Amal
Chief Minister (5k+ posts)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ۲۶ اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ۲۷
اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ﴿۲۶﴾ بے جا خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور یقیناً شیطان اپنے رب کا بہت ہی نا شکرا ہے ﴿۲۷﴾۔
تُبَذِّرْ (اسراف)
کسی جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ۔
تَبْذِيرً (فضول خرچی)
مال کا بے جا استعمال یا پھر دوسرا مطلب یہ کہ مال کو ایسی جگہ خرچ کرنا جہاں ضرورت ہی نہ ہو ۔
انسان اپنا مال بے فکری سے اڑاتا پھرتا ہے اور خرچ کرنے میں حدِ شرعی سے تجاوز کر جاتا ہے ۔ یہ اتنا برا عمل ہے کہ اس کے مرتکب کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ بے جا مال خرچ کرنا انسان کے نا شکرے پن کو ظاہر کرتا ہے، یعنی مال جو اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت تھی اس کو صحیح جگہ پر خرچ کر کے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے بجائے فضول کاموں پر ضائع کرکے اللہ تعالی کی ناراضگی مول لے لی ، اور آخرت میں حساب کے سزا وار ہوگئے ۔
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس خراب عادت میں مبتلا لوگوں کے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے
اسراف نہ کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
( الأنعام: آيت:۱۴۱ )
وہ لوگ (اللہ کے نیک بندے) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔
( الفرقان:۲۵ - آيت:۶۷ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے
جو چاہو کھاؤ ، جو چاہو پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ، اسراف اور تکبر سے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب اللباس )
آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے ۔
( مسند احمد )