battery low
Chief Minister (5k+ posts)
مد مقابل کا المیہ یہ ہے کہ وہ اب تک عمران خان کی جدوجہد کو سمجھ نہیں سکے۔ وہ سمجھتے ہیں ۷۳ سال کی عمر میں دنیا کا ہر عروج ہر کامیابی سمیٹنے کے بعد بھی اس کے لیے ایک برائے نام حکومت سنبھالنا کوئی معنی رکھتا ہوگا کہ جس کے لیے وہ جھکنے پر آمادہ ہوجائیگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تیس سال قبل سیاست میں نو آموز ہوتے ہوئے اپنے مقصد کو اپنی شاد آباد زندگی پر فوقیت دینے والے کو آج قید و بند، رقیق ذاتی حملے، اہل و عیال پر جبر سے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مد مقابل کا المیہ یہ ہے کہ وہ سمجھ نہیں پارہا کہ اس کی لگائی پود سے متضاد کہ جنہیں بوقت ضرورت سٹیج پر سجا دیا جاتا اور کردار پورا ہونے پر اتار دیا جاتا،
وہ ان کے اس پتلی تماشے کی تاریں کاٹ رہا ہے۔۷۸ سال سے پاکستان میں ریاست کی ایک ہی ڈیفینیشن رہی ہے؛ مافیہ طرز کا گٹ جوڑ جو اپنے مفادات کو ریاست نام کی آڑ لے کر بچاتا رہا ہے۔ جو اپنے آپ کو ایک مقدس گائے قرار دے کر اپنی جانب اٹھنے والی انگلی توڑنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ جو اپنے ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کو کبھی ایک کردار کو ٹاکی شاکی مار کر پائیدان پر سجاتا ہے تو کبھی دوسرے کو۔ عمران خان اس وقت یہ ڈیفینیشن تبدیل کررہا ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ یہ ڈیفینیشن تبدیل کیے بغیر اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ عمران خان یہ حقیقت جان چکا ہے کہ یہ افراد کی لڑائی نہیں وہ کسی فرد کو اپنا مقابل گردان کر اس کی شکست اور اس کے انجام کو ذہن میں رکھ کر نہیں لڑ رہا۔ وہ اس نظام کی جڑیں کھود رہا ہے جس کی بنیاد استحصال پر ہے۔
جس کی بقا خون بہانے، خون چوسنے، تقسیم کرنے، زباں بند رکھنے، آنکھوں کے پردوں کو روشنی اور پیروں کی بیڑیوں کو گھنگرو باور کرنے میں ہے۔ وہ نام تاریخ کے کسی سیاہ باب کے کردار کا لے رہا ہو اس کا مخاطب اس کا جانشین نہیں کہ وہ محض اسے موردِ الزام نہیں گردانتا بلکہ اس اختیار کو مانتا ہے جس کی رعونت میں آپ کروڑوں کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھ دیں چاہے اس کی قیمت ملک دولخت ہونا ہو۔ وہ آج اگر کسی کا نام لے لے کر للکار رہا ہے تو ایسا نہیں کہ اس کا مسئلہ کوئی ایک شخص ہے کہ جسے نیچا دکھا کر اس کے انا کی تسکین ہو۔ یہ اس کی انا کی تو جنگ ہی نہیں۔ یہ جنگ تو اس قوم کی ہے جس کے بیٹے اغوا ہوتے ہیں تو سالوں بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ کہ جس کی ریزگاری پر پلنے والا محافظ اس کے سر کا سودا کرتا ہے۔ کہ جو آدھی دہائی میں ایک مرتبہ اس غرور کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ اس کی رائے کی بھی کوئی وقعت ہے تو اس کے فیصلے کو روند کر اس کو اس کی اوقات بتائی جاتی ہے۔
کہ جس کو آواز اٹھانے پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور جس کے اپنے ملک کی عدالتیں اس کو انصاف دینے سے کتراتی ہیں، کہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس بھرتا ہے، اس کے وسائل سے سبزازاروں میں پرائیوٹ اسٹیٹس بنتی ہیں اوروں کی اولادوں کے حال و مستقبل سنورتے ہیں مگر اس کے خود کے نصیبوں میں ایسی وحشتیں آتی ہیں کہ وہ اپنے گلی کوچے چھوڑ کشتیوں میں بیٹھ کر سمندر کے بے رحم حلق میں اترنے کو ترجیح دیتا ہے۔ سوال عمران خان کی حکومت کا نہیں ہے سوال اس ڈائن سے ماں کا ٹائٹل چھیننے کا ہے جو اس بےکس قوم کی گردن میں اپنے خون آشام پنجے گاڑے خود کو ریاست کہلانے پر مصر ہے۔
https://twitter.com/x/status/1889171493373833577
وہ ان کے اس پتلی تماشے کی تاریں کاٹ رہا ہے۔۷۸ سال سے پاکستان میں ریاست کی ایک ہی ڈیفینیشن رہی ہے؛ مافیہ طرز کا گٹ جوڑ جو اپنے مفادات کو ریاست نام کی آڑ لے کر بچاتا رہا ہے۔ جو اپنے آپ کو ایک مقدس گائے قرار دے کر اپنی جانب اٹھنے والی انگلی توڑنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ جو اپنے ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کو کبھی ایک کردار کو ٹاکی شاکی مار کر پائیدان پر سجاتا ہے تو کبھی دوسرے کو۔ عمران خان اس وقت یہ ڈیفینیشن تبدیل کررہا ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ یہ ڈیفینیشن تبدیل کیے بغیر اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ عمران خان یہ حقیقت جان چکا ہے کہ یہ افراد کی لڑائی نہیں وہ کسی فرد کو اپنا مقابل گردان کر اس کی شکست اور اس کے انجام کو ذہن میں رکھ کر نہیں لڑ رہا۔ وہ اس نظام کی جڑیں کھود رہا ہے جس کی بنیاد استحصال پر ہے۔
جس کی بقا خون بہانے، خون چوسنے، تقسیم کرنے، زباں بند رکھنے، آنکھوں کے پردوں کو روشنی اور پیروں کی بیڑیوں کو گھنگرو باور کرنے میں ہے۔ وہ نام تاریخ کے کسی سیاہ باب کے کردار کا لے رہا ہو اس کا مخاطب اس کا جانشین نہیں کہ وہ محض اسے موردِ الزام نہیں گردانتا بلکہ اس اختیار کو مانتا ہے جس کی رعونت میں آپ کروڑوں کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھ دیں چاہے اس کی قیمت ملک دولخت ہونا ہو۔ وہ آج اگر کسی کا نام لے لے کر للکار رہا ہے تو ایسا نہیں کہ اس کا مسئلہ کوئی ایک شخص ہے کہ جسے نیچا دکھا کر اس کے انا کی تسکین ہو۔ یہ اس کی انا کی تو جنگ ہی نہیں۔ یہ جنگ تو اس قوم کی ہے جس کے بیٹے اغوا ہوتے ہیں تو سالوں بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ کہ جس کی ریزگاری پر پلنے والا محافظ اس کے سر کا سودا کرتا ہے۔ کہ جو آدھی دہائی میں ایک مرتبہ اس غرور کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ اس کی رائے کی بھی کوئی وقعت ہے تو اس کے فیصلے کو روند کر اس کو اس کی اوقات بتائی جاتی ہے۔
کہ جس کو آواز اٹھانے پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور جس کے اپنے ملک کی عدالتیں اس کو انصاف دینے سے کتراتی ہیں، کہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس بھرتا ہے، اس کے وسائل سے سبزازاروں میں پرائیوٹ اسٹیٹس بنتی ہیں اوروں کی اولادوں کے حال و مستقبل سنورتے ہیں مگر اس کے خود کے نصیبوں میں ایسی وحشتیں آتی ہیں کہ وہ اپنے گلی کوچے چھوڑ کشتیوں میں بیٹھ کر سمندر کے بے رحم حلق میں اترنے کو ترجیح دیتا ہے۔ سوال عمران خان کی حکومت کا نہیں ہے سوال اس ڈائن سے ماں کا ٹائٹل چھیننے کا ہے جو اس بےکس قوم کی گردن میں اپنے خون آشام پنجے گاڑے خود کو ریاست کہلانے پر مصر ہے۔
https://twitter.com/x/status/1889171493373833577