ایک بار پھر رب کریم سے دعا مانگتا ہوں کہ پاکستانی اشرافیہ اورعوام کے درمیان سول وار کی شروعات جو آج کراچی میں دکھای دی ہیں وہ پھر دکھای نہ دیں۔بحریہ ٹاون ملکی افواج کے اہم ادارے بحریہ کا نام اس لئے استعال کررہا ہے کیونکہ اس کے اندر بہت سارے انتظامی عہدوں پر فوج کے ریٹائرڈ افسران بیٹھے ہیں اور بحریہ ٹاون کے کھربوں کے کاروبار میں بھی بہت سارے فوجی افسران کے شئیرز ہیں، افسر شاہی اور فوجی افسران کے گٹھ جوڑ اور مشترکہ مفادات کے ظالمانہ کھیل کی وجہ سے دور فرعونیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ آج پاکستان میں کوی جمہوری حکومت موجود نہیں ہے جو عوام کے حقوق کا تحفط کرسکے۔ اس کی بجاے عوام پر چاپلوسوں کا ایک ٹولہ مسلط کردیا گیا ہے جو اپنی نوکری پکی کروانے کیلئے ہر روز بوٹ چاٹنا اور اینٹی اسٹیبلشمینٹ سیاستدانوں اور جنرلسٹ کو غداری کے سرٹیفیکیٹ دینا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔
پاکستان کا آٹھ لاکھ مربع میل ایریا اور بائیس کروڑ عوام کی وجہ سے آپ کو اعلی نوکریاں، شاہانہ مراعات، آی ایم ایف سے قرضے، مالی امداد، اور آپ کے بچوں کو گرین کارڈز اور رہائشی ویزے گھر بیٹھے مل رہے ہیں۔ ایک جنرل کی اولاد اگر ایمبیسی جاتی ہے تو اسے امریکی ویزہ مل جاتا ہے جو ایک عام آدمی کو نہیں مل سکتا۔ آپ ریٹائرڈ ہوتے ہی بے شمار فوائد لینے کے بعد سول سروس جائین کرلیتے ہو، کوی اے سی بن جاتا ہے تو کوی اعلی پولیس افسر، کوی واپڈا افسر تو کوی پی آی اے کا مینجر۔ غرض فوج میں مزے لوٹنے کے علاوہ تم سول سروس بھی اپنی مقبوضہ بنا چکے ہو، کمرشل پلاٹس اور زرعی زمینیں بھی تمہاری ہوتی جارہی ہیں۔ تم زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار افسران مل کر بائیس کروڑ کو کھا رہے ہو، تم غریب کے بچوں کا گوشت کھا رہے ہو۔ تم پاکستان پر قرض چڑھاتے جارہے ہو ۔جب پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو گڈ باے ہیو اے نائیس ٹائم کہہ کر چلے جاو گے امریکہ میں تمہارے کاروبار اور گوروں کی اولادوں جیسی تمہاری اپنی اولادیں عیش کررہی ہیں وہ تمہیں بڑھاپے میں اولڈ ہاوس میں جمع کروا دیں گی لہذا عقل کرو اور عوام کو عزت دو، انکے بچوں کا خیال کرو جو منہ ہاتھ کالے کرکے سارے دن بعد بیس روپے جیب میں ڈال کر گھر آتے ہیں تو ان کی مائیں اپنے جگر گوشوں کی یہ فقیروں جیسی حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتی ہیں ۔اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجاے گریس کے داغ دیکھ کر ان ماوں کے دلوں سے تمہارے لئے بد دعائیں نکلتی ہیں۔ میں ان ماوں کی بددعائیں قبول ہوتے دیکھ رہا ہوں اور جلد ہی ایک خانہ جنگی دیکھ رہا ہوں ، اس سول وار کے بعد تمہارا حال بھی فرانس کی افسر شاہی جیسا ہوگا
تمہارا وقت ختم ہوچکا اب بدلے کا انتظار کرو عوام کے کالے غربت زدہ ہاتھ تمہارے فربہ گلے کاٹنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں
اسدن نہ تمہیں اسلحہ بچا پاے گا اور نہ ہی یہ چاپلوس حکمران جو اسمبلی میں تمہاری بات کرنے پر ہی وفادار کتوں کی طرح دم ہلاتے غراتے ہوے نکل آتے ہیں
تمہیں امریکہ بھی بچا نہیں سکتا ، تمہیں امن کی باتیں کرنے پر انڈیا بھی معاف نہیں کرے گا، ہاں تمہیں صرف بائیس کروڑ عوام بچا سکتے ہیں۔
پاکستان کا آٹھ لاکھ مربع میل ایریا اور بائیس کروڑ عوام کی وجہ سے آپ کو اعلی نوکریاں، شاہانہ مراعات، آی ایم ایف سے قرضے، مالی امداد، اور آپ کے بچوں کو گرین کارڈز اور رہائشی ویزے گھر بیٹھے مل رہے ہیں۔ ایک جنرل کی اولاد اگر ایمبیسی جاتی ہے تو اسے امریکی ویزہ مل جاتا ہے جو ایک عام آدمی کو نہیں مل سکتا۔ آپ ریٹائرڈ ہوتے ہی بے شمار فوائد لینے کے بعد سول سروس جائین کرلیتے ہو، کوی اے سی بن جاتا ہے تو کوی اعلی پولیس افسر، کوی واپڈا افسر تو کوی پی آی اے کا مینجر۔ غرض فوج میں مزے لوٹنے کے علاوہ تم سول سروس بھی اپنی مقبوضہ بنا چکے ہو، کمرشل پلاٹس اور زرعی زمینیں بھی تمہاری ہوتی جارہی ہیں۔ تم زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار افسران مل کر بائیس کروڑ کو کھا رہے ہو، تم غریب کے بچوں کا گوشت کھا رہے ہو۔ تم پاکستان پر قرض چڑھاتے جارہے ہو ۔جب پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو گڈ باے ہیو اے نائیس ٹائم کہہ کر چلے جاو گے امریکہ میں تمہارے کاروبار اور گوروں کی اولادوں جیسی تمہاری اپنی اولادیں عیش کررہی ہیں وہ تمہیں بڑھاپے میں اولڈ ہاوس میں جمع کروا دیں گی لہذا عقل کرو اور عوام کو عزت دو، انکے بچوں کا خیال کرو جو منہ ہاتھ کالے کرکے سارے دن بعد بیس روپے جیب میں ڈال کر گھر آتے ہیں تو ان کی مائیں اپنے جگر گوشوں کی یہ فقیروں جیسی حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتی ہیں ۔اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجاے گریس کے داغ دیکھ کر ان ماوں کے دلوں سے تمہارے لئے بد دعائیں نکلتی ہیں۔ میں ان ماوں کی بددعائیں قبول ہوتے دیکھ رہا ہوں اور جلد ہی ایک خانہ جنگی دیکھ رہا ہوں ، اس سول وار کے بعد تمہارا حال بھی فرانس کی افسر شاہی جیسا ہوگا
تمہارا وقت ختم ہوچکا اب بدلے کا انتظار کرو عوام کے کالے غربت زدہ ہاتھ تمہارے فربہ گلے کاٹنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں
اسدن نہ تمہیں اسلحہ بچا پاے گا اور نہ ہی یہ چاپلوس حکمران جو اسمبلی میں تمہاری بات کرنے پر ہی وفادار کتوں کی طرح دم ہلاتے غراتے ہوے نکل آتے ہیں
تمہیں امریکہ بھی بچا نہیں سکتا ، تمہیں امن کی باتیں کرنے پر انڈیا بھی معاف نہیں کرے گا، ہاں تمہیں صرف بائیس کروڑ عوام بچا سکتے ہیں۔