چائلڈپورنوگرافی:اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزابڑھاکر کتنے سال سزا کی تجویز دی؟

child-11bb1121.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ میں چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سزا کیخلاف اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے 24 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، عدالت نے چائلڈ پورنوگرافی کے مجرموں کو سزا دینے کیلئے عالمی ضابطہ اخلاق پر عمل پیرا ہونے کیلئے گائیڈلائن جاری کر دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے چائلڈ پورنوگرافی کے جرم کی سزا 7 سال قید سے بڑھا کر 14 سال کی جائے۔ ویڈیو ثبوت کی فرانزک ایجنسی سے تصدیق ہو جائے تو چائلڈ پورنوگرافی اور جنسی جرائم کے متاثرین کو عدالت بلانے کی ضرورت نہیں، ملزمان کو سزا کے لیے فرانزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ کو حتمی تصور کیا جائے۔

عدالت نےمجرم شہزاد خالق کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملنے والی سزا برقرار رکھتے ہوئے ٹرائل کورٹس کو ہدایت کی کہ وہ چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز کے ان کیمرا ٹرائلز کو یقینی بنائے، متاثرہ بچے کو عدالت میں ملزم کے ساتھ پیش نہ کیا جائے بلکہ اس کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کر لیا جائے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران مجرم کے قبضہ سے موبائل فون اور بغیر لائسنس کا پستول برآمد کیا، موبائل فون کی فرانزک رپورٹ نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز ایف آئی اے سے 3 ستمبر 2019 کو حاصل کی گئی جس کے مطابق موبائل فون سے 22800 تصاویر اور 839 وڈیوز برآمد ہوئیں جبکہ سیکڑوں نازبیا وڈیوز بنائی گئیں جن میں سے زیادہ تر ویڈیوز میں اپیل کنندہ خود بھی نظر آرہا ہے۔

عدالت نے مجرم شہزاد خالق کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ماتحت عدالت کی جانب سے چائلڈ پورنوگرافی کے جرم میں 14 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ، نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے پر 5 سال قید اور اسلحہ دکھا کر جان سے مارنے کی دھمکیوں پر 2 سال قید کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔