عمران خان ملک کے لیے خطرناک،یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا،باجوہ

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
bajwaiahahss.jpg


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔

یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔

جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔

جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔

سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں اور مثلاً’’۔۔۔ (جاری ہے)۔

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
قومی مسائل کی نشاندہی اور حل کرنے کی صلاحیت فوج کے پاس موجود ہے تو انتخابات کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ ملکی معیشت پر خام خواہ سینکڑوں بندوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ملک کا انتظام باقاعدہ فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ تاکہ عوام بھی اس ہیجانی کیفیت سے باہر نکلے کے سوال کس سے پوچھنا ہے، احتجاج کس کے خلاف کرنا ہے۔​
 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
bajwaiahahss.jpg


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔

یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔

جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔

جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔

سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں اور مثلاً’’۔۔۔ (جاری ہے)۔


Bilkul sahi bol raha hai. Imran khan aese mulk k liye khatarnaak thay jis main corruption ko bura na samjha jata ho. 😜
 

stoic

Minister (2k+ posts)
bajwaiahahss.jpg


یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی‘ صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکریٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔

ان کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی‘ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔

جنرل باجوہ آج بھی مانتے ہیں صدر علوی نے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کی ‘ یہ عمران خان‘ فوج اور ملک تینوں کے لیے فکر مند تھے لیکن عمران خان نے ان کے اخلاص کو وقعت نہیں دی اور یوں مسائل بڑھتے چلے گئے‘صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔

یہ نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔

صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔

یہ ملاقات انتہائی خفیہ تھی‘ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔

شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔

آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔

جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔

تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔

جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے‘ آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔

تاہم عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔

سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔

الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔

جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔

میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔

میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ‘ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔

آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے‘ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی‘ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں‘ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا‘ عمران خان نے میرا میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ان سے اگست اور ستمبر میں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ یہ کر دیتے‘ آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا‘ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔

میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ فیصلہ صحیح کیسے تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہماری ریڈنگ تھی یہ لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ رہے تو ملک نہیں رہے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ یہ بولے ’’ مثلاً وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا‘ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا‘ مثلاً ہم انھیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔

میں نے وزیراعظم سے کہا ‘سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے‘ شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا‘ وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے‘ مثلاً مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا‘ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے‘ ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔

ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں‘ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے‘ میں نے وزیراعظم سے کہا‘ سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹم سے جمع کر رہے ہیں‘یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا یہ تو اچھی بات ہے‘ ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔

رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں‘ آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘‘ آپ اسد عمر سے پوچھ لیں‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں اور مثلاً’’۔۔۔ (جاری ہے)۔

اچھا پاکستان کی اکانومی بچانے کے لئے عمران حکومت کو گرایا اور اسحاق ڈار کو پی اے ایف کے جہاز میں بیٹھا کر لے آے - ترین کےکیس ختم کرنا مجبوری تھی اور اسحاق ڈار شوباز اور اس کے بچے جو کے مجرم ثابت ہو چکے تھے اس کے کیس ختم کرنا عین ثواب - یا تو یہ کہانی بتانے والا چوتیا ہے یا لکھنے والا یا اسکو سچ ماننے والا یا یہ تینو​
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

حاجی اب جتنی مرضی صفائیاں اپنے لفافوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کرے گا اتنا ہی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا اور چور مچائے شور کے مصدق اتنا ہی مزید ذلیل ہو گا
 

stoic

Minister (2k+ posts)
ملک کی اکانومی ایسی بچائی کے ڈالر تقریبن ٣٠٠ کا انفلیشن ٧٠ سال کی بلند ترین سطح پر بجلی پیٹرول گیس کی شدید قلت، لوگ آٹے کو ترس رہے ہیں ، دوست ملک نے انگلی دکھا دی ، نیب غیر فعال . شاباش بھی کونسا نشہ کرتے ہیں یہ اسٹیبلشمنٹ والے ؟
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
مجھے تو اس بات پر افسوس ہے کہ باجوے جیسے نیولے پاکستان میں چیف رہے ہیں اس عقل سے پیدل پاگل کے بچے نے جیدے کو اپنا تر جمان چنا ہے اسی سے اس کے برین ڈیڈ ہو نے کا اندازہ ہو تا ہے پتہ نہیں نئے والے کا ذہنی لیول کیا ہے فی الحال تو وہ اس سے بھی گیا گذرا لگتا ہے اللہ رحم کرے پاکستان پر یہاں ہر آنے والا پچھلے والے سے تین درجے کم ہی ہوتا ہے ویسے جیدے کی اس بکواس پر بہت سوال اٹھتے ہیں لیکن نہ وہ جیدے کو سمجھ آئیں گے نہ بیجو باؤلے کو تے فیر رہنے ای دیو
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
Imran khan mulk kay liey khatarnaak tha jis ne GDP 6% tuk ponhcha di, or General Bajwa mulk kay liey theek tha jis ne chalti hakomat kay khilaaf sazish kar kay mulk ka satiyanaas kar dia or mulk ko default honey kay qareeb ponhcha dia

jub se Javed Choudhary PMLN kay media cell ka hisa bana hay ajeeb-o-ghareeb qisey kahaniaan bana kar lay aata hay, boht acha journalist tha lakin ab third class ranking mein chala gia hay sirf isi waja se, ab to koi is ko sunana bhi pasand nahi karta
 

umer amin

Minister (2k+ posts)
Bajwa nay kaha jeeday mera lora tight nahi hota.....jeeday nay kaha sir mere mon pay dick slap karain....shayed lora loray ko dekh kay himat karay or khara ho jaye. Bajwa nay kaha jaaa oye jeeday tere pyo nay v sperm e zaya kita tere watga munda jaam kay.
 

stoic

Minister (2k+ posts)
مجھے تو اس بات پر افسوس ہے کہ باجوے جیسے نیولے پاکستان میں چیف رہے ہیں اس عقل سے پیدل پاگل کے بچے نے جیدے کو اپنا تر جمان چنا ہے اسی سے اس کے برین ڈیڈ ہو نے کا اندازہ ہو تا ہے پتہ نہیں نئے والے کا ذہنی لیول کیا ہے فی الحال تو وہ اس سے بھی گیا گذرا لگتا ہے اللہ رحم کرے پاکستان پر یہاں ہر آنے والا پچھلے والے سے تین درجے کم ہی ہوتا ہے ویسے جیدے کی اس بکواس پر بہت سوال اٹھتے ہیں لیکن نہ وہ جیدے کو سمجھ آئیں گے نہ بیجو باؤلے کو تے فیر رہنے ای دیو
Raises question about the mental capacity of those in charge. Can you imagine these dumb patwari minded khota khors are making decisions for the whole nation.
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
اگر قانون کی کوئی وقعت ہے تو دو بندوں میں سے ایک کو پھانسی لگنی بنتی ہے۔ یا تو جاوید چوہدری کو باجوہ سے منصوب ایسی باتیں شائع کرنے پر پھانسی لگا دو جو اس نے اس سے کہی ہی نہی ہیں یا پھر باجوہ کو یہ سب کچھ مان لینے پر پھانسی دے دو کہ وہ یہ سب کچھ کر رہا تھا جو کہ اس آرٹیکل میں لکھا ہے۔ میرے خیال میں تو جنرل عاصم منیر کو باجوہ صاحب کو شٹ اپ کال دینی چاہیئے کہ وہ آرمی کو مزید بدنام نہ کریں۔
اس کے بعد آتا ہے یہ سوال کہ کیا باجوہ صحیح تھا یا غلط تو پہلا سوال تو اس سے یہ بنتا ہے کہ تو جب اسحاق ڈار ڈالر کو دبائے بیٹھا تھا اربوں ڈالر مارکیٹ میں پھینک رہا تھا، امپورٹس کو سبسیڈائز کر کے رہے سہے ریزروز بھی ختم کر رہا تھا تب تیری اکنامکس کیوں نہی جاگی؟ جبکہ جو رضا باقر اور تم عمران کو یہ بتانے نکلے تھے کہ اکانومی
امپورٹس بڑھنے کی وجہ سے ہیٹ اپ ہوگئی ہے وہ اس لئے نہی تھا کہ شوکت ترین نے امپورٹس ک کھلی چھٹی دے دی تھی بلکہ اس کی وجہ قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے تیل کا بِل ایک دم بارہ ارب ڈالر سے ۲۱ ارب ڈالر پر چلا جانا تھا۔ ویکسین کی تین ارب ڈالر کی امپورٹ تھی، شپنگ بلِ گیارہ گنا بڑھ گیا تھا اور کھانے کا وہی تیل جو چار ارب میں آتا تھا ایک دم سے قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سات ارب ڈالر پر چلا گیا تھا۔ ہماری امپورٹس پر خرچ بڑھا تھا لیکن کیا اس سے انکار کر سکتے ہو کہ امپورٹس کی مقدار پہلے سے کم ہوئی تھی۔
اگر ریزروز پہلے کم ہورہے تھے تو پی ڈی ایم نے آکر کیا ریزروز بڑھائے۔ حالنکہ ان کے دور میں تو تیل بھی ۱۰۵ سے ۸۰ ڈالر پر آگیا۔ کیا پھر سے اسحاق ڈار ڈالر کو دبا کر ایکسپورٹس اور ریمیٹینسز میں چھ ارب ڈالر کا نقصان نہی کر بیٹھا۔
.
دوسری بات اگر شوکت ترین تمہارے خیال میں قابل نہی تھا تو امپورٹڈ حکومت لانے کے بعد شوکت ترین کوبلا کر اس کی منتیں کیوں کرتےتھے کہ نئی حکومت کی مدد کرو۔
.
سب سے آخری بات یہ کہ تم ایک میٹرک پاس ہو کر ملک کے فیصلے کرنے والے اور اکنامکس پر حکومتوں کو لیکچر دینے والے ہوتے کون ہو۔ کیا تمہارے فیصلوں سے ملک کی بہتری ہوئی یا وہ ڈوب گیا۔ کس منہ سے تمہارا آئی ایس پی آر نئی حکومت بننے کے دو ہفتے بعد کمپنی کی مشہوری کے لئے روپئہ سٹرانگ ہونے اور سٹاک ایکسچینج کا اینڈیکس بڑھنے کی نوید سنا رہا تھا۔ تم لوگ پچھتر سال سے ملک سے کھلواڑ کر رہے ہو کیا تم نے ملک کو مضبوط کیا یا اسے ڈبویا ہے۔ امریکہ کی جنگیں لڑ کر مفت کے ڈالروں کی بنا پر کچھ عرصہ کے لئے ملک چلا لے کر جنریشنز کا مستقبل تو ڈبویا لیکن کیا آپ نے ملک کی جڑیں کھوکھلی نہی کردیں۔ اور ہاں یہ ساری باتیں کرنے کی بجائے بارہ ارب روپئے کی پراپرٹی کا حساب بھی ساتھ ہی دے دیتے تو کافی بہتر ہوتا۔​
 
Last edited:

Back
Top