھ نہ پڑا مگر اُس کی ترچھی آنکھ نے سیٹھ کا التجائیہ انداز دیکھ لیا اور وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی ابھی فرعُون کے لہجے میں بات کرنے والا ایک دم سے کیسے بکری بن گیا۔

پھر سیٹ پر ترس کھاتے ہوئے اُس نے جلدی سےاُس کا سامان اُس کے گودام مُنتقل کرکے کام نمٹایا تاکہ بیچارے کی مُشکل آسان ہو۔۔کام ختم کرنے کے بعد ریڑی واپس لا کر اُسے پارک کرکے تالا لگایا۔اُس کے بعد وہ چائے کے کھوکھے پر پہنچا ایک پیالی چائے پینے ۔

یراسلیم ۔۔ آج تو تیرا سیٹھ جلدی چلا گیا۔ کام کی چُھٹی پھر۔۔؟۔
چائے والے نے سلیم کو گرم چائے کی پیالی تھماتے ہوئے پُوچھا۔
ہاں ۔ آج ویسے بھی میرا کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ مالی حالت کی وجہ سے رمضان کے بعد عید پر بھی جا نہیں پایا تھا۔ اب سوچھتا ہوں کُچھ بھی ہو۔ اس بقر عید پر ضرُور جاونگا۔۔سیلم نے چائے کو ساسر میں اُنڈھیل کرچُسکی لیتے ہوئے جواب دیا ۔

اس طرح گپ شپ لگاتے عصر کی اذان ہونے لگی۔ وہ چائے والے کو سلام کرتے ہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ نماز کے بعد ایک ہی دُعا تھی کہ۔۔ اے رب تُو اتنی مالی طاقت دے کہ میں گاوں جاسکوں۔۔

وہ جیسے ہی مسجد سے نکلا تو ایک گاڑی کی ٹکر سے دُور جا گرا۔ گاڑی والا
شاید خُدا ترس تھا کہ موقع ملنے کے باوجُود اُس نے گاڑی کو بجائے بھگانے کے ،اسےروک لیا۔ پھر سلیم کو قریب جمع ہونے والوں کی مدد سے اُٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گیا۔

سلیم کو بظاہر کوئی خاص چوٹ نہیں آئی تھی مگر گاڑی سے ٹکرانے پر سر زمین سے جالگا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا ۔۔ ڈاکٹروں کی تھوڑی سی کوشش نے اُسےہوش میں لایا۔اور گاڑی والے کی جان میں جان آئی۔
مزید مُعائینے کے بعد ڈاکٹروں نے اُسے جانے کی اجازت دی۔ اور ساتھ میں گاڑی والے کی طرف سے اتنی رقم بھی ملی کہ وہ گاوں جاسکے۔
سلیم نے پہلے تو رقم لینے سے انکار کیا یہ کہہ کر کہ آپ نے ٹکر کے بعد ہسپتال لایا ۔ اتنا وقت اور پیسہ برباد کیا ۔ یہی کافی تھا۔ ۔ مگر اُس کے اسرار پر شُکریہ ادا کرتے ہوئے رقم لینا ہی پڑی۔

ساتھ ہی آسمان کی طرف دیکھ کر زیر لب کہنے لگا۔ کہ اے پروردگار تُو کتنا بڑا بادشاہ ہے۔کیسے لمحوں میں ہماری خواہشات پُوری کرتا ہے۔ دینے پر آجائے تو پل بھر میں وہ کُچھ دے دیتا ہے جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ بس ہماری ہی کوتاہیاں ہیں کہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔۔
گاڑی والے کے پُوچھنے پر کہ بابا آپ کہاں جاو گے۔ میں پہنچا دیتا ہوں۔ تو اُس کا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔۔ریلوے سٹیشن
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
اس قصے کے سیٹھوں کی طرح۔۔۔۔۔اللہ بھلا کرے آج کے اس نازک دور میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔۔۔جو مشکل وقت میں کام آئیں۔۔

256163248_2960844614179006_3505197032008964574_n.jpg
 
Last edited:

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
۔اُس کے بعد وہ چائے کے کھوکھے پر پہنچا ایک پیالی چائے پینے ۔

???



ساتھ ہی آسمان کی طرف دیکھ کر زیر لب کہنے لگا۔ کہ اے پروردگار تُو کتنا بڑا بادشاہ ہے۔کیسے لمحوں میں ہماری خواہشات پُوری کرتا ہے۔ دینے پر آجائے تو پل بھر میں وہ کُچھ دے دیتا ہے جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ بس ہماری ہی کوتاہیاں ہیں کہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔۔
گاڑی والے کے پُوچھنے پر کہ بابا آپ کہاں جاو گے۔ میں پہنچا دیتا ہوں۔ تو اُس کا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔۔ریلوے سٹیشن

نیم نان گر خورد مردِ خدا، نیم تقسیمِ دیگر
گر ہفت بیگرد پادشاہ، دیم تقویمِ اقلیمی دیگر

اگر کسی درویش کا پیٹ آدھی روٹی میں بھر جاتا ہے تو وہ دیگر آدھی روٹی اپنے ساتھ والے درویشوں کو دے دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک بادشاہ، بھلے سات سلطنتوں پر بھی حکومت قائم کرلے، پھر بھی اسے ایک اور سلطنت کی بھوک رہتی ہے۔

شیخ سعدی کے اس قول نے جیسے اصلی بھوک اور اصلی افلاس کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ کہاں اس ربِّ ذولجمال اپنے جمال سے ایک فقیر کو بھی بادشاہ بنا رکھا ہے اور کہاں ایک بادشاہ بھی گداوٗں سے بدتر، گدا تو پھر مانگ کر کھاتا ہے، یہ تو چھین کر، جھپٹ کر اور چوری کر کے کھاتے ہیں۔

جب پیٹ سے بھر جاتے ہیں تو شہوت کے ہاتھوں مجبور ہوئے، لنڈھتے اور لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ تمام عمر اس نفسانی غلامی میں ہی گزر جاتی ہے، حتیٰ کہ وقتِ قیام کی قید سے آزادی کا وقت آجاتا ہے۔ اس مٹّی کے جسم کے آرام کے لیئے جو کچھ اس کی غذا بنایا ہوتا ہے، وہ سب تو مٹیّ کے ساتھ مٹّی ہی ہوجاتا ہے، اور الے سفر کے لیئے جو خوراک ہاتھ آتی ہے، وہ انھی بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں کے برابر ہوتی ہے جو سلیم جیسوں کی قسمت بنتے ہیں۔ دراصل یہ انکی نہیں، ان سیٹھوں کی قسمت ہوتی ہے، جو وہ ابدی گھر کی روزی کے لیئے جمع کرتے ہیں۔

یار بات کچھ لمبی ہوجائے گی، لیکن آپ کے حسنِ مشاہدہ اور گوہرِ احساس کو دیکھ کر مجبوراً مجھے آپ کو کچھ بور کرنا پڑے گا۔ اب یہ آپکی قسمت ہے۔

جانی بھائی، بات یہ ہے کہ اس معاشرتی تضاد پر بہت سوچا، اللہ معاف کرے لیکن کئی مرتبہ تو آسمان کی طرف نظر اُٹھی اور انصاف کے میزان پر بھی ایمان متزلزل ہوگیا۔ لیکن پھر سمجھ آئی کہ مُنصف نے انصاف کا میزان لازمی برقرار رکھا ہے۔
ایک مثال تو آپ نے بھی دے دی، کہ محنت کرنے والے کو نیند ہمیشہ سکون سے نصیب ہوتی ہے۔

مگر ایک مرتبہ اپنے اوائل لڑکپن میں اپنے دادا کے مطب، یعنی کلینک پر ان کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص آیا جس کی زمینوں پر پتہ نہیں کتنے گاوٗں آباد تھے، لیکن دادا کے پاس آ کر رو پڑا۔ کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب، مجھے دودھ پینے کا بہت شوق ہے، میرے گھر میں بیس بھینسیں بندھی ہوئی ہیں، لیکن مجھے دل کا عارضہ ہے، شوگر ہے، بلڈ پریشر ہے اور یہ سب اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ مجھے دودھ والی چائے بھی منع ہے۔ جسم میں گلٹیاں بننے لگتی ہیں، بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بگڑ جاتے ہیں۔ اور وہ سارا دودھ میرے نوکر پیتے ہیں۔ مکھن کھاتے ہیں، گھی بناتے ہیں اور میں صرف خوشبو سونگھتا ہوں۔ دادا نے اسے باتوں میں ٹہلایا اور کچھ صدقہ خیرات کرنے کی تلقین کی، دوا دی اور گھر کو بھیجا۔

یہ یاد میرے دماغ میں نقش ہوکر رہ گئی۔ نوکروں کی قسمت میں وہ کچھ جسکو مالک ترسے۔ یقیناً، وہ نوکر اگر چاہتے بھی تو بھی اپنی تنخواہ سے کبھی اتنا دودھ نہ خرید سکتے۔ لیکن نصیب دیکھیں۔ قسمت ضرور انسان خود بناتا ہے، لیکن نصیب کی کاریگری بہت باریکی سے گدا کو بادشاہ اور بادشاہ کو غلام بنا جاتی ہے۔ کسی نے سوچا تھا کہ حضرت لقمانؓ کا مقام اتنا ہوگا کہ قرآن جیسی عظیم کتاب میں اللہ ان کے قول اس پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ شامل کرے گا؟
بلالؓ کے الفاظ، الصلوٰۃ خیرالمن النوم ۔۔۔۔ تا قیامت ایمان والے سنیں گے؟ اور تو اور، حضورؐ کی سواری کی لگام بھی ان کے ہاتھ ہوگی، جب داخلِ جنّت ہوں گے ۔۔۔۔

ضرور، اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ طبقاتی فرق صرف اسلیئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ کسی کے دماغ کو اللہ نے ڈیزائن بنانے کی صلاحیت دی، لیکن اس کے ہاتھ میں وہ طاقت نہ رکھی، تو اسے مزدور کی ضرورت ہوئی کہ اس کے ڈیزائن کو نقشے کی خیالی دنیا سے نکال کر شرمندہ، تعبیر کرے۔

لیکن اصل زندگی، اصل بادشاہت، اصل غلامی، یہ نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ معلوم نہیں کہ اِک گدا گر کو اس نے کتنا غنی بنایا ہوا ہے اور کسی بادشاہ کو کس قدر غلام۔ اس دنیا کی کہانی تو تصویر کا ایک رُخ ہی ہے۔

بہرحال، اللہ قلم کی طاقت، الفاظ کی صداقت اور سوچ کی ظرافت کو مزید دوام بخشے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، مزید نکھار آتا جارہا ہے۔۔۔۔ چائے کونسے برانڈ کی پی رہے ہیں آجکل؟
?
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
???



نیم نان گر خورد مردِ خدا، نیم تقسیمِ دیگر
گر ہفت بیگرد پادشاہ، دیم تقویمِ اقلیمی دیگر

اگر کسی درویش کا پیٹ آدھی روٹی میں بھر جاتا ہے تو وہ دیگر آدھی روٹی اپنے ساتھ والے درویشوں کو دے دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک بادشاہ، بھلے سات سلطنتوں پر بھی حکومت قائم کرلے، پھر بھی اسے ایک اور سلطنت کی بھوک رہتی ہے۔

شیخ سعدی کے اس قول نے جیسے اصلی بھوک اور اصلی افلاس کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ کہاں اس ربِّ ذولجمال اپنے جمال سے ایک فقیر کو بھی بادشاہ بنا رکھا ہے اور کہاں ایک بادشاہ بھی گداوٗں سے بدتر، گدا تو پھر مانگ کر کھاتا ہے، یہ تو چھین کر، جھپٹ کر اور چوری کر کے کھاتے ہیں۔

جب پیٹ سے بھر جاتے ہیں تو شہوت کے ہاتھوں مجبور ہوئے، لنڈھتے اور لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ تمام عمر اس نفسانی غلامی میں ہی گزر جاتی ہے، حتیٰ کہ وقتِ قیام کی قید سے آزادی کا وقت آجاتا ہے۔ اس مٹّی کے جسم کے آرام کے لیئے جو کچھ اس کی غذا بنایا ہوتا ہے، وہ سب تو مٹیّ کے ساتھ مٹّی ہی ہوجاتا ہے، اور الے سفر کے لیئے جو خوراک ہاتھ آتی ہے، وہ انھی بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں کے برابر ہوتی ہے جو سلیم جیسوں کی قسمت بنتے ہیں۔ دراصل یہ انکی نہیں، ان سیٹھوں کی قسمت ہوتی ہے، جو وہ ابدی گھر کی روزی کے لیئے جمع کرتے ہیں۔

یار بات کچھ لمبی ہوجائے گی، لیکن آپ کے حسنِ مشاہدہ اور گوہرِ احساس کو دیکھ کر مجبوراً مجھے آپ کو کچھ بور کرنا پڑے گا۔ اب یہ آپکی قسمت ہے۔

جانی بھائی، بات یہ ہے کہ اس معاشرتی تضاد پر بہت سوچا، اللہ معاف کرے لیکن کئی مرتبہ تو آسمان کی طرف نظر اُٹھی اور انصاف کے میزان پر بھی ایمان متزلزل ہوگیا۔ لیکن پھر سمجھ آئی کہ مُنصف نے انصاف کا میزان لازمی برقرار رکھا ہے۔
ایک مثال تو آپ نے بھی دے دی، کہ محنت کرنے والے کو نیند ہمیشہ سکون سے نصیب ہوتی ہے۔

مگر ایک مرتبہ اپنے اوائل لڑکپن میں اپنے دادا کے مطب، یعنی کلینک پر ان کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص آیا جس کی زمینوں پر پتہ نہیں کتنے گاوٗں آباد تھے، لیکن دادا کے پاس آ کر رو پڑا۔ کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب، مجھے دودھ پینے کا بہت شوق ہے، میرے گھر میں بیس بھینسیں بندھی ہوئی ہیں، لیکن مجھے دل کا عارضہ ہے، شوگر ہے، بلڈ پریشر ہے اور یہ سب اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ مجھے دودھ والی چائے بھی منع ہے۔ جسم میں گلٹیاں بننے لگتی ہیں، بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بگڑ جاتے ہیں۔ اور وہ سارا دودھ میرے نوکر پیتے ہیں۔ مکھن کھاتے ہیں، گھی بناتے ہیں اور میں صرف خوشبو سونگھتا ہوں۔ دادا نے اسے باتوں میں ٹہلایا اور کچھ صدقہ خیرات کرنے کی تلقین کی، دوا دی اور گھر کو بھیجا۔

یہ یاد میرے دماغ میں نقش ہوکر رہ گئی۔ نوکروں کی قسمت میں وہ کچھ جسکو مالک ترسے۔ یقیناً، وہ نوکر اگر چاہتے بھی تو بھی اپنی تنخواہ سے کبھی اتنا دودھ نہ خرید سکتے۔ لیکن نصیب دیکھیں۔ قسمت ضرور انسان خود بناتا ہے، لیکن نصیب کی کاریگری بہت باریکی سے گدا کو بادشاہ اور بادشاہ کو غلام بنا جاتی ہے۔ کسی نے سوچا تھا کہ حضرت لقمانؓ کا مقام اتنا ہوگا کہ قرآن جیسی عظیم کتاب میں اللہ ان کے قول اس پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ شامل کرے گا؟
بلالؓ کے الفاظ، الصلوٰۃ خیرالمن النوم ۔۔۔۔ تا قیامت ایمان والے سنیں گے؟ اور تو اور، حضورؐ کی سواری کی لگام بھی ان کے ہاتھ ہوگی، جب داخلِ جنّت ہوں گے ۔۔۔۔

ضرور، اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ طبقاتی فرق صرف اسلیئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ کسی کے دماغ کو اللہ نے ڈیزائن بنانے کی صلاحیت دی، لیکن اس کے ہاتھ میں وہ طاقت نہ رکھی، تو اسے مزدور کی ضرورت ہوئی کہ اس کے ڈیزائن کو نقشے کی خیالی دنیا سے نکال کر شرمندہ، تعبیر کرے۔

لیکن اصل زندگی، اصل بادشاہت، اصل غلامی، یہ نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ معلوم نہیں کہ اِک گدا گر کو اس نے کتنا غنی بنایا ہوا ہے اور کسی بادشاہ کو کس قدر غلام۔ اس دنیا کی کہانی تو تصویر کا ایک رُخ ہی ہے۔

بہرحال، اللہ قلم کی طاقت، الفاظ کی صداقت اور سوچ کی ظرافت کو مزید دوام بخشے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، مزید نکھار آتا جارہا ہے۔۔۔۔ چائے کونسے برانڈ کی پی رہے ہیں آجکل؟
?

ماشااللہ۔۔ اور جزاک اللہ۔۔
بہت خوب۔۔

اسی لیئے کہنے والے کہتے ہیں کہ کسی کو اللہ صرف دیتا ہے ، اور کسی کو دیئے بغیر کھلاتا ہے۔۔
تو ان میں بہتر تو کھانے والے ہوئے ناں۔۔ صرف مالک بن کر کیا کرنا ہے۔۔۔

ایک زمانے میں یعنی دس پندرہ سال قبل۔۔ چائے کی چائنک بھری ہوتی تھی ٹیبل پر اور جب تک اسے خالی نہیں کرتے سکون نہیں ملتا۔۔
مگر اب چوبیس گھنٹوں میں بمشکل دو کپ پیتا ہوں۔۔ مگر کوالیٹی چائے۔۔

برانڈ کا مسٗلہ ضرور ہوتا ہے مگر اصل بات بنانے والے کی ہوتی ہے۔۔
جو اچھے برانڈ کا بھی کباڑہ کردے۔۔ اور برے برانڈ سے بھی آپ کو کم از کم پینے لائق چیز بنا کردے۔۔

?​
 
Last edited:

taban

Chief Minister (5k+ posts)
اس قصے کے سیٹھوں کی طرح۔۔۔۔۔اللہ بھلا کرے آج کے اس نازک دور میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔۔۔جو مشکل وقت میں کام آئیں۔۔

256163248_2960844614179006_3505197032008964574_n.jpg
واہ یہ کیسا اچھا آدمی ہے اسے مٹی کا روڑہ دے رہا ہے ?