یہ بات درست ہے کہ افغانستان پر کبھی بھی کوئی ایک حکومت نہیں کر سکا۔ مسئلہ وہاں کی مختلف قومیتوں کا ہے۔ جہاں شمال میں فارسی بان ہیں، وہیں ان کے نیچے پنجشیری اور پھر اس کے بعد کابل میں سب ملے جلے ہوئے ہیں، کابل سے نیچے جنوب مغرب میں طالبان اور جنوب مشرق میں ہزارہ قوم ہے۔
لیکن صرف قوموں کا مختلف ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ کیوں وہاں کبھی کوئی ایک حکومت مکمل طور فعال نہ ہوسکی۔
افغان قوم کا کلچر انتہائی شخصی ہے، نہ کہ قومیتی۔ جس کے پاس بھی ایک بندوق ہوتی ہے، وہ اپنی چار گھروں پر مشتمل ریاست کا اعلان کردیتا ہے۔ وہاں کے کلچر میں کبھی آپ کو بڑے زمیندار یعنی فیوڈل نہیں ملیں گے۔ صرف وارلارڈ کلچر چلتا آرہا ہے۔
طالبان کو بھی کہا تو جاتا ہے کہ افغانستان کے بہت بڑے حصّے پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر اس کی بخیاں ادھیڑیں گے تو معلوم چلے کا کہ دراصل مختلف وار لارڈز کو ملا کر ایک نام کے نیچے جمع کیا گیا تھا۔ جبکہ یہ وارلارڈ سب اپنی اپنی جگہہ بہت زیادہ خود مختاری رکھتے تھے۔ جو قوانین لوگر میں مروّج تھے، انکا اطلاق گردیز یا خوست میں نہیں ہوتا۔
ساتھ ہی پنجشیر اور شمال کی طرف کبھی طالبان حکومت نہیں کر سکے، کیونکہ وہ طالبان سے علیحدہ ایک قوم ہیں۔ گو کہ بامیان، نورستان اور قندوز میں بہت جنگ و جدل ہوئی، لیکن پھر بھی طالبان کی حکومت وہاں مکمّل طور کبھی ہاوی نہیں ہوسکی۔
بنیادی طور پر جن تہاذیب میں قومیت کو شخصیت پر ترجیح دی جاتی ہے، وہاں عمومی طور پر ایک فعال حکومت قیام پذیر ہوسکتی ہے۔ جہاں شخصیت کو قومیت پر ترجیح دی جاتی ہے، وہاں کبھی کوئی ایک حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ ہر گروہ یا شخص اپنے مفادات کو باقی چیزوں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ صرف اور صرف تب اکٹھے ہوتے ہیں جب سب کی جان پر بن جاتی ہے۔ نہیں تو سب وسائل کی خاطر آپس میں بھی لڑنے مرنے سے گریز نہیں کرتے۔