
پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ایک اور افغان شہری کی شناخت ہو گئی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، 28 فروری کو پاکستانی فورسز نے غلام خان کلے کے علاقے میں 14 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، جن میں افغان شہری بھی شامل تھے۔
ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں سے ایک کا نام مجیب الرحمان عرف منصور ولد مرزا خان تھا۔ مجیب الرحمان افغانستان کے صوبہ میدان وردک کے ضلع چک کے گاؤں دندار کا رہائشی تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، مجیب الرحمان افغانستان کی نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر بھی رہ چکا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستانی فورسز نے دہشتگردی میں ملوث افغان شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ 30 جنوری کو بھی پاکستانی فورسز نے ڈی آئی خان کے علاقے میں افغان دہشتگرد بدرالدین ولد مولوی غلام محمد کو ہلاک کیا تھا۔ بدرالدین افغان فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز رہ چکا تھا اور وہ صوبہ باغدیس کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا تھا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل تھا، جو دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ پاکستانی فورسز کا یہ آپریشن ملک میں دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک اہم پیشرفت ہے۔
پاکستانی فورسز نے حالیہ مہینوں میں دہشتگردی کے خلاف متعدد کامیاب آپریشنز کیے ہیں، جن میں درجنوں دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان آپریشنز کا مقصد ملک میں امن و امان کو بحال کرنا اور دہشتگرد گروہوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانا ہے۔
افغان شہریوں کی دہشتگردی میں ملوث ہونے کے واقعات پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی کے حوالے سے چیلنجز کو اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے بارہا افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشتگرد گروہوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔
حالیہ آپریشنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فورسز دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ میں سخت اور فیصلہ کن اقدامات کر رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے اندر اور سرحدوں کے پار دہشتگردی کے خلاف ہر ممکن کارروائی جاری رکھے گی۔
اب تک کی کارروائیوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فورسز دہشتگرد گروہوں کے خلاف اپنی مہم میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس جنگ میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں مکمل امن و استحکام بحال ہو سکے۔