جنگ میں سب کچھ جائز نہیں!سہیل وڑائچ

battery low

Minister (2k+ posts)
محاورہ تو یہ ہےکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے مگر صدیوں کے انسانی شعور نے طے کیا ہے کہ جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں،اس کی حدود وقیود بھی متعین ہیں، اسی طرح محبت کے بھی پیمانے ہیں جن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یار لوگوں نے اس محاورے کا فائدہ اٹھا کر کہنا شروع کردیا ہے کہ جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے، اس محاورے کا غلط استعمال ہی دنیا بھر میں جنگوں کا موجب بن رہا ہے اور ہماری سیاست میں اسی کی وجہ سے نفرت اور تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ہم جغرافیائی طور پر ایران کے ہمسائے ہیں اور ہم میں بہت سے مشترکات بھی ہیں ،اس لئے یہ جنگ ہمیں ضرور متاثر کرے گی۔ پاکستان ایک راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تو ہم اپنے جغرافیے کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر پہلے بھارت سے ہماری جنگیں، افغانستان میں دو عالمی جنگیں اور اب ایران اسرائیل جنگ سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جغرافیہ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے، آگ کے شعلوں کے درمیان زندہ رہنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اسرائیل ایران جنگ کی شکل میں ہمیں اندرونی اور بیرونی دبائو کا سامنا بھی ہوگا اور بہت سے خطرات بھی درپیش ہوں گے ،ہم مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں فریق ہونے کے باوجود عملی شرکت سے بچتے رہے ہیں، توقع یہی کرنی چاہیے کہ ہم اپنی پرانی پالیسی پر ہی گامزن رہیں گے۔

جنگ کے چھائے بادلوں میں ہمیں تقسیم زدہ ملک کو متحد بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگی وگرنہ معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ 8 فروری کے انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلا ایک بات ضرور طے ہوگئی کہ سیاست کو جیلوں، گرفتاریوں، عدالتی سزائوں اور انتظامی ہتھکنڈوں سے شکست نہیں دی جاسکتی، سیاست کو صرف اور صرف سیاست سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ سیاست کو سیاست کے ذریعے ڈیل کرنے کےفارمولے کے تحت مثبت تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے ۔الیکشن میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے پارلیمانی یا عدالتی کمیشن پراتفاق رائے کی طرف بات بڑھ سکتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات میں کتنا وقت لگے گا؟

دوسری طرف شہباز حکومت، سیاست کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہی جو وفاقی کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ سیاسی کی بجائے ٹیکنو کریٹ ہے، ملک کو معاملہ سیاسی درپیش ہے اور کابینہ میں اکثریت براہ راست منتخب نہ ہونے والوں کی ہے، اس پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے، کابینہ میں ایک وزیراعظم کے بھائی کا سمدھی ، ایک ماموں اور اس کی بھانجی، دو سگے کزن اور دو ہم زلف شامل ہیں۔ منتخب قومی اسمبلی سے لئے جانے والوں میں صرف خواجہ آصف، اویس لغاری، ریاض پیرزادہ اور رانا تنویر حسین شامل ہیں باقی سب ٹیکنوکریٹ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وفاقی کابینہ ابھی تک کوئی بڑا سیاسی فیصلہ نہیں کرسکی، یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کسی موقعےکے انتظار میں ہے جب وہ اپنے بندھے ہاتھ کھولے گی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب نے پچھلے 16ماہ کی حکومت میں ایک بھی جلسہ، ایک بھی سیاسی میٹنگ نہیں کی تھی، اب بھی ان کی سیاست سے لاتعلقی کا یہی عمل جاری رہا تو حکومتی اتحاد بالخصوص ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچے گا،شہباز شریف کے حامی یہ کہتے ہیں کہ فی الحال ان کی توجہ بگڑے معاشی اور انتظامی معاملات کی طرف ہے ان سے نکلیں گے تو سیاست کی طرف توجہ دے سکیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہنی مون پیریڈ میں ہی حکومت کی سمت طے ہو جاتی ہے، معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست پربھی توجہ دیں، ان کے ذہن میں ہر وقت یہ رہنا چاہیے کہ آج اگر وہ وزیراعظم ہیں تو اس کی وجہ سیاست ہے اگر سیاست نہ کی تو پھر کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ملاقات اور بعد ازاں کور کمانڈر ہائوس میں صوبائی کابینہ کی افطاری ایسے واقعات ہیں جن سے مستقبل کی سیاست میں بہتری آ سکتی ہے، میرے خیال میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مصالحت کے دلدادہ آصف زرداری کو پہل کرنی چاہیے اور ایسا فارمولا پیش کرنا چاہیے جس سے سیاست میں اعتدال آئے اور ملک میں جمہوریت پھل پھول سکے۔ عمران خان کوبھی سیاسی جماعتوں سے بات نہ کرنے کا رویہ بدلنا چاہیے اگر انہیں خیبر پختونخوا میں اکثریت ملی ہے تو اسی طرح پیپلز پارٹی کو سندھ میں اکثریت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی سے مذاکرات سے انکار سراسر غیر سیاسی رویہ ہے، اسی طرح مقتدرہ سے لڑ کر اقتدار لینا محال ہے۔ آج تک مقتدرہ سے جس نے بھی اقتدار لیا ہے مذاکرات اور مصالحت سے ہی لیا ہے۔ میں عرصہ دراز سے عرض کر رہا ہوں کہ تضادستان میں آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے کہ صرف مقبولیت سے اقتدار مل جائے ہمارے ملک میں ہائبرڈ ماڈل ہے جس میں مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔

پاکستان کے سارے سٹیک ہولڈرز، چاہے وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان، ٹیکنوکریٹ ہوں یا عام پروفیشنلز، کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل کے زمانے میں ملک ختم نہیں ہوتےوہاں کی معیشت انہیں ڈبو دیتی ہے، افریقی ممالک میں حکومتیں قائم دائم ہیں جغرافیائی سرحدیں بھی مضبوط ہیں مگر معیشت اس قدر خراب ہے کہ ان ملکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کئی برسوں سے ایک ہی سطح پر منجمد ہے تین چار سال تک سرکاری یونیورسٹیاںبند ہونے کی طرف چل پڑیں گی، پنشن کا بل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا علاج نہ کیا گیا تو سرکاری ملازموں کو ماہانہ تنخواہ دینا مشکل ہو جائے گا۔ سرمایہ کار اور ان کے بچے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کی صورت حال میں نئے الیکشن کے بعد ہر روز پارلیمان، ایس آئی ایف سی اور وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس ہوتے، ملک کے تمام بگڑے ہوئے معاملات پر قانون سازی کی جاتی، دن رات فیصلے کئے جاتے اور ایسا لگتا کہ جنگی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کاسفر شروع ہو چکا ہے، ابھی تک یہ تاثر پیدا نہیں ہو سکا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری آنا شروع ہوگئی ہے، معیشت کے کچھ مثبت اشارے ضرور آ رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں ہمیں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو بقول شہباز شریف ’’شبانہ‘‘ روز محنت کے بغیر ممکن نہیں۔

شہباز شریف حکومت کاہنی مون پیریڈ جاری ہے وہ تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں مقتدرہ کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن ابھی تک ان کی تقریروں اور لب و لہجہ تک سے ان کے اہداف اور مستقبل کی امید تواتر سے سننے میں نہیں آ رہی، امید ہی ملکوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے، اشرافیہ کو امید کی کرن جگانے کیلئے زور لگانا چاہیے، امید تبھی پیدا ہوگی جب سیاسی جنگ میں سب کچھ جائز نہیں سمجھا جائے گا، قانون اور دستور کو واحد معیار بنایا جائے گا۔

Source
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
محاورہ تو یہ ہےکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے مگر صدیوں کے انسانی شعور نے طے کیا ہے کہ جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں،اس کی حدود وقیود بھی متعین ہیں، اسی طرح محبت کے بھی پیمانے ہیں جن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یار لوگوں نے اس محاورے کا فائدہ اٹھا کر کہنا شروع کردیا ہے کہ جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے، اس محاورے کا غلط استعمال ہی دنیا بھر میں جنگوں کا موجب بن رہا ہے اور ہماری سیاست میں اسی کی وجہ سے نفرت اور تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ہم جغرافیائی طور پر ایران کے ہمسائے ہیں اور ہم میں بہت سے مشترکات بھی ہیں ،اس لئے یہ جنگ ہمیں ضرور متاثر کرے گی۔ پاکستان ایک راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تو ہم اپنے جغرافیے کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر پہلے بھارت سے ہماری جنگیں، افغانستان میں دو عالمی جنگیں اور اب ایران اسرائیل جنگ سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جغرافیہ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے، آگ کے شعلوں کے درمیان زندہ رہنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اسرائیل ایران جنگ کی شکل میں ہمیں اندرونی اور بیرونی دبائو کا سامنا بھی ہوگا اور بہت سے خطرات بھی درپیش ہوں گے ،ہم مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں فریق ہونے کے باوجود عملی شرکت سے بچتے رہے ہیں، توقع یہی کرنی چاہیے کہ ہم اپنی پرانی پالیسی پر ہی گامزن رہیں گے۔

جنگ کے چھائے بادلوں میں ہمیں تقسیم زدہ ملک کو متحد بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگی وگرنہ معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ 8 فروری کے انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلا ایک بات ضرور طے ہوگئی کہ سیاست کو جیلوں، گرفتاریوں، عدالتی سزائوں اور انتظامی ہتھکنڈوں سے شکست نہیں دی جاسکتی، سیاست کو صرف اور صرف سیاست سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ سیاست کو سیاست کے ذریعے ڈیل کرنے کےفارمولے کے تحت مثبت تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے ۔الیکشن میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے پارلیمانی یا عدالتی کمیشن پراتفاق رائے کی طرف بات بڑھ سکتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات میں کتنا وقت لگے گا؟

دوسری طرف شہباز حکومت، سیاست کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہی جو وفاقی کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ سیاسی کی بجائے ٹیکنو کریٹ ہے، ملک کو معاملہ سیاسی درپیش ہے اور کابینہ میں اکثریت براہ راست منتخب نہ ہونے والوں کی ہے، اس پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے، کابینہ میں ایک وزیراعظم کے بھائی کا سمدھی ، ایک ماموں اور اس کی بھانجی، دو سگے کزن اور دو ہم زلف شامل ہیں۔ منتخب قومی اسمبلی سے لئے جانے والوں میں صرف خواجہ آصف، اویس لغاری، ریاض پیرزادہ اور رانا تنویر حسین شامل ہیں باقی سب ٹیکنوکریٹ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وفاقی کابینہ ابھی تک کوئی بڑا سیاسی فیصلہ نہیں کرسکی، یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کسی موقعےکے انتظار میں ہے جب وہ اپنے بندھے ہاتھ کھولے گی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب نے پچھلے 16ماہ کی حکومت میں ایک بھی جلسہ، ایک بھی سیاسی میٹنگ نہیں کی تھی، اب بھی ان کی سیاست سے لاتعلقی کا یہی عمل جاری رہا تو حکومتی اتحاد بالخصوص ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچے گا،شہباز شریف کے حامی یہ کہتے ہیں کہ فی الحال ان کی توجہ بگڑے معاشی اور انتظامی معاملات کی طرف ہے ان سے نکلیں گے تو سیاست کی طرف توجہ دے سکیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہنی مون پیریڈ میں ہی حکومت کی سمت طے ہو جاتی ہے، معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست پربھی توجہ دیں، ان کے ذہن میں ہر وقت یہ رہنا چاہیے کہ آج اگر وہ وزیراعظم ہیں تو اس کی وجہ سیاست ہے اگر سیاست نہ کی تو پھر کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ملاقات اور بعد ازاں کور کمانڈر ہائوس میں صوبائی کابینہ کی افطاری ایسے واقعات ہیں جن سے مستقبل کی سیاست میں بہتری آ سکتی ہے، میرے خیال میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مصالحت کے دلدادہ آصف زرداری کو پہل کرنی چاہیے اور ایسا فارمولا پیش کرنا چاہیے جس سے سیاست میں اعتدال آئے اور ملک میں جمہوریت پھل پھول سکے۔ عمران خان کوبھی سیاسی جماعتوں سے بات نہ کرنے کا رویہ بدلنا چاہیے اگر انہیں خیبر پختونخوا میں اکثریت ملی ہے تو اسی طرح پیپلز پارٹی کو سندھ میں اکثریت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی سے مذاکرات سے انکار سراسر غیر سیاسی رویہ ہے، اسی طرح مقتدرہ سے لڑ کر اقتدار لینا محال ہے۔ آج تک مقتدرہ سے جس نے بھی اقتدار لیا ہے مذاکرات اور مصالحت سے ہی لیا ہے۔ میں عرصہ دراز سے عرض کر رہا ہوں کہ تضادستان میں آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے کہ صرف مقبولیت سے اقتدار مل جائے ہمارے ملک میں ہائبرڈ ماڈل ہے جس میں مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔

پاکستان کے سارے سٹیک ہولڈرز، چاہے وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان، ٹیکنوکریٹ ہوں یا عام پروفیشنلز، کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل کے زمانے میں ملک ختم نہیں ہوتےوہاں کی معیشت انہیں ڈبو دیتی ہے، افریقی ممالک میں حکومتیں قائم دائم ہیں جغرافیائی سرحدیں بھی مضبوط ہیں مگر معیشت اس قدر خراب ہے کہ ان ملکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کئی برسوں سے ایک ہی سطح پر منجمد ہے تین چار سال تک سرکاری یونیورسٹیاںبند ہونے کی طرف چل پڑیں گی، پنشن کا بل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا علاج نہ کیا گیا تو سرکاری ملازموں کو ماہانہ تنخواہ دینا مشکل ہو جائے گا۔ سرمایہ کار اور ان کے بچے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کی صورت حال میں نئے الیکشن کے بعد ہر روز پارلیمان، ایس آئی ایف سی اور وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس ہوتے، ملک کے تمام بگڑے ہوئے معاملات پر قانون سازی کی جاتی، دن رات فیصلے کئے جاتے اور ایسا لگتا کہ جنگی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کاسفر شروع ہو چکا ہے، ابھی تک یہ تاثر پیدا نہیں ہو سکا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری آنا شروع ہوگئی ہے، معیشت کے کچھ مثبت اشارے ضرور آ رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں ہمیں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو بقول شہباز شریف ’’شبانہ‘‘ روز محنت کے بغیر ممکن نہیں۔

شہباز شریف حکومت کاہنی مون پیریڈ جاری ہے وہ تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں مقتدرہ کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن ابھی تک ان کی تقریروں اور لب و لہجہ تک سے ان کے اہداف اور مستقبل کی امید تواتر سے سننے میں نہیں آ رہی، امید ہی ملکوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے، اشرافیہ کو امید کی کرن جگانے کیلئے زور لگانا چاہیے، امید تبھی پیدا ہوگی جب سیاسی جنگ میں سب کچھ جائز نہیں سمجھا جائے گا، قانون اور دستور کو واحد معیار بنایا جائے گا۔


Source
ویسے تیری جنگ میں تو سب کچھ ہی جائز ہے تم نے اور جیو والوں نے مل کر ملک کی کوئی رنڈی نہیں چھوڑی جس کے بیڈ روم تم نہ گھسے ہو وہ بیچاری قندیل بلوچ کا خوں تیری گردن پر بھی جاتا ہے اور وہ اوپر تیرا انتظار بھی کررہی ہوگی

 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
Whoever wants to defeat America will cut off the air of war

An article by Chinese writer Chua Qinling
March 24, 2023.

1. The biggest threat to the United States of America is not China, but peace.
2. World peace will put an end to the American dollar empire built around war, the war economy, and war trade.
3.When there is peace in the world, Americans will be lost.
4. They will not know what to do, as many of those who are employed simply to incite wars and use their tools will be unemployed.
5. The entire military-industrial complex will be out of business.
6. All US military bases in the world will be redundant, as will all aircraft carriers, military aircraft, intercontinental ballistic missiles, weapons of mass destruction, and all supporting war industries.
7. Employment will become the number one problem in the United States When the American war machine is idle due to inadequacy, all CIA operators will be out of work.
8. All fake news about threats and enemies will become jokes.
9.The military budget of nearly a trillion US dollars would be completely prohibitive without wars and without enemies.
10. When there is peace in the world, Americans will have to create jobs for themselves, to make themselves useful again as responsible people, not warmongers and murderers, not war merchants.
11. There will be no one to buy the expensive war machine, and no need for military bands also known as allies.

Americans denounced the recent peace agreement between Iran and Saudi Arabia brokered by China, describing it as a threat to American interests.

The Americans are all ready to break this peace agreement.

This is how evil the Americans are, all ready to make war or not and against peace.

Peace is against the interests of Americans, an evil empire that thrives on wars and instability and sells weapons to kill and destroy in wars.

The Americans denounced China's proposal for a ceasefire in Ukraine and the start of peace negotiations, and the Americans also said that there can be no ceasefire.

The people of the world have woken up to the evil of the Americans. Everyone wants peace except the Americans.

Only the blind and foolish still support the evil warmongering Americans and their evil ways.

I like this article… makes sense
Copy paste
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)

Ghaleez Ghuddar Buzdil Fouj ki Barracks aur Borders par wapsi aur Corrupt Siasatdano ko corruption par SAZA denay kay baad he koi —- Baat cheet ho sakti hai ——- In sub Soor 🐷🐖🐖 ki aulad ko yeh baat samjh leni chahie​