
مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ٹیکس وصولی میں 606 ارب روپے کے خسارے کے دوران، ایک سینئر خاتون کسٹمز افسر کی اچانک معطلی نے ٹیکس انتظامیہ میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کی جانب سے ایک متنازعہ حکم پر سوال اٹھایا، جس میں انہیں ایک ادھار لی گئی گاڑی پر قومی پرچم لگانے کی ہدایت دی گئی تھی۔
شہباز رانا کی خبر کے مطابق، گریڈ 20 کی کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد، جو اپنی دیانت داری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باعث چار ماہ قبل اس عہدے پر تعینات ہوئی تھیں، کو 26 فروری کو اچانک ہٹا دیا گیا۔ ان کی معطلی اس وقت عمل میں آئی جب انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر سے رات 8:30 بجے موصول ہونے والے حکم پر اعتراض کیا۔ اس حکم میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک غیر کسٹم شدہ گاڑی پر قومی پرچم لگانے کا بندوبست کریں۔
کسٹمز افسران کے مطابق، کسمٹز اسلام آباد کی کلیکٹر کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ پہلے وزیر خزانہ کے لیے پشاور جانے کے لیے غیر کسٹم شدہ گاڑی فراہم کرتی اور پھر اس پر پرچم لگاتی۔ وزیر خزانہ نے بدھ کو پشاور کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
کسٹمز افسران کے مطابق، مذکورہ افسر کو وزیر خزانہ کے لیے غیر کسٹم شدہ گاڑی فراہم کرنے کے مطالبے پر پہلے ہی تحفظات تھے، کیونکہ یہ کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ تاہم، جب انہیں مزید حکم دیا گیا کہ وہ اس گاڑی پر قومی پرچم لگوائیں، تو انہوں نے اس درخواست کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ اس پر وزیر خزانہ کے دفتر کے عملے نے ناراضگی کا اظہار کیا اور چند ہی گھنٹوں میں ان کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
ایک سینئر کسٹمز افسر نے بتایا، "انہیں صرف اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کے ایک اہلکار سے یہ کہنے کی جسارت کی کہ رات گئے قومی پرچم لگوانا ایک مشکل کام ہوگا۔"
پاکستان کسٹمز آفیسرز ایسوسی ایشن نے اس اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے اختیارات کے ناجائز استعمال سے تعبیر کیا اور کہا کہ، "یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو افسران کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ فیصلوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ یہ بیوروکریسی میں ایک ایسا کلچر نافذ کرنے کے مترادف ہے، جہاں میرٹ اور فیصلہ سازی کے بجائے، بغیر سوال کیے احکامات ماننے پر زور دیا جا رہا ہے۔"
ایسوسی ایشن نے خاتون افسر کی معطلی کے احکامات کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ، "یہ فیصلہ منسوخ کیا جائے تاکہ بیوروکریسی میں خوف کی فضا پیدا نہ ہو۔"
ایسوسی ایشن نے ان افسران کی معطلی پر بھی احتجاج کیا جنہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے آبائی علاقوں میں تعیناتی کی درخواست دی تھی اور ایف بی آر چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ ان مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ بیان میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان معاملات کو نہ دیکھا گیا تو افسران میں مزید بددلی پھیل سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزیر خزانہ جو کہ نجی شعبے سے آئے ہیں، سرکاری گاڑی کے بجائے ذاتی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے دفتر کے بعض اہلکار کسٹمز کے ضبط شدہ نان ڈیوٹی پیڈ گاڑیوں کو بھی ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت، 26 فروری کو وزیر خزانہ کے دفتر نے کلیکٹر کسٹمز اسلام آباد کو ہدایت دی کہ وہ ایک گاڑی فراہم کریں، جو بعد میں وزیر خزانہ کے قافلے کے لیے مختص کی گئی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم، ایف بی آر کے ممبر کسٹمز جنید جلیل سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ٹیکس وصولیوں کے موجودہ دباؤ میں، جہاں ایف بی آر پہلے ہی آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے میں مشکلات کا شکار ہے، اس قسم کے متنازعہ فیصلے مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ فروری میں بھی ایف بی آر 983 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 845 ارب روپے ہی جمع کر سکا، جو کہ مسلسل ساتواں مہینہ ہے جب ٹیکس ہدف پورا نہیں ہو سکا۔
اس معاملے پر بشری گوہر نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا وزارت خارجہ اور ترجمان ایف بی آر اس کی وضاحت کریں کہ اسلام آباد کی کلیکٹر کسٹمز، جو گریڈ 20 کی خاتون افسر تھیں، کو 26 فروری کو اچانک ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے وزیر خزانہ کے دفتر کے غیر ضروری حکم پر سوال اٹھایا تھا کہ رات 8:30 بجے ایک ادھار لی گئی گاڑی پر قومی پرچم لگایا جائے
https://twitter.com/x/status/1895703430540443696
مزمل اسلم نے وزیر خزانہ کی حمایت کرتے ہو کہا کہ اگر اورنگزیب خان اپنی پوری مدت کے دوران اپنی ذاتی گاڑی استعمال کر رہے تھے، تو مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے خود کوئی اور گاڑی مانگی ہوگی۔ یقینی طور پر یہ کسی پروٹوکول کے شوقین اسٹاف کی غلطی ہوگی۔ میں جانتا ہوں کہ عام طور پر آپ کا اسٹاف ہی ایسی بے تُکی تجاویز دیتا ہے۔ اس لیے اورنگزیب خان کو الزام نہیں دینا چاہیے، کیونکہ وہ ایک عاجز انسان ہیں اور ویسے بھی گاڑیوں اور دیگر سہولیات کی ان کو کوئی کمی نہیں۔
اس پر شہباز رانا نے اپنے ردعمل میں کہا میں مانتا ہوں کہ اورنگزیب خان کو پروٹوکول گاڑیوں کی ضرورت نہیں تھی، لیکن پھر بھی وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ کوئی عام اسٹاف کا فرد نہیں بلکہ گریڈ 20 کا افسر تھا، جو وزیر خزانہ کا خاص معاون تھا۔ خاتون افسر کو ہٹانے کے احکامات وزیر خزانہ نے خود جاری کیے، اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کے ہر عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1895720220549140815 https://twitter.com/x/status/1895838935583981795 https://twitter.com/x/status/1896286813247119620
Last edited by a moderator: