حالیہ تاریخ میں دیکھا جائے تو تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں چائنا سب سے آگے ہے۔پاکستان میں بھی اکثر چائنا کی مثال دے کر کہا جاتا ہے کہ چائنا نے یوں کردیا، چائنا نے فلاں کردیا تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے، مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ چائنا نے یہ ترقی کیسے کی۔ چائنا وہ ملک تھا جس میں کروڑوں لوگ محض بھوک اور قحط سے مرجاتے تھے۔ چائنا کی ترقی کے پیچھے بے شمار اقدامات ہیں، مگر میں آج ان میں سے صرف ایک اقدام پر بات کروں گا جس نے چائنا کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔۔
۔1949 میں جب ماؤ زے تنگ کی قیادت میں چائنا میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو ماؤ نے سب سے پہلے نہایت اہم کام کیا۔ ماؤ نے سوشل ریفارم ایجنڈے کے تحت نیا میرج لاء پاس کیا جس کے مطابق ارینج میرج پر پابندی عائد کردی۔ ماؤ کا عورتوں کے بارے میں مشہور قول ہے کہ "ویمن ہولڈ اَپ ہاف دی سکائی"۔ ماؤ کا ماننا تھا کہ عورتوں کی آزادی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، اس لئے اس نے عورتوں کے پیروں میں ڈالی ہوئی زنجیر یعنی ارینج میرج کاٹ دی۔
آج اگر چائنا میں دیکھیں تو عورتیں ہر کام میں ، زندگی کے ہر شعبے میں برابر کی شریک ہیں۔ چائنا آج جس مقام پر ہے اس میں عورتوں کا مردوں کے برابر کا حصہ ہے۔ چائنا کے علاوہ اگر آپ ساؤتھ کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان کی مثال لیں تو یہ بھی چند ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ چند دہائیوں میں ترقی کی ہے۔ ان معاشروں میں بھی آپ دیکھیں تو عورتیں آزاد ہیں، وہ بغیر کسی پابندی کے مردوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان،مصر، افغانستان، ایران، شام، یمن، عراق، سوڈان، لیبیا، لبنان جیسے اسلامی ممالک میں عورتوں پر قبائلی دور کی پابندیاں لگا کر رکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ معاشرے آج بھی غربت اور بدحالی کا شکار ہیں۔ جن چند اسلامی ممالک کے پاس تیل کی دولت ہے، صرف وہ خوشحال ہیں، باقی اکا دکا کو چھوڑ کرسبھی اسلامی معاشرے غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان میں بھی ارینج میرج پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ ارینج میرج عورت کے پاؤں میں سب سے بڑی زنجیر ہے۔ جیسے ہی لڑکی سولہ، سترہ سال کی ہوتی ہے، اس کے ماں باپ کوئی گدھا ڈھونڈتے ہیں اور اس کے گلے میں لڑکی ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ساری زندگی تونے اسی گدھے کے ساتھ گزارنی ہے اور اس گدھے کے بچے پیدا کرکرکے گدھوں کی تعداد بڑھانی ہے۔ تیری اپنی کوئی زندگی نہیں، تیری اپنی کوئی پہچان نہیں، تیرا اپنا کوئی کیریئر نہیں۔ دوسری طرف گدھا بھی ابھی تک مالی طور پر خودکفیل نہیں ہوا ہوتا، سو بھکاریوں کایہ جوڑا آٹھ دس اور بھکاری پیدا کرکے معاشرے کو مزید بدحالی کا شکار بنادیتے ہیں۔ ارینج میرج پر پابندی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکی اپنی سمجھ بوجھ اور شعور کی عمر کو پہنچ کر خود فیصلہ کرے گی کہ اس نے شادی کرنی ہے یا نہیں اور کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے۔ اس سے نہ صرف آبادی کنٹرول ہوگی۔ بلکہ معاشرے کی ڈویلپمنٹ میں عورتیں بھی مردوں کے برابر شریک ہوں گی۔
آج ہمارے معاشرے کے معاشی شعبے میں خواتین کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے معاشرے کی لڑکیاں دیکھ لیں، ان میں ذرا کانفیڈنس نہیں ہوتا، وہ ہر جگہ قبائلی دور کے برقعے اوڑھے خوفزدہ بکریوں کی طرح ڈری سہمی پھرتی ہیں، نہ بات کرنے کا حوصلہ ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ چائنا، کوریا، جاپان یہاں تک کہ انڈیا کی لڑکیوں کو دیکھ لیں، وہ کس کانفیڈنس سے بات کرتی ہیں، مجال ہے جو کہیں مردوں سے دب جائیں۔انڈین میڈیا پر جو لڑکیاں ہیں، ان کا موازنہ پاکستانی میڈیا پر بیٹھی لڑکیوں سے کرلیں، فرق صاف واضح ہے۔ ہم نے دورِ جہالت کی پابندیاں عائد کرکے لڑکیوں کا اعتماد چھین کر ان کو معاشرے کی پروڈکٹیویٹی سے نکال دیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔
۔1949 میں جب ماؤ زے تنگ کی قیادت میں چائنا میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو ماؤ نے سب سے پہلے نہایت اہم کام کیا۔ ماؤ نے سوشل ریفارم ایجنڈے کے تحت نیا میرج لاء پاس کیا جس کے مطابق ارینج میرج پر پابندی عائد کردی۔ ماؤ کا عورتوں کے بارے میں مشہور قول ہے کہ "ویمن ہولڈ اَپ ہاف دی سکائی"۔ ماؤ کا ماننا تھا کہ عورتوں کی آزادی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، اس لئے اس نے عورتوں کے پیروں میں ڈالی ہوئی زنجیر یعنی ارینج میرج کاٹ دی۔
آج اگر چائنا میں دیکھیں تو عورتیں ہر کام میں ، زندگی کے ہر شعبے میں برابر کی شریک ہیں۔ چائنا آج جس مقام پر ہے اس میں عورتوں کا مردوں کے برابر کا حصہ ہے۔ چائنا کے علاوہ اگر آپ ساؤتھ کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان کی مثال لیں تو یہ بھی چند ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ چند دہائیوں میں ترقی کی ہے۔ ان معاشروں میں بھی آپ دیکھیں تو عورتیں آزاد ہیں، وہ بغیر کسی پابندی کے مردوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان،مصر، افغانستان، ایران، شام، یمن، عراق، سوڈان، لیبیا، لبنان جیسے اسلامی ممالک میں عورتوں پر قبائلی دور کی پابندیاں لگا کر رکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ معاشرے آج بھی غربت اور بدحالی کا شکار ہیں۔ جن چند اسلامی ممالک کے پاس تیل کی دولت ہے، صرف وہ خوشحال ہیں، باقی اکا دکا کو چھوڑ کرسبھی اسلامی معاشرے غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان میں بھی ارینج میرج پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ ارینج میرج عورت کے پاؤں میں سب سے بڑی زنجیر ہے۔ جیسے ہی لڑکی سولہ، سترہ سال کی ہوتی ہے، اس کے ماں باپ کوئی گدھا ڈھونڈتے ہیں اور اس کے گلے میں لڑکی ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ساری زندگی تونے اسی گدھے کے ساتھ گزارنی ہے اور اس گدھے کے بچے پیدا کرکرکے گدھوں کی تعداد بڑھانی ہے۔ تیری اپنی کوئی زندگی نہیں، تیری اپنی کوئی پہچان نہیں، تیرا اپنا کوئی کیریئر نہیں۔ دوسری طرف گدھا بھی ابھی تک مالی طور پر خودکفیل نہیں ہوا ہوتا، سو بھکاریوں کایہ جوڑا آٹھ دس اور بھکاری پیدا کرکے معاشرے کو مزید بدحالی کا شکار بنادیتے ہیں۔ ارینج میرج پر پابندی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکی اپنی سمجھ بوجھ اور شعور کی عمر کو پہنچ کر خود فیصلہ کرے گی کہ اس نے شادی کرنی ہے یا نہیں اور کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے۔ اس سے نہ صرف آبادی کنٹرول ہوگی۔ بلکہ معاشرے کی ڈویلپمنٹ میں عورتیں بھی مردوں کے برابر شریک ہوں گی۔
آج ہمارے معاشرے کے معاشی شعبے میں خواتین کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے معاشرے کی لڑکیاں دیکھ لیں، ان میں ذرا کانفیڈنس نہیں ہوتا، وہ ہر جگہ قبائلی دور کے برقعے اوڑھے خوفزدہ بکریوں کی طرح ڈری سہمی پھرتی ہیں، نہ بات کرنے کا حوصلہ ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ چائنا، کوریا، جاپان یہاں تک کہ انڈیا کی لڑکیوں کو دیکھ لیں، وہ کس کانفیڈنس سے بات کرتی ہیں، مجال ہے جو کہیں مردوں سے دب جائیں۔انڈین میڈیا پر جو لڑکیاں ہیں، ان کا موازنہ پاکستانی میڈیا پر بیٹھی لڑکیوں سے کرلیں، فرق صاف واضح ہے۔ ہم نے دورِ جہالت کی پابندیاں عائد کرکے لڑکیوں کا اعتماد چھین کر ان کو معاشرے کی پروڈکٹیویٹی سے نکال دیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پوری قوم بھکاری بن چکی ہے۔
Last edited: