اس وقت ملک میں عام شہری فوجی عدالت میں ٹرائیل کے بعد فوجے کسٹڈی میں قید ہیں۔
اس پر دسمبر 2022 کی خبر یاد آئی جب عاصم منیر (خنزیر) نے جنرل ریٹائر جاوید اقبل کو دی گئی 14 سال قید کی سزا کو معاف کر دیا تھا۔
جنرل جاوید اقبال کوبریگیڈیر ریٹائر رضوان راجہ اور ڈاکٹر وسیم کے ہمراہ غیر ملکی خفیہ ادارے کی سہولتکاری کے الزام میں فوجی عدالت نے سال 2019 میں سزا سنائی تھی۔
جنرل جاوید اقبال کور کمانڈر، ڈاکرٹر ملٹری انٹیلیجنس، ایڈجوڈنٹ جنرل اور کئی دیگر عہدوں پر فوج میں رہے جس کی وجہ سے شاید وہ پہلے اتنے ہائی لیول افسر تھے جن کو ایسی سزا ملی۔ ان پر جو الزامات لگائے گئے وہ انتہائی سنگین تھے جیسے کہ امریکہ کو فوج کے اندر کی معلومات فراہم کرنا، افغانستان میں سرگرمیوں کی تفصیل، گوادر میں چائنہ کا کردار، روس کے ساتھ تعلقات اور سعودیہ و دیگر عرب ممالک کے حوالے سے بھی معلومات۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد اسامہ بن لادن واقعے کی ملٹری انکوائری بھی انہی کی قیادت میں کی گئی تھی۔
جنرل جاوید اقبال پر جو چھ دفعات لگائی گئی تھی انہوں نے ان میں سے پانچ میں اپنا گناہ قبول کیا تھا۔
اس پورے قصے کو سنانے کا مقصد ایک سوال کرنا ہے کہ ایسا شخص جو فوج میں اعلی منصب پر رہا ہو اور اپنا گناہ قبول کر چکا ہو تو اس کو عاصم منیر (خنزیر) اپنے عہدہ سمبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی سزا معاف کروا کر رہا کروا دیتے ہیں مگر قوم کے نوجوانوں کو آئے دن تڑیاں لگاتے رہتے ہیں، فوجی تحویل میں عام شہریوں، قابل وکیلوں کے ہاتھ پاوں کے ناخن نکالے جاتے ہیں مارا پیٹا جاتا ہے ایسا کیوں؟ ان عام شہریوں جنے کون سے ملکی راض غیر ملکی ایجنسی کو بیچے ؟ کونسا قومی سلامتی کو لاحق خطرہ پہنچایا ؟
کہا جاتا تھا کہ ادارے میں بہت غصہ پایا جا رہا ہے تو قوم میں بھی بہت غصہ پایا جاتا ہے جو کچھ اپ نے کیا ہے کوئی بھی ادارہ قوم سے بڑا نہیں یہ قوم ہے تو ادارے ہیں۔
اگر جنرل جاوید اقبال گناہ قبول کر کہ بھی آج ازاد ہے تو پھر حسان نیازی، حیدر مجید، عباد فاروق، بریگیٖئر ریٹائرجاوید اکرم و بہت سے بے گناہ کیوں آزاد نہیں ؟؟؟
عاصم منیر (خنزیر) آپ آج تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہیں مگر زندگی بھر نہیں رہینگے۔ اپنی اصلاح کریں
اس پر دسمبر 2022 کی خبر یاد آئی جب عاصم منیر (خنزیر) نے جنرل ریٹائر جاوید اقبل کو دی گئی 14 سال قید کی سزا کو معاف کر دیا تھا۔
جنرل جاوید اقبال کوبریگیڈیر ریٹائر رضوان راجہ اور ڈاکٹر وسیم کے ہمراہ غیر ملکی خفیہ ادارے کی سہولتکاری کے الزام میں فوجی عدالت نے سال 2019 میں سزا سنائی تھی۔
جنرل جاوید اقبال کور کمانڈر، ڈاکرٹر ملٹری انٹیلیجنس، ایڈجوڈنٹ جنرل اور کئی دیگر عہدوں پر فوج میں رہے جس کی وجہ سے شاید وہ پہلے اتنے ہائی لیول افسر تھے جن کو ایسی سزا ملی۔ ان پر جو الزامات لگائے گئے وہ انتہائی سنگین تھے جیسے کہ امریکہ کو فوج کے اندر کی معلومات فراہم کرنا، افغانستان میں سرگرمیوں کی تفصیل، گوادر میں چائنہ کا کردار، روس کے ساتھ تعلقات اور سعودیہ و دیگر عرب ممالک کے حوالے سے بھی معلومات۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد اسامہ بن لادن واقعے کی ملٹری انکوائری بھی انہی کی قیادت میں کی گئی تھی۔
جنرل جاوید اقبال پر جو چھ دفعات لگائی گئی تھی انہوں نے ان میں سے پانچ میں اپنا گناہ قبول کیا تھا۔
اس پورے قصے کو سنانے کا مقصد ایک سوال کرنا ہے کہ ایسا شخص جو فوج میں اعلی منصب پر رہا ہو اور اپنا گناہ قبول کر چکا ہو تو اس کو عاصم منیر (خنزیر) اپنے عہدہ سمبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی سزا معاف کروا کر رہا کروا دیتے ہیں مگر قوم کے نوجوانوں کو آئے دن تڑیاں لگاتے رہتے ہیں، فوجی تحویل میں عام شہریوں، قابل وکیلوں کے ہاتھ پاوں کے ناخن نکالے جاتے ہیں مارا پیٹا جاتا ہے ایسا کیوں؟ ان عام شہریوں جنے کون سے ملکی راض غیر ملکی ایجنسی کو بیچے ؟ کونسا قومی سلامتی کو لاحق خطرہ پہنچایا ؟
کہا جاتا تھا کہ ادارے میں بہت غصہ پایا جا رہا ہے تو قوم میں بھی بہت غصہ پایا جاتا ہے جو کچھ اپ نے کیا ہے کوئی بھی ادارہ قوم سے بڑا نہیں یہ قوم ہے تو ادارے ہیں۔
اگر جنرل جاوید اقبال گناہ قبول کر کہ بھی آج ازاد ہے تو پھر حسان نیازی، حیدر مجید، عباد فاروق، بریگیٖئر ریٹائرجاوید اکرم و بہت سے بے گناہ کیوں آزاد نہیں ؟؟؟
عاصم منیر (خنزیر) آپ آج تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہیں مگر زندگی بھر نہیں رہینگے۔ اپنی اصلاح کریں
Ex-military officer confessed to spying, court told | The Express Tribune
Defence authorities say petitioner was indicted on six charges for espionage
tribune.com.pk
Ex-general fights case against 'espionage slur' on his name
Former Pakistani general facing espionage charges gets relief weeks after change in command
dunyanews.tv