Jehra Bhano Ohi Laal -- محکمہ صحت کی ’غفلت‘، ہیپاٹائٹس سی-ایڈز کی ادویات ضائع

Common_pakistani

MPA (400+ posts)
5d2c0cc8d5082.jpg

We all are blaming the corrupt political leader and establishment with every breath.
But the real culprit if our society is diplomats and clerical staff, they are use to lazy and idle.
They feel government job is only for scholarship and no work has to do
,

لاہور: پنجاب میں متعلقہ صحت حکام کی مبینہ غفلت سے کو-انفیکشن، ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کا شکار 1800 مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی مہنگی ہیپاٹائٹس سی دوا حکومت کے میڈیکل اسٹور ڈیپو (ایم ایس ڈی) میں ایکسپائر (زائد میعاد) ہوگئی۔

اس کے علاوہ 3200 مریضوں کے علاج کے مقصد کےلیے گزشتہ 2 برس میں صوبے کے تمام علاج مراکز کو فراہم کی گئی دوا کی حالت کا ’علم نہیں‘ ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ’اسکینڈل‘ کا سراغ ماہرین نے اس وقت لگایا جب ان کی ایک ٹیم نے گرومنگت روڈ گلبرگ میں ایک سرکاری ایم ایس ڈی کا دورہ کیا اور اس بارے میں رپورٹ کیا۔

اس حوالے سے ڈان کو دستیاب سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ دوا ایچ آئی وی/ایڈز کے ان مریضوں کے علاج کے لیے خریدی گئی تھی جو ہیپاٹائٹس سی کی مہلک بیماری کا بھی شکار تھے۔

خیال رہے کہ یہ مرکزی گودام ایم ایس ڈی صوبائی سطح پر محکمہ صحت کے آئی آر ایم این سی ایچ، ایکپینڈڈ پروگرام برائے امیونائزیشن (ای پی آئی)، مواصلاتی بیماری کنٹرول اور ٹی بی کنٹرول پروگرامز کے لیے خریدی گئی ادویات / سامان کو رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق بنیادی اور ثانوی صحت کی دیکھ بھال کے شعبے نے پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام (پی اے سی پی) کے تحت اپریل 2017 میں 5 ہزار مریضوں کے لیے 12 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کی ہیپاٹائٹس/ایچ آئی وی-ایڈز کی دوا خریدی تھی۔

اس پی اے سی پی کی سربراہی بنیادی اور ثانوی صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کے ایڈیشنل سیکریٹری (ٹیکنکل) ڈاکٹر عاصم الطاف کر رہے تھے۔

ذرائع کے مطابق یہ ادویات رواں سال اپریل میں زائد المیعاد ہوگئی تھیں لیکن پروگرام کے سربراہ نے سزا سے بچنے کے لیے اس حقیقت کو مبینہ طور پر اسے اعلیٰ حکام سے چھپایا۔

تاہم حکام کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ایچ آئی وی-ایڈز کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی رپورٹس کے بعد حکومت نے حال ہی میں ڈاکٹر عاصم الطاف کو اس پروگرام سے ہٹادیا۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ماہرین نے ایم ایس ڈی گودام کا معائنہ کیا اور اس اسکینڈل کا پتہ چلایا۔

رپورٹ کے مطابق سوفی گیٹ (ٹیبلیٹس) ادویات کے 30 ہزار پیکٹس جو ایک ہزار 820 مریضوں میں تقسیم ہونی تھی وہ زائد المیعاد پائی گئی۔

اس میں بتایا گیا کہ پی اے سی پی کو 12 جولائی 2017 کو ہیپاٹائٹس سی کنٹرول پروگرام سے 12 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کے (سوفی گیٹ +ریبازول) کے 30 ہزار کومبو پیکٹس موصول ہوئے تھے، جن کی ایکسپائری ڈیٹ اپریل 2019 تھی۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق ’ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کو انفیکشن کے 5 ہزار مریضوں کے استعمال کے لیے ان ادویات کو ایم ایس ڈی گلبرگ میں رکھا گیا تھا‘۔

جس میں سے پی اے سی پی نے ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لیے 11 کروڑ 80 لاکھ روپے مالیت کے 28 ہزار 180 کومبو پیکٹس جاری کیے۔

تاہم رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ’ان پیکٹس کو پنجاب میں علاج کرنے والے سینٹرز میں تقسیم کیا گیا اور ان کی موجودہ حالت کا علم نہیں‘۔

ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ باقی رہ جانے والے ایک ہزار 820 کومبو پیکٹس کو پی اے سی پی کی جانب سے ایم ایس ڈی سے وصول نہیں کیا گیا اور یہ ایکسپائر ہوگئے۔

رپورٹ میں ماہرین نے تجویز دی کہ اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اور ’قومی خزانے کو بھاری نقصان‘ پہنچانے میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔


in this news we can see it is purely fault of concern department chief and lower staff. but what is the punishment is only transfer.......haha ha nothing else.

We have to remove so much protection to these government employees. so only talented people who want to work will join not the people who consider government job as wazeefa for whole life.
 
Last edited by a moderator: